یہ ماجرا کیا ہے؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
خلیل بھائی لگتا ہے ابھی آپ کا مراسلہ مکمل نہیں ہوا۔

وہ جو اصل مہاجر تھے (جن میں میرا خاندان بھی شامل ہے) اپنے آپ کو مہاجر نہیں کہتے۔ ٹھیک ہے ہمارے آبا و اجداد نے ہجرت کی تھی لیکن ہم تو پاکستان میں پیدا ہوے، پاکستان میں پلے بڑھے، ہم تو اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں اور پاکستانی ہی رہیں گے۔
 
شمشاد بھائی۔ ہم نے ابھی صرف اباجان کے مضمون سے اقتباسات پیش کیے ہیں۔ اپنا مراسلہ لکھنے کا کا ارادہ تو ضرور ہے لیکن اس کے لیے وقت درکار ہوگا۔ دراصل پاکستانی اور مہاجر دو متضاد باتیں نہیں ہیں۔ اسی طرح جیسے مکے کے مسلمان مدینہ ہجرت کے بعد مہاجر کہلائے اور یہی ان کی پہچان رہی، گو فتح مکہ کے بعد وہ واپس مکہ نہیں چلے گئے۔

خلافت کا معاملہ اٹھا تو مہاجر اپنی علیحدہ شناخت کے ساتھ خلافت کے دعوے دار بنے، قطع نظر اسکے کہ انصار نے بھائی چارے کی وہ مثال قائم کہ جس پر دنیا آج بھی دنگ ہے۔لیکن اس بھائی چارے کو آپ مہاجرین کے اس حق اور دعوے کے جواب میں پیش نہیں کرسکتے۔اللہ کے رسول اور ان کے اصحاب نے مدینے میں دفن ہونے کو ترجیح دی لیکن مہاجر ہی کہلائے۔

اپنی شناخت کو برقرار رکھنا تعصب نہیں بلکہ عصبیہ کہلا سکتا ہے۔ کیا پاکستانی جو امریکہ یا یورپ یا کسی اور تہذیب کی طرف گئے، انھوں نے وہاں اس تہذیب کو من و عن اپنا لیا یا آج بھی نہ صرف مسلمان بلکہ پاکستانی کہلاتے ہیں۔

آپ اس نام کو تعصب یا پاکستان دشمنی نہ سمجھیں، بلکہ اسے ایک تہذیبی شناخت سمجھیں۔ ملک کے دیگر علاقوں میں جو لٹے پٹے مسلمان مہاجر پہنچے وہ تعداد میں اس قدر کم تھے کہ وہ ان علاقوں میں ضم ہوگئے۔ پنجاب میں جو مسلمان پہنچے وہ زیادہ تر اسی کلچر سے تعلق رکھنے کی بناء پر اس علاقے کی تہذیب میں ضم ہوئے۔



کراچی و حیدرآباد میں ایک بہت بڑی تعداد مسمان مہاجرین کی پہنچی جو اس علاقے کے پرانے مکینوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یہاں پر اپنی ایک علیحدہ شناخت کے ساتھ رہے، اور آج تک ہیں۔ انتی بڑی تعداد کا اپنے علاقے میں اپنے سے کم اقلیت کی تہذیب کو اختیار کرلینا کسی طور پر ممکن نہیں۔ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔
 

ساجد

محفلین
دیکھئے جناب یہاں بات اپنی شناخت ظاہر کرنے پر نہیں بگڑی اور نہ ہی اس بات پر کہ کوئی اپنی شناخت کیا رکھتا ہے ۔ یہاں معاملہ بگڑا ہے گروہی اور لسانی تعصب کے مظاہرے سے۔ اگر میں یہ بات کہنے کا حوصلہ رکھتا ہوں تو میرا خیال ہے کہ آپ سب لوگ مجھ سے زیادہ سیاسی و مجلسی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں اور یقینا پچھلے کچھ عرصہ سے مسلسل لکھے جانے والی گروہی رنگ میں رنگی تحریریں بھی پڑھتے رہے ہوں گے اور صاحب تحریر کو میری طرف سے اس اسلوب پر بار بار کی گئی تنبیہہ بھی نظروں سے گزرتی رہی ہو گی جن میں یہ کہا گیا تھا کہ کسی کی طرف سے بھی ان باتوں کا رد عمل شدید ہو سکتا ہے( کیونکہ صاحبِ تحریر صرف اپنے گروہ کے علاوہ سبھی کو لتاڑتے جا رہے تھے)اور تب صاحب تحریر اسے برداشت نہیں کر سکیں گے۔ آپ نے اپنی صلاحیتوں کو اس وقت بروئے کار لاکر اس تعصب بازی کو روکنے کی کوشش کی ہوتی جب میں یہ کوشش کر رہا تھا تو شاید اب ہم میں سے کسی کو بھی توجیہات وتوضیحات میں پڑنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
کہنے کو جو مرضی کہتے جائیں۔ میں تو یہ کہوں گا یہ پاکستان کی قومی اسمبلی نہیں اردو محفل ہے ۔ یہاں مبالغے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو غلط ہے اس کو غلط کہیں تا کہ آئندہ کے لئے ایک اچھی مثال قائم ہو۔
 
فیس بُک پر آجکل یہ ویڈیو گردش میں ہے۔

کچھ اراکین محفل کو ضرور بر ضرور یہ ویڈیو دیکھنی چاہیے۔

ایم کیو ایم مہاجروں کی نمائندہ جماعت نہیں۔ یہ جماعت خود کہتی ہے کہ وہ متحدہ کی نمائندہ ہے
مہاجر اور پاکستان ایک ہی بات ہے۔ مہاجروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرکے لوگ دراصل بنیاد پاکستان کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہین
بدقسمتی سے سندھ میں مہاجروں کو معاشی اور نسلی قتل کا سامنا ہے اور پاکستان کے دشمن انھیں ایک سسٹامیٹک طریقہ سے تباہ حال کرنا چاہتے ہیں۔
یہ پاکستان کو توڑنے کی سازش ہے۔ حال ہی میں سماجی کارکن اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر کا قتل اس بات کا ثبوت ہے کہ دشمن مہاجروں کو دیوار سے لگانا چاہتا ہے۔
 

