عبد الرحمٰن
محفلین
کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
کسی کا احسان کیوں اُٹھائیں کسی کو حالات کیوں بتاءیں
تمھیں سے مانگیں گے تم ہی دو گے تمھارے در سے ہی لو لگی ہے
تجلیوں کے کفیل تم ہو مرادِ قلبِ خلیل تم ہو
خدا کی روشن دلیل تم ہو یہ سب تمہاری ہی روشنی ہے
تمہیں ہو روحِ روانِ ہستی سکوں نظر کا دلوں کی مستی
ہے دو جہاں کی بہار تم سے تمہیں سے پھولوں میں تازگی ہے
شعور و فکر و نظر کے دعوے حدِ تعین سے بڑھ نہ پائے
نہ چھو سکے اِن بلندیوں کو جہاں مقامِ محمدی ہے
نظر نظر رحمتِ سراپا ادا ادا غیرتِ مسیحا
ضمیرِ مردہ بھی جی اُٹھے ہیں جِدھر تمہاری نظر اُٹھی ہے
عمل کی میرے اساس کیا ہے بجز ندامت کے پاس کیا ہے
رہے سلامت تمہاری نسبت مرا تو اک آسرا یہی ہے
عطا کیا مجھ کو دردِ اُلفت کہاں تھی یہ پُر خطا کی قسمت
میں اس کرم کے کہاں تھا قابل حضور کی بندہ پروری ہے
اُنہی کے در سے خدا ملا ہے انہیں سے اس کا پتہ چلا ہے
وہ آئینہ جو خدا نما ہے جمالِ حسن حضور ہی ہے
بشیر کہیے نذیر کہیے انہیں سراجِ منیر کہیے
جو سَر بَسر ہے کلامِ ربی وہ میرے آقا کی زندگی ہے
ثنائے محبوبِ حق کے قرہے
ں سرورِ جاں کا یہی ہے عُنواں
ہر ایک مستی فنا بداماں یہ کیف ہی کیفِ سرمدی ہے
ہم اپنے اعمال جانتے ہیں ہم اپنی نسبت سے کچھ نہیں ہیں
تمہارے در کی عظیم نسبت متاعِ عظمت بنی ہوئی ہے
یہی ہے خالد اساسِ رحمت یہی ہے خالد بنائے عظمت
نبی کا عرفان زندگی ہے نبی کا عرفان بندگی ہے
خالد محمود خالد۔