احمد مشتاق یہ کس ترنگ میں ہم نے مکان بیچ دیا ۔۔۔۔ احمد مشتاق

نوید صادق

محفلین
غزل

یہ کس ترنگ میں ہم نے مکان بیچ دیا
درخت کاٹ لئے سائبان بیچ دیا


دری لپیٹ کے رکھ دی بساط الٹ ڈالی
چراغ توڑ دئے شمع دان بیچ دیا

خزاں کے ہاتھ خزاں کے نیاز مندوں نے
نوائے موسمِ گل کا نشان بیچ دیا

اٹھا جو شور تو اہلِ ہوس نے گھبرا کر
زمین لیز پہ دے دی، کسان بیچ دیا

یہی ہے بھوک کا عالم تو دیکھنا اک دن
کہ ہم نے دھوپ بھرا آسمان بیچ دیا

(احمد مشتاق)
 

الف عین

لائبریرین
غزل تو بہت عمدہ ہے۔ لیکن یہاں کیا غلطی ہوئی ہے؟
اٹھا جو شور تو اہلِ ہوس نے گھبرا کر
مین لیز پہ دے دی، کسان بیچ دیا
(دوسرا مصرع)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اٹھا جو شور تو اہلِ ہوس نے گھبرا کر
زمین لیز پہ دے دی، کسان بیچ دیا

بہت خوب بہت اچھی غزل ہے سر جی اچھا انتخاب جزاک اللہ
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ نوید صاحب خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیے!

خزاں کے ہاتھ خزاں کے نیاز مندوں نے
نوائے موسمِ گل کا نشان بیچ دیا

واہ واہ
 
Top