یہ لو بیٹا گاڑی کیا یاد کرو گے

سارہ حسن بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

160628153538_aamer_geo_banned_640x360_bbc_nocredit.jpg

’عمرے کا ٹکٹ بھی دے دیں نا پلیز! میرا بچہ گاڑی مانگ رہا ہے وہ ناراض گیا ہے آپ اُسے گاڑی دے دیں!‘

میزبان: ’بچے کو بھی سکھا کر لائی ہیں، لو بیٹا گاڑی کیا یاد کرو گے۔۔۔‘

رمضان کے مہینے میں رات کو اگر آپ کوئی بھی مقبول پاکستانی ٹی وی چینل لگائیں تو آپ کو کم و بیش ایسے ہی مکالمے سننے کو ملیں گے۔

اگرچہ پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران مختلف نوعیت کے گیم شوز بہت مقبول ہوئے ہیں لیکن رمضان میں ان کے ناظرین اور ان میں شرکت کے خواہشمندوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے جو پاسز کے حصول کی تگ و دو میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔

معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں اچھے، برے کی تمیز ختم ہو رہی ہے اور یہ معاشرہ زوال پذیر ہے۔

ان کے مطابق ’زوال پذیر معاشرے میں اخلاقیات ختم ہونے سے انسانی فطرت بدل جاتی ہے شرم و حیا، عزت و احترام ختم ہو جاتا ہے اور ہر انسان اپنے ہی بارے میں سوچتا ہے کیونکہ برائی اب بہت عام ہے۔‘

پنجاب یونیورسٹی میں شعبۂ عمرانیات کے سربراہ ڈاکٹر زکریا ذاکر کہتے ہیں ’جب سے ہم نے خود اپنی روایات اور اقدار کا مذاق اڑانا شروع کیا اورایک خاص سوچ کے ذریعے مقامی کلچر کو پسِ پشت ڈالا ہے اُس سے مقامی سطح فکر میں کمی آئی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ معاشرے میں سوچ، فکر اور سنجیدہ رویوں میں کمی کی جگہ مسخرے پن نے لے لی ہے۔

ہماری ساتھی شمائلہ خان چند روز قبل ایک مقبول گیم شو میں گئیں۔

160630143129_pakistan_game_shows_640x360_bbc.jpg

ان کے مطابق حاضرین کی اکثریت لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی اور اقتصادی عدم توازن کے اس دور میں وہ انعام لینے کے لیے کوئی بھی عجیب و غریب حرکت کرنے کو تیار تھے۔ جیسے کہ میزبان کے قریب آتے ہی ایک 70 سالہ بزرگ نے کہا کہ ’میری شادی کو اتنے سال ہو گئے ہیں، میں اپنی بیوی سے اب بھی محبت کرتا ہوں مجھے انعام دیں۔‘

اس گیم شو کے میزبان سے جب پوچھا گیا کہ وہ اپنے پروگرام میں عجیب طرح کی حرکتیں کیوں کرتے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ وہ ایک انٹرٹینر ہیں جو چیزیں لوگ پسند کرتے ہیں وہ وہی کرتے اور دکھاتے ہیں۔

کیا یہ پروگرام ہمارے معاشرے کے رویوں کے عکاس ہیں؟

ماہر عمرانیات ڈاکٹر زکریا کا کہنا ہے کہ ’ہمارے یہاں تو اشتہارات میں بھی معلومات کی بجائے مسخرا پن اور تمسخر زیادہ ہے اور یہی حال ٹی وی شوز کا بھی ہے۔‘

ان پروگراموں سے ایک بات اور جو سامنے آتی ہے وہ یہ کہ عوام کی اکثریت کا جنرل نالج اور جغرافیے کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں اور اکثر و بیشتر تکُے پر کام چلتا ہے۔

ماضی کے مقابلے میں جہاں اب انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا کی معلومات آپ کی گرفت میں ہیں وہیں لوگوں کے معیارِ علم کا یہ انحطاط قابلِ فکر ہے۔

ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ لوگوں میں اب جستجو اور کچھ جاننے کا شوق ختم ہو گیا ہے۔

’وہ علم اور معلومات بھی سطحی ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا اندازہ اُس زبان سے لگایا جا سکتا ہے جو ہم بولتے ہیں اس میں شائستگی نہیں۔ لوگوں میں پڑھنے کا شوق ختم ہو گیا ہے۔ ہر انسان دوسرے کو دھوکا دے کر آگے بڑھنے پر خوش ہوتا ہے۔‘

