امجد میانداد
محفلین
السلام علیکم،
بڑا خوش فہم تھا میں کہ شاید اس بار کچھ تبدیلی آ جائے، ہر بل سے ڈسے جانے کے بعد عمران خان سے امیدیں تھیں کہ تبدیلی کا نعرہ لگا ہے انشاءاللہ تبدیلی کی امید ہے۔
پھر یکسر منظرنامے بدلنا شروع ہو گئے، روایتی تقریری انداز کی یہ دلیل سامنے آئی کہ عوام خوش اسی طرح ہوتی ہے۔
دوسروں کو لعن طعن کرنے کی استفسار ہوا تو یہی جواب آیا کہ ماحول میں بڑا اِن ہے یہ ٹرینڈ کہ مخالف کی ذات کو ہدفِ تنقید بناؤ اور عوام کا ووٹ لو۔
اب کل جو محفلین سے فیصل مسجد اسلام آباد میں جو ملاقات طے تھی اس کے بعد گھر جانا ہوا تو مت پوچھیں کیا حال تھا سڑکوں کا۔
ستارہ مارکیٹ جی 7 پی ٹی آئی کا جلسہ تھا، ایک روڈ پہ کرسیاں لگی تھیں اور ایک روڈ پہ پجیروز وغیرہ کھڑی تھیں۔ اور جھنڈا بردار جو دوسری سڑک (یعنی یک طرفہ سڑک جو کہ دونوں طرف کے لیے اب استعمال ہو رہی تھی) اس پہ بھی شوروغل مچاتے ہوئے جھوم رہے تھے۔ کسی کو اتنا خیال نہیں تھا کہ ذرا کوشش کر کے ٹریفک جام کو کھولنے کی کوشش کی جائے۔
گاڑی میں کچھ سواریوں نے جب گاڑی والے سے بری امام اور بارہ کہو جانے کا پوچھا جو کہ آب پارہ چوک سے آگے آتے ہیں تو گاڑی والے نے کہا بھائی نواز شریف کا جلسہ ہے آب پارہ میں اس لیے وہ راستے بند ہیں اور گاڑی صرف لال مسجد تک جائے گی۔
دوستوں کو بتاتا چلوں کہ اسلام آباد ایک ایسا شہر ہے جس میں ہر سیکٹر تو کیا ہر بلاک میں بچوں کے کھیلنے کے پارکس، اور وسیع گرین بیلٹس ہیں۔
میرا گھر ۔7تھ ایوینیو پہ ہے۔ اور ساتھ ہی ال حبیب مارکیٹ ہے۔ آپ کو کیا بتاؤں کہ پی پی پی، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، سبھی کے جلسے ہوئے لیکن کسی پارک میں نہیں کسی گراؤنڈ میں نہیں، کسی گرین بیلٹ میں نہیں بلکہ مصروف شاہراہوں پہ۔ صرف اور صرف عوام کو تکلیف اور اذیت دینے کے لیے۔
آب پارہ کے ساتھ وسیع و عریض "روز اینڈ جیسمین" گارڈن ہے جس میں لائٹس کا بھی بہت اعلیٰ انتظام ہے پھر ساتھ ہی پاکستان اسپورٹس کمپلیکس ہے۔ آخر نواز شریف صاحب دیہاڑی داروں کے گھر پہنچنے کی راہ میں کیوں رکاوٹ بنے۔ انہوں نے روڈ پہ ہی جلسہ کیوں کیا۔
میں یہ سوچ رہا تھا کہ چلو باقی جماعتیں تو پرانے لوٹوں کھسوٹوں، چوہدریوں جاگیرداروں اور عوام دشمنوں پر مشتمل ہیں لیکن عمران خان کی جماعت تو پڑھی لکھی اور معزز لوگوں پر مشتمل تھی آخر انہوں نے یہ قدم کیوں نہیں اٹھایا کہ اسلام آباد میں اپنے تمام جلسے سڑکوں کے بجائے پارکوں یا گرین بیلٹس پہ کرتے۔
اور ہر جلسے میں یہ بھی بتا دیتے کہ "ہم چاہتے تو تعداد اور موجودگی دکھانے کو سڑکوں پہ جلسے کر سکتے تھے لیکن ہمیں عوام کی سہولت اور سکون عزیز ہے اس لیے ہم باقیوں کی تقلید نہیں کریں گے اور عوام کی بھلائی کو ہر حال میں مقدم رکھیں گے"
تو کیا عوام کے دلوں میں اور جگہ اور تکریم نہ پیدا ہوتی۔ صرف عمران خان کے لیے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ پارٹی جداگانہ حثیت کا دعویٰ کرتی ہے۔ تو کسی تھنک ٹینک، کسی انٹلیکچوئل کو ایسے خیال کیوں نہیں آتے جس سے ڈائریکٹ عوام کو کوئی سہولت ہوتی ہو۔
بس کیا کہیں جی فی الحال تو ایک فلم "صاحب بیوی اور گینگسٹر" کا ایک ڈائیلاگ یاد آ رہا ہے۔
"یہ سارے مرد ہی کیوں ملتے ہیں ہمیں،،،، کوئی شاعر کیوں نہیں ملتا"
