بائیس اور تئیس مئی کے دو روز میں نے اترپردیش کے قصبے دیوبند میں گذارے۔ وہی دیوبند جس نے گذشتہ ڈیڑھ سو برس میں ہزاروں جید سنی علما پیدا کیے جن کے لاکھوں شاگرد برصغیر اور دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آج بھی دارلعلوم دیوبند سے ہر سال چودہ سو کے لگ بھگ طلبا عالم بن کر نکل رہے ہیں۔
دیوبند، جس کی ایک لاکھ سے زائد آبادی میں مسلمانوں کا تناسب ساٹھ فیصد ہے، وہاں پہنچنے سے قبل میرا تصور یہ تھا کہ یہ بڑا خشک سا قصبہ ہوگا۔ جہاں علما کی آمریت ہوگی اور انکی زبان سے نکلا ایک ایک لفظ علاقے کی مسلم آبادی کے لیے حکمِ مطلق کا درجہ رکھتا ہوگا۔ جہاں موسیقی سے متعلق گفتگو تک حرام ہوگی۔ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کو دور دور سے پرنام کرتے گذر جاتے ہوں گے۔ وہاں کسی کو جرات تک نہیں ہوگی کہ بغیر داڑھی کے یا ٹخنوں سے اونچی شلوار کے بغیر بلا سرزنش آباد رہ سکے۔ دیوبند میں مسلمان محلوں میں اذان کی آواز بلند ہوتے ہی دوکانوں کے شٹر گرجاتے ہوں گے اور سفید ٹوپی، کرتے پاجامے میں ملبوس باریش نوجوان چھڑی گھماتے ہوئے نظر رکھ رہے ہوں گے کہ کون مسجد کی جانب نہیں جا رہا۔
اسی لیےجب میں نے کچھ سفید پوش باریش نوجوانوں کو دارلعلوم کے قریب ایک حجام کی دوکان پر اطمینان سے اخبار پڑھتےدیکھا تو فلیش بیک مجھے اس ملبے کے ڈھیر کی جانب لے گیا جو کبھی حجام کی دکان ہوا کرتا تھا۔
جب میں نے ٹوپیاں فروخت کرنے والے ایک دوکاندار کے برابر ایک میوزک شاپ کو دیکھا جس میں بالی وڈ مصالحہ اور علمائے کرام کی تقاریر پر مبنی سی ڈیز اور کیسٹیں ساتھ ساتھ بک رہے تھے تو میرا دماغ اس منظر میں اٹک گیا جس میں سی ڈیز اور کیسٹوں کے ڈھیر پر پٹرول چھڑکا جا رہا ہے۔ جب میں نے بچیوں کو ٹیڑھی میڑھی گلیوں اور بازاروں سے گذرتے ہوئے سکول کی جانب رواں دیکھا تو دل نے پوچھا یہاں لڑکیوں کے سکولوں میں کسی کو بم فٹ کرنے کا خیال اب تک کیوں نہیں آیا۔
جب میں نے برقعہ پوش خواتین کو سائیکل رکشے میں جاتے دیکھا تو لاشعور نے پوچھا یہاں محرم کے بغیر خواتین بازار میں آخر کیسےگھوم پھر سکتی ہیں ؟؟ کیا کوئی انہیں دُرے مارنے والا نہیں۔
جب میں نے بینڈ باجے والی ایک بارات گذرتے دیکھی تو انتظار کرتا رہا کہ دیکھیں کچھ نوجوان بینڈ باجے والوں کو ان خرافات سے منع کرنے کے لیے کب آنکھیں لال کرتے ہیں۔
جب مجھے ایک سکول میں لنچ کی دعوت ملی اور میزبان نے کھانے کی میز پر تعارف کرواتے ہوئے کہا یہ ہیں مولانا فلاں فلاں۔ یہ ہیں قاری صاحب۔ یہ ہیں جگدیش بھائی اور انکے برابر ہیں مفتی فلاں فلاں اور وہ جو سامنے بیٹھے مسکرا رہے ہیں وہ ہیں ہم سب کے پیارے لال موہن جی ۔۔۔۔۔تو میں نے اپنے ہی بازو پر چٹکی لی کہ کیا میں دیوبند میں ہی ہوں۔۔۔۔۔
اب میں واپس دلی پہنچ چکا ہوں اور میرے سامنے ہندوستان اور پاکستان کا ایک بہت بڑا تفصیلی نقشہ پھیلا ہوا ہے۔میں پچھلے ایک گھنٹے سے اس نقشے میں وہ والا دیوبند تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ جو طالبان، سپاہ صحابہ اور لشکرِ جھنگوی جیسی تنظیموں کا دیوبند ہے !!!!
بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام
براہ کرم اس آرٹیکل کو متنازعہ نہ بنائیں بس نفس مضمون تک ہی رہیں۔