تو ایسا امام کہاں سے لائیں جو موجود بھی ہو اور راہنمائی کا فریضہ بھی سر انجام دے سکے۔۔۔ ۔۔۔ ! تو لا محالہ ہمیں اسی امام کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور اسی کی سنت کو اپنانا پڑے گا جو امام الانبیاء بن کر آیا اور قیامت تک ایک راہ حق دے گیا۔ ویسے مسلمانوں کی جماعت اور امام تو امام الانبیاء ہیں۔ جیسا کہ
مجدد وقت سید ریاض حسین شاہ صاحب، مرکزی ناظم اعلٰی، جماعت اہل سنت، اپنی ہر کتاب کے شروع میں لکھتے ہیں۔۔۔ ۔ ہمارا رب۔۔۔ ۔۔۔ رب العالمین، ہمارا امام۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ رحمتہ العالمین۔۔۔ ۔۔ ہمارا مذہب اسلام۔۔۔ ۔۔۔ !
باقی جو امام موجود ہی نہ ہو تو اسکی اقتداء کیسی۔۔۔ ۔۔! ویسے معصوم صرف انبیاء ہوتے ہیں، ہماری مسجد کا امام تو اکثر استغفار کرتا اور کراتا رہتا ہے
یہ بات بالکل بچگانہ ہے کہ جو امام موجود نہیں اس کی اقتدا کیسی؟
تو موجود تو اس وقت نبی بھی کوئی نہیں۔ مگر نبی کی اقتداء اس کے فراہم کردہ مواد پر عمل کرنے سے ہی ہوگی یہ لازمی سی بات ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے پاس بھی کوئی چارہ کار نہیں کہ اس امام یعنی نبی ﷺ کی اقتدا کریں۔
اسی طرح آئمہ فقہاء کی اقتدا بھی انہی کی تحقیق پر عمل کرنے سے، جو تشریح قران و سنت کی انہوں نے کی اسی پر عمل کرنے سے ہوگی۔
قران و حدیث کو اپنی فہم، یا چودھوی صدی کے کسی امام کے فہم کے مطابق عمل کرنے کی وجہ ہی سے یہ سارا تفرقہ ہے، کیوں کہ ہر ایک انسان اپنی فہم کو حجت جان کر خود کو درست سمجھتا ہے، اور اپنے مسلک کی ترغیب اس انداز میں دیتا ہے کہ قران و سنت کا مکمل نچوڑ اسی نے پیش کیا ہے، مگر در پردہ وہ قران و حدیث نہیں بلکہ اپنے فہم اور اپنی پسند کو ایک مذہب کی صورت میں لوگوں کے سامنے رکھتا ہے۔
یہ بات مسلم ہے کہ جس جس نے سلف بیزاری اور فقہاء کی تفاسیر اور تشریحات کو چھوڑ کر تحقیق کا نعرہ لگایا وہ ایک فرقہ قائم کر گیا ہے، پھر اس فرقے میں سے کئی فرقے نکلے، اور فرقے اس حد تک ہو گئے کہ ہر علاقے کے حساب سے ایک فرقہ بانٹ دیا جائے تو شاید علاقے کم پڑ جائیں۔ اور ہر ایک کا یہی دعوی کہ وہ محض قران و سنت پر عمل کرتا ہے، تفرقہ نہیں چاہتا، اور فرقہ واریت کی ممانعت کی آیات محض اس لئے پڑھ کر سناتا ہے کہ لوگ دوسروں کی تحقیق چھوڑ کر اس کی تحقیق مان لیں۔
میں چند نام اور چند فرقے یہاں عرض کر دیتا مگر بات بہت بڑھ جائے گی۔