عدنان عمر
محفلین
سو فیصد متفق۔ سنا ہے کہ لکھنئو کی تہذیب کے حاملین اب لکھنؤ میں بھی خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ میرے نظر میں تو یہ بھی ایک سانحہ ہے۔بے شک ترقی و تبدل اپنے قدموں تلے ہر چیز و ناچیز کو روندتی چلی آتی ہے۔۔۔
لیکن کیا ہو اگر شہر کے چند مخصوص علاقے زمانے کی دست برد سے محفوظ کرکے تاریخی ورثہ بنالیے جائیں!!!