کاشفی

محفلین
فیس بُک پر آجکل یہ ویڈیو گردش میں ہے۔

کچھ اراکین محفل کو ضرور بر ضرور یہ ویڈیو دیکھنی چاہیے۔
محترم ذرا وہ وڈیوز بھی شائع کردیں جس میں ایک دیگر قومیں مہاجروں کو کیا کہتی ہیں ۔۔۔بھلا ہوگا۔۔
اور حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔۔
اگر آپ نہیں کرسکتے تو میں کروں کیا وہ شیئر۔۔اپروول مل جائے گی؟
دراصل یہاں بھی حقیقت کھل گئی ہے مہاجروں کے لیئے کیسی سوچیں رکھتی ہیں دیگر قومیں۔۔۔
 

کاشفی

محفلین
دیکھئے جناب یہاں بات اپنی شناخت ظاہر کرنے پر نہیں بگڑی اور نہ ہی اس بات پر کہ کوئی اپنی شناخت کیا رکھتا ہے ۔ یہاں معاملہ بگڑا ہے گروہی اور لسانی تعصب کے مظاہرے سے۔ اگر میں یہ بات کہنے کا حوصلہ رکھتا ہوں تو میرا خیال ہے کہ آپ سب لوگ مجھ سے زیادہ سیاسی و مجلسی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں اور یقینا پچھلے کچھ عرصہ سے مسلسل لکھے جانے والی گروہی رنگ میں رنگی تحریریں بھی پڑھتے رہے ہوں گے اور صاحب تحریر کو میری طرف سے اس اسلوب پر بار بار کی گئی تنبیہہ بھی نظروں سے گزرتی رہی ہو گی جن میں یہ کہا گیا تھا کہ کسی کی طرف سے بھی ان باتوں کا رد عمل شدید ہو سکتا ہے( کیونکہ صاحبِ تحریر صرف اپنے گروہ کے علاوہ سبھی کو لتاڑتے جا رہے تھے)اور تب صاحب تحریر اسے برداشت نہیں کر سکیں گے۔ آپ نے اپنی صلاحیتوں کو اس وقت بروئے کار لاکر اس تعصب بازی کو روکنے کی کوشش کی ہوتی جب میں یہ کوشش کر رہا تھا تو شاید اب ہم میں سے کسی کو بھی توجیہات وتوضیحات میں پڑنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
کہنے کو جو مرضی کہتے جائیں۔ میں تو یہ کہوں گا یہ پاکستان کی قومی اسمبلی نہیں اردو محفل ہے ۔ یہاں مبالغے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو غلط ہے اس کو غلط کہیں تا کہ آئندہ کے لئے ایک اچھی مثال قائم ہو۔
یہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں جو غلط ہے اس کو غلط کہا جائے۔یہ اردو محفل ہے اور اس میں سب اراکین برابر ہیں۔۔
یہ قومی اسمبلی نہیں جس میں ایک صوبے کی اکثریت ہو۔۔۔اور وہ آبادی کی بنیاد پر دوسروں کے حقوق ضبط کرلے۔۔۔
یہ اردو محفل ہے اس لیئے یہاں تمام قومیں برابر ہیں۔۔اس میں نہ ہی پاکستان کی اجاراداری ہے اور نہ کسی اور ملک کی۔۔
اس ہر ایک کو کچھ کہنے کا حق حاصل ہے۔۔اور اس حق کو دبانا جائز بھی نہیں۔۔۔
لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ ان تمام لڑیوں کو اپروول مل جاتی ہے جس میں مہاجروں کے خلاف بغض نکالا جائے۔۔
مثال یہ نامعلوم لوگ۔۔
یہ مہاجرا کیا ہے؟
وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ جب اس طرح کی لڑیاں بنائی جائیں گی تو ظاہر سی بات ہے اسی طرح کے جوابات بھی آئیں گے۔
۔ایک بندے نے تعصب کی بنیاد پر یہ مہاجرا کیا ہے؟ ایک لڑی بنائی اور اس کی اپروول بھی مل گئی۔۔ وہ کیسے۔۔اگر اپروول بھی دینی تھی تو ترمیم کے ساتھ اجازت دی جاتی۔۔۔لیکن چونکہ معاملہ کچھ اور ہے کہ سب اچھے اور مہاجر گندے۔۔یہی بات ہے۔۔۔
اور انہی باتوں کی وجہ کر بہت کچھ ہونے جارہا ہے اس ملک میں ۔۔ جس کو نہ تو میں روک سکتا ہوں اور نہ آپ۔۔۔
 

زرقا مفتی

محفلین
شمشاد بھائی۔ ہم نے ابھی صرف اباجان کے مضمون سے اقتباسات پیش کیے ہیں۔ اپنا مراسلہ لکھنے کا کا ارادہ تو ضرور ہے لیکن اس کے لیے وقت درکار ہوگا۔ دراصل پاکستانی اور مہاجر دو متضاد باتیں نہیں ہیں۔ اسی طرح جیسے مکے کے مسلمان مدینہ ہجرت کے بعد مہاجر کہلائے اور یہی ان کی پہچان رہی، گو فتح مکہ کے بعد وہ واپس مکہ نہیں چلے گئے۔

خلافت کا معاملہ اٹھا تو مہاجر اپنی علیحدہ شناخت کے ساتھ خلافت کے دعوے دار بنے، قطع نظر اسکے کہ انصار نے بھائی چارے کی وہ مثال قائم کہ جس پر دنیا آج بھی دنگ ہے۔لیکن اس بھائی چارے کو آپ مہاجرین کے اس حق اور دعوے کے جواب میں پیش نہیں کرسکتے۔اللہ کے رسول اور ان کے اصحاب نے مدینے میں دفن ہونے کو ترجیح دی لیکن مہاجر ہی کہلائے۔

اپنی شناخت کو برقرار رکھنا تعصب نہیں بلکہ عصبیہ کہلا سکتا ہے۔ کیا پاکستانی جو امریکہ یا یورپ یا کسی اور تہذیب کی طرف گئے، انھوں نے وہاں اس تہذیب کو من و عن اپنا لیا یا آج بھی نہ صرف مسلمان بلکہ پاکستانی کہلاتے ہیں۔

آپ اس نام کو تعصب یا پاکستان دشمنی نہ سمجھیں، بلکہ اسے ایک تہذیبی شناخت سمجھیں۔ ملک کے دیگر علاقوں میں جو لٹے پٹے مسلمان مہاجر پہنچے وہ تعداد میں اس قدر کم تھے کہ وہ ان علاقوں میں ضم ہوگئے۔ پنجاب میں جو مسلمان پہنچے وہ زیادہ تر اسی کلچر سے تعلق رکھنے کی بناء پر اس علاقے کی تہذیب میں ضم ہوئے۔



کراچی و حیدرآباد میں ایک بہت بڑی تعداد مسمان مہاجرین کی پہنچی جو اس علاقے کے پرانے مکینوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یہاں پر اپنی ایک علیحدہ شناخت کے ساتھ رہے، اور آج تک ہیں۔ انتی بڑی تعداد کا اپنے علاقے میں اپنے سے کم اقلیت کی تہذیب کو اختیار کرلینا کسی طور پر ممکن نہیں۔ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔
خلیل صاحب کوئی پاکستانی اگر امریکہ کی شہریت لیتا ہے تو اُسے پاکستانی نژاد امریکی کہا اور لکھا جاتا ہے۔ میں نے بارہا یہ بات کی کہ اصلی نظریاتی پاکستانی تو وہ ہیں جو ہجرت کر کے آئے۔ وہ اپنے نام یا قومیت کو پاکستانی کیوں نہیں لکھتے۔
آپ کے والد صاحب نے لکھا کہ مہاجرین نے اپنی مدد آپ کے تحت پاکستان میں زندگی کے اسباب پیدا کئے اور مقامی لوگوں نے انصار کا کردار ادا نہیں کیا۔
مدینہ کے انصاریوں نے مہاجرین کو اپنے گھروں میں جگہ دی اُن کے ساتھ اپنا اسباب بانٹا اور روزگار میں مدد کی۔ پاکستان میں مقامی لوگوں کو اپنے گھر دینے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ پہلے ہی ان کے لئے خالی گھر موجود تھے ۔ آپ کے مراسلے سے ہی ظاہر ہوا کہ مقامی لوگوں نے یا پاکستان کی حکومت نے بلا تخصیص ہجرت کرکے آنے والوں کو روزگار مہیا کیا۔ رہی اسباب کی بات تو ہمارے معاشرے میں کوئی نیا ہمسایہ بھی آ جائے تو اُسے ضرورت کی اشیاء گراہم کرتے ہیں یہ نا ممکن ہے کہ مقامی رہائشیوں نے اُنکی مد نہ کی۔
ہم ترکِ وطن کر کے آنے والے پاکستانیوں کی دل و جان سے قدر کرتے ہیں اُن کی نسلیں جو یہاں پیدا ہوئیں اُنہیں اپنے جیسا پاکستانی سمجھتے ہیں۔
پاکستان جتنا ہمارا ہے اُتنا ہی اُن کا بھی ہے ۔
ماضی میں اگر سندھ میں کوئی امتیاز برتا گیا تو اب متحدہ پچھلے کئی سالوں سے بات منوانے کی طاقت رکھتی ہے ۔ اگر اب بھی کوئی امتیاز ہے تو اُسے دور کروائے ورنہ ہم یہی سمجھیں گے کہ یہ امتیاز وہ خود برقرار رکھنا چاہتی ہے تاکہ سیاست کر سکے۔
 
اباجان کی سوانح ہم ’’فسانہِ آزاد‘‘ کے نام سے محفل پر پیش کرچکے ہیں۔ ہم نے تو آنکھ کھولی تو اس مہاجر کو دیکھا جس نے اپنی مرضی سے ہجرت کی، اسلام کے لیے ہجرت کی، نہ کلیم میں کوئی گھر لیا، نہ کوئی جائیداد بنائی۔ فی الحال ہم اپنے تاثرات بیان کرنے کے بجائے اس مہاجر کے تاثرات بیان کررہے ہیں۔

