ضرور. فاروق سرور ایسا ہی تو کر رہے تھے، لیکن وہ رعنا فانٹ کیا ہوا؟
زبردست۔ میں نے نقاش اور شاہکار دونوں کو استعمال کیا ہے۔ اس وقت مجھے نقاش شاید دو ہزار روپے میں ملا تھا اور ساتھ شاہکار فری میں ۔ اور پروگرامز کی مارکیٹ کرنے والے لیگیچرز کی تعداد کو اس وقت بھی اہمیت دیتے تھے۔ اور نقاش بیچنے والے نے مجھے بتایا تھا کہ اُس وقت سب سے زیادہ لیگیچرز اسی پروگرام میں تھے ۔ بہر حال اس کو بہت عرصہ استعمال کیا لیکن شاہکار کو ایک دو بار سے زیادہ استعمال نہ کر سکا کیونکہ یہ نقاش کے مقابلے میں کافی مشکل لگتا تھا۔ شاید اپنی ٹیگنگ کی وجہ سے۔ جبکہ نقاش میں مینو کا استعمال کیا گیا تھا۔اس كام كے لئے كامپسي نے جناب ضيا حميد طور كي خدمات حاصل كيں اور انہوں نے صرف آٹھ ماہ كي قليل مدت ميں شاہكار كا ڈاس بيس اردو پروگرام بنا ديا۔ اس پروگرام كے ماركيٹ ميں آتے ہي ہر طرف اردو كمپيوٹر پر چلنا شروع ہو گئي۔ اور شاہكار ١٩٨٨ سے لے كر ١٩٩٢ تك ماركيٹ ميں چھايا رہا اور كوئي اسكا ثاني نہ تھا۔ اور كئ لاكھ روپے كي مونو مشين سے صرف چند ہزار ميں يہ سافٹ وئير دستياب تھا۔ اس وقت شايد ونڈوز نام كي كوئي چيز كمپيوٹر پر نہيں تھي۔ اس لئے ہر سافٹ وير ڈاس بيس تھا۔ حتي كہ مائكرو سافٹ ورڈ بھي dos پر چلتا تھا۔ بہرحال اسكے بعد بہت سے لوگوں نے اردو پر كام كيا جن ميں قابل ذكر نقاش سافٹ وير بھي تھا جو كہ مائكرو سافٹ ورڈ فار ڈاس پر چلتا تھا۔ اس كو بھي كافي پذيرائي ملي۔ اسكے بعد سقراط، بقراط اور ہمالہ وغيرہ كے نام سے ڈاس بيس سافٹ ويئر بھي آئے ليكن سب ميں ايك ہي طرح كا فانٹ استعمال ہوا۔ جو تقريبا نوري نستعليق سے ملتا تھا۔ اسي طرح راقم اور كئي اور اردو سافٹ وير ماركيٹ ميں آگئے۔ ١٩٩٧ ميں جب ان پيج ريليز ہوا اور ماركيٹ ميں عام ہو گيا تو پھر ان ڈاس بيس پروگرام كا نام و نشان بھي مٹ گيا۔ كيونكہ ونڈوز ميں wyswyg كام كرنا ڈاس ميں كام كرنے سے كئي گنا زيادہ آسان تھا۔ ميں چونكہ شاہكار، سقراط اور ہمالہ ميں كسي نہ كسي طرح شامل تھا اسلئے سوچا كہ چلو تھوڑي سي ڈاس بيس پروگرامز كي تاريخ ہي دوستوں كو مہيا كر دي جائے۔
زبردست۔ میں نے نقاش اور شاہکار دونوں کو استعمال کیا ہے۔ اس وقت مجھے نقاش شاید دو ہزار روپے میں ملا تھا اور ساتھ شاہکار فری میں ۔ اور پروگرامز کی مارکیٹ کرنے والے لیگیچرز کی تعداد کو اس وقت بھی اہمیت دیتے تھے۔ اور نقاش بیچنے والے نے مجھے بتایا تھا کہ اُس وقت سب سے زیادہ لیگیچرز اسی پروگرام میں تھے ۔ بہر حال اس کو بہت عرصہ استعمال کیا لیکن شاہکار کو ایک دو بار سے زیادہ استعمال نہ کر سکا کیونکہ یہ نقاش کے مقابلے میں کافی مشکل لگتا تھا۔ شاید اپنی ٹیگنگ کی وجہ سے۔ جبکہ نقاش میں مینو کا استعمال کیا گیا تھا۔
