سیما علی
لائبریرین
صرف آدھا مصرعہ آپ کو سمجھ نہیں آ پایا، باقی آپ نے زبردست ترجمہ کیا ہے۔ ماشا اللہ۔
آنکھوں میں آنسو تھے اور ہونٹوں پر خون تھا۔
۔۔۔
اس میں بھی مجھے گمان ہے کہ آپ نے اس سے پہلے والی سطر کا دوبارہ ترجمہ کر دیا ہے۔
صرف آدھا مصرعہ آپ کو سمجھ نہیں آ پایا، باقی آپ نے زبردست ترجمہ کیا ہے۔ ماشا اللہ۔
آنکھوں میں آنسو تھے اور ہونٹوں پر خون تھا۔
۔۔۔
اس میں بھی مجھے گمان ہے کہ آپ نے اس سے پہلے والی سطر کا دوبارہ ترجمہ کر دیا ہے۔
صرف آدھا مصرعہ آپ کو سمجھ نہیں آ پایا، باقی آپ نے زبردست ترجمہ کیا ہے۔ ماشا اللہ۔
آنکھوں میں آنسو تھے اور ہونٹوں پر خون تھا۔
۔۔۔
اس میں بھی مجھے گمان ہے کہ آپ نے اس سے پہلے والی سطر کا دوبارہ ترجمہ کر دیا ہے۔[/QUO
سر یہ نظم بڑا رُلاتی ہے ۔ساری مایئں ایسی ہوتی ہیں
جی آپا آپ نے ٹھیک کہا ۔ ۔ یہ ان پنجابی ٹپے اور ماہیوں کا ہی اعجاز ہے کہ ہمیں بغیر سوچے سمجھے شاعری آ گئ ۔ ۔جی ٹھیک کہا آپ نے مجھے آپکی مادری زبان بہت اچھی لگتی ہے ۔ خاص کر لوک گیتو ں میں بہت مٹھاس ہے ۔جزاک اللہ۔
بہت ساری دعائیں ۔
آپ کی بات بھی ٹھیک ہے، البتہ میں مصنف کو گریس مارکس ضرور دوں گا۔
مصنف کے ذہن میں شاید ان سرگرمیوں کا ذکر ہو جس کا حوالہ اس نے ماں کے ساتھ کیا ہے۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ موجودہ دور کی مائیں خصوصاً شہروں میں رہنے والی ان سرگرمیوں میں مشغول ہونا تو ایک طرف، ان کے بارے میں علم بھی بہت کم رکھتی ہیں۔ اگر ہم سب پیرا گرافس کو فرداً فرداً دیکھیں تو شاید ہمیں شہروں میں ایسا کچھ بہت زیادہ دکھائی بھی نا دے۔