سپریم کورٹ میں متنازع میمو سے متعلق دائر درخواستوں میں پاکستان کے امریکہ میں سابق سفیر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ عدالت کا فیصلہ ایک نہ ایک دن درخواست گزاروں کو ضرور تکلیف دے گا۔
دریں اثناء نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے سے اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ آئین اور قانون کے منافی ہے۔
عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ ’آج میں سمجھتی ہوں کہ سویلین اتھارٹی، عسکری اتھارٹی کے نیچے ہے اور جو ہماری جدو جہد تھی کہ ہم جمہوریت کی جانب جا رہے ہیں اس جدوجہد میں ایک ٹھہراو آیا ہے۔‘
بقول ان کے اگر یہ توہین عدالت بنتی بھی ہے تو میں جیل جانے کو بھی تیار ہوں۔ اگر میں قانون کی حکمرانی کے لیے ماریں کھا سکتی ہوں تو میں آج لوگوں کے حقوق کے لیے، لوگوں کو بتانے کے لیے کہ آپ کے حقوق پر کیسے سمجھوتے ہو رہے ہیں؟ اور وہ بھی اس عدلیہ سے جو سب سے بڑی عدلیہ ہے اور اگر اس کے لیے مجھے توہینِ عدالت لگتی ہے تو سر آنکھوں پر۔‘
درخواست گُزار اسحاق ڈار جن کا تعلق حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون سے ہے کا کہنا تھا کہ اُن کے جماعت کی طرف سے جتنی بھی درخواستیں دائر کی گئیں اُس میں کسی پر بھی کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔
ب سے بڑی عدلیہ ہے اور اگر اس کے لیے مجھے توہینِ عدالت لگتی ہے تو سر آنکھوں پر۔‘
مکمل پڑھئیے
دریں اثناء نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے سے اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ آئین اور قانون کے منافی ہے۔
عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ ’آج میں سمجھتی ہوں کہ سویلین اتھارٹی، عسکری اتھارٹی کے نیچے ہے اور جو ہماری جدو جہد تھی کہ ہم جمہوریت کی جانب جا رہے ہیں اس جدوجہد میں ایک ٹھہراو آیا ہے۔‘
بقول ان کے اگر یہ توہین عدالت بنتی بھی ہے تو میں جیل جانے کو بھی تیار ہوں۔ اگر میں قانون کی حکمرانی کے لیے ماریں کھا سکتی ہوں تو میں آج لوگوں کے حقوق کے لیے، لوگوں کو بتانے کے لیے کہ آپ کے حقوق پر کیسے سمجھوتے ہو رہے ہیں؟ اور وہ بھی اس عدلیہ سے جو سب سے بڑی عدلیہ ہے اور اگر اس کے لیے مجھے توہینِ عدالت لگتی ہے تو سر آنکھوں پر۔‘
درخواست گُزار اسحاق ڈار جن کا تعلق حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون سے ہے کا کہنا تھا کہ اُن کے جماعت کی طرف سے جتنی بھی درخواستیں دائر کی گئیں اُس میں کسی پر بھی کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔
ب سے بڑی عدلیہ ہے اور اگر اس کے لیے مجھے توہینِ عدالت لگتی ہے تو سر آنکھوں پر۔‘
مکمل پڑھئیے