محمد تابش صدیقی
منتظم
سارہ حسن بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
’عمرے کا ٹکٹ بھی دے دیں نا پلیز! میرا بچہ گاڑی مانگ رہا ہے وہ ناراض گیا ہے آپ اُسے گاڑی دے دیں!‘
میزبان: ’بچے کو بھی سکھا کر لائی ہیں، لو بیٹا گاڑی کیا یاد کرو گے۔۔۔‘
رمضان کے مہینے میں رات کو اگر آپ کوئی بھی مقبول پاکستانی ٹی وی چینل لگائیں تو آپ کو کم و بیش ایسے ہی مکالمے سننے کو ملیں گے۔
اگرچہ پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران مختلف نوعیت کے گیم شوز بہت مقبول ہوئے ہیں لیکن رمضان میں ان کے ناظرین اور ان میں شرکت کے خواہشمندوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے جو پاسز کے حصول کی تگ و دو میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں اچھے، برے کی تمیز ختم ہو رہی ہے اور یہ معاشرہ زوال پذیر ہے۔
ان کے مطابق ’زوال پذیر معاشرے میں اخلاقیات ختم ہونے سے انسانی فطرت بدل جاتی ہے شرم و حیا، عزت و احترام ختم ہو جاتا ہے اور ہر انسان اپنے ہی بارے میں سوچتا ہے کیونکہ برائی اب بہت عام ہے۔‘
پنجاب یونیورسٹی میں شعبۂ عمرانیات کے سربراہ ڈاکٹر زکریا ذاکر کہتے ہیں ’جب سے ہم نے خود اپنی روایات اور اقدار کا مذاق اڑانا شروع کیا اورایک خاص سوچ کے ذریعے مقامی کلچر کو پسِ پشت ڈالا ہے اُس سے مقامی سطح فکر میں کمی آئی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ معاشرے میں سوچ، فکر اور سنجیدہ رویوں میں کمی کی جگہ مسخرے پن نے لے لی ہے۔
ہماری ساتھی شمائلہ خان چند روز قبل ایک مقبول گیم شو میں گئیں۔
ان کے مطابق حاضرین کی اکثریت لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی اور اقتصادی عدم توازن کے اس دور میں وہ انعام لینے کے لیے کوئی بھی عجیب و غریب حرکت کرنے کو تیار تھے۔ جیسے کہ میزبان کے قریب آتے ہی ایک 70 سالہ بزرگ نے کہا کہ ’میری شادی کو اتنے سال ہو گئے ہیں، میں اپنی بیوی سے اب بھی محبت کرتا ہوں مجھے انعام دیں۔‘
اس گیم شو کے میزبان سے جب پوچھا گیا کہ وہ اپنے پروگرام میں عجیب طرح کی حرکتیں کیوں کرتے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ وہ ایک انٹرٹینر ہیں جو چیزیں لوگ پسند کرتے ہیں وہ وہی کرتے اور دکھاتے ہیں۔
کیا یہ پروگرام ہمارے معاشرے کے رویوں کے عکاس ہیں؟
ماہر عمرانیات ڈاکٹر زکریا کا کہنا ہے کہ ’ہمارے یہاں تو اشتہارات میں بھی معلومات کی بجائے مسخرا پن اور تمسخر زیادہ ہے اور یہی حال ٹی وی شوز کا بھی ہے۔‘
ان پروگراموں سے ایک بات اور جو سامنے آتی ہے وہ یہ کہ عوام کی اکثریت کا جنرل نالج اور جغرافیے کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں اور اکثر و بیشتر تکُے پر کام چلتا ہے۔
ماضی کے مقابلے میں جہاں اب انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا کی معلومات آپ کی گرفت میں ہیں وہیں لوگوں کے معیارِ علم کا یہ انحطاط قابلِ فکر ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ لوگوں میں اب جستجو اور کچھ جاننے کا شوق ختم ہو گیا ہے۔
’وہ علم اور معلومات بھی سطحی ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا اندازہ اُس زبان سے لگایا جا سکتا ہے جو ہم بولتے ہیں اس میں شائستگی نہیں۔ لوگوں میں پڑھنے کا شوق ختم ہو گیا ہے۔ ہر انسان دوسرے کو دھوکا دے کر آگے بڑھنے پر خوش ہوتا ہے۔‘
پاکستان میں عام آدمی میں علم کا معیار کیوں زوال پذیر ہے اور اس کا ذمے دار کون ہے؟
اس بارے میں ڈاکٹر ذکریا کا کہنا ہے کہ جب تعلیمی اداروں کو کمرشلائز کر دیا جائے اور طالبعلم فخر سے کہیں کہ ’صرف امتحان کی تیاری کے لیے پڑھتے ہیں‘ تو پھر تعلیم محض ملازمت حاصل کرنے کے لیے ہی حاصل کی جاتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’فکر اور سوچ علم سے آتی ہے۔ کتاب سے تعلق نہیں۔ بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں بھی کوئی بڑی کتاب کی دکان نہیں ہوتی اور اگر کوئی ہوتی بھی ہے تو وہاں ٹیسٹ پیپرز اور خلاصے ہی فروخت ہوتے ہیں۔‘
سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رجحان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ فکری انحطاط کا شکار ہو گیا ہے اور جہاں جس کا بس چلے وہ وہاں سے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
انسان اور حیوان میں فرق صرف فکر کا ہی تو ہے۔
فکر انسان کو یہ باور کرواتی ہے کہ اُسے دوسروں کا خیال رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے لیکن تعلیم کی کمی انسان کو پستی کی جانب دھکیلتی ہے جو بقول ڈاکٹر مبارک حسن کے ایک ’بلیک ہول‘ ہے جس کی کو آخری حد نہیں ہے۔
