سید لبید غزنوی
محفلین
محبت اپنے اندر بہت سے خوبصورت رنگ چھپائے ہوئے ہے لیکن یہ دیکھنے والے کی نظر اور سوچ پر منحصر ہے کہ وہ اس کو کیسے دیکھتا اور سوچتا ہے۔ محبت ایک خوب صورت احساس ہے ، محبت ایک حسین جذبہ ہے، محبت آسمان پہ پھیلے ہوئے قوسِ قزح کے وہ سات رنگ ہیں جن پر نظر پڑتے ہی آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ محبت نام ہے دینے کا جس میں کوئی سودے بازی نہیں، یہ تو بے غرض ہے یا تو ہوتی نہیں، ہوتی ہے تو بس ہوتی ہے۔ “ میں سعادت حسن منٹو کے افسانے میں گم تھی، نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے کہنا پڑا۔
” دیکھو کون ہے باہر کب سے ڈور بیل بج رہی ہے ، نہ جانے کہاں چلے گئے سب کے سب۔“
افوہ ، ہر کوئی اس چکر میں ہے کہ اس کو دوروازہ نہ کھولنا پڑ جائے، ایسے ٹائم میں سب خاموشی میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ منٹو جو میرا پسندیدہ افسانہ نگارہے، ویسے جب بھی میں کوئی تحریر پڑھتی ہوں ساتھ میں یہ ٹی وی کی وجہ سے میں نے کتاب ایک طرف رکھی کیوں کہ ایک وقت میں دو مہمان لوگوں کے ساتھ نا انصافی مجھ سے نہیں ہوسکتی تھی۔ میں نور جہاں کے گیت میں پوری طرح کھوئی ہوئی تھی۔ ” وہ مجھ سے پہلی سے محبت میرے محبوب نہ مانگ۔“ دینو بابا کی آواز آئی۔
” میں دیکھتا ہوںبٹیا“۔ ہمارے دینو بابا بھی کمال کے موڈی انسان ہیں اگر دل ہو تو پورے گھر کے کام ان کے ذمّے اور اگر انہوں نے نہ کردی تو کیا مجال کوئی ان سے ہاں تو کروالے۔ انکی نہ تو صدر بش کی نہ سے بھی زیادہ پتھر پر لکھیر ہوتی ہے۔” خبروں کا وقت ہوا چاہتا ہے“ ٹی وی پر زیادہ خبریں ہی تو ہوتی ہیں۔ یہ کون سی نئی بات تھی بھلا۔
” میں ہوں ثنائ سب سے پہلے اہم خبریں۔“ میں نور جہاں کی جادو بھری آواز کے سحر سے نکلی، اب میری نظریں ٹی وی اسکرین پر جمی ہوئی تھیں۔
”یوکے، کے شہر لیڈز میں ایک خاتون نے پہلے اپنے تین عدد بچوں کو ریل کی پٹڑی پر دھکا دیا اور اس کے عبد خود بھی چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔“ اس خبر نے جیسے مجھے ہلاکر رکھ دیا۔
” کوئی ماں اپنے بچوں کو کیسے مار سکتی ہے ؟“۔ یوں لگا جیسے میرے ماضی کے بند دریچے آہستہ آہستہ کھلنے کھلنے لگے اور میں اس لمحے کو یاد کرنے لگی جب کافی عرصے کے بعد ثمینہ مجھے میرے کزن کی شادی میں ملی تھی۔
ظالم ہمیشہ کی طرح خوبصورت ساتھ میں دو گول مٹول سے بچے۔ شادی کے بعد پانچ سال بعد بھی وہ ویسے کی ویسے اسمارٹ تھی۔“ ہاں تھوڑی سی موٹی ضرور ہوئی تھی۔ ثمینہ کو پڑھنے کے سوا ہر چیز پسند تھی۔ گانے اور ناچنے کے علاوہ ہر وقت بننے سنورنے کا بے انتہائ شوق۔ کالج میں بھی وہ میری اس بات سے خفا ہوتی کہ میں اس کو پڑھنے کا کہتی۔
اپنی پیاری دوست کو اتنے سالوں بعد دیکھا تو میری خوشی کی کوئی انتہائ تھی اور یہی حال اس کا بھی تھا۔ چونکہ کافی عرصے بعد ملے اس لیے بہت سے سوالات کا دماغ میں گردش کرنا کوئی بڑی بات بھی نہ تھی۔ میں بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئی جہاں وہ ہمیشہ کی طرح ڈھولک سنبھالے ہوئے تھی۔ کوئی تقریب ہو شادی کی ڈھولک ہمیشہ ثمینہ ہی بجاتی تھی۔ دونوں بیٹوں کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی شرارت تھی۔ آمنے سامنے بیٹھے ہوئے بار بار وہ اپنی ماں سے ڈھولک چھیننے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے جن کو وہ وقفے وفقے سے غصہ کرکے پیچھے ہٹاتی۔ رات گئے تک مہندی کی رسمیں چلتی رہیں۔ اس کے عبد ہم دونوں اور بچے کمرے میں سونے کے لیے آگئے تھے۔ جب بچے سوگئے تو مجھے یوں لگا جیسے وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی تھی۔ بات کو میں نے آگے بڑھایا او
پوچھ بیٹھی۔
” تم نے اچانک کالج کیوں چھوڑا؟“ تھوڑی دیر خاموشی رہی ، جیسے وہ الفاظ کو جمع کرکے کوئی مضمون بنانا چاہ رہی ہو۔ اس کی کھوئی ہوئی آواز نے جمود توڑا۔
”بہت کچھ بولنا ہے تم سے۔“ میں نے جواباً ہاتھ اس کے ہاتھوں پر رکھ دیا۔
” میری یہ شادی محبت کی شادی ہے۔ میری شادی پر کوئی خوش نہیں تھا نہ ماں، باپ نہ ماموں، خالہ لیکن مجھے ان سب کی پروا کب تھی۔ میں تو بس اتنا جانتی تھی کہ میری ضد کے آگے کچھ نہیں ہوسکتا۔ میں نے ندیم کودل و جان سے چاہا۔
”ندیم تم کو کہاں اور کیسے ملا؟“
” میں کالج جاتے ہوئے بس کی کھڑکی سے آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھ رہی تھی۔ ایک سفید رنگ کی گاڑی پر میری نظر ٹھہر سی گئی۔ بس کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی گاڑی میں بیٹھا شخص میری طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ وہ ندیم ہی تھا۔ اب تو روز ایک نئی گاڑی کے ساتھ وہ آتا۔ اس کو دیکھنے کے بعد تو مجھے یوں لگتا جیسے میرا دل دھڑکنا بند کردے گا۔
ایک دن ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ میں ابھی بس اسٹاپ پر پہنچی ہی تھی کہ ایک جھٹکے کے ساتھ ندیم کی کار آکر رکی۔ مجھے گاