یہ ماجرا کیا ہے؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

زرقا مفتی

محفلین
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اختلافِ رائے والی پوسٹ نہیں ہے بلکہ ایک خاص طبقے کے لئے ایک فردِ واحد کا نظریہ ہے۔ کیا کراچی اور حیدرآباد کے لوگوں کو "مفاد پرست" کہہ دینا "اختلافِ رائے" ہے۔

میں ہمیشہ لسانی اور صوبائی تعصبات سے بالاتر ہوکر پاکستان (متحد پاکستان) کی بات کرتا ہوں اور اس طرح کی بحث میں پڑ کر نفرتوں کو پروان چڑھانا مجھے ہرگز پسند نہیں ہے۔ ایسی مباحثے کبھی بھی معاملات سلجھانے کا کام نہیں کر سکتے بلکہ اس سے اختلافات اور رنجشیں ہی جنم لیتی ہیں۔



مہذب پیرائے کی اگر بات کی جائے تب بھی اس تحریر پر تو بات نہیں کی جا سکتی۔ یہ بات بھی حیرت کی ہے کہ موڈریشن کے ذمرے میں ہونے کے باوجود یہ تحریر اپنی اصل حالت میں شائع ہوئی۔ شاید کاشفی بھائی اعتراض نہ کرتے تو اس میں وہ تبدیلیاں بھی نہیں آتی جو بعد میں کی گئیں۔

وہ کونسی چیز ہے جو ہم سب کو پاکستانی بننے سے روکتی ہے اور مثبت سرگرمیوں کے بجائے صوبائی اور لسانی طبقات میں بٹ کر ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے پر مجبور کرتی ہے۔
نظریہ پیش کرنے پر پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی ۔ایک رُکن اگر کسی مسئلے کا پس منظر اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق بیان کرتا ہے تو آپ اُس سے غیر متفق ہو سکتے ہیں اُسے غلط ثابت کر سکتے ہیں اُسے دلیل سے قائل کر سکتے ہیں ۔ مفاد پرست تو ہر صوبے ہر شہر ہر قوم اور ہر سیاسی جماعت میں موجود ہیں ان کے وجود سے کون انکار کر سکتا ہے اجتماعی طور پر کسی گروہ کو ایسا کہنا غلط ہے اور میں نے اپنے پہلے مراسلے میں یہی لکھا
 

ساجد

محفلین
میں نے پہلے جو بھی باتیں کی ہیں وہ اسی سوچ رکھنے والوں کی وجہ سے کی ہیں۔۔۔
اور میں کافی جگہ اعتراف بھی کرچکا ہوں کہ میں نے بہت کچھ غلط بھی لکھا ہے۔۔اس میں شک نہیں۔
لیکن وہ سب باتیں اسی سوچ رکھنے والوں اور اس کی تائید کرنے والوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
اب آپ بتائیے کہ اس پیغام کی لڑی کا عنوان تھا یہ مہاجرا کیا ہے؟ اب اس سے مجھ جیسا بندہ کیا نتیجہ نکالے گا۔۔یہ تعصب پر مبنی لڑی ہے کہ محبت پر مبنی لڑی ہے۔۔
میں نے کتنی لڑیاں بنائی ہیں کسی بھی تعصب کی بنیاد پر۔۔ آپ نے جو میرا نام لکھ کر مجھے ڈیگریڈ کرنا شروع کردیا۔۔۔ دس از ناٹ فیئر۔۔ میں نے کون سے غلط بات لکھی ہے جس کی امجد صاحب سچ ثابت کررہے ہیں۔۔

اس کا ملبہ بھی مجھ پر ڈال دیا ۔۔۔ میں نے جو کچھ بھی لکھا وہ کسی بات کے ردِعمل میں لکھا جیسا کسی نے لکھا ویسا ہی میں نے لکھا۔ میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔۔۔
محترم ، لڑی کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جب یہ لڑی شروع کی گئی تھی تب میں آن لائن نہیں تھا اگر ہوتا تو اسی وقت اس کا عنوان درست کر دیتا اور تدوین بھی۔ بہر حال میں نے آئن لائن ہوتے ہی اس کا نام تبدیل کیا تھا اور آپ کی رپورٹ بھی بعد میں دکھائی دی۔اب ایسا اعتراض اٹھانا نا مناسب ہے۔
 

