کاشفی
محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
یہ سُنتے ہیں اُن سے یہاں آنے والے
جہنم میں جائیں وہاں جانے والے
ترس کھا ذرا دل کو ترسانے والے
اِدھر دیکھتا جا اُدھر جانے والے
وہ جب آگ ہوتے ہیں غصہ سے مجھ پر
تو بھڑکاتے ہیں اور چمکانے والے
مرادل، مرے اشک، غصہ تمہارا
نہیں رکتے روکے سے یہ آنے والے
وہ جاگے سحر کو تو لڑتے ہیں مجھ سے
کہ تھے کون تم خواب میں آنے والے
وہ میرا کہا کس طرح مان جاتے
بہت سے ہیں شیطان بہکانے والے
اِدھر آؤ اس بات پر بوسہ لے لوں
مرے سر کی جھوٹی قسم کھانے والے
ہمیں پر اُترتا ہے غصہ تمہارا
ہمیں بے خطا ہیں سزا پانے والے
وہ محفل تمہاری مبارک ہو تم کو
سلامت رہیں بے طلب آنے والے
تری بزم سے میں نہ جاؤں گا تنہا
مجھے ساتھ لے جائیں گے لانے والے
جو واعظ کے کہنے سے بھی توبہ کرلوں
نہ کوسیں گے کیا مجھ کو میخانے والے
اُٹھائیں گے کیا غیر الفت کے صدمے
ذرا سی مصیبت میں گھبرانے والے
تمہیں نے چُرایا ہے دل وہ تمہیں ہو
پرائی رقم لے کے اِترانے والے
نہیں مانتا ایک کی بھی میرا دل
نئے روز آتے ہیں سمجھانے والے
مجھے کھائے جاتے ہیں اب طعنے دے کر
مرے حال پر تھے جو غم کھانے والے
برستا نہیں مینہ الٰہی کہاں تک
پئیں خون کے گھونٹ میخانے والے
جہاندیدہ ہیں ہم نے دیکھی ہے دنیا
نہیں آپ کے دم میں ہم آنے والے
زباں سے تو کہہ کیا ارادہ ہے تیرا
اشاروں اشاروں میں دھمکانے والے
سلامی ہیں اے داغ اُس کے ہی در کے
نہ ہم کعبے والے نہ بت خانے والے
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
یہ سُنتے ہیں اُن سے یہاں آنے والے
جہنم میں جائیں وہاں جانے والے
ترس کھا ذرا دل کو ترسانے والے
اِدھر دیکھتا جا اُدھر جانے والے
وہ جب آگ ہوتے ہیں غصہ سے مجھ پر
تو بھڑکاتے ہیں اور چمکانے والے
مرادل، مرے اشک، غصہ تمہارا
نہیں رکتے روکے سے یہ آنے والے
وہ جاگے سحر کو تو لڑتے ہیں مجھ سے
کہ تھے کون تم خواب میں آنے والے
وہ میرا کہا کس طرح مان جاتے
بہت سے ہیں شیطان بہکانے والے
اِدھر آؤ اس بات پر بوسہ لے لوں
مرے سر کی جھوٹی قسم کھانے والے
ہمیں پر اُترتا ہے غصہ تمہارا
ہمیں بے خطا ہیں سزا پانے والے
وہ محفل تمہاری مبارک ہو تم کو
سلامت رہیں بے طلب آنے والے
تری بزم سے میں نہ جاؤں گا تنہا
مجھے ساتھ لے جائیں گے لانے والے
جو واعظ کے کہنے سے بھی توبہ کرلوں
نہ کوسیں گے کیا مجھ کو میخانے والے
اُٹھائیں گے کیا غیر الفت کے صدمے
ذرا سی مصیبت میں گھبرانے والے
تمہیں نے چُرایا ہے دل وہ تمہیں ہو
پرائی رقم لے کے اِترانے والے
نہیں مانتا ایک کی بھی میرا دل
نئے روز آتے ہیں سمجھانے والے
مجھے کھائے جاتے ہیں اب طعنے دے کر
مرے حال پر تھے جو غم کھانے والے
برستا نہیں مینہ الٰہی کہاں تک
پئیں خون کے گھونٹ میخانے والے
جہاندیدہ ہیں ہم نے دیکھی ہے دنیا
نہیں آپ کے دم میں ہم آنے والے
زباں سے تو کہہ کیا ارادہ ہے تیرا
اشاروں اشاروں میں دھمکانے والے
سلامی ہیں اے داغ اُس کے ہی در کے
نہ ہم کعبے والے نہ بت خانے والے