اباجان کی سوانح ہم
’’فسانہِ آزاد‘‘ کے نام سے محفل پر پیش کرچکے ہیں۔ ہم نے تو آنکھ کھولی تو اس مہاجر کو دیکھا جس نے اپنی مرضی سے ہجرت کی، اسلام کے لیے ہجرت کی، نہ کلیم میں کوئی گھر لیا، نہ کوئی جائیداد بنائی۔ فی الحال ہم اپنے تاثرات بیان کرنے کے بجائے اس مہاجر کے تاثرات بیان کررہے ہیں۔
اباجان نے اپنی ہجرت اور اس وارداتِ قلبی سے کیا تاثر لیا اور اس کے اغراض و مقاصد ان کے ذہن میں کیا تھے ، نیز یہ کہ اپنی طرح دیگر مہاجرین کو دیکھ کر انھوں نے کیا سوچا یہ ان کے ایک مضمون سے واضح ہے جو انھوں نے مہاجروں کی قربانیوں اور حالتِ زار کو دیکھ کر لکھا۔ اس مضمون سے ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے۔
” اسلام کے دورِ اول میں مکہ سے ترکِ وطن کرکے اپنا سب کچھ وہیں چھوڑ کر مدینہ آنے والے مسلمانوں کو اللہ نے قرآنِ پاک میں مہاجر فرمایا۔ اور مدینہ میں ان کی پذیرائی کرنے والے مسلمانوں کو انصار۔ اور پھر یہ بھی کہ حضور ﷺ نے ایک مہاجر اور ایک انصاری کو بھائی بھائی بنایا۔ اس طرح ہر انصاری نے اپنے مہاجر بھائی کی رہائش اور روزگار کا انتظام کرکے اس کی آباد کاری کردی۔
قیامِ پاکستان کے بعد ہندوستان کے ہر علاقے سے جو مسلمان اپنا سب کچھ ترک کرکے پاکستان آئے وہ تو مہاجر کہلائے، لیکن یہاں کے مقامی باشندوں نے نہ تو انصار کا لقب اختیار کیا اور نہ انصار کی طرح اپنے کسی مہاجر بھائی کی آباد کاری کی۔ الا ماشاءاللہ
پاکستان کے روزِ اول ہی سے انصار کا کردار ادا نہ کرنے کے باوجود ہمارے مولوی، ملا، سیاسی و مذہبی جماعتیں آج بھی یہی شور مچاتی ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ ان کے ذمے یہ جواب آج تک باقی ہے کہ جب مہاجر کا کردار ،ہندوستان میں سب کچھ چھوڑ کر ترکِ وطن کرکے آنے والوں نے ادا کیا تو پھر ان دعویداروں کے اسلام میں انصار کا کردار کیوں بھلا دیا گیا۔ اس کے باوجود ہندوستان سے آنے والے مہاجر یہاں آباد ہوئے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے۔
مہاجرین نے پاکستان سے کیا لیا اور کیا دیا اس کا یہ مختصر سا خاکہ ہے۔مہاجرین اپنا وطن، اپنی جائدادیں ، کاروبار سب کچھ ہندوستان میں چھوڑآئے تھے۔ اس ترکِ وطن کو ہجرت کہا جاتا ہے۔ مہاجرین کو بہار، دہلی، حیدرآباد دکن میں قتلِ عام کا سامنا کرنا پڑا۔ حیدرآباد شہر کو چھوڑکر اضلاع و دیہات میں دولاکھ مسلمان قتل ہوئے۔ پنڈت نہرو نے مہاتما گاندھی کے شاگرد آچاریہ ونوبھاوے کو حالات کے سروے اور رپورٹ کے لیے بھیجا۔ مسلمان عورتوں نے دشمنوں سے اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کے لیے کنوﺅں میں چھلانگیں لگائیں۔آچاریہ ونوبھاوے کایہ بیان حیدرآباد دکن کے اخبارات کے ریکارڈ پر ہے کہ” پنڈت نہرو نے مجھے لاشیں گننے کاکام سونپا ہے۔“
قتلِ عام سے بچ کر اور سب کچھ تیاگ کر مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا تھا، بہار میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے بعد پنجاب میں سکھوں اور ہندوﺅں پر حملے ہوئے ہیں۔ اور ان کے مکانات نظرآتش کیے گئے تھے۔ لیکن سرحد میں مسلح سرخپوشوں نے ان کی حفاظت کی ۔ اسی طرح سندھ میں بھی وہ محفوظ رہے اور پوری حفاظت سے سرحد پار پہنچے۔ بہار، دہلی اور حیدرآباد میں مسلمانوں کی حفاظت کسی ہندو سیاسی جماعت یا صوبے کے لوگوں نے نہ کی، اس لیے پریشان حال مسلمانوں نے پاکستان کا رخ کیا تھا۔
۱۔ تقسیمِ ملک کے بعد پاکستان کے ہندو بڑی تعداد میں اور ہندوستان کے مسلمان اچھی خاصی تعداد میں ترکِ وطن کرکے ہندوستان اور پاکستان چلے گئے۔ یہ دوطرفہ ہجرت تاریخ میں انسانوں کی سب سے بڑی ہجرت اور ترکِ وطن تھا۔ پاکستان کے ہندو اپنا سب کچھ چھوڑ کر اور ہندوستان کے مسلمان اپنا سب کچھ چھوڑ کر ترکِ وطن کرگئے۔ پاکستان میں ہندووں کی چھوڑی ہوئی جائیدادیں ہندوستان سے آنے والے مسلمان مہاجرین کو ملیں ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی جائیدادیں پاکستان سے ترکِ وطن کرکے جانے والے ہندوﺅں کو ملیں۔ دونوں ملکوں سے جانے والے تارکینِ وطن نے ان کے نئے وطن کے باسیوں سے کچھ نہ لیا۔ اس طرح قانونی، آئینی اور مذہبی اعتبار سے وہ ان زمینوں اور جائیدادوں ، مکانوں کے مالک بن کر Son of the soilبن گئے۔ آج اس نسل کے پوتے پیدا ہوچکے ہیں ۔ یہ
سب Sons of the soilہیں۔
۲۔ قیامِ پاکستان کا سب سے بڑا اور فوری فائدہ سندھ ، پنجاب، سرحد اور بلوچستان کو ہوا، جہاں اس سے قبل تجارت پر ، خواہ وہ تھوک تجارت ہو یا خوردہ فروشی، ہندوﺅں اور سکھوں کا مکمل قبضہ تھا۔ ان کے چلے جانے سے سرحد، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے مسلمان اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہندو بنیوں کے چنگل سے آزاد ہوئے، اور خود تجارت میں آئے۔ان کے لیے ذرائع روزگار میں وسعت پیدا ہوئی اور معاشی فائدے حاصل ہوئے۔
۳۔ کراچی سے ہندوﺅں کا انخلاءپورے ملک کی درآمدی و برآمدی تجارت پر اثر انداز ہوا۔ لیکن بمبئی ، گجرات، کاٹھیاواڑ سے ترکِ وطن کرکے آنے والی گجراتی اور میمن برادری نے تجارت کے اپنے تجربے سے اس خلاءکو پر کیا اور تجارت کو سنبھال لیا۔
۴۔ مشرقی پنجاب سے ترکِ وطن کرکے آنے والے مہاجرین خون کے دریا عبور کرکے آئے تھے، ان میں پنجابی اور اردو بولنے والے اضلاع کے لوگ شامل تھے۔ ان لوگوں نے ہندوستان میں اپنی چھوڑی ہوئی زرعی اراضی کے بدلے پاکستان میں سکھوں اور ہندوﺅں کی چھوڑی ہوئی اراضی کو سندھ اور پنجاب میں گل ِ گلزار بنادیا۔ اور چند برس میں پنجاب و سندھ اناج ، غلہ، سبزی و ترکاری کے ساتھ ساتھ، کیلے، پپیتے، اور آم جیسے مشہور پھلوں میں بھارت کے مد مقابل بن گئے۔
۵۔ جن علاقوں پر مشتمل پاکستان قائم ہوا، وہاں صنعتیں برائے نام تھیں۔ یہاں کی کپاس، بمبئی، پونا، شولہ پور، احمد آباد ، جلگاﺅں ، اندور، اور سورت جاتی اور وہاں پارچہ بافی کے کارخانوں میں استعمال میں آتی۔ کانپور ہندوستان بھر میں چمڑے کی صنعت کا مرکز تھا۔ بہرحال دہلی۔ آگرہ، مراد آباد ، میرٹھ وغیرہ دوسرے صنعتی شہروں سے لاکھوں مسلمان کاریگرترکِ وطن کرکے پاکستان آئے۔
ان مہاجرین میں صنعت کار، بینکار، مینجر، آڈیٹر، اکاﺅنٹنٹ، ڈاکٹر، کمپاﺅنڈر، انجینئر، میکانک، تاجر ہر قسم کے کاریگر اور Skilled workerپاکستان آئے۔ اور چار پانچ برس میں پاکستان پارچہ بافی کی صنعت میں بھارت کا مد مقابل بن گیا۔ مہاجر کاریگر ، صنعت کار اور بینک کار پاکستان کی بقا کے لیے اثاثہ ثابت ہوئے۔ غیر ملکی ماہرین کی رپورٹوں اس کا اعتراف موجود ہے کہ پاکستان میں صنعتی ترقی کے لیے یہاں کے صنعت کار وں کو تربیت یافتہ عملہ مہاجرین کی شکل میں ملا۔ یہ اثاثہ فراہم نہ ہوتاتو اتنی صنعتی ترقی کے لیے پچیس سال اور عملہ کی تربیت کے لیے اربوں روپے درکار ہوتے، کیوں کہ کیونکہ مقامی مسلمان ان فنون سے ناواقفِ محض تھے۔
۶۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمان انجینئر ، کاریگر وغیرہ سب کو اس وقت کی بین الاقوامی اجرتوں کے معیار سے بہت کم اجرتیں دی گئیں۔ اور اگر مہاجر نہ آتے اور صنعتی ترقی کے لیے باہر سے ماہرین اور کاریگروں کو ایک خاص مدت کے لیے بلایا جاتااور مہاجرین کو دی جانے والی اجرتوں سے دس گنا زیادہ اجرتیں دینی پڑتیں۔ ملک کی ترقی کی خاطر کم اجرتیں قبول کرکے ملک کو فائدہ مہاجرین نے پہنچایا۔
۷۔ سرکاری طور پر آپشن Optionکرکے پاکستان آنے والوں میں سکریٹری، پولیس، فوج، اعلیٰ تعلیمی اداروں کے عہدیدار ، مرکزی حکومت کے دفاتر میں کام کرنے والے سب نے انتظامیہ میں اپنی قابلیت کی بناءپر جگہ پائی۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو سنبھالا۔ قیامِ پاکستان سے قبل اس علاقے میں صرف دو یونیورسٹیاں تھیں، سندھ یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی، جن میں ہندو اساتذہ اور طلباءکی تعداد ہرگز مسلمانوں سے کم نہ تھی۔ ہندو پروفیسروں کے ترکِ وطن سے جو خلاءپیدا ہوا، وہ مہاجر پروفیسروں نے پر کیا۔ اور فوراً بعد کراچی یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے تدریسی عملے اور انتظامی عملے کی فراہمی مہاجر تربیت یافتہ افراد سے ہوئی۔ اور پاکستان تعلیمی ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔
۸۔ مہاجرین کی مسلسل آمد اور کراچی کی آبادی میں بے تحاشا اضافے کے سبب ابتدائی مدارس ، ہائی اسکول اور کالجوں کا قیام محض سرکاری خزانے سے ناممکن تھا۔ مہا جر ما ہرینِ تعلیم اور اہلِ خیر حضرات کے مالی تعاون سے پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں کا قیام عمل میں آیا۔ جن میں سے چند یہ ہیں۔ جامعہ ملیہ کالج، اردو کالج، عبداللہ کالج، جناح کالج، ریاض کالج، پریمئر کالج، اقبال کالج، سرسید کالج، دہلی کالج، آدم جی سائنس کالج، عایشہ باوانی کالج، داﺅد کالج، لیاقت کالج، نبی باغ کالج وغیرہ۔ ایک مقامی مخیر لیڈر قریشی نے اسلامیہ کالج قائم کیا۔ اس طرح مہاجرین نے اپنی تعلیمی ضروریات کو بڑی حد تک خود ہی پورا کیا ہے۔ ان تمام کالجوں میں مہاجر، سندھی، بلوچ، پنجابی اور پٹھان طلباءنے تعلیم حاصل کی اور آج تک کررہے ہیں۔
۹۔ قائدِ ملت شہید لیاقت علی خان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان نے خواتین کا ادارہ اپوا قائم کرکے سینکڑوں پرائمری، مڈل، ہائی اسکول اور اپوا کالج قائم کرکے کراچی میں پرائمری تعلیم اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے ادارے قائم کرکے غریب والدین کے بچوں کو تعلیم کی سہولت فراہم کی۔ اور دنیا بھر میں اپنی قسم کی واحد سماجی تنظیم ہونے کا عالمی اعزاز حاصل کیا۔ ان کے قائم کردہ اسکولوں میں ہر قسم کے بچوں اور بچیوں نے تعلیم حاصل کی اور ترقی کی۔
۰۱۔ اہلِ ملک کو قیامِ پاکستان کی تاریخ کا یہ واقعہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان کی ریلوے کا تمام عملہ جو ہندوﺅں پر مشتمل تھا، ترکِ وطن کرکے ہندوستان چلا گیا۔ مشرقی پاکستان میں ریلوے کی آمد و رفت کو بحال کرنے کے لیے بہار سے ریلوے کا مسلمان عملہ ترکِ وطن کرکے وہاں پہنچا اور ریلوے کی آمدو رفت کے نظام کو بحال کردیا۔
۱۱۔ اہلِ ملک ایک اور حقیقت کو یاد رکھیں کہ جنگِ عظیم دوم کے زمانے میں جنگِ جاپان میں اسلحہ کی فراہمی کے لیے انگریزوں نے جبل پور میں برین گن فیکٹری قائم کی تھی۔ جہاں اسلحہ سازی ہوتی تھی۔ اور حسنِ اتفاق ہی تھا کہ ماہرین اور کاریگروں میں اکثریت بہاری مسلمانوں کی تھی۔ یہ مسلمان ترکِ وطن کرکے پاکستان آگئے۔ تاآنکہ واہ کینٹ میں پاکستان کی اسلحہ سازی کی فیکٹری قائم ہوئی اور انہی بہاری ماہرین اور کاریگروں نے اسے اپنے تجربے سے چلایا۔ اس طرح پاکستان میں افواج کے لیے اسلحہ سازی کی بنیاد مہاجروں نے رکھی ہے۔
۱۲۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد جب ہندوستان نے پاکستان کے حصے کے ۵۸ کروڑروپے ادا کرنے سے انکار کردیا۔ اس آڑے وقت میں نظام حیدرآباد میر عثمان علی خان ہی کام آئے جنھوں نے ۰۲ کروڑ روپے کی خطیر رقم پاکستان کو ادا کی۔ پاکستان کے اسٹیٹ بنک کے افتتاح کے موقعے پر قائدِ اعظم کی موجودگی میں سونے کی اینٹوں کا خطیر ذخیرہ صحافیوں کو دکھایا گیا۔ یہ بھی حیدرآباد ریاست نے فراہم کیا تھا۔ اور جنگ کے زمانے میں ایک ارب کا چندہ ریاست حیدرآباد نے برٹش گورنمنٹ کودیا تھا۔جس سے اس نے نظام اسکواڈرن قائم کیا تھا۔ اس
اسکواڈرن نے برلن پر بمباری میں حصہ لے کر شہرت پائی تھی۔ اسکی پاکستان آمد سے ابتدائی ایام میں پاکستان کی فضائی افواج کی بنیاد رکھی گئی۔
۱۳۔ پاکستان ہی کے ایک سائنس دان کو نوبل انعام ملا۔ اس سائنس دان نے یورپ کی پر آسائش زندگی کو ترجیح دی۔ اسکے برعکس مہاجر سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان میں ایٹمی قوت کی ترقی کی خاطر یورپ کی اعلیٰ تنخواہ اور آسائشوں کو ترک کرکے پاکستان میں کام کررہے ہیں۔ اس شخص کا احسان پاکستان کبھی نہیں بھول سکتا۔
۱۴۔ کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کی طبی اور سماجی خدمات سرکاری اداروں کے بس سے باہر تھیں۔ کتنی ہی میمن انجمنوں نے میٹرنٹی ہوم قائم کیے۔ پنجابی سوداگرانِ دہلی نے لیبارٹریاں بنائیں اور سستے داموں غریب عوام کو علاج فراہم کیا۔ اور آج بھی بلا تخصیصِ مذہب و ملت و قوم، یہ میٹرنٹی ہوم اور لیبارٹریاں خدمات انجام دے رہی ہیں۔
۱۵۔ پاکستان نے ہندوستان سے ترکِ وطن کرکے آنے والے مہاجرین کو پناہ دی۔ اس احسان کا بدلہ مہاجرین نے اپنی مندرجہ بالا خدمات کے احسان سے دیا۔