ساجد

محفلین
مہذب پیرائے کی اگر بات کی جائے تب بھی اس تحریر پر تو بات نہیں کی جا سکتی۔ یہ بات بھی حیرت کی ہے کہ موڈریشن کے ذمرے میں ہونے کے باوجود یہ تحریر اپنی اصل حالت میں شائع ہوئی۔ شاید کاشفی بھائی اعتراض نہ کرتے تو اس میں وہ تبدیلیاں بھی نہیں آتی جو بعد میں کی گئیں۔
محمد احمد بھائی ، کیا آپ جانتے ہیں کہ ماڈریشن میں پڑے پیغامات اکثر اراکین پر اعتماد کرتے ہوئے پڑھے بغیر بھی منظور کر دئیے جاتے ہیں اور ان پیغامات کو منظوری صرف ایک ماڈریٹر نہیں انتظامیہ کا کوئی بھی فرد دے سکتا ہے۔ ماڈریشن کوئی چھاننی نہیں کہ ہر پیغام کو اس میں چھانا جاتا ہے عام حالات میں اکثر پیغامات جوں کے توں منظور کر دئیے جاتے ہیں اور اگر کہیں معاملہ گڑ بڑ ہو جائے تو پیغامات کی چھانٹی کی جاتی ہے یا پھر پیغامات کی منظوری روک دی جاتی ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی عرض کر دوں کہ معترضہ پیغامات کو رپورٹ کرنا سب سے مناسب بات ہوتی ہے نا کہ دھاگے میں اعتراضات اٹھانا۔آپ کی بات سے ایک بڑی غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے۔
اردو محفل پہ آج تک جو لاتعداد پیغامات اور دھاگے حذف ہوئے وہ کاشفی صاحب کے اعتراضات پر نہیں ہوئے ۔ جو لوگ اس کام کے لئے مامور ہیں وہ کاشفی صاحب سے زیادہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے اور کیا کہہ رہا ہے۔ میں نے اس سے پہلے مراسلہ میں عرض کیا ہے کہ عنوان کی درستی اور تدوین میں نے پہلے ہی کر دی اور کاشفی کی رپورٹ اس کے بعد میں مجھے رپورٹ کے زمرے میں دکھائی دی۔ اس کا بھلا کیا مطلب بنتا ہے؟؟؟۔ اسے سمجھنے کے لئے کوئی راکٹ سائنس درکار نہیں۔
 

ساجد

محفلین
بھٹو کو ہمیشہ جوتے مارے ہیں ہم نے۔۔
اگر پیپلز پارٹی مہاجروں سے مخلص ہوتی تو ایم کیو ایم بننے کا جواز ہی نہ پیدا ہوتا۔۔
جس کو جوتے مارنے کا اقرار و اعلان کیا جائے اس سے مخلص ہونے کی توقع عبث ہوتی ہے انیس بھائی :)
ایم کیو ایم بننی تھی بس بن گئی۔۔۔ بات ختم۔
 

ساجد

محفلین
ایک اور تفرقہ ڈالنے والی پوسٹ :applause:
احمد بھائی آج میں بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔۔۔
کاشفی بھائی کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔۔
اور متعصب لوگوں سے کہنا چاہوں گا کہ ہمیں جوابی کاروائی کے لیے مجبور نہ کیا جائے۔
برادرانِ عزیز ، جو کچھ ہو رہا ہے اس پر کسی پاکستانی کو بھی خوشی نہیں لیکن کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ اچانک ہو گیا؟ یہ بات آن دی ریکارڈ موجود ہے کہ کل تک میں کاشفی صاحب کو بار بار سمجھاتا رہا کہ آپ جس قسم کا اسلوب اختیار کئے ہوئے ہیں اس کا رد عمل کبھی بھی سامنے آ سکتا ہے اور جب ایسا ہو گا تو آپ شاید برداشت نہ کر سکیں گے لیکن کاشفی صاحب نے سنجیدگی اختیار کرنے کی بجائے عجیب غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کئے رکھا اور ہر اہم اور تنبیہی مراسلے پر بھی غیر متفق کا کراس لگانے کا کھیل کھیلتے رہے ۔ کاشفی صاحب کی کچھ تحاریر ایسی ہیں کہ موجودہ متنازعہ تحریر اس کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ آپ بھائیوں کے نزدیک اگر یہ تحریر فرقہ وارانہ ہے تو براہِ کرم کاشفی صاحب کی تحاریر پر ایک بار پھر نظر دوڑائیں جہاں انہوں نے پورے پاکستان کے ایک ایک طبقے کو رگیدا ہے اور جب بال ان کی اپنی کورٹ میں آئی ہے توحسب سابق دُہائی شروع ہے ۔
مین نے انہیں کل بھی عرض گزاری تھی کہ اس اسلوب کو بدلیں لیکن وہ میری مذمت پہ اتر آئے تھے اب آپ لوگ ہی بتائیں کہ میں کس کی مذمت کروں؟۔
 

حسان خان

لائبریرین
امجد بھائی، آپ کی نیت یقیناً اچھی ہو گی، اور اس تحریر سے آپ کا مقصد یقیناً پاکستانیت اور حب الوطنی کو فروغ دینا ہوگا، لیکن آخری چند پیراگرافوں میں جو باتیں آپ نے کی ہے، اُس سے قریب قریب تحریر کا اصل مقصد فوت ہو گیا ہے۔
 
برادرانِ عزیز ، جو کچھ ہو رہا ہے اس پر کسی پاکستانی کو بھی خوشی نہیں لیکن کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ اچانک ہو گیا؟ یہ بات آن دی ریکارڈ موجود ہے کہ کل تک میں کاشفی صاحب کو بار بار سمجھاتا رہا کہ آپ جس قسم کا اسلوب اختیار کئے ہوئے ہیں اس کا رد عمل کبھی بھی سامنے آ سکتا ہے اور جب ایسا ہو گا تو آپ شاید برداشت نہ کر سکیں گے لیکن کاشفی صاحب نے سنجیدگی اختیار کرنے کی بجائے عجیب غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کئے رکھا اور ہر اہم اور تنبیہی مراسلے پر بھی غیر متفق کا کراس لگانے کا کھیل کھیلتے رہے ۔ کاشفی صاحب کی کچھ تحاریر ایسی ہیں کہ موجودہ متنازعہ تحریر اس کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ آپ بھائیوں کے نزدیک اگر یہ تحریر فرقہ وارانہ ہے تو براہِ کرم کاشفی صاحب کی تحاریر پر ایک بار پھر نظر دوڑائیں جہاں انہوں نے پورے پاکستان کے ایک ایک طبقے کو رگیدا ہے اور جب بال ان کی اپنی کورٹ میں آئی ہے توحسب سابق دُہائی شروع ہے ۔
مین نے انہیں کل بھی عرض گزاری تھی کہ اس اسلوب کو بدلیں لیکن وہ میری مذمت پہ اتر آئے تھے اب آپ لوگ ہی بتائیں کہ میں کس کی مذمت کروں؟۔

ساجد صاحب اب اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ کا کام یہاں کچھ زیادہ ہی سخت ہے۔یہ ادارت آپ کی محبوبہ دلنواز بننے کے بجائے گلے کا ہار زیادہ بنی ہوئی ہے۔میری طرف سے آپ کی برداشت و صبر کو داد۔ ٹو تھمبز اپ فار یو۔:thumbsup2::thumbsup2:
 

کاشفی

محفلین
آپ کی شکایات

محفل، انتظامیہ اور محفلین کے بارے میں شکایات جن تک صرف محفل اسٹاف اور شکایت کنندہ کی رسائی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔
آن دی ریکارڈ موجود ہے۔۔ اس کو یہاں پیش کرنا محفل کی کون سی پالیسی کے مطابق ہے؟۔۔جب کہ یہ آپ کی شکایت میں یہ لکھا ہوا ہے کہ "محفل، انتظامیہ اور محفلین کے بارے میں شکایات جن تک صرف محفل اسٹاف اور شکایت کنندہ کی رسائی ہوگی۔"
ویسے یہاں پوسٹ کرنے سے مجھے پرابلم نہیں لیکن کیا محفل کے خود کے بنائے ہوئے پالیسی کے عین مطابق ہے؟
 

کاشفی

محفلین
محترم ، لڑی کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جب یہ لڑی شروع کی گئی تھی تب میں آن لائن نہیں تھا اگر ہوتا تو اسی وقت اس کا عنوان درست کر دیتا اور تدوین بھی۔ بہر حال میں نے آئن لائن ہوتے ہی اس کا نام تبدیل کیا تھا اور آپ کی رپورٹ بھی بعد میں دکھائی دی۔اب ایسا اعتراض اٹھانا نا مناسب ہے۔
یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ لڑی بننے کے فوراَ بعد شائع کیسے ہوگئی۔۔چھومنتر کرنے سے۔۔یا اپروف کرنے سے۔۔
اس پر اعتراض نہ کروں تو کیا یہ غیرمناسب ہے۔۔۔ میں نے ایک لڑی شروع کی ٹیسٹ کے طور پر۔۔اس میں لکھا ہوا ہے کہ اشاعت عام سے پہلے منظوری کا منتظر۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہر وہ مراسلہ جو موڈریشن کے کے تحت زمروں میں بھیجا جاتا ہے، مراسلہ نگار کو یہی پیغام ملتا ہے کہ اشاعت عام سے پہلے منظوری کا منتظر۔ یہ صرف آپ کے ساتھ نہیں ہوتا۔
 

کاشفی

محفلین
پھر وہی تاویلیں دینا شروع ہوگئے۔۔
میرا سوال یہ ہے کہ بغیر اپروف ہوئے لڑی کیسے پوسٹ ہوگئی۔۔۔۔یا اپروف ہو کر پوسٹ ہوئی تھی۔۔؟
خیر کچھ بھی ہوا صحیح نہیں ہوا۔۔اس لڑی سے بات بن نہیں سکتی۔۔بات خراب ہی ہوسکتی ہے۔۔
مع السلام
 
السلام علیکم!!

میں جانتا ہوں کہ میں جتنی کوشش کر لوں ان لوگوں کے دلوں میں پاکستانیوں کے لیے محبت پیدا نہیں کر سکتا اور اپنا لہو بہا کر بھی پاکستانیوں کے بارے میں موجود غلط فہمیاں دور نہیں کر سکتا، کیوں کہ غلط فہمیاں وہاں دور ہوتی ہیں جہاں فاصلے مٹانے کا عزم ہو اور قربتوں کا ولولہ ہو اور کچھ اپنے کیے پہ ندامت بھی ہو۔
آپ لوگوں کواس لڑی کا عنوان دیکھ کر سب سے پہلے تو مجھ پہ توہینِ رسالت کا الزام لگانا چاہیے تھا کہ میں نے حضرت آدم سے لیے کر سرورِ کائنات حضورﷺ تک کو مہاجر کہا معترضین کے ساتھ ملایا اور پھر تحقیری عنوان بھی جڑ دیا۔
میں یہاں پاکستانیوں کے بارے میں اور ان کے رویوں کے بارے میں برا لکھتا تو جو یہاں معترض ہیں وہ تالیاں بجا رہے ہوتے۔ جن کو یہ اعتراض ہے کہ میں نے کراچی اور حیدرآباد کی مجموعی آبادی پہ تنقید کی ہے تو وہ ایک بار پھر سے میری تحریر پڑھیں جہاں واضع طور پر صرف اس طبقے کے بارے میں لکھا گیا ہے جو نفاق کی ہٹ دھرمی پہ قائم ہے۔ شروع سے لے کر اب تک گروہ بندی میں الجھا رہا اور اپنے آپ کو بالکل الگ تھلگ رکھا۔ اور ان لوگوں کے بارے میں بھی نہیں جو ہجرت کے اصل دور میں یہاں آئے اس مٹی کے لیے آئے اور اس مٹی کے ہوگئے اورفخر سے پاکستانی کہلائے۔ نا کے بعد میں یہاں آنے اور پاکستان بننے پہ پچھتاوے کا اظہار کیا اور اسے تاریخی غلطی قرار دیا۔ اور ان لوگوں کے بارے میں بھی نہیں جو یہاں ہجرت سے پہلے کے موجود ہیں۔ یہ صرف ایک سوچ کے بارے میں لکھی گئی تحریر تھی جو تب سے آج تک وطن کے علاوہ کچھ پانے کی تگ و دو میں ہے جو اپنی حالت سدھارنے آئی تھی پھر کسی اور ہی طریقے سے ۔اور جوں جوں وقت بڑھتا جاتا ہے اس کے اضطراب میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور سوچ مزید گہنائی جا رہی ہے۔ اس سوچ کو سجھائی نہیں دے رہا کہ اس وطن نام کے ڈھکوسلے کو کس کے منہ پہ ماریں اور کسی اور سنہری منزل کی جانب بڑھیں۔ اس سوچ کو بالی ووڈ کا تابناک حال اور مستقبل احساسِ ندامت میں جکڑے ہوئے ہے۔ اس سوچ نے تو یہاں آ کر سونے کے پیالوں میں کھانا پینا تھا پر اس آئیسولیشن نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اس اضطراب اور بے چینی میں یہ سوچ کبھی دوستوں سے نفرت کرتی ہے، الزام دھرتی ہے ان پہ اپنی رسوائی کا۔خود ہی اپنے دشمن تعین کرتی ہے یہ سوچ اور کبھی دشمنوں سے مل جاتی ہے اور کبھی ان کو اپنا ہمنوا سمجھتی ہے۔ اور اُنہی کے ہاتھوں کھلونا بن کے اپنا بھی اور باقیوں کا بھی نقصان کرتی ہے صرف اور صرف کچھ پاتے رہنے کی لالچ میں کچھ ملتے رہنے کی آس میں اس کے دوست اور دشمن بدلتے رہتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ۔

تعصب پر مبنی تحریر کہنے والوں کی طرف سے جوابی تعصب تو ہوا اور اس دراڑ کو مزید بڑھانے کی کوشش تو کی گئی پر کسی تشنگی کا جواب نہیں آیا کہیں سے بھی۔ کوئی یہ نہیں بتا پایا کہ چلو پنجابی اور سندھی یہاں کے مقامی تھے وہ تو دور پر آپ سے کچھ پہلے ہجرت کر کے آنے والے آپ کے کیوں نہیں ہو سکے اور ان کے منہ میں زباں آپ کی زباں سے مختلف کیوں۔ اور ان سے بھی پہلے ہجرت کر کے آنے والے قدیم کراتشئینز یعنی کچھی، کاٹھیاواڑی، میمن، بوہری اور بلوچ وہ بھی آپ کےساتھ نہ ہو سکے۔ آپ کو ان سے بھی گلِے رہے۔
یہ کسی طور بھی نفرت انگیز نہیں تحریر نہیں تھی صرف جواب تھا کہ خدارا کچھ ہوش کے ناخن لو، عقل رکھتے ہیں عقل سے کام بھی لیں۔ آپ ایسا کیوں سمجھتے ہیں ایسا کیوں کہتے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ غلط ہوا ہے اس سے پہلے تو اب آگے ٹھیک کرنے کا عزم تو بھریں۔ کسی سے ساتھ چلنے کا کہیں تو۔ کسی کو اپنا مانیں تو۔