واہ آج تو اس دھاگے کو پڑھتے ہوئے مجھے نقاش کا پاس ورڈ بھی یاد آگیا جو "برکت علی" تھا۔ جس سے نقاش رجسٹرڈ ہو جاتا تھا۔ میرے پاس شاید ابھی بھی یہ پروگرام کسی سی ڈی میں پڑا ہو۔ اب دیکھنا چاہیے کہ اس میں لیگیچرز کیسے ڈالے گئے تھے۔ کیونکہ اس وقت بھی وہ فائلیں میگا بائٹس میں تھیں۔
محترم سعادت صاحب۔ شاہکار اور نقاش دونوں dos کے پروگرام تھے اور یہ ونڈوز پر شاید نہ چلیں۔ اگر آپ ان کے لیگیچر استعمال کرنا چاہتے ہیں تو یقین کریں کہ نوری اور جمیل نستعلیق سے اچھے لیگیچر آپ ان پروگرامز سے حاصل نہیں کر سکتے۔ کیونکہ شاہکار میں bitmap فانٹ استعمال ہوا تھا اور یہ 24 پوائنٹ سے بڑا نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ یہ آئوٹ لائن میں نہیں تھا لیکن شاید نقاش میں .ttf استعمال ہوا تھا۔ لیکن یہ بھی مائکروسافٹ ورڈ فار ڈاس کے لئے بنا تھا۔ اگر آپ دوست فانٹ یا لیگیچر ان پرانے ڈاس بیس پروگرامز سے لینا چاہتے ہیں تو میری ناقص رائے میں آپ صرف اپنا قیمتی وقت ضائع کریں گے۔
جناب نبیل صاحب۔ ضیاء حمید طور صاحب علامہ اقبال ٹائون لاہور میں رہائش پذیر ہیں اور آجکل بھی لاہور میں ہی ہوتے ہیں۔ انہوں نے کمپیوٹر پروگرامنگ تقریبا 12 سال کی عمر میں ہی شروع کر دی تھی۔ انہوں نے 1984 یا 85 میں کمپیوٹراز شناختی کارڈ کی ڈیمو بھی دی تھی جب شاید بہت سے لوگوں نے کمپیوٹر دیکھا بھی نہیں تھا۔ شاہکار پروگرام انہوں نے اپنی انجینئرنگ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران ہی بنا دیا تھا۔ اور اُسوقت وہ اپنی پروگرامنگ کے فن میں ماہر مانے جاتے تھے کم از کم میرے مشاہدے کے مطابق۔
انہوں نے کمپیوٹر سافٹ ویئر میں بہت کام کیا لیکن ہمارے اور ہمارے بڑوں کے رویہ سے تنگ آکر انہوں نے تقریبا سافٹ ویئر کو خیر باد کہہ کر ہارڈویئر میں بہت کام کیا۔ چونکہ انہوں نے الکٹریکل انجینئرنگ میں ڈگری لی تھی اسلئے وہ سافٹ ویئر سے زیادہ ہارڈویئر بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ضیا حمید طور صاحب کے کارنامے لکھے جائیں تو ایک کتاب بن سکتی ہے۔ لیکن انہیں تشہیر بالکل پسند نہیں ہے۔ انتہائی مخلص، ملنسار، نیک اور روپے پیسے کے لالچ سے عاجز میرا یہ دوست شہرت کی بجائے گمنام رہ کر کام کرنے کا زیادہ شوقین ہے اسی لئے انکی ذات اور انکی صلاحیتوں کے بارے میں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں۔
آخر میں صرف یہی کہوں گا کہ ضیا حمید طور صاحب گنتی کے ان چند لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو سافٹ ویئر اور ہارڈ وئیر میں بہت کچھ کر سکتے ہیں لیکن شاید اس طرح کے مخلص اور محنتی لوگ ہمیں گوارا نہیں ہیں۔ پاکستان سے باہر جا کر کام کرنا وہ پسند نہیں کرتے شاید اسے لئے ہم ایک بہت ہی عمدہ اور محنتی ٹیلنٹ کو ضائع کر رہے ہیں۔