بڑا خوش فہم تھا میں کہ شاید اس بار کچھ تبدیلی آ جائے، ہر بل سے ڈسے جانے کے بعد عمران خان سے امیدیں تھیں کہ تبدیلی کا نعرہ لگا ہے انشاءاللہ تبدیلی کی امید ہے۔
پھر یکسر منظرنامے بدلنا شروع ہو گئے، روایتی تقریری انداز کی یہ دلیل سامنے آئی کہ عوام خوش اسی طرح ہوتی ہے۔
دوسروں کو لعن طعن کرنے کی استفسار ہوا تو یہی جواب آیا کہ ماحول میں بڑا اِن ہے یہ ٹرینڈ کہ مخالف کی ذات کو ہدفِ تنقید بناؤ اور عوام کا ووٹ لو۔
اب کل جو محفلین سے فیصل مسجد اسلام آباد میں جو ملاقات طے تھی اس کے بعد گھر جانا ہوا تو مت پوچھیں کیا حال تھا سڑکوں کا۔
ستارہ مارکیٹ جی 7 پی ٹی آئی کا جلسہ تھا، ایک روڈ پہ کرسیاں لگی تھیں اور ایک روڈ پہ پجیروز وغیرہ کھڑی تھیں۔ اور جھنڈا بردار جو دوسری سڑک (یعنی یک طرفہ سڑک جو کہ دونوں طرف کے لیے اب استعمال ہو رہی تھی) اس پہ بھی شوروغل مچاتے ہوئے جھوم رہے تھے۔ کسی کو اتنا خیال نہیں تھا کہ ذرا کوشش کر کے ٹریفک جام کو کھولنے کی کوشش کی جائے۔
گاڑی میں کچھ سواریوں نے جب گاڑی والے سے بری امام اور بارہ کہو جانے کا پوچھا جو کہ آب پارہ چوک سے آگے آتے ہیں تو گاڑی والے نے کہا بھائی نواز شریف کا جلسہ ہے آب پارہ میں اس لیے وہ راستے بند ہیں اور گاڑی صرف لال مسجد تک جائے گی۔
دوستوں کو بتاتا چلوں کہ اسلام آباد ایک ایسا شہر ہے جس میں ہر سیکٹر تو کیا ہر بلاک میں بچوں کے کھیلنے کے پارکس، اور وسیع گرین بیلٹس ہیں۔
میرا گھر ۔7تھ ایوینیو پہ ہے۔ اور ساتھ ہی ال حبیب مارکیٹ ہے۔ آپ کو کیا بتاؤں کہ پی پی پی، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، سبھی کے جلسے ہوئے لیکن کسی پارک میں نہیں کسی گراؤنڈ میں نہیں، کسی گرین بیلٹ میں نہیں بلکہ مصروف شاہراہوں پہ۔ صرف اور صرف عوام کو تکلیف اور اذیت دینے کے لیے۔
آب پارہ کے ساتھ وسیع و عریض "روز اینڈ جیسمین" گارڈن ہے جس میں لائٹس کا بھی بہت اعلیٰ انتظام ہے پھر ساتھ ہی پاکستان اسپورٹس کمپلیکس ہے۔ آخر نواز شریف صاحب دیہاڑی داروں کے گھر پہنچنے کی راہ میں کیوں رکاوٹ بنے۔ انہوں نے روڈ پہ ہی جلسہ کیوں کیا۔
میں یہ سوچ رہا تھا کہ چلو باقی جماعتیں تو پرانے لوٹوں کھسوٹوں، چوہدریوں جاگیرداروں اور عوام دشمنوں پر مشتمل ہیں لیکن عمران خان کی جماعت تو پڑھی لکھی اور معزز لوگوں پر مشتمل تھی آخر انہوں نے یہ قدم کیوں نہیں اٹھایا کہ اسلام آباد میں اپنے تمام جلسے سڑکوں کے بجائے پارکوں یا گرین بیلٹس پہ کرتے۔
اور ہر جلسے میں یہ بھی بتا دیتے کہ "ہم چاہتے تو تعداد اور موجودگی دکھانے کو سڑکوں پہ جلسے کر سکتے تھے لیکن ہمیں عوام کی سہولت اور سکون عزیز ہے اس لیے ہم باقیوں کی تقلید نہیں کریں گے اور عوام کی بھلائی کو ہر حال میں مقدم رکھیں گے"
تو کیا عوام کے دلوں میں اور جگہ اور تکریم نہ پیدا ہوتی۔ صرف عمران خان کے لیے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ پارٹی جداگانہ حثیت کا دعویٰ کرتی ہے۔ تو کسی تھنک ٹینک، کسی انٹلیکچوئل کو ایسے خیال کیوں نہیں آتے جس سے ڈائریکٹ عوام کو کوئی سہولت ہوتی ہو۔
بس کیا کہیں جی فی الحال تو ایک فلم "صاحب بیوی اور گینگسٹر" کا ایک ڈائیلاگ یاد آ رہا ہے۔
"یہ سارے مرد ہی کیوں ملتے ہیں ہمیں،،،، کوئی شاعر کیوں نہیں ملتا"