ربط
’عمرے کا ٹکٹ بھی دے دیں نا پلیز! میرا بچہ گاڑی مانگ رہا ہے وہ ناراض گیا ہے آپ اُسے گاڑی دے دیں!‘
میزبان: ’بچے کو بھی سکھا کر لائی ہیں، لو بیٹا گاڑی کیا یاد کرو گے۔۔۔‘
رمضان کے مہینے میں رات کو اگر آپ کوئی بھی مقبول پاکستانی ٹی وی چینل لگائیں تو آپ کو کم و بیش ایسے ہی مکالمے سننے کو ملیں گے۔
اگرچہ پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران مختلف نوعیت کے گیم شوز بہت مقبول ہوئے ہیں لیکن رمضان میں ان کے ناظرین اور ان میں شرکت کے خواہشمندوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے جو پاسز کے حصول کی تگ و دو میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں اچھے، برے کی تمیز ختم ہو رہی ہے اور یہ معاشرہ زوال پذیر ہے۔
ان کے مطابق ’زوال پذیر معاشرے میں اخلاقیات ختم ہونے سے انسانی فطرت بدل جاتی ہے شرم و حیا، عزت و احترام ختم ہو جاتا ہے اور ہر انسان اپنے ہی بارے میں سوچتا ہے کیونکہ برائی اب بہت عام ہے۔‘
پنجاب یونیورسٹی میں شعبۂ عمرانیات کے سربراہ ڈاکٹر زکریا ذاکر کہتے ہیں ’جب سے ہم نے خود اپنی روایات اور اقدار کا مذاق اڑانا شروع کیا اورایک خاص سوچ کے ذریعے مقامی کلچر کو پسِ پشت ڈالا ہے اُس سے مقامی سطح فکر میں کمی آئی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ معاشرے میں سوچ، فکر اور سنجیدہ رویوں میں کمی کی جگہ مسخرے پن نے لے لی ہے۔
ہماری ساتھی شمائلہ خان چند روز قبل ایک مقبول گیم شو میں گئیں۔
ان کے مطابق حاضرین کی اکثریت لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی اور اقتصادی عدم توازن کے اس دور میں وہ انعام لینے کے لیے کوئی بھی عجیب و غریب حرکت کرنے کو تیار تھے۔ جیسے کہ میزبان کے قریب آتے ہی ایک 70 سالہ بزرگ نے کہا کہ ’میری شادی کو اتنے سال ہو گئے ہیں، میں اپنی بیوی سے اب بھی محبت کرتا ہوں مجھے انعام دیں۔‘
اس گیم شو کے میزبان سے جب پوچھا گیا کہ وہ اپنے پروگرام میں عجیب طرح کی حرکتیں کیوں کرتے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ وہ ایک انٹرٹینر ہیں جو چیزیں لوگ پسند کرتے ہیں وہ وہی کرتے اور دکھاتے ہیں۔
کیا یہ پروگرام ہمارے معاشرے کے رویوں کے عکاس ہیں؟
ماہر عمرانیات ڈاکٹر زکریا کا کہنا ہے کہ ’ہمارے یہاں تو اشتہارات میں بھی معلومات کی بجائے مسخرا پن اور تمسخر زیادہ ہے اور یہی حال ٹی وی شوز کا بھی ہے۔‘
ان پروگراموں سے ایک بات اور جو سامنے آتی ہے وہ یہ کہ عوام کی اکثریت کا جنرل نالج اور جغرافیے کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں اور اکثر و بیشتر تکُے پر کام چلتا ہے۔
ماضی کے مقابلے میں جہاں اب انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا کی معلومات آپ کی گرفت میں ہیں وہیں لوگوں کے معیارِ علم کا یہ انحطاط قابلِ فکر ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ لوگوں میں اب جستجو اور کچھ جاننے کا شوق ختم ہو گیا ہے۔
’وہ علم اور معلومات بھی سطحی ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا اندازہ اُس زبان سے لگایا جا سکتا ہے جو ہم بولتے ہیں اس میں شائستگی نہیں۔ لوگوں میں پڑھنے کا شوق ختم ہو گیا ہے۔ ہر انسان دوسرے کو دھوکا دے کر آگے بڑھنے پر خوش ہوتا ہے۔‘
پاکستان میں عام آدمی میں علم کا معیار کیوں زوال پذیر ہے اور اس کا ذمے دار کون ہے؟
اس بارے میں ڈاکٹر ذکریا کا کہنا ہے کہ جب تعلیمی اداروں کو کمرشلائز کر دیا جائے اور طالبعلم فخر سے کہیں کہ ’صرف امتحان کی تیاری کے لیے پڑھتے ہیں‘ تو پھر تعلیم محض ملازمت حاصل کرنے کے لیے ہی حاصل کی جاتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’فکر اور سوچ علم سے آتی ہے۔ کتاب سے تعلق نہیں۔ بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں بھی کوئی بڑی کتاب کی دکان نہیں ہوتی اور اگر کوئی ہوتی بھی ہے تو وہاں ٹیسٹ پیپرز اور خلاصے ہی فروخت ہوتے ہیں۔‘
سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رجحان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ فکری انحطاط کا شکار ہو گیا ہے اور جہاں جس کا بس چلے وہ وہاں سے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
انسان اور حیوان میں فرق صرف فکر کا ہی تو ہے۔
فکر انسان کو یہ باور کرواتی ہے کہ اُسے دوسروں کا خیال رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے لیکن تعلیم کی کمی انسان کو پستی کی جانب دھکیلتی ہے جو بقول ڈاکٹر مبارک حسن کے ایک ’بلیک ہول‘ ہے جس کی کو آخری حد نہیں ہے۔
ربط