آپ کو دکھ کیوں ہوا مہاجرا پہ آپ تو پاکستانی ہیں، مہاجر تو افغانی بھی خود کو نہیں سمجھتے یہاں جنہوں نے کسی وقت بھی چلے جانا ہے۔ اور صرف 20، 25 سال سے ہیں یہاں۔ آپ کی تو تین نسلوں نے اس فضا میں سانس لے لیا۔ میرے بھائی لوگ دل والے تو کسی پرندے یا جانور کے ساتھ کچھ دور گزار لیں تو اس سے بھی محبت کر بیٹھتے ہیں اور اپنے دل سے نہیں نکال پاتے اسے اور اس کا برا نہیں چاہتے ہم تو انسان ہیں یار۔ میں تو ان لوگوں میں سے ہوں جو اپنا پرانا خراب پین بھی سنبھال کر رکھتے ہیں کہ اس نے اتنا ساتھ دیا اور پھینکتے ہوئے دکھ ہوتا ہے۔ آپ اور ہم تو انسان ہیں عقل رکھتے ہیں پرکھ کی سُوجھ رکھتے ہیں۔ پھر بھی اتنا الاؤ۔

کچھ اور باتیں بھی ہیں پر وہ ساتھ ساتھ جاری رکھوں گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
کچھ لوگوں نے "میں نہ مانوں" کی قسم کھا رکھی ہوتی ہے۔ کچھ بھی کر لیں وہ ظلم کرنے کے باوجود مظلوم ہی رہیں گے اور یہی چاہیں گے کہ ان کے ساتھ ہمدردی ہی کی جائے۔ جو وہ کہیں آمنا و صدقنا کہا جائے۔ ان کو ان کی غلطی کا احساس نہ دلایا جائے کہ وہ تو اوپر سے سب اچھا کی تقدیر لکھوا کر لائے ہیں۔ اندھیر نگری مچانے کے باوجود یہی ایک مخلص پاکستانی رہ گئے ہیں۔ باقی تو سب دشمن ہیں پاکستان کے۔

مثال مشہور ہے کہ سوئے ہوئے کو تو جگایا جا سکتا ہے لیکن جاگے ہوئے کو کوئی کیسے جگائے۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہی کر سکتے ہیں کہ پاکستان پر اپنا رحم فرمائے۔
 
اباجان کی سوانح ہم ’’فسانہِ آزاد‘‘ کے نام سے محفل پر پیش کرچکے ہیں۔ ہم نے تو آنکھ کھولی تو اس مہاجر کو دیکھا جس نے اپنی مرضی سے ہجرت کی، اسلام کے لیے ہجرت کی، نہ کلیم میں کوئی گھر لیا، نہ کوئی جائیداد بنائی۔ فی الحال ہم اپنے تاثرات بیان کرنے کے بجائے اس مہاجر کے تاثرات بیان کررہے ہیں۔

