قتیل شفائی یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشا جی - قتیل شفائی

فرخ منظور

لائبریرین
یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشا جی
یہ شہر تمہارا اپنا ہے، اسے چھوڑ نہ جاؤ انشا جی

جتنے بھی یہاں کے باسی ہیں، سب کے سب تم سے پیار کریں
کیا اِن سے بھی منہہ پھیروگے، یہ ظلم نہ ڈھاؤ انشا جی

کیا سوچ کے تم نے سینچی تھی، یہ کیسر کیاری چاہت کی
تم جن کو ہنسانے آئے تھے، اُن کو نہ رلاؤ انشا جی

تم لاکھ سیاحت کے ہو دھنی، اِک بات ہماری بھی مانو
کوئی جا کے جہاں سے آتا نہیں، اُس دیس نہ جاؤ انشا جی

بکھراتے ہو سونا حرفوں کا، تم چاندی جیسے کاغذ پر
پھر اِن میں اپنے زخموں کا، مت زہر ملاؤ انشا جی

اِک رات تو کیا وہ حشر تلک، رکھے گی کھُلا دروازے کو
کب لوٹ کے تم گھر آؤ گے، سجنی کو بتاؤ انشا جی

نہیں صرف “قتیل“ کی بات یہاں، کہیں “ساحر“ ہے کہیں “عالی“ ہے
تم اپنے پرانے یاروں سے، دامن نہ چھڑاؤ انشا جی
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ واہ، کیا خوبصورت اور لاجواب رثائی غزل ہے۔

بہت عرصہ قبل سنی تھی، اگر کوئی دوست شیئر کر سکیں تو نوازش۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت خوب بہت اچھی غزل ہے یہ غزل جب میں نے پہلی دفعہ پڑھی تھی تو میرا ذہین ”انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا“ کی طرف گیا تھا کیوں کے یہ غزل اس غزل کا جواب ہے میرے خیال سے
 

محمد وارث

لائبریرین
خرم صاحب یہ مرثیہ نما غزل (رثائی غزل) ہے اور ابنِ انشا کی وفات پر لکھی گئی تھی۔

غالب نے اپنی بیگم کے بھانجے زین العابدین خاں عارف (جسے وہ اپنا بیٹا سمجھتے تھے) کی جواں مرگ پر اک رثائی غزل کہی تھی:

ہاں اے فلکِ پیر، جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا، جو نہ مرتا کوئی دن اور

اسی عارف مرحوم کے چھوٹے بچوں کیلیئے غالب نے مثنوی قادر نامہ لکھی تھی جو کہ بس یوں سمجھیئے کہ لا جواب چیز ہے، اور ذخیرۂ الفاظ بڑھانے کیلیئے ایک نادر چیز، نمونے کے طور پر چند شعر:

آگ کا آتش اور آذر نام ہے
اور انگارے کا اخگر نام ہے

تیغ کی ہندی اگر تلوار ہے
فارسی پگڑی کی بھی دستار ہے

چاہ کو ہندی میں کہتے ہیں کنواں
دُود کو ہندی میں کہتے ہیں دھواں

معذرت خواہ موضوع سے ہٹ گیا لیکن بس بات سے بات نکلتی گئی :)

 
اس خوبصورت شیئرنگ کا شکریہ جناب

خود اپنی ذات میں قتیل شفائی ایک بڑا نام ہے خصوصا غزل کے حوالے سے اور اس کلام میں تو انہوں آہ و فغاں کو بڑی خوبصورتی اور خاموشی سے پرویا ہے کہ پڑھنے پر ہی احساس ہوتا ہے

ایک بار پھر شکریہ اچھی شیئرنگ کا
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ سرمد خان صاحب۔ اگر آپ نیچے ٹیگز میں قتیل شفائی کو کلک کریں گے تو مزید قتیل شفائی کا کلام بھی پڑھ سکتے ہیں۔
 
بہت شکریہ سخنور جی! بہت اچھی غزل ہے۔ پہلی مرتبہ پڑھی ہے۔ شیئر کرنے کے لیے بہت شکریہ

تیسرے شعر کے پہلے مصرعہ میں گڑ بڑ ہے۔ پلیز درست فرما دیں۔ شکریہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ سخنور جی! بہت اچھی غزل ہے۔ پہلی مرتبہ پڑھی ہے۔ شیئر کرنے کے لیے بہت شکریہ

تیسرے شعر کے پہلے مصرعہ میں گڑ بڑ ہے۔ پلیز درست فرما دیں۔ شکریہ

بہت شکریہ عمران صاحب نشاندہی کے لئے۔ تصحیح کردی ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
لاجواب غزل
خاص طور پہ یہ شعر
اِک رات تو کیا وہ حشر تلک، رکھے گی کھُلا دروازے کو
کب لوٹ کے تم گھر آؤ گے، سجنی کو بتاؤ انشا جی
 
Top