اباجان نے اپنی ہجرت اور اس وارداتِ قلبی سے کیا تاثر لیا اور اس کے اغراض و مقاصد ان کے ذہن میں کیا تھے ، نیز یہ کہ اپنی طرح دیگر مہاجرین کو دیکھ کر انھوں نے کیا سوچا یہ ان کے ایک مضمون سے واضح ہے جو انھوں نے مہاجروں کی قربانیوں اور حالتِ زار کو دیکھ کر لکھا۔ اس مضمون سے ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے۔​
” اسلام کے دورِ اول میں مکہ سے ترکِ وطن کرکے اپنا سب کچھ وہیں چھوڑ کر مدینہ آنے والے مسلمانوں کو اللہ نے قرآنِ پاک میں مہاجر فرمایا۔ اور مدینہ میں ان کی پذیرائی کرنے والے مسلمانوں کو انصار۔ اور پھر یہ بھی کہ حضور ﷺ نے ایک مہاجر اور ایک انصاری کو بھائی بھائی بنایا۔ اس طرح ہر انصاری نے اپنے مہاجر بھائی کی رہائش اور روزگار کا انتظام کرکے اس کی آباد کاری کردی۔​
قیامِ پاکستان کے بعد ہندوستان کے ہر علاقے سے جو مسلمان اپنا سب کچھ ترک کرکے پاکستان آئے وہ تو مہاجر کہلائے، لیکن یہاں کے مقامی باشندوں نے نہ تو انصار کا لقب اختیار کیا اور نہ انصار کی طرح اپنے کسی مہاجر بھائی کی آباد کاری کی۔ الا ماشاءاللہ​
پاکستان کے روزِ اول ہی سے انصار کا کردار ادا نہ کرنے کے باوجود ہمارے مولوی، ملا، سیاسی و مذہبی جماعتیں آج بھی یہی شور مچاتی ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ ان کے ذمے یہ جواب آج تک باقی ہے کہ جب مہاجر کا کردار ،ہندوستان میں سب کچھ چھوڑ کر ترکِ وطن کرکے آنے والوں نے ادا کیا تو پھر ان دعویداروں کے اسلام میں انصار کا کردار کیوں بھلا دیا گیا۔ اس کے باوجود ہندوستان سے آنے والے مہاجر یہاں آباد ہوئے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے۔​
مہاجرین نے پاکستان سے کیا لیا اور کیا دیا اس کا یہ مختصر سا خاکہ ہے۔مہاجرین اپنا وطن، اپنی جائدادیں ، کاروبار سب کچھ ہندوستان میں چھوڑآئے تھے۔ اس ترکِ وطن کو ہجرت کہا جاتا ہے۔ مہاجرین کو بہار، دہلی، حیدرآباد دکن میں قتلِ عام کا سامنا کرنا پڑا۔ حیدرآباد شہر کو چھوڑکر اضلاع و دیہات میں دولاکھ مسلمان قتل ہوئے۔ پنڈت نہرو نے مہاتما گاندھی کے شاگرد آچاریہ ونوبھاوے کو حالات کے سروے اور رپورٹ کے لیے بھیجا۔ مسلمان عورتوں نے دشمنوں سے اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کے لیے کنوﺅں میں چھلانگیں لگائیں۔آچاریہ ونوبھاوے کایہ بیان حیدرآباد دکن کے اخبارات کے ریکارڈ پر ہے کہ” پنڈت نہرو نے مجھے لاشیں گننے کاکام سونپا ہے۔“​
قتلِ عام سے بچ کر اور سب کچھ تیاگ کر مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا تھا، بہار میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے بعد پنجاب میں سکھوں اور ہندوﺅں پر حملے ہوئے ہیں۔ اور ان کے مکانات نظرآتش کیے گئے تھے۔ لیکن سرحد میں مسلح سرخپوشوں نے ان کی حفاظت کی ۔ اسی طرح سندھ میں بھی وہ محفوظ رہے اور پوری حفاظت سے سرحد پار پہنچے۔ بہار، دہلی اور حیدرآباد میں مسلمانوں کی حفاظت کسی ہندو سیاسی جماعت یا صوبے کے لوگوں نے نہ کی، اس لیے پریشان حال مسلمانوں نے پاکستان کا رخ کیا تھا۔​
۱۔ تقسیمِ ملک کے بعد پاکستان کے ہندو بڑی تعداد میں اور ہندوستان کے مسلمان اچھی خاصی تعداد میں ترکِ وطن کرکے ہندوستان اور پاکستان چلے گئے۔ یہ دوطرفہ ہجرت تاریخ میں انسانوں کی سب سے بڑی ہجرت اور ترکِ وطن تھا۔ پاکستان کے ہندو اپنا سب کچھ چھوڑ کر اور ہندوستان کے مسلمان اپنا سب کچھ چھوڑ کر ترکِ وطن کرگئے۔ پاکستان میں ہندووں کی چھوڑی ہوئی جائیدادیں ہندوستان سے آنے والے مسلمان مہاجرین کو ملیں ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی جائیدادیں پاکستان سے ترکِ وطن کرکے جانے والے ہندوﺅں کو ملیں۔ دونوں ملکوں سے جانے والے تارکینِ وطن نے ان کے نئے وطن کے باسیوں سے کچھ نہ لیا۔ اس طرح قانونی، آئینی اور مذہبی اعتبار سے وہ ان زمینوں اور جائیدادوں ، مکانوں کے مالک بن کر Son of the soilبن گئے۔ آج اس نسل کے پوتے پیدا ہوچکے ہیں ۔ یہ​
سب Sons of the soilہیں۔​
۲۔ قیامِ پاکستان کا سب سے بڑا اور فوری فائدہ سندھ ، پنجاب، سرحد اور بلوچستان کو ہوا، جہاں اس سے قبل تجارت پر ، خواہ وہ تھوک تجارت ہو یا خوردہ فروشی، ہندوﺅں اور سکھوں کا مکمل قبضہ تھا۔ ان کے چلے جانے سے سرحد، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے مسلمان اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہندو بنیوں کے چنگل سے آزاد ہوئے، اور خود تجارت میں آئے۔ان کے لیے ذرائع روزگار میں وسعت پیدا ہوئی اور معاشی فائدے حاصل ہوئے۔​
۳۔ کراچی سے ہندوﺅں کا انخلاءپورے ملک کی درآمدی و برآمدی تجارت پر اثر انداز ہوا۔ لیکن بمبئی ، گجرات، کاٹھیاواڑ سے ترکِ وطن کرکے آنے والی گجراتی اور میمن برادری نے تجارت کے اپنے تجربے سے اس خلاءکو پر کیا اور تجارت کو سنبھال لیا۔​
۴۔ مشرقی پنجاب سے ترکِ وطن کرکے آنے والے مہاجرین خون کے دریا عبور کرکے آئے تھے، ان میں پنجابی اور اردو بولنے والے اضلاع کے لوگ شامل تھے۔ ان لوگوں نے ہندوستان میں اپنی چھوڑی ہوئی زرعی اراضی کے بدلے پاکستان میں سکھوں اور ہندوﺅں کی چھوڑی ہوئی اراضی کو سندھ اور پنجاب میں گل ِ گلزار بنادیا۔ اور چند برس میں پنجاب و سندھ اناج ، غلہ، سبزی و ترکاری کے ساتھ ساتھ، کیلے، پپیتے، اور آم جیسے مشہور پھلوں میں بھارت کے مد مقابل بن گئے۔​
۵۔ جن علاقوں پر مشتمل پاکستان قائم ہوا، وہاں صنعتیں برائے نام تھیں۔ یہاں کی کپاس، بمبئی، پونا، شولہ پور، احمد آباد ، جلگاﺅں ، اندور، اور سورت جاتی اور وہاں پارچہ بافی کے کارخانوں میں استعمال میں آتی۔ کانپور ہندوستان بھر میں چمڑے کی صنعت کا مرکز تھا۔ بہرحال دہلی۔ آگرہ، مراد آباد ، میرٹھ وغیرہ دوسرے صنعتی شہروں سے لاکھوں مسلمان کاریگرترکِ وطن کرکے پاکستان آئے۔​
ان مہاجرین میں صنعت کار، بینکار، مینجر، آڈیٹر، اکاﺅنٹنٹ، ڈاکٹر، کمپاﺅنڈر، انجینئر، میکانک، تاجر ہر قسم کے کاریگر اور Skilled workerپاکستان آئے۔ اور چار پانچ برس میں پاکستان پارچہ بافی کی صنعت میں بھارت کا مد مقابل بن گیا۔ مہاجر کاریگر ، صنعت کار اور بینک کار پاکستان کی بقا کے لیے اثاثہ ثابت ہوئے۔ غیر ملکی ماہرین کی رپورٹوں اس کا اعتراف موجود ہے کہ پاکستان میں صنعتی ترقی کے لیے یہاں کے صنعت کار وں کو تربیت یافتہ عملہ مہاجرین کی شکل میں ملا۔ یہ اثاثہ فراہم نہ ہوتاتو اتنی صنعتی ترقی کے لیے پچیس سال اور عملہ کی تربیت کے لیے اربوں روپے درکار ہوتے، کیوں کہ کیونکہ مقامی مسلمان ان فنون سے ناواقفِ محض تھے۔​
۶۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمان انجینئر ، کاریگر وغیرہ سب کو اس وقت کی بین الاقوامی اجرتوں کے معیار سے بہت کم اجرتیں دی گئیں۔ اور اگر مہاجر نہ آتے اور صنعتی ترقی کے لیے باہر سے ماہرین اور کاریگروں کو ایک خاص مدت کے لیے بلایا جاتااور مہاجرین کو دی جانے والی اجرتوں سے دس گنا زیادہ اجرتیں دینی پڑتیں۔ ملک کی ترقی کی خاطر کم اجرتیں قبول کرکے ملک کو فائدہ مہاجرین نے پہنچایا۔​
۷۔ سرکاری طور پر آپشن Optionکرکے پاکستان آنے والوں میں سکریٹری، پولیس، فوج، اعلیٰ تعلیمی اداروں کے عہدیدار ، مرکزی حکومت کے دفاتر میں کام کرنے والے سب نے انتظامیہ میں اپنی قابلیت کی بناءپر جگہ پائی۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو سنبھالا۔ قیامِ پاکستان سے قبل اس علاقے میں صرف دو یونیورسٹیاں تھیں، سندھ یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی، جن میں ہندو اساتذہ اور طلباءکی تعداد ہرگز مسلمانوں سے کم نہ تھی۔ ہندو پروفیسروں کے ترکِ وطن سے جو خلاءپیدا ہوا، وہ مہاجر پروفیسروں نے پر کیا۔ اور فوراً بعد کراچی یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے تدریسی عملے اور انتظامی عملے کی فراہمی مہاجر تربیت یافتہ افراد سے ہوئی۔ اور پاکستان تعلیمی ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔​
۸۔ مہاجرین کی مسلسل آمد اور کراچی کی آبادی میں بے تحاشا اضافے کے سبب ابتدائی مدارس ، ہائی اسکول اور کالجوں کا قیام محض سرکاری خزانے سے ناممکن تھا۔ مہا جر ما ہرینِ تعلیم اور اہلِ خیر حضرات کے مالی تعاون سے پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں کا قیام عمل میں آیا۔ جن میں سے چند یہ ہیں۔ جامعہ ملیہ کالج، اردو کالج، عبداللہ کالج، جناح کالج، ریاض کالج، پریمئر کالج، اقبال کالج، سرسید کالج، دہلی کالج، آدم جی سائنس کالج، عایشہ باوانی کالج، داﺅد کالج، لیاقت کالج، نبی باغ کالج وغیرہ۔ ایک مقامی مخیر لیڈر قریشی نے اسلامیہ کالج قائم کیا۔ اس طرح مہاجرین نے اپنی تعلیمی ضروریات کو بڑی حد تک خود ہی پورا کیا ہے۔ ان تمام کالجوں میں مہاجر، سندھی، بلوچ، پنجابی اور پٹھان طلباءنے تعلیم حاصل کی اور آج تک کررہے ہیں۔​
۹۔ قائدِ ملت شہید لیاقت علی خان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان نے خواتین کا ادارہ اپوا قائم کرکے سینکڑوں پرائمری، مڈل، ہائی اسکول اور اپوا کالج قائم کرکے کراچی میں پرائمری تعلیم اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے ادارے قائم کرکے غریب والدین کے بچوں کو تعلیم کی سہولت فراہم کی۔ اور دنیا بھر میں اپنی قسم کی واحد سماجی تنظیم ہونے کا عالمی اعزاز حاصل کیا۔ ان کے قائم کردہ اسکولوں میں ہر قسم کے بچوں اور بچیوں نے تعلیم حاصل کی اور ترقی کی۔​
۰۱۔ اہلِ ملک کو قیامِ پاکستان کی تاریخ کا یہ واقعہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان کی ریلوے کا تمام عملہ جو ہندوﺅں پر مشتمل تھا، ترکِ وطن کرکے ہندوستان چلا گیا۔ مشرقی پاکستان میں ریلوے کی آمد و رفت کو بحال کرنے کے لیے بہار سے ریلوے کا مسلمان عملہ ترکِ وطن کرکے وہاں پہنچا اور ریلوے کی آمدو رفت کے نظام کو بحال کردیا۔​
۱۱۔ اہلِ ملک ایک اور حقیقت کو یاد رکھیں کہ جنگِ عظیم دوم کے زمانے میں جنگِ جاپان میں اسلحہ کی فراہمی کے لیے انگریزوں نے جبل پور میں برین گن فیکٹری قائم کی تھی۔ جہاں اسلحہ سازی ہوتی تھی۔ اور حسنِ اتفاق ہی تھا کہ ماہرین اور کاریگروں میں اکثریت بہاری مسلمانوں کی تھی۔ یہ مسلمان ترکِ وطن کرکے پاکستان آگئے۔ تاآنکہ واہ کینٹ میں پاکستان کی اسلحہ سازی کی فیکٹری قائم ہوئی اور انہی بہاری ماہرین اور کاریگروں نے اسے اپنے تجربے سے چلایا۔ اس طرح پاکستان میں افواج کے لیے اسلحہ سازی کی بنیاد مہاجروں نے رکھی ہے۔​
۱۲۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد جب ہندوستان نے پاکستان کے حصے کے ۵۸ کروڑروپے ادا کرنے سے انکار کردیا۔ اس آڑے وقت میں نظام حیدرآباد میر عثمان علی خان ہی کام آئے جنھوں نے ۰۲ کروڑ روپے کی خطیر رقم پاکستان کو ادا کی۔ پاکستان کے اسٹیٹ بنک کے افتتاح کے موقعے پر قائدِ اعظم کی موجودگی میں سونے کی اینٹوں کا خطیر ذخیرہ صحافیوں کو دکھایا گیا۔ یہ بھی حیدرآباد ریاست نے فراہم کیا تھا۔ اور جنگ کے زمانے میں ایک ارب کا چندہ ریاست حیدرآباد نے برٹش گورنمنٹ کودیا تھا۔جس سے اس نے نظام اسکواڈرن قائم کیا تھا۔ اس​
اسکواڈرن نے برلن پر بمباری میں حصہ لے کر شہرت پائی تھی۔ اسکی پاکستان آمد سے ابتدائی ایام میں پاکستان کی فضائی افواج کی بنیاد رکھی گئی۔​
۱۳۔ پاکستان ہی کے ایک سائنس دان کو نوبل انعام ملا۔ اس سائنس دان نے یورپ کی پر آسائش زندگی کو ترجیح دی۔ اسکے برعکس مہاجر سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان میں ایٹمی قوت کی ترقی کی خاطر یورپ کی اعلیٰ تنخواہ اور آسائشوں کو ترک کرکے پاکستان میں کام کررہے ہیں۔ اس شخص کا احسان پاکستان کبھی نہیں بھول سکتا۔​
۱۴۔ کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کی طبی اور سماجی خدمات سرکاری اداروں کے بس سے باہر تھیں۔ کتنی ہی میمن انجمنوں نے میٹرنٹی ہوم قائم کیے۔ پنجابی سوداگرانِ دہلی نے لیبارٹریاں بنائیں اور سستے داموں غریب عوام کو علاج فراہم کیا۔ اور آج بھی بلا تخصیصِ مذہب و ملت و قوم، یہ میٹرنٹی ہوم اور لیبارٹریاں خدمات انجام دے رہی ہیں۔​
۱۵۔ پاکستان نے ہندوستان سے ترکِ وطن کرکے آنے والے مہاجرین کو پناہ دی۔ اس احسان کا بدلہ مہاجرین نے اپنی مندرجہ بالا خدمات کے احسان سے دیا۔​
جی خلیل صاحب ماشاءاللہ بہت اچھی تحریر ہے اور مجھے اس کے مندرجات سے کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں، ہم نے جتنا پڑھا ہے ہمارے بھائیوں نے اس سے ہزار گنا زیادہ قربانیاں دی ہیں اور بلاشبہ اس وطن اور اس کے نام کے لیے دی ہیں۔ بحیثیتِ قوم ہم سب ایک دوسرے کا انتہائی قیمتی سرمایہ ہیں۔ ایسا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ پاکستان ہجرت کر کے آنے والے لوگوں کے بغیر بھی پورا تھا یا یہاں کے لوگوں کو ان سے کچھ نہیں ملا۔ ایثار اور قربانی کی جو مثال اس وقت قائم ہوئی ہو کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی۔ میں یہ اوپر ذکر کر چکا ہوں کے آنے والوں کو ہندؤں کی چھوڑی ہوئی حویلیاں دی گئیں اور پھر بہت سی مثالیں دونوں طرف کے ایثار کی بھی موجود ہیں۔ لیکن کچھ علاقوں میں خاص پزیرائی نہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں اس وطن سے محبت رہی جس کی خاطر انہوں نے اس قدر قربانی دی۔ اور ان کی یہ محبت چھوٹی چھوٹی بہت سی ناراضگیوں پہ بھاری رہی۔

مجھے بہت محبت ہے اہلِ وطن سے اور اس میں کوئی تفریق نہیں لیکن گلہ ان لوگوں سے ہے جو اپنے بد اعمال اور میلی سوچ سے مذکورہ بالا لوگوں کی بھی نمائندگی کے دعوے دار ہیں۔حالاں کہ ایسا ہر گز نہیں۔ وہ لوگ کبھی بھی اپنی نمائندگی کسی گندی سوچ کے حوالے نہیں ہونے دیں گے اور نہ انہوں نے ہونے دی ہیں۔ سب جانتے ہیں کراچی میں جماعت اسلامی کا کتنا بڑا ووٹ بینک ہے اہلِ زباں میں۔(میری جماعت اسلامی سے کوئی وابستگی نہیں)۔ یہ تو آج غنڈہ گردی ختم کر دی جائے اور لوگوں کو اپنا ووٹ خود استعمال کرنے کا موقع مل جائے تو آپ دیکھیں ایم کیو ایم 2 یا 4 سیٹوں سے زیادہ لے کے دکھا دے۔
لوگ مجبور ہیں صاحب عزت سے بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر منہ نہیں کھولتے، بھتہ دیتے ہیں مجبوراَ جلسوں میں ہانکے جاتے ہیں۔ مختلف مہمات کے لیے چندہ غنڈوں کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے۔ کس کس طرح سے پریشان نہیں کیا جاتا اہلِ کراچی کو۔ گلی محلے میں کام کروانے کے بہانے زبردستی چندے کی پرچیاں مسلط کی جاتی ہیں کوئی انکار کر کے تو دکھا دے۔

میں تو ان لوگوں کے بارے میں کہتا ہوں کے یہ لوگ ہیں وہ اور یہ کرتوت ہیں ان کے اور پھر بھی وہ گلہ باقیوں سے کرتے ہیں۔
 

زرقا مفتی

محفلین
مراسلے میں غلطی سے پاکستانی نژاد کی بجائے امریکی نژاد لکھا گیا لوڈ شیڈنگ کے باعث تدوین ممکن نہ رہی
 

ساجد

محفلین
یہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں جو غلط ہے اس کو غلط کہا جائے۔یہ اردو محفل ہے اور اس میں سب اراکین برابر ہیں۔۔
یہ قومی اسمبلی نہیں جس میں ایک صوبے کی اکثریت ہو۔۔۔ اور وہ آبادی کی بنیاد پر دوسروں کے حقوق ضبط کرلے۔۔۔
یہ اردو محفل ہے اس لیئے یہاں تمام قومیں برابر ہیں۔۔اس میں نہ ہی پاکستان کی اجاراداری ہے اور نہ کسی اور ملک کی۔۔
اس ہر ایک کو کچھ کہنے کا حق حاصل ہے۔۔اور اس حق کو دبانا جائز بھی نہیں۔۔۔
لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ ان تمام لڑیوں کو اپروول مل جاتی ہے جس میں مہاجروں کے خلاف بغض نکالا جائے۔۔
مثال یہ نامعلوم لوگ۔۔
یہ مہاجرا کیا ہے؟
وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ جب اس طرح کی لڑیاں بنائی جائیں گی تو ظاہر سی بات ہے اسی طرح کے جوابات بھی آئیں گے۔
۔ایک بندے نے تعصب کی بنیاد پر یہ مہاجرا کیا ہے؟ ایک لڑی بنائی اور اس کی اپروول بھی مل گئی۔۔ وہ کیسے۔۔اگر اپروول بھی دینی تھی تو ترمیم کے ساتھ اجازت دی جاتی۔۔۔ لیکن چونکہ معاملہ کچھ اور ہے کہ سب اچھے اور مہاجر گندے۔۔یہی بات ہے۔۔۔
اور انہی باتوں کی وجہ کر بہت کچھ ہونے جارہا ہے اس ملک میں ۔۔ جس کو نہ تو میں روک سکتا ہوں اور نہ آپ۔۔۔
کاشفی صاحب ، اب بہت ہو گئی۔ جس دھاگے کی آپ بات کر رہے ہیں وہ کئی دن پہلے ہی حذف کیا جا چکا ہے اور دوسرے دھاگے کی درستی کی جا چکی ہے۔
دوسروں پر تعصب کی بات کرتے آپ کو سب سے پہلے اپنے مراسلات پھر سے پڑھنے چاہئیں جن کی وجہ سے محفل کا ماحول خراب سے خراب تر ہوتا گیا اور آپ بڑی ڈھٹائی سے اس کا الزام دوسروں پر ڈال رہے ہیں۔ کیا آپ کو وہ وقت بھول گیا جب میں بار بار آپ سے رویہ درست کرنے کی درخواست کر رہا تھا لیکن آپ کی طرف سے بار بار پینترا بدلنے پر تنگ آ کر میںنےآپ سے بالآخر کہہ دیا تھا کہ اب آپ یہ گیم اپنے رسک پہ شروع کریں۔
اب آپ کو آخری بار متنبہ کیا جاتا ہے اس قسم کی گمراہ کن تحاریر کا سلسلہ بند کر دیں ۔
 