اباجان نے اپنی ہجرت اور اس وارداتِ قلبی سے کیا تاثر لیا اور اس کے اغراض و مقاصد ان کے ذہن میں کیا تھے ، نیز یہ کہ اپنی طرح دیگر مہاجرین کو دیکھ کر انھوں نے کیا سوچا یہ ان کے ایک مضمون سے واضح ہے جو انھوں نے مہاجروں کی قربانیوں اور حالتِ زار کو دیکھ کر لکھا۔ اس مضمون سے ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے۔​
” اسلام کے دورِ اول میں مکہ سے ترکِ وطن کرکے اپنا سب کچھ وہیں چھوڑ کر مدینہ آنے والے مسلمانوں کو اللہ نے قرآنِ پاک میں مہاجر فرمایا۔ اور مدینہ میں ان کی پذیرائی کرنے والے مسلمانوں کو انصار۔ اور پھر یہ بھی کہ حضور ﷺ نے ایک مہاجر اور ایک انصاری کو بھائی بھائی بنایا۔ اس طرح ہر انصاری نے اپنے مہاجر بھائی کی رہائش اور روزگار کا انتظام کرکے اس کی آباد کاری کردی۔​
قیامِ پاکستان کے بعد ہندوستان کے ہر علاقے سے جو مسلمان اپنا سب کچھ ترک کرکے پاکستان آئے وہ تو مہاجر کہلائے، لیکن یہاں کے مقامی باشندوں نے نہ تو انصار کا لقب اختیار کیا اور نہ انصار کی طرح اپنے کسی مہاجر بھائی کی آباد کاری کی۔ الا ماشاءاللہ​
پاکستان کے روزِ اول ہی سے انصار کا کردار ادا نہ کرنے کے باوجود ہمارے مولوی، ملا، سیاسی و مذہبی جماعتیں آج بھی یہی شور مچاتی ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ ان کے ذمے یہ جواب آج تک باقی ہے کہ جب مہاجر کا کردار ،ہندوستان میں سب کچھ چھوڑ کر ترکِ وطن کرکے آنے والوں نے ادا کیا تو پھر ان دعویداروں کے اسلام میں انصار کا کردار کیوں بھلا دیا گیا۔ اس کے باوجود ہندوستان سے آنے والے مہاجر یہاں آباد ہوئے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے۔​
مہاجرین نے پاکستان سے کیا لیا اور کیا دیا اس کا یہ مختصر سا خاکہ ہے۔مہاجرین اپنا وطن، اپنی جائدادیں ، کاروبار سب کچھ ہندوستان میں چھوڑآئے تھے۔ اس ترکِ وطن کو ہجرت کہا جاتا ہے۔ مہاجرین کو بہار، دہلی، حیدرآباد دکن میں قتلِ عام کا سامنا کرنا پڑا۔ حیدرآباد شہر کو چھوڑکر اضلاع و دیہات میں دولاکھ مسلمان قتل ہوئے۔ پنڈت نہرو نے مہاتما گاندھی کے شاگرد آچاریہ ونوبھاوے کو حالات کے سروے اور رپورٹ کے لیے بھیجا۔ مسلمان عورتوں نے دشمنوں سے اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کے لیے کنوﺅں میں چھلانگیں لگائیں۔آچاریہ ونوبھاوے کایہ بیان حیدرآباد دکن کے اخبارات کے ریکارڈ پر ہے کہ” پنڈت نہرو نے مجھے لاشیں گننے کاکام سونپا ہے۔“​
قتلِ عام سے بچ کر اور سب کچھ تیاگ کر مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا تھا، بہار میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے بعد پنجاب میں سکھوں اور ہندوﺅں پر حملے ہوئے ہیں۔ اور ان کے مکانات نظرآتش کیے گئے تھے۔ لیکن سرحد میں مسلح سرخپوشوں نے ان کی حفاظت کی ۔ اسی طرح سندھ میں بھی وہ محفوظ رہے اور پوری حفاظت سے سرحد پار پہنچے۔ بہار، دہلی اور حیدرآباد میں مسلمانوں کی حفاظت کسی ہندو سیاسی جماعت یا صوبے کے لوگوں نے نہ کی، اس لیے پریشان حال مسلمانوں نے پاکستان کا رخ کیا تھا۔​
۱۔ تقسیمِ ملک کے بعد پاکستان کے ہندو بڑی تعداد میں اور ہندوستان کے مسلمان اچھی خاصی تعداد میں ترکِ وطن کرکے ہندوستان اور پاکستان چلے گئے۔ یہ دوطرفہ ہجرت تاریخ میں انسانوں کی سب سے بڑی ہجرت اور ترکِ وطن تھا۔ پاکستان کے ہندو اپنا سب کچھ چھوڑ کر اور ہندوستان کے مسلمان اپنا سب کچھ چھوڑ کر ترکِ وطن کرگئے۔ پاکستان میں ہندووں کی چھوڑی ہوئی جائیدادیں ہندوستان سے آنے والے مسلمان مہاجرین کو ملیں ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی جائیدادیں پاکستان سے ترکِ وطن کرکے جانے والے ہندوﺅں کو ملیں۔ دونوں ملکوں سے جانے والے تارکینِ وطن نے ان کے نئے وطن کے باسیوں سے کچھ نہ لیا۔ اس طرح قانونی، آئینی اور مذہبی اعتبار سے وہ ان زمینوں اور جائیدادوں ، مکانوں کے مالک بن کر Son of the soilبن گئے۔ آج اس نسل کے پوتے پیدا ہوچکے ہیں ۔ یہ​
سب Sons of the soilہیں۔​
۲۔ قیامِ پاکستان کا سب سے بڑا اور فوری فائدہ سندھ ، پنجاب، سرحد اور بلوچستان کو ہوا، جہاں اس سے قبل تجارت پر ، خواہ وہ تھوک تجارت ہو یا خوردہ فروشی، ہندوﺅں اور سکھوں کا مکمل قبضہ تھا۔ ان کے چلے جانے سے سرحد، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے مسلمان اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہندو بنیوں کے چنگل سے آزاد ہوئے، اور خود تجارت میں آئے۔ان کے لیے ذرائع روزگار میں وسعت پیدا ہوئی اور معاشی فائدے حاصل ہوئے۔​
۳۔ کراچی سے ہندوﺅں کا انخلاءپورے ملک کی درآمدی و برآمدی تجارت پر اثر انداز ہوا۔ لیکن بمبئی ، گجرات، کاٹھیاواڑ سے ترکِ وطن کرکے آنے والی گجراتی اور میمن برادری نے تجارت کے اپنے تجربے سے اس خلاءکو پر کیا اور تجارت کو سنبھال لیا۔​
۴۔ مشرقی پنجاب سے ترکِ وطن کرکے آنے والے مہاجرین خون کے دریا عبور کرکے آئے تھے، ان میں پنجابی اور اردو بولنے والے اضلاع کے لوگ شامل تھے۔ ان لوگوں نے ہندوستان میں اپنی چھوڑی ہوئی زرعی اراضی کے بدلے پاکستان میں سکھوں اور ہندوﺅں کی چھوڑی ہوئی اراضی کو سندھ اور پنجاب میں گل ِ گلزار بنادیا۔ اور چند برس میں پنجاب و سندھ اناج ، غلہ، سبزی و ترکاری کے ساتھ ساتھ، کیلے، پپیتے، اور آم جیسے مشہور پھلوں میں بھارت کے مد مقابل بن گئے۔​
۵۔ جن علاقوں پر مشتمل پاکستان قائم ہوا، وہاں صنعتیں برائے نام تھیں۔ یہاں کی کپاس، بمبئی، پونا، شولہ پور، احمد آباد ، جلگاﺅں ، اندور، اور سورت جاتی اور وہاں پارچہ بافی کے کارخانوں میں استعمال میں آتی۔ کانپور ہندوستان بھر میں چمڑے کی صنعت کا مرکز تھا۔ بہرحال دہلی۔ آگرہ، مراد آباد ، میرٹھ وغیرہ دوسرے صنعتی شہروں سے لاکھوں مسلمان کاریگرترکِ وطن کرکے پاکستان آئے۔​
ان مہاجرین میں صنعت کار، بینکار، مینجر، آڈیٹر، اکاﺅنٹنٹ، ڈاکٹر، کمپاﺅنڈر، انجینئر، میکانک، تاجر ہر قسم کے کاریگر اور Skilled workerپاکستان آئے۔ اور چار پانچ برس میں پاکستان پارچہ بافی کی صنعت میں بھارت کا مد مقابل بن گیا۔ مہاجر کاریگر ، صنعت کار اور بینک کار پاکستان کی بقا کے لیے اثاثہ ثابت ہوئے۔ غیر ملکی ماہرین کی رپورٹوں اس کا اعتراف موجود ہے کہ پاکستان میں صنعتی ترقی کے لیے یہاں کے صنعت کار وں کو تربیت یافتہ عملہ مہاجرین کی شکل میں ملا۔ یہ اثاثہ فراہم نہ ہوتاتو اتنی صنعتی ترقی کے لیے پچیس سال اور عملہ کی تربیت کے لیے اربوں روپے درکار ہوتے، کیوں کہ کیونکہ مقامی مسلمان ان فنون سے ناواقفِ محض تھے۔​
۶۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمان انجینئر ، کاریگر وغیرہ سب کو اس وقت کی بین الاقوامی اجرتوں کے معیار سے بہت کم اجرتیں دی گئیں۔ اور اگر مہاجر نہ آتے اور صنعتی ترقی کے لیے باہر سے ماہرین اور کاریگروں کو ایک خاص مدت کے لیے بلایا جاتااور مہاجرین کو دی جانے والی اجرتوں سے دس گنا زیادہ اجرتیں دینی پڑتیں۔ ملک کی ترقی کی خاطر کم اجرتیں قبول کرکے ملک کو فائدہ مہاجرین نے پہنچایا۔​
۷۔ سرکاری طور پر آپشن Optionکرکے پاکستان آنے والوں میں سکریٹری، پولیس، فوج، اعلیٰ تعلیمی اداروں کے عہدیدار ، مرکزی حکومت کے دفاتر میں کام کرنے والے سب نے انتظامیہ میں اپنی قابلیت کی بناءپر جگہ پائی۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو سنبھالا۔ قیامِ پاکستان سے قبل اس علاقے میں صرف دو یونیورسٹیاں تھیں، سندھ یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی، جن میں ہندو اساتذہ اور طلباءکی تعداد ہرگز مسلمانوں سے کم نہ تھی۔ ہندو پروفیسروں کے ترکِ وطن سے جو خلاءپیدا ہوا، وہ مہاجر پروفیسروں نے پر کیا۔ اور فوراً بعد کراچی یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے تدریسی عملے اور انتظامی عملے کی فراہمی مہاجر تربیت یافتہ افراد سے ہوئی۔ اور پاکستان تعلیمی ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔​
