یہ لکھنؤ کی سرزمیں ۔۔۔ یہ لکھنؤ کی سرزمیں

حیدرآبادی

محفلین
نغمہ : یہ لکھنؤ کی سرزمین ۔۔۔
فلم : چودھویں کا چاند (1960 ء‫)
نغمہ نگار : شکیل بدایونی
گلوکار : رفیع
موسیقار : روی

یہ لکھنؤ کی سرزمین ۔۔۔
یہ لکھنؤ کی سرزمین، یہ لکھنؤ کی سرزمین
یہ رنگ و روپ کا چمن
یہ حسن و عشق کا وطن
یہی تو وہ مقام ہے
جہاں اودھ کی شام ہے
جواں جواں ہنسی ہنسی
یہ لکھنؤ کی سرزمین، یہ لکھنؤ کی سرزمین
شباب و شعر کا یہ گھر
یہ اہلِ علم کا نگر
ہے منزلوں کی گود میں
یہاں ہر ایک رہگزر
یہ شہر لال دار ہے
یہاں دلوں میں پیار ہے
جدھر نظر اٹھائیے
بہار ہی بہار ہے
کلی کلی ہے نازنین
یہ لکھنؤ کی سرزمین، یہ لکھنؤ کی سرزمین
یہاں کی سب روایتیں
ادب کی شاہکار ہیں
امیر اہلِ دل یہاں
غریب جانثار ہیں
ہر ایک شاخ پر یہاں
ہیں بلبلوں کی چہچہیں
گلی گلی میں زندگی
قدم قدم پہ قہقہے
اہ اک نظارا ہے دلنشیں
یہ لکھنؤ کی سرزمین
یہ لکھنؤ کی سرزمین ۔۔۔

نبھائی اپنی آن بھی
بڑھائی دل کی شان بھی
ہیں ایسے مہربان بھی​
 

حیدرآبادی

محفلین
آج کا لکھنؤ

فلم شطرنج کے کھلاڑی ، چودھویں کا چاند ، میرے حضور ، پالکی اور دیگر فلموں میں ہندوستان کے ایک معروف شہر لکھنؤ کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا تھا۔
کیا آج وہی لکھنؤ ہندوستان میں زندہ ہے؟
اس سوال کا جواب ایک افسوسناک نفی میں دیا جائے گا۔

لکھنؤ کی شناخت کہی جانے والی بیشتر عمارتوں کا مجموعی طور سے برا حال ہے۔ یہاں کے گلی کوچوں کا وجود خطرے میں پڑ چکا ہے۔
کوچہ میر انیس ، کوچہ مرزا دبیر ، جھنوائی ٹولہ ، بنجاری ٹولہ ، بزازہ ، نور باڑی ، کاظمین ، کشمیری محلہ ، درگاہ حضرت عباس ، ماموں بھانجے قبر ، چاہ کنکر ، فرنگی محل ، پھول والی گلی ، چوک صرافہ اور بہت سے تاریخی مقامات قابلِ توجہ ہیں۔

دنیا بھر سے سیاح جب لکھنؤ آتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں یہ تاثر ہوتا ہے کہ اس تاریخی طلسماتی شہر کا حال وہی ہوگا جو انہوں نے کتابوں میں پڑھا یا فلموں میں دیکھا ہے۔ مگر آج کی حقیقت یوں ہے کہ اب یہ شہر فلک بوس عمارتوں ، کثیف ماحول اور ناجائز قبضوں کی بنیاد پر کھڑا ہوا ہے۔ جا بجا کوڑے کے ڈھیر ، ٹوٹی نالیاں ، ان میں بجبجاتے کیڑے ، تاریخی عمارتوں کے درودیوار پر نقش عوام کے کارنامے ، اپنی محبوبہ کا نام لکھنے کے لیے پلاسٹر کا اکھاڑا جانا ، دل کے نشان ، گھٹیا شعر ، بےہودہ فلمی مکالمے اور کہیں کہیں تو فحش فقروں کے ذریعے مغرب والوں کو بھی پیچھا چھوڑا جا چکا ہے۔
سرکاری حکام کے علاوہ خود عوام کی عدم دلچسپی سے ماضی کا شاندار اثاثہ برباد ہو رہا ہے۔

جوش ملیح آبادی کا شعر ہے ‫:
کس نے وعدہ کیا ہے آنے کا
حسن دیکھو غریب خانے کا

آہ ! کہ اب صورت مختلف ہے۔ لکھنؤ پر ہزاروں اشعار ، طویل نظمیں اور مضامین پڑھ کر کفِ افسوس ملنے کے سوا کچھ بھی نہیں کہ ہائے ! کیا ہو گیا اس شہر کو؟
فلک بوس عمارتوں سے تاریخی محلے چھپ گئے ، باغوں کے اس شہر میں مجسموں کے قبرستان آباد ہو گئے۔ کل کی کھانے والی چیزیں آج کے پیزا ، چاومین ، برگر ، پاستا میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ بالائی ، قلفی ، رابڑی اور ماضی کے دیگر مشہور کھانوں سے نئی نسل کو دلچسپی نہیں۔ ادب کے بازار میں گھٹیا شاعری ، سستی رومانی کتابوں کی حکمرانی ہے۔ سی۔ڈی، ڈی۔وی۔ڈی، ویڈیو کیسٹ ، کان پھاڑنے والے گانے ، غیر مہذب مذاق اور غیرمعیاری لطیفوں نے ایک نئی تہذیب کو جنم دے دیا ہے۔ وہ لکھنؤ اب کہاں جو اپنی شناخت کی وجہ سے تاریخ کا ایک حصہ تھا۔

مشہور مورخ آغا مہدی اور مولانا عبدالحلیم شرر نے اپنی کتابوں میں جس لکھنؤ کا تذکرہ کیا ہے اس کی دھندلی سی تصویر بھی تلاش کرنے پر نظر نہیں آئے گی۔
جوش ، انیس ، ناسخ اور لاتعداد شعراء و ادباء کی اس سرزمین کا حالِ زار دیکھ کر کوئی بھی حساس انسان آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتا۔
روز بروز آہستہ آہستہ لکھنؤ مر رہا ہے !! اور بےحسی ، بےعملی ، بےمروتی اور پست ہمتی کا ثبوت دیتے ہوئے ڈھیٹ سرکاری حکام کے ساتھ ساتھ مردہ دل شہری بھی اپنے اس لاثانی ورثہ سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔

تاریخ بھول رہے ہیں ، تاریخ ہم کو فراموش نہیں کرے گی ‫!!

(سید حسین اختر کے مضمون کے ایک حصے سے شکریہ کے ساتھ استفادہ)
 

الف عین

لائبریرین
فلم چودھویں کا چاند ہی دیکھ لیں کہیں مل جائے تو، اس سے لکھنؤ کا کلچر دیکھنے کو مل جائے گا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
اعجاز صاحب فلموں میں‌تو اودھ بہت دیکھا - اور چودھویں‌کا چاند فلم بھی کئ بار دیکھی - گرو دت کی - لیکن اصل اودھ تو نہیں‌ دیکھ سکتے حضور -
 

شمشاد

لائبریرین
میں نے تھوڑا سا لکھنؤ بھی دیکھا ہے اور

چودہویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو
جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو

بابا ٹیون بدلو۔۔۔۔
 

دوست محمد

محفلین
یہ رنگ و روپ کا چمن
یہ حسن و عشق کا وطن
یہی تو وہ مقام ہے
جہاں اودھ کی شام ہے
جواں جواں ہنسی ہنسی
مندرجہ بالا قطع آپ نے کچھ تبدیلی کے ساتھ درج کیا ہے
اصل عبارت کچھ اس طرح ہے۔
جہان اودھ کی شان بھی
جواں جواں حسیں حسیں
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا اودھ اور لکھنؤ ایک ہی جگہ کے دو نام ہیں؟
اودھ ایک ریاست کا نام تھا جس کا ایک شہر لکھنؤ تھا۔ اودھ کے دوسرے مشہور شہروں میں بنارس، ایودھیا، الہ آباد، فیض آباد، امیٹھی، رائے بریلی وغیرہ شامل ہیں۔ آج کل اودھ کا علاقہ انڈین ریاست اتر پردیش کا حصہ ہے۔
 
اودھ ایک ریاست کا نام تھا جس کا ایک شہر لکھنؤ تھا۔ اودھ کے دوسرے مشہور شہروں میں بنارس، ایودھیا، الہ آباد، فیض آباد، امیٹھی، رائے بریلی وغیرہ شامل ہیں۔ آج کل اودھ کا علاقہ انڈین ریاست اتر پردیش کا حصہ ہے۔
وارث بھائی اس بہانے یہ بھی بتاتے جائیے کہ "صبح بنارس، شام اودھ" کا کیا پس منظر ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی اس بہانے یہ بھی بتاتے جائیے کہ "صبح بنارس، شام اودھ" کا کیا پس منظر ہے؟
یہی سنا ہے کہ بنارس میں گنگا کے گھاٹ پر، اور اتر پردیش کے زرخیز میدانوں میں، صبح و شام کا منظر انتہائی دلفریب ہوتا ہے۔ اس کا کچھ ذکر جوش ملیح آبادی نے یادوں کی برات میں بھی کیا ہے۔ ملیح آباد بھی اودھ ہی کا حصہ تھا۔
 

عدنان عمر

محفلین
اودھ ایک ریاست کا نام تھا جس کا ایک شہر لکھنؤ تھا۔ اودھ کے دوسرے مشہور شہروں میں بنارس، ایودھیا، الہ آباد، فیض آباد، امیٹھی، رائے بریلی وغیرہ شامل ہیں۔ آج کل اودھ کا علاقہ انڈین ریاست اتر پردیش کا حصہ ہے۔
بہت شکریہ محمد وارث بھیا۔ ایک الجھن ابھی باقی ہے۔ بنارس اودھ ریاست کا حصہ رہا ہے لیکن یہ جو کہتے ہیں کہ صبحِ بنارس اور شامِ اودھ، تو بنارس کا ذکر الگ سے کیوں کیا گیا ہے؟
 

سید عمران

محفلین
چوں کہ بنارس ہندوؤں کا ایک مقدس شہر ہے، چناں چہ وہاں مندروں کی بہتات ہے۔۔۔
اس لیے بنارس کی صبح کی ایک وجۂ شہرت وہاں ان مندروں پر سورج کی روشنی میں چمکتے سنہری کلس اور گھنٹیوں کی آوازوں کا سماں بھی ہے!!!
 

محمد وارث

لائبریرین

سید عمران

محفلین
آج کا لکھنؤ

فلم شطرنج کے کھلاڑی ، چودھویں کا چاند ، میرے حضور ، پالکی اور دیگر فلموں میں ہندوستان کے ایک معروف شہر لکھنؤ کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا تھا۔
کیا آج وہی لکھنؤ ہندوستان میں زندہ ہے؟
اس سوال کا جواب ایک افسوسناک نفی میں دیا جائے گا۔

لکھنؤ کی شناخت کہی جانے والی بیشتر عمارتوں کا مجموعی طور سے برا حال ہے۔ یہاں کے گلی کوچوں کا وجود خطرے میں پڑ چکا ہے۔
کوچہ میر انیس ، کوچہ مرزا دبیر ، جھنوائی ٹولہ ، بنجاری ٹولہ ، بزازہ ، نور باڑی ، کاظمین ، کشمیری محلہ ، درگاہ حضرت عباس ، ماموں بھانجے قبر ، چاہ کنکر ، فرنگی محل ، پھول والی گلی ، چوک صرافہ اور بہت سے تاریخی مقامات قابلِ توجہ ہیں۔

دنیا بھر سے سیاح جب لکھنؤ آتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں یہ تاثر ہوتا ہے کہ اس تاریخی طلسماتی شہر کا حال وہی ہوگا جو انہوں نے کتابوں میں پڑھا یا فلموں میں دیکھا ہے۔ مگر آج کی حقیقت یوں ہے کہ اب یہ شہر فلک بوس عمارتوں ، کثیف ماحول اور ناجائز قبضوں کی بنیاد پر کھڑا ہوا ہے۔ جا بجا کوڑے کے ڈھیر ، ٹوٹی نالیاں ، ان میں بجبجاتے کیڑے ، تاریخی عمارتوں کے درودیوار پر نقش عوام کے کارنامے ، اپنی محبوبہ کا نام لکھنے کے لیے پلاسٹر کا اکھاڑا جانا ، دل کے نشان ، گھٹیا شعر ، بےہودہ فلمی مکالمے اور کہیں کہیں تو فحش فقروں کے ذریعے مغرب والوں کو بھی پیچھا چھوڑا جا چکا ہے۔
سرکاری حکام کے علاوہ خود عوام کی عدم دلچسپی سے ماضی کا شاندار اثاثہ برباد ہو رہا ہے۔

جوش ملیح آبادی کا شعر ہے ‫:
کس نے وعدہ کیا ہے آنے کا
حسن دیکھو غریب خانے کا

آہ ! کہ اب صورت مختلف ہے۔ لکھنؤ پر ہزاروں اشعار ، طویل نظمیں اور مضامین پڑھ کر کفِ افسوس ملنے کے سوا کچھ بھی نہیں کہ ہائے ! کیا ہو گیا اس شہر کو؟
فلک بوس عمارتوں سے تاریخی محلے چھپ گئے ، باغوں کے اس شہر میں مجسموں کے قبرستان آباد ہو گئے۔ کل کی کھانے والی چیزیں آج کے پیزا ، چاومین ، برگر ، پاستا میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ بالائی ، قلفی ، رابڑی اور ماضی کے دیگر مشہور کھانوں سے نئی نسل کو دلچسپی نہیں۔ ادب کے بازار میں گھٹیا شاعری ، سستی رومانی کتابوں کی حکمرانی ہے۔ سی۔ڈی، ڈی۔وی۔ڈی، ویڈیو کیسٹ ، کان پھاڑنے والے گانے ، غیر مہذب مذاق اور غیرمعیاری لطیفوں نے ایک نئی تہذیب کو جنم دے دیا ہے۔ وہ لکھنؤ اب کہاں جو اپنی شناخت کی وجہ سے تاریخ کا ایک حصہ تھا۔

مشہور مورخ آغا مہدی اور مولانا عبدالحلیم شرر نے اپنی کتابوں میں جس لکھنؤ کا تذکرہ کیا ہے اس کی دھندلی سی تصویر بھی تلاش کرنے پر نظر نہیں آئے گی۔
جوش ، انیس ، ناسخ اور لاتعداد شعراء و ادباء کی اس سرزمین کا حالِ زار دیکھ کر کوئی بھی حساس انسان آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتا۔
روز بروز آہستہ آہستہ لکھنؤ مر رہا ہے !! اور بےحسی ، بےعملی ، بےمروتی اور پست ہمتی کا ثبوت دیتے ہوئے ڈھیٹ سرکاری حکام کے ساتھ ساتھ مردہ دل شہری بھی اپنے اس لاثانی ورثہ سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔

تاریخ بھول رہے ہیں ، تاریخ ہم کو فراموش نہیں کرے گی ‫!!

(سید حسین اختر کے مضمون کے ایک حصے سے شکریہ کے ساتھ استفادہ)
بے شک ترقی و تبدل اپنے قدموں تلے ہر چیز و ناچیز کو روندتی چلی آتی ہے۔۔۔
لیکن کیا ہو اگر شہر کے چند مخصوص علاقے زمانے کی دست برد سے محفوظ کرکے تاریخی ورثہ بنالیے جائیں!!!
 
Top