کاشفی

محفلین
جی خلیل صاحب ماشاءاللہ بہت اچھی تحریر ہے اور مجھے اس کے مندرجات سے کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں، ہم نے جتنا پڑھا ہے ہمارے بھائیوں نے اس سے ہزار گنا زیادہ قربانیاں دی ہیں اور بلاشبہ اس وطن اور اس کے نام کے لیے دی ہیں۔ بحیثیتِ قوم ہم سب ایک دوسرے کا انتہائی قیمتی سرمایہ ہیں۔ ایسا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ پاکستان ہجرت کر کے آنے والے لوگوں کے بغیر بھی پورا تھا یا یہاں کے لوگوں کو ان سے کچھ نہیں ملا۔ ایثار اور قربانی کی جو مثال اس وقت قائم ہوئی ہو کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی۔ میں یہ اوپر ذکر کر چکا ہوں کے آنے والوں کو ہندؤں کی چھوڑی ہوئی حویلیاں دی گئیں اور پھر بہت سی مثالیں دونوں طرف کے ایثار کی بھی موجود ہیں۔ لیکن کچھ علاقوں میں خاص پزیرائی نہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں اس وطن سے محبت رہی جس کی خاطر انہوں نے اس قدر قربانی دی۔ اور ان کی یہ محبت چھوٹی چھوٹی بہت سی ناراضگیوں پہ بھاری رہی۔

مجھے بہت محبت ہے اہلِ وطن سے اور اس میں کوئی تفریق نہیں لیکن گلہ ان لوگوں سے ہے جو اپنے بد اعمال اور میلی سوچ سے مذکورہ بالا لوگوں کی بھی نمائندگی کے دعوے دار ہیں۔حالاں کہ ایسا ہر گز نہیں۔ وہ لوگ کبھی بھی اپنی نمائندگی کسی گندی سوچ کے حوالے نہیں ہونے دیں گے اور نہ انہوں نے ہونے دی ہیں۔ سب جانتے ہیں کراچی میں جماعت اسلامی کا کتنا بڑا ووٹ بینک ہے اہلِ زباں میں۔(میری جماعت اسلامی سے کوئی وابستگی نہیں)۔ یہ تو آج غنڈہ گردی ختم کر دی جائے اور لوگوں کو اپنا ووٹ خود استعمال کرنے کا موقع مل جائے تو آپ دیکھیں ایم کیو ایم 2 یا 4 سیٹوں سے زیادہ لے کے دکھا دے۔
لوگ مجبور ہیں صاحب عزت سے بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر منہ نہیں کھولتے، بھتہ دیتے ہیں مجبوراََ جلسوں میں ہانکے جاتے ہیں۔ مختلف مہمات کے لیے چندہ غنڈوں کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے۔ کس کس طرح سے پریشان نہیں کیا جاتا اہلِ کراچی کو۔ گلی محلے میں کام کروانے کے بہانے زبردستی چندے کی پرچیاں مسلط کی جاتی ہیں کوئی انکار کر کے تو دکھا دے۔

میں تو ان لوگوں کے بارے میں کہتا ہوں کے یہ لوگ ہیں وہ اور یہ کرتوت ہیں ان کے اور پھر بھی وہ گلہ باقیوں سے کرتے ہیں۔

سب سے پہلی بات کو خود دوسرے صوبوں کے افراد کہہ چکے ہیں دوسری لڑیوں میں یہ کثیرالقومی ملک ہے۔۔ اس میں ایک قوم نہیں بستی۔۔
اگر میری میلی سوچ ہے تو یہ کیسی سوچ ہے۔۔اور آپ کی کیسی سوچ تھی جس کی بنا پر آپ نے لڑی بنائی ۔۔یہ مہاجرا کیا ہے؟ اس کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما تھے۔۔ذرا بتائیے۔۔
یہ تعصب نہیں تو کیا ہے۔۔۔

ایم کیو ایم تو ابھی بنی ہے۔۔کراچی کے لوگ اس کے کہیں پہلے سے ووٹ دیتے آرہے ہیں۔۔۔
کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ فاطمہ جناح رحمتہ اللہ علیہا کو کہاں سے کہاں شکست ہوئی تھی اور کہاں کہاں سے جیتی تھیں۔۔
اگر یہ کہا جائے کہ دوسری جگہوں پر غنڈا گردی کرکے ووٹ لیا گیا اور ووٹ دینے والوں نے تعصب کی بنیاد پر ووٹ دیا اور وہ لوگ جنہوں نے فاطمہ جناح کو ووٹ دیا وہ غدار ہیں تو کیا جائز ہوگا۔۔ بالکل نہیں ہوگا۔۔
کراچی والوں کے خلاف تعصب پسندی اسی دن سے شروع ہوگئی تھی جس دن انہوں نے صرف پاکستان کی بات کی تھی۔۔جب انہوں نے پاکستان کی بنیاد پر فاطمہ جناح کو ووٹ دیا اور دوسروں نے تعلق کی وجہ کر کسی اور ووٹ دیا۔۔۔
کون سی قوم ایسی ہے جو اپنے آپ کا صرف پاکستانی کہتی ہے۔۔
پنجاب کی کتنی آبادی ہے جو اپنے آپ کو صرف پاکستانی کہتی ہے پنجابی نہیں
سندھ کی کتنی آبادی ہے جو اپنے آپ کو صرف پاکستانی کہتی ہے سندھی نہیں
پختونستان کی کتنی آبادی ہے جو اپنے آپ کو صرف پاکستانی کہتی ہے پختون نہیں
بلوچستان کی کتنی آبادی ہے جو اپنے آپ کو صرف پاکستانی کہتی ہے بلوچ نہیں
پنجابی سندھی بلوچی پختون کو اگر قوم مانا جائے تو یہ بات صحیح تصور کی جاتی ہے اور اگر کوئی اپنے آپ کا مہاجر کہے تو وہ غدار۔۔یہ کہاں کا انصاف ہے؟
پنجابی کوئی قبیلے کا نام نہیں
سندھی کوئی قبیلے کا نام نہیں
اسی طرح دیگر بھی۔۔
تو جب ان کو قوم تصور کیا جاتا ہے تو پھر قوم پاکستان کا تصورکہاں چلا گیا۔۔؟
دوغلی پالیسی اور دوغلی سوچ رکھنا جائز نہیں۔۔اسی وجہ سے معاملات خراب ہوتے ہیں۔
میں نے کبھی نہیں کہا کہ میں خلیل صاحب، انیس الرحمن بھائی یا احمد بھائی جیسے بھائیوں کا نمائندہ ہوں میں نے یہ ضرور کہا کہ یہ میرے اپنے اور دوسرے غیر۔۔۔ یہ کہنا گناہ نہیں۔۔
اور ان تینوں میں سے یا کوئی اور بندہ کراچی سے۔ یہ لوگ میری تائید بھی نہیں کرتے۔۔۔اور جب یہ تائید نہیں کرتے تو مجھے خوشی ہوتی۔۔اور اس کے بعد میں کچھ کریکشن کرنے کی سوچتا ہوں شاید میں کچھ غلط کہہ گیا۔۔۔
لیکن جب کوئی آپ نے جیسی لڑی بنائی ہے اسی لڑی بنائے اور اس کی اپروول بھی دے دے۔۔جو کہ سراسر تعصب کی بنیاد پر بنائی گئی ہے۔۔جس کو اس معاشرے کو بہتر بنانے پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے۔۔اور آپ کی تعصب پر مبنی لڑی پر آپ کے لوگوں کی تائید ہوتی ہے۔۔پھر مجھے اپنی سوچ کے بارے میں تقویت ملتی ہے کہ میں صحیح سوچتا ہوں اور صحیح کہہ رہا ہوں جب وہ ایسا کرسکتے ہیں تو پھر میں کیوں نہیں۔

باقی باتیں کرنا فضول ہے۔۔کیونکہ ہونا وہی ہے جو ہونا ہے۔۔
اور اگر یہی سوچ رہی جیسی آپ کی سوچ ہے تو بہتر اس پاکستان کا اللہ ہی حافظ
ایک بگ بینگ دھماکہ ہونے والا ہے جس کی تاب نہ آپ لا سکیں گے نہ کوئی اور نہ میں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اس دھاگے میں بہت سی باتیں ہو چکی ہیں لیکن وقت کی کمی کے باعث میں تمام پوسٹس نہیں پڑھ سکا ہوں۔ کہنے کو میرے پاس بھی بہت سی باتیں ہیں۔ کچھ وضاحتیں، کچھ گلے شکوے اور بھی بہت کچھ۔ تاہم نہ تو اتنی باتوں کا وقت ہے اور نہ ہی ان سب باتوں سے کچھ فرق پڑنے والا ہے۔

 

شمشاد

لائبریرین
افسوس کہ کاشفی بھائی نے "میں نہ مانوں" اور "کراس" دینے کی قسم کھا رکھی ہے۔ جو کہ اچھی بات نہیں ہے۔

بار بار انتظامیہ پر الزام تراشی انہوں نے اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ حالانکہ ان کو کئی دفعہ بتایا ہے کہ بھائی ایسی کوئی بات نہیں ہے اور انتظامیہ بالکل غیرجانبدار ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہیں، اور جزو کی وجہ سے کل پر حکم نہیں لگایا جا سکتا، میں نام نہیں لکھتا لیکن کیا پنجاب میں برے لوگ نہیں؟ تو کیا اس وجہ سے ساری پنجابی قوم کرپٹ، رشوت خور، مکار، مفاد پرست اور گدھے کو بھی باپ بنا لینے والی ہے۔ کچھ پٹھان اگر رقوم لیکر اپنی بیٹیوں کی عارضی شادی کر دیتے ہیں کیا ساری پٹھان قوم بے ضمیر ہے، ہر گز نہیں۔

اس تھریڈ کے شروع کنندہ امجد میانداد صاحب نے اسی قسم کا نتیجہ اخذ کیا تھا جس پر ردِ عمل ضروری تھا لہذا براہِ کرم اس قسم کے پیغامات اور موضوعات سے پرہیز کریں۔

دوسرا یہ کہ اس تھریڈ کا پہلا عنوان انہتائی تحقیر آمیز اور دل آزار تھا، اس کو ہم شوخیِ قلم تسلیم کرنے کو ہرگز ہرگز تیار نہیں، اس کا خیال رکھیں، آئندہ اس قسم کے عنوان والے تھریڈ کو وجہ بتائے بغیر حذف کر دیا جائے گا۔

کاشفی صاحب نے انتظامیہ پر طعن کرنے کا جو وطیرہ اپنایا ہوا ہے ان سے اس کو ختم کرنے کی استدعا کی جاتی ہے۔ یہ کوئی کماؤ پوت قسم کا فورم نہیں ہے، ایک رضاکارانہ فورم ہے اور ناظمین و مدیران نے رضاکارانہ طور پر یہ "طوق" اپنے گلے میں پہنا ہوا ہے اور آپ کی اس قسم کی حرکات اور لایعنی باتوں کی وجہ سے خواہ مخواہ کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ آپ کو شاید یاد نہیں لیکن مجھے یاد ہے کہ آپ اسی وجہ سے پہلے بھی عارضی طور پر معطل ہو چکے ہیں اور پھر ہو سکتے ہیں۔ آپ یہاں مہمان نہیں ہیں اور ہم میزبان نہیں کہ آپ کو رحمت کا فرشتہ سمجھیں، اپنے آپ کو اس گھر کا فرد سمجھیے اور ذمہ دارانہ طریقے سے رہیے۔

امید ہے اردو محفل کی فضا کو بہتر رکھنے میں آپ سب تعادن کریں گے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top