پاکستان میں عام آدمی میں علم کا معیار کیوں زوال پذیر ہے اور اس کا ذمے دار کون ہے؟

اس بارے میں ڈاکٹر ذکریا کا کہنا ہے کہ جب تعلیمی اداروں کو کمرشلائز کر دیا جائے اور طالبعلم فخر سے کہیں کہ ’صرف امتحان کی تیاری کے لیے پڑھتے ہیں‘ تو پھر تعلیم محض ملازمت حاصل کرنے کے لیے ہی حاصل کی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’فکر اور سوچ علم سے آتی ہے۔ کتاب سے تعلق نہیں۔ بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں بھی کوئی بڑی کتاب کی دکان نہیں ہوتی اور اگر کوئی ہوتی بھی ہے تو وہاں ٹیسٹ پیپرز اور خلاصے ہی فروخت ہوتے ہیں۔‘

سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رجحان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ فکری انحطاط کا شکار ہو گیا ہے اور جہاں جس کا بس چلے وہ وہاں سے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔

انسان اور حیوان میں فرق صرف فکر کا ہی تو ہے۔

فکر انسان کو یہ باور کرواتی ہے کہ اُسے دوسروں کا خیال رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے لیکن تعلیم کی کمی انسان کو پستی کی جانب دھکیلتی ہے جو بقول ڈاکٹر مبارک حسن کے ایک ’بلیک ہول‘ ہے جس کی کو آخری حد نہیں ہے۔

ربط
 

اکمل زیدی

محفلین
بلکل متفق . . . مگر پاکستانی معاشرے کے بہت خوبصورت پہلو بھی ہیں جسے سامنے نہیں لایا جاتا ...بات وہیں آجاتی ریٹنگ کی . . . اگر پاکستانی معاشرے کو میڈیا اور کمرشل کی نظر دیکھیںگے تو کچھ ایسا نظر آئے گا ...بلکل اسی طرح جیسے انڈین معاشرے کو آپ فلم انڈسٹری سے judge کریں بلکل تضاد ملے گا ..انڈین سوسائٹی قطعی ایسی نہیں جیسی دنیا کو دکھائی جاتی ہے . . .مگر بات وہی جو دیکھتا ہے وہ بکتا ہے . . . یہاں سمجھدار minority نہیں بیوقوف majority چاہئے . . . جو standard بن چکے ہیں اس حساب سے . . .
 

محمداحمد

لائبریرین
واقعی یہ سب فکری انحطاط کے باعث ہے اور فکری انحطاط کا معاملہ کسی ایک سطح پر نہیں ہے بلکہ ہر ہر سطح پر درپیش ہے۔

اگر کسی قوم میں عزتِ نفس نہ رہے تو پھر وہ کسی بھی حد تک گر سکتی ہے۔
 
انہوں نے یہاں کالم میں لوئر مڈل کلاس لکھا ہے۔
جبکہ کچھ دنوں قبل ہی میرے ایک فیسبک دوست اور صحافی، جو کہ اے آر وائی میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے جاننے والوں میں سے ایسے ایسے لوگ پاس کے لئے رابطہ کرتے ہیں کہ جن کے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ پروگرام میں مرسڈیز پر بیٹھ کر آتے ہیں اور موٹر سائیکل کی بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔
 
انہوں نے یہاں کالم میں لوئر مڈل کلاس لکھا ہے۔
جبکہ کچھ دنوں قبل ہی میرے ایک فیسبک دوست اور صحافی، جو کہ اے آر وائی میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے جاننے والوں میں سے ایسے ایسے لوگ پاس کے لئے رابطہ کرتے ہیں کہ جن کے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ پروگرام میں مرسڈیز پر بیٹھ کر آتے ہیں اور موٹر سائیکل کی بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔
یہ تو پھر مالِ مفت دل بے رحم۔
مفت کی چیز مفت کی ہوتی ہے۔ ادھر لوگ کرولا گاڑی روک کر روپیہ اٹھا رہے ہوتے ہیں نیچے سے، سکوٹر تو پھر بہت بڑی بات ہے۔
:LOL::ROFLMAO:
 

لاریب مرزا

محفلین
بہت فضول پروگرام ہیں یہ۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ یہ رمضان المبارک میں لوگوں کا وقت ضائع کر نے کے لیے شائع کیے جاتے ہیں۔ حاضرین کا تحفے بٹورنے کا انتہائی عامیانہ انداز ، اور میزبان صاحبان کی فضول حرکتیں۔ :angry:
ہم نے تو بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ :talktothehand:
 

حسن ترمذی

محفلین
اچھی باتیں بیان کی ہیں ۔۔ لیکن زیادہ تر لوگ لوئر مڈل کلاس سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔۔ اور ان کا مقصد کوئی انعام جیتنا ہی ہوتا ہے ۔۔ لیکن اکثر انعامات کھیل کر ہی جیتے جاتے ہیں ۔۔ اور مانگتے وہی لوگ ہیں جنہیں کھیلنے کا موقع نہیں دیا جاتا یا نہیں ملتا ۔۔ اب سوچیئے لوئر مڈل کلاس کے اکثر لوگوں کے پاس موٹر سائیکل تک نہیں ہوتی اور موٹر سائیکل جیت جائیں یا مانگ لیں تو ان کی مراد پوری ہوگئی نا ۔۔ انہوں نے اللہ سے دعا مانگی ہوگی اور اللہ نے اس پروگرام کو وسیلہ بنادیا ، کتنے کام آسان ہوگئے ایک موٹرسائیکل آنے سے۔۔اب رہ گئیں اوچھی حرکات تو وہاں جو لوگ بیٹھے ہوتے ہیں وہ محظوظ ہوتے ہیں ۔۔ آپ ہم جیسے لوگ دل مسوس کر رہ جاتے ہیں اکثر لوگوں کی تذلیل دیکھ کر ۔۔ میں کبھی اگر ایسا پروگرام دیکھوں تو کسی اچھی شخصیت والے بندے اوچھی حرکات دیکھ کر چینل چینج کردیتا ہوں ۔۔
معاشرے کے زوال پذیر ہونے کا تو بتادیا لیکن اس کا تدارک کیسے جائے یہ بھی کوئی بتائے نا ۔۔ صفحے بھرنے سے کیا ہوگا ۔۔ جب عملی طور پہ کچھ بھی نا جائے
 

عباد اللہ

محفلین
ایسے ایسے لوگ پاس کے لئے رابطہ کرتے ہیں کہ جن کے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ پروگرام میں مرسڈیز پر بیٹھ کر آتے ہیں اور موٹر سائیکل کی بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔

مفت کی چیز مفت کی ہوتی ہے۔ ادھر لوگ کرولا گاڑی روک کر روپیہ اٹھا رہے ہوتے ہیں نیچے سے، سکوٹر تو پھر بہت بڑی بات ہے۔

مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے ؟
 

فرقان احمد

محفلین
عامر لیاقت کا لب و لہجہ اچھا ہے، تاہم حرکتوں سے متعلق وہ خود بھی کسی قسم کی گارنٹی دینے پر آمادہ نظر نہیں آتے! :)
 

لاریب مرزا

محفلین
اچھی باتیں بیان کی ہیں ۔۔ لیکن زیادہ تر لوگ لوئر مڈل کلاس سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔۔ اور ان کا مقصد کوئی انعام جیتنا ہی ہوتا ہے ۔۔ لیکن اکثر انعامات کھیل کر ہی جیتے جاتے ہیں ۔۔ اور مانگتے وہی لوگ ہیں جنہیں کھیلنے کا موقع نہیں دیا جاتا یا نہیں ملتا ۔۔ اب سوچیئے لوئر مڈل کلاس کے اکثر لوگوں کے پاس موٹر سائیکل تک نہیں ہوتی اور موٹر سائیکل جیت جائیں یا مانگ لیں تو ان کی مراد پوری ہوگئی نا ۔۔ انہوں نے اللہ سے دعا مانگی ہوگی اور اللہ نے اس پروگرام کو وسیلہ بنادیا ، کتنے کام آسان ہوگئے ایک موٹرسائیکل آنے سے۔۔اب رہ گئیں اوچھی حرکات تو وہاں جو لوگ بیٹھے ہوتے ہیں وہ محظوظ ہوتے ہیں ۔۔ آپ ہم جیسے لوگ دل مسوس کر رہ جاتے ہیں اکثر لوگوں کی تذلیل دیکھ کر ۔۔ میں کبھی اگر ایسا پروگرام دیکھوں تو کسی اچھی شخصیت والے بندے اوچھی حرکات دیکھ کر چینل چینج کردیتا ہوں ۔۔
لیکن ایسے پروگرامز کا بازار رمضان المبارک میں ہی کیوں گرم ہوتا ہے؟؟ رمضان میں شاید یہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے بجائے ان پروگرامز میں مانگنے جاتے ہیں۔ :cool:
 

حسن ترمذی

محفلین
لیکن ایسے پروگرامز کا بازار رمضان المبارک میں ہی کیوں گرم ہوتا ہے؟؟ رمضان میں شاید یہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے بجائے ان پروگرامز میں مانگنے جاتے ہیں۔ :cool:
رمضان میں لوگوں کے پاس وقت بہت ہوتا ہے اسلیے ایسا ہوتا ہے.. کمپنیوں کی مارکیٹنگ بھی ہوجاتی ہے ثواب بھی مل جاتا ہے..
 

عثمان

محفلین
سارہ حسن بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

160628153538_aamer_geo_banned_640x360_bbc_nocredit.jpg

’عمرے کا ٹکٹ بھی دے دیں نا پلیز! میرا بچہ گاڑی مانگ رہا ہے وہ ناراض گیا ہے آپ اُسے گاڑی دے دیں!‘

میزبان: ’بچے کو بھی سکھا کر لائی ہیں، لو بیٹا گاڑی کیا یاد کرو گے۔۔۔‘

رمضان کے مہینے میں رات کو اگر آپ کوئی بھی مقبول پاکستانی ٹی وی چینل لگائیں تو آپ کو کم و بیش ایسے ہی مکالمے سننے کو ملیں گے۔

اگرچہ پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران مختلف نوعیت کے گیم شوز بہت مقبول ہوئے ہیں لیکن رمضان میں ان کے ناظرین اور ان میں شرکت کے خواہشمندوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے جو پاسز کے حصول کی تگ و دو میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔

معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں اچھے، برے کی تمیز ختم ہو رہی ہے اور یہ معاشرہ زوال پذیر ہے۔

ان کے مطابق ’زوال پذیر معاشرے میں اخلاقیات ختم ہونے سے انسانی فطرت بدل جاتی ہے شرم و حیا، عزت و احترام ختم ہو جاتا ہے اور ہر انسان اپنے ہی بارے میں سوچتا ہے کیونکہ برائی اب بہت عام ہے۔‘

پنجاب یونیورسٹی میں شعبۂ عمرانیات کے سربراہ ڈاکٹر زکریا ذاکر کہتے ہیں ’جب سے ہم نے خود اپنی روایات اور اقدار کا مذاق اڑانا شروع کیا اورایک خاص سوچ کے ذریعے مقامی کلچر کو پسِ پشت ڈالا ہے اُس سے مقامی سطح فکر میں کمی آئی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ معاشرے میں سوچ، فکر اور سنجیدہ رویوں میں کمی کی جگہ مسخرے پن نے لے لی ہے۔

ہماری ساتھی شمائلہ خان چند روز قبل ایک مقبول گیم شو میں گئیں۔

160630143129_pakistan_game_shows_640x360_bbc.jpg

ان کے مطابق حاضرین کی اکثریت لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی اور اقتصادی عدم توازن کے اس دور میں وہ انعام لینے کے لیے کوئی بھی عجیب و غریب حرکت کرنے کو تیار تھے۔ جیسے کہ میزبان کے قریب آتے ہی ایک 70 سالہ بزرگ نے کہا کہ ’میری شادی کو اتنے سال ہو گئے ہیں، میں اپنی بیوی سے اب بھی محبت کرتا ہوں مجھے انعام دیں۔‘

اس گیم شو کے میزبان سے جب پوچھا گیا کہ وہ اپنے پروگرام میں عجیب طرح کی حرکتیں کیوں کرتے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ وہ ایک انٹرٹینر ہیں جو چیزیں لوگ پسند کرتے ہیں وہ وہی کرتے اور دکھاتے ہیں۔

کیا یہ پروگرام ہمارے معاشرے کے رویوں کے عکاس ہیں؟

ماہر عمرانیات ڈاکٹر زکریا کا کہنا ہے کہ ’ہمارے یہاں تو اشتہارات میں بھی معلومات کی بجائے مسخرا پن اور تمسخر زیادہ ہے اور یہی حال ٹی وی شوز کا بھی ہے۔‘

ان پروگراموں سے ایک بات اور جو سامنے آتی ہے وہ یہ کہ عوام کی اکثریت کا جنرل نالج اور جغرافیے کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں اور اکثر و بیشتر تکُے پر کام چلتا ہے۔

ماضی کے مقابلے میں جہاں اب انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا کی معلومات آپ کی گرفت میں ہیں وہیں لوگوں کے معیارِ علم کا یہ انحطاط قابلِ فکر ہے۔

ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ لوگوں میں اب جستجو اور کچھ جاننے کا شوق ختم ہو گیا ہے۔

’وہ علم اور معلومات بھی سطحی ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا اندازہ اُس زبان سے لگایا جا سکتا ہے جو ہم بولتے ہیں اس میں شائستگی نہیں۔ لوگوں میں پڑھنے کا شوق ختم ہو گیا ہے۔ ہر انسان دوسرے کو دھوکا دے کر آگے بڑھنے پر خوش ہوتا ہے۔‘

پاکستان میں عام آدمی میں علم کا معیار کیوں زوال پذیر ہے اور اس کا ذمے دار کون ہے؟

اس بارے میں ڈاکٹر ذکریا کا کہنا ہے کہ جب تعلیمی اداروں کو کمرشلائز کر دیا جائے اور طالبعلم فخر سے کہیں کہ ’صرف امتحان کی تیاری کے لیے پڑھتے ہیں‘ تو پھر تعلیم محض ملازمت حاصل کرنے کے لیے ہی حاصل کی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’فکر اور سوچ علم سے آتی ہے۔ کتاب سے تعلق نہیں۔ بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں بھی کوئی بڑی کتاب کی دکان نہیں ہوتی اور اگر کوئی ہوتی بھی ہے تو وہاں ٹیسٹ پیپرز اور خلاصے ہی فروخت ہوتے ہیں۔‘

سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رجحان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ فکری انحطاط کا شکار ہو گیا ہے اور جہاں جس کا بس چلے وہ وہاں سے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔

انسان اور حیوان میں فرق صرف فکر کا ہی تو ہے۔

فکر انسان کو یہ باور کرواتی ہے کہ اُسے دوسروں کا خیال رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے لیکن تعلیم کی کمی انسان کو پستی کی جانب دھکیلتی ہے جو بقول ڈاکٹر مبارک حسن کے ایک ’بلیک ہول‘ ہے جس کی کو آخری حد نہیں ہے۔

ربط
بی بی سی کے شائع کردہ متن اور آپ کے دیے گئے متن میں فرق کیوں ہے؟ مثلا معاشرے کی اخلاقی حالت پر ڈاکٹر مبارک علی سے منسوب پہلا بیان بی بی سی کے ربط پر موجود نہیں۔
 
بی بی سی کے شائع کردہ متن اور آپ کے دیے گئے متن میں فرق کیوں ہے؟ مثلا معاشرے کی اخلاقی حالت پر ڈاکٹر مبارک علی سے منسوب پہلا بیان بی بی سی کے ربط پر موجود نہیں۔
دلچسپ. اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی بی سی پر اشاعت کے بعد بھی ایڈیٹنگ جاری رہتی ہے. کیونکہ مندرجہ بالا متن بی بی سی کی سائٹ سے ہی کاپی کیا گیا تھا. :)
 

آوازِ دوست

محفلین
بھوک یا زیادہ مناسب طور پر ہوس تہذیب نگل جاتی ہے.دعوت کے کھانےکی میز ہو یا ٹی وی کا انعامی پروگرام یہ تہذیب نگل جاتی ہے. اپنے وقار پر سمجھوتہ نہ کرنے والے محرومی کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ موقعہ پرستی کے شکار عزتِ نفس گنوا بیٹھتے ہیں. اللّہ کریم ہم سب کو باوقار زندگی دے اور فقط اپنا محتاج رکھے.
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اگر چینلز توجہ کریں اور کوشش کی جائے تو اس طرز کے پلیٹ فارم کو سماجی و معاشرتی تربیت کے لیے بہترین ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔
 
Top