میں نے فراز اور دیگر مشہور شاعروں کو بہت بعد میں پڑھا ۔ مگر جس کو سب سے پہلے پڑھا اور ان جیسا بننے کی کوشش بھی کی ( جو کہ ایک ناکام کوشش تھی ) وہ شہزاد احمد تھے ۔ سب سے پہلے ان کی شاعری پڑھ کر ہی مجھے شاعری کا شوق چرایا ۔ بعد میں رہی کسر ، عشق نے پوری کردی ۔ شہزاد احمد کی ایک غزل یادوں کے دریچے سے ۔۔۔۔
یہ سوچ کر کہ تیری جبیں پر نہ بل پڑے
بس دور ہی سے دیکھ لیا اور چل پڑے
دل میں پھر اِک کسک سی اٹھی مدتوں کے بعد
اِک عمر سے رکے ہوئے آنسو نکل پڑے
سینے میں بے قرار ہیں مردہ محبتیں
ممکن ہے یہ چراغ کبھی خود ہی جل پڑے
اے دل تجھے بدلتی ہوئی رُت سے کیا ملا
پودوں میں پھول اور درختوں میں پھل پڑے
اب کس کے انتظار میں جاگیں تمام شب
وہ ساتھ ہو تو نیند میں کیسے خلل پڑے
شہزاد دل کو ضبط کا یارا نہیں رہا
نکلا جو ماہتاب سمندر اچھل پڑے
بس دور ہی سے دیکھ لیا اور چل پڑے
دل میں پھر اِک کسک سی اٹھی مدتوں کے بعد
اِک عمر سے رکے ہوئے آنسو نکل پڑے
سینے میں بے قرار ہیں مردہ محبتیں
ممکن ہے یہ چراغ کبھی خود ہی جل پڑے
اے دل تجھے بدلتی ہوئی رُت سے کیا ملا
پودوں میں پھول اور درختوں میں پھل پڑے
اب کس کے انتظار میں جاگیں تمام شب
وہ ساتھ ہو تو نیند میں کیسے خلل پڑے
شہزاد دل کو ضبط کا یارا نہیں رہا
نکلا جو ماہتاب سمندر اچھل پڑے