زیرک
محفلین
یہ کرسی ہے جنازہ تو نہیں، اتر کیوں نہیں جاتے
بقول مشتاق احمد یوسفی "پاکستان میں عوام الناس سے مراد وہ عوام ہیں جن کا ناس مار دیا گیا ہے"۔ میں اس میں تھوڑا سا اضافہ کر دوں کہ جن کا سب نالائق حکومتوں نے مل کر ناس مارا ہوتا ہے انہی بے چاروں کو عوام الناس کہتے ہیں۔ آج کل اس کی حالت دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ جیسے اسے کسی اناڑی قصائی کے حوالے کر دیا گیا ہے، جو اسے بار بار ذبح کرتا ہے، پتا نہیں اسے ذبح کرنے کا شوق ہے یا کسی کے کہنے پر ایسا کرتا ہے، مگر یہ بے چاری روز روز ذبح ہو رہی ہے۔ ہم عوام بھی کتنی عجیب ہیں کہ ہمیں ہر حکمران میں صلاح الدین ایوبی اور ٹیپو سلطان کی تلاش رہتی ہے لیکن حکمرانوں میں سے صرف ٹوپی سلطان ہی برآمد ہوتے آئے ہیں، جو بھی آتا ہے وہ عوام کو ٹوپیاں ہی پہناتا ہوا پایا جاتا ہے۔ کرسئ اقتدارپر بیٹھنے سے پہلے تو کہتا ہے "ملک میں دودھ کی نہریں بہا دیں گے"، اور جب اقتدار کی مسند پہ بیٹھتا ہے تو بچوں کا دودھ اور غریب کی دو وقت کی روٹی بھی مشکل بنا دیتا ہے۔ کیا کریں ہمارے سلیکٹرز کبھی کسی کو موقع دیتے ہیں کبھی کسی اور کو، اس بار ایک سڑک چھاپ کو پکڑ کر وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا دیا جسے اپنا گھر چلانے کا تجربہ نہیں، اسے فری ہینڈ دیا ہوا ہے کہ جتنا ٹیکس لگانا ہے لگا لو، جتنا قرض لینا ہے لے لو، جتنی مہنگائی کرنی ہے کر لو، کوئی مخالفت میں آواز بلند کرے تو اسے جیل میں ڈال دو، بس وردی والے چاچا اور ان کے گھر کا خیال رکھو، باقی جائیں بھاڑ میں۔ بچہ سقہ حکومت کا سنا تھا، خیر سے اب اس کا نمونہ بھی دیکھ لیا۔ اس سے بہتر حکومت تو ریڑھی پہ چنا چاٹ بیچنے والا بھی چلا سکتا ہے۔ میں اور بے غم باتیں کر رہے تھے، سونے کی بڑھتی قیمتوں کی بات چل نکلی، بے غم کہنے لگی "پتا بھی ہے سونا 93،000 روپے فی تولہ کی حد کراس کر گیا ہے"، میں نے کہا "شکر ہے اسلام نے مردوں پر سونا حرام پہننا قرار دیا ہے، میں تو ویسے بھی نہیں پہنتا، تم نے میری شادی والی انگوٹھی بھی سنار کو واپس کر کے اس کی دو بنوا لی ہیں، تمہیں کیا غم ہے"۔ اس پر بے غم بولی "عمران خان دو سال مزید حکومت کر گیا پھر آپ پاکستان میں عورتوں پر بھی سونا خریدنا اور پہننا حرام سمجھیں، لوگوں کو ابھی سے کھانے پینے کے لالے پڑے ہوئے ہیں"۔ بتانے لگی کہ "اب تو دل ہی نہیں کرتا کچھ پکانے کو، ڈر لگتا ہے کہیں کھانے کی خوشبو پڑوس میں چلی جائے اور وہاں کچھ نہ پکا ہو تو جانیں اللہ کتنا ناراض ہو گا"۔ ہر کوئی مہنگائی سے تنگ ہے، لوگ اس کی وجوہات بھی جانتے ہیں لیکن لوگ مہنگائی کے مسلسل بڑھنے کی وجہ سے تو پریشان ہیں ہی لیکن اس سے بھی زیادہ مہنگائی کے معاملے پر حکومت کی بے حسی سے بھی نالاں ہیں۔ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں زبردستی داخل کرنے کی پالیسی، خریداری پر لگائی جانے والی قدغنوں اور پرائس کنٹرول نہ ہونے سے ہوشربا مہنگائی نے غریب طبقے کو تو مار کر ہی رکھ دیا ہے جبکہ امیر لوگ مال و دولت کو سنبھال سنبھال کر خرچ کر رہے جس کہ وجہ سے ریونیو دن بدن کم ہو رہا ہے اور خزانے کا خسارہ دن بدن زیادہ سے زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت ہو یا کاروباری طبقہ دونوں غریب کو بار بار ذبح کر رہے ہیں، ایسے میں غریب جائے تو جائے کہاں؟ آپ روز سنتے ہوں گے کہ فلاں نے حالات سے تنگ آ کر خودکشی کر لی، حکومتی وزراء افسوس کر کے اپنے دفتروں میں مزے سے بیٹھے رہتے ہیں، یقیناً اسی لیے مہاتما خان نے "قبر میں سکون ملنے کی بات کر کے بتا دیا ہے کہ سکون تلاش کرنے والے کہیں اور جائیں"، اب تو تحریک انصاف والوں نے مفت کا کفن بھی سپلائی کرنا شروع کر دیا ہے گویا "جس جس نے مرنا ہے وہ جلدی کرے، کفن کی ٹینشن مت لے کیونکہ وہ ہم دے دیں گے"۔ میں تو عمران خان سے اتنا کہوں گا کہ جس کو اپوزیشن میں رہتے ہوئے موجود معاشے حالات کا ادراک نہیں تھا اسے تو اس ملک پر حکومت کرنے کا اختیار نہیں، موصوف نے اقتدار میں آ کر خود ہی روپے کی ٪30 قدر گرائی اور کہتےپھرتے ہیں کہ ایسا کرنے سے امپورٹس کا بل ٪30 بڑھ گیا ہے، او بھائی یہ تمہارا کیا دھرا ہے، اب رونا کیوں دکھا رہے ہو؟ اگر نہیں کھیل سکتا تو نہ کھیل، گھر جا کسی اور کو کرنے دے، تم سے نہیں ہو گا کیونکہ تمہیں تو گھر چلانے کا تجربہ نہیں، تمہارے گھر دوست آ جائیں تو تم انہیں چائے تک کا نہیں پوچھتے، دعوت بھی کرتے ہو تو امریکن سٹائل دعوت جس میں سب پیسا ملا کر کھانا کھاتے ہیں، عمران خان پہلے بھی کہا تھا اور پھر کہتا ہوں تم سے کاروبار سلطنت نہیں چل سکتا،یہ تمہارے بس کا کام نہیں ہے، کیوں بے چارے بے بس غریب پاکستانیوں کا پیٹ کاٹ رہے ہو، کیوں ان کی بد دعائیں لے رہے ہو۔کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے