یہ نیکیاں کمانے کا مہینہ ہے

سید عمران

محفلین
رمضان میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے، ہلکا پھلکا کھاتے، صحت بناتے، بیماریاں بھگاتے اورنورانیت بڑھاتے.
لیکن یہ کیا ہوا کہ عام دنوں سے زیادہ مضر صحت اشیاء کھاتے ہیں، اسپتالوں کو جاتے ہیں، جی کو متلاتے ہیں، بستر پر پڑے کراہتے ہیں اور بابرکت انمول گھڑیاں گنواتے ہیں.
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے دور میں یہ ٹھونسا ٹھانسی نہیں ہوتی تھی. جن پر روزوں کی فرضیت کی ابتداء ہوئی تھی، جن کو بتانا تھا کہ ماہ رمضان کیسے بِتانا ہے وہ سادہ پانی اور کھجور سے روزہ افطار کرتے اور مغرب کی نماز ادا کرنے چل پڑتے. نہ پکوڑوں چھولوں کے جھمیلے ہوتے نہ روح افزا کا لزوم تھا. وہ روح کو نور افزا کرتے تھے. اطمینان سے مغرب اور عشاء کے درمیان نفلیں پڑھتے پھر وہیں عشاء کے لیے ٹھہر جاتے یا گھر آکر جو میسر ہوتا کھا لیتے. ہماری طرح نہیں کہ مغرب میں چھولے پکوڑوں کی ڈکاریں لیتے، بھاری پیٹ اور بوجھل دل سے نماز پڑھتے اور ترنت گھر واپس بھاگتے. وہاں اٹا اٹ بھرے دسترخوان پر ایسے ٹوٹ پڑتے جیسے پہلے کبھی نہ کھایا ہو اور آئندہ کبھی نہ ملنے والا ہو.
پھر اکثریت تو تروایح کو نہیں جاتی اور جو جاتی ان کی اکثریت بیچ میں چھوڑ کے آجاتی. جو جماعت باقی رہ جاتی وہ بدہضمی کے ہاتھوں نڈھال ہوئی جاتی.
صحابہ تھے کہ ہر چار رکعات تراویح کے بعد ایک طواف کرتے. کھاتے کم اور عبادت میں گم. مدینہ کے صحابہ کو علم ہوا کہ مکہ کے صحابہ ہر چار رکعات کے بعد ایک طواف کرتے ہیں تو وہ ہر چار رکعات تراویح کے بعد مزید چار رکعات پڑھتے. یوں ان کی تراویح چالیس رکعات کی ہوجاتی. یہ تھے رمضان کو اس طرح بِتانے والے ہمیں سمجھانے والے کہ رمضان اس طرح بِتانا چاہیے.
مرد تو دوکان دفتر سے فارغ ہوکر پھر بھی کچھ نہ کچھ عبادت کر لیتے ہیں پر عورتیں بے چاری مرودں اور بچوں کے پیٹ کے جہنم اور زبان کی چاٹ کے چکر میں گھن چکر بن جاتی ہیں. سحری بنانی ہے تو آدھی رات کو اٹھ کر گرم گرم روٹیاں تھاپ رہی ہیں، ہانڈیاں چڑھا رہی ہیں. ادھر دستر خوان بچھتا ہے برتن رکھے جاتے ہیں ادھر مردوں کو اٹھانے میں سر کھپاتی ہیں. لو جی اس چکر میں تہجد رہ جاتی ہے. وہاں آسمانوں پر فرشتے پکارتے ہیں کہ جو مانگو گے ملے گا، مغفرت مانگو گے وہ ملے گی، جنت مانگو گے وہ ملے گی. یہاں زمینوں پہ سحری کے تام جھام کا ہی اختتام نہیں ہوتا. مارے باندھے ڈولتے بدن اور نیم وا آنکھوں سے فجر پڑھی اور بستر پر انٹاغفیل.
کچھ دیر سونے کے بعد خواتین اٹھتی ہیں تو ظہر تک گھر کے کام، اس کے بعد افطاری اور رات کے کھانے کی تیاری. ان جھمیلوں میں ان کی تہجد، تلاوت، اوابین، اشراق کہاں ادا ہوئی؟
ایک بار حضرت عائشہ نے دن میں دو مرتبہ کھانا بنالیا. آپ علیہ السلام ناراض ہوگئے. فرمایا عائشہ تم نے کھانے کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا ہے.
ہمارے دستر خوان کے کناروں تک امڈتے کھانے ہمیں بتارہے ہیں کہ ہم نے پیٹ بھرنے کو زندگی کا مقصد بنالیا اور جو مقصد تھا اسے راستے میں کہیں گنوا دیا!!!
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
مرد تو دوکان دفتر سے فارغ ہوکر پھر بھی کچھ نہ کچھ عبادت کر لیتے ہیں پر عورتیں بے چاری مرودں اور بچوں کے پیٹ کے جہنم اور زبان کی چاٹ کے چکر میں گھن چکر بن جاتی ہیں. سحری بنانی ہے تو آدھی رات کو اٹھ کر گرم گرم روٹیاں تھاپ رہی ہیں، ہانڈیاں چڑھا رہی ہیں. ادھر دستر خوان بچھتا ہے برتن رکھے جاتے ہیں ادھر مردوں کو اٹھانے میں سر کھپاتی ہیں. لو جی اس چکر میں تہجد رہ جاتی ہے. وہاں آسمانوں پر فرشتے پکارتے ہیں کہ جو مانگو گے ملے گا، مغفرت مانگو گے وہ ملے گی، جنت مانگو گے وہ ملے گی. یہاں زمینوں پہ سحری کے تام جھام کا ہی اختتام نہیں ہوتا. مارے باندھے ڈولتے بدن اور نیم وا آنکھوں سے فجر پڑھی اور بستر پر انٹاغفیل.
کسقدر حقیقت سے قریب تر بات کی ہے ۔۔افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ ہماری ایک کزن دو سال پہلے امریکہ سے آئیں تو اُنکو بھی یہی شکایت تھی کہ پاکستان میں آپ لوگوں نے رمضان کو صرف فوڈ فیسٹیول بنا دیا ہے ۔۔۔یہ سب جو ایسے ملکوں میں ہیں جہاں رمضان کی وہ گہما گہمی نہیں !!!!!پر عبادات میں اہتمام زیادہ ہے ۔
اللہ کرے ہمیں بھی اس بات سمجھ آئے کے روح کو نور افزا کرنا ہے ۔۔۔۔
پیٹ بھرنا تو اور خوب چٹخارے تو ہمارے سال کے گیارہ مہینے بھی کم نہیں ہوتے تو اس مہینے تو کم از کم پوری طرح نہ سہی پر 50 فیصد بھی دستر خوان کو ہلکا کر لیں تو کچھ بہتری کا امکان ہے ۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جزاک اللہ عمران بھائی!

اللہ تعالیٰ اس رمضان کو ہمارے لئے باعثِ مغفرت و نجات بنا دے اور ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
 
Top