۸۔ مہاجرین کی مسلسل آمد اور کراچی کی آبادی میں بے تحاشا اضافے کے سبب ابتدائی مدارس ، ہائی اسکول اور کالجوں کا قیام محض سرکاری خزانے سے ناممکن تھا۔ مہا جر ما ہرینِ تعلیم اور اہلِ خیر حضرات کے مالی تعاون سے پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں کا قیام عمل میں آیا۔ جن میں سے چند یہ ہیں۔ جامعہ ملیہ کالج، اردو کالج، عبداللہ کالج، جناح کالج، ریاض کالج، پریمئر کالج، اقبال کالج، سرسید کالج، دہلی کالج، آدم جی سائنس کالج، عایشہ باوانی کالج، داﺅد کالج، لیاقت کالج، نبی باغ کالج وغیرہ۔ ایک مقامی مخیر لیڈر قریشی نے اسلامیہ کالج قائم کیا۔ اس طرح مہاجرین نے اپنی تعلیمی ضروریات کو بڑی حد تک خود ہی پورا کیا ہے۔ ان تمام کالجوں میں مہاجر، سندھی، بلوچ، پنجابی اور پٹھان طلباءنے تعلیم حاصل کی اور آج تک کررہے ہیں۔​
۹۔ قائدِ ملت شہید لیاقت علی خان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان نے خواتین کا ادارہ اپوا قائم کرکے سینکڑوں پرائمری، مڈل، ہائی اسکول اور اپوا کالج قائم کرکے کراچی میں پرائمری تعلیم اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے ادارے قائم کرکے غریب والدین کے بچوں کو تعلیم کی سہولت فراہم کی۔ اور دنیا بھر میں اپنی قسم کی واحد سماجی تنظیم ہونے کا عالمی اعزاز حاصل کیا۔ ان کے قائم کردہ اسکولوں میں ہر قسم کے بچوں اور بچیوں نے تعلیم حاصل کی اور ترقی کی۔​
۰۱۔ اہلِ ملک کو قیامِ پاکستان کی تاریخ کا یہ واقعہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان کی ریلوے کا تمام عملہ جو ہندوﺅں پر مشتمل تھا، ترکِ وطن کرکے ہندوستان چلا گیا۔ مشرقی پاکستان میں ریلوے کی آمد و رفت کو بحال کرنے کے لیے بہار سے ریلوے کا مسلمان عملہ ترکِ وطن کرکے وہاں پہنچا اور ریلوے کی آمدو رفت کے نظام کو بحال کردیا۔​
۱۱۔ اہلِ ملک ایک اور حقیقت کو یاد رکھیں کہ جنگِ عظیم دوم کے زمانے میں جنگِ جاپان میں اسلحہ کی فراہمی کے لیے انگریزوں نے جبل پور میں برین گن فیکٹری قائم کی تھی۔ جہاں اسلحہ سازی ہوتی تھی۔ اور حسنِ اتفاق ہی تھا کہ ماہرین اور کاریگروں میں اکثریت بہاری مسلمانوں کی تھی۔ یہ مسلمان ترکِ وطن کرکے پاکستان آگئے۔ تاآنکہ واہ کینٹ میں پاکستان کی اسلحہ سازی کی فیکٹری قائم ہوئی اور انہی بہاری ماہرین اور کاریگروں نے اسے اپنے تجربے سے چلایا۔ اس طرح پاکستان میں افواج کے لیے اسلحہ سازی کی بنیاد مہاجروں نے رکھی ہے۔​
۱۲۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد جب ہندوستان نے پاکستان کے حصے کے ۵۸ کروڑروپے ادا کرنے سے انکار کردیا۔ اس آڑے وقت میں نظام حیدرآباد میر عثمان علی خان ہی کام آئے جنھوں نے ۰۲ کروڑ روپے کی خطیر رقم پاکستان کو ادا کی۔ پاکستان کے اسٹیٹ بنک کے افتتاح کے موقعے پر قائدِ اعظم کی موجودگی میں سونے کی اینٹوں کا خطیر ذخیرہ صحافیوں کو دکھایا گیا۔ یہ بھی حیدرآباد ریاست نے فراہم کیا تھا۔ اور جنگ کے زمانے میں ایک ارب کا چندہ ریاست حیدرآباد نے برٹش گورنمنٹ کودیا تھا۔جس سے اس نے نظام اسکواڈرن قائم کیا تھا۔ اس​
اسکواڈرن نے برلن پر بمباری میں حصہ لے کر شہرت پائی تھی۔ اسکی پاکستان آمد سے ابتدائی ایام میں پاکستان کی فضائی افواج کی بنیاد رکھی گئی۔​
۱۳۔ پاکستان ہی کے ایک سائنس دان کو نوبل انعام ملا۔ اس سائنس دان نے یورپ کی پر آسائش زندگی کو ترجیح دی۔ اسکے برعکس مہاجر سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان میں ایٹمی قوت کی ترقی کی خاطر یورپ کی اعلیٰ تنخواہ اور آسائشوں کو ترک کرکے پاکستان میں کام کررہے ہیں۔ اس شخص کا احسان پاکستان کبھی نہیں بھول سکتا۔​
۱۴۔ کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کی طبی اور سماجی خدمات سرکاری اداروں کے بس سے باہر تھیں۔ کتنی ہی میمن انجمنوں نے میٹرنٹی ہوم قائم کیے۔ پنجابی سوداگرانِ دہلی نے لیبارٹریاں بنائیں اور سستے داموں غریب عوام کو علاج فراہم کیا۔ اور آج بھی بلا تخصیصِ مذہب و ملت و قوم، یہ میٹرنٹی ہوم اور لیبارٹریاں خدمات انجام دے رہی ہیں۔​
۱۵۔ پاکستان نے ہندوستان سے ترکِ وطن کرکے آنے والے مہاجرین کو پناہ دی۔ اس احسان کا بدلہ مہاجرین نے اپنی مندرجہ بالا خدمات کے احسان سے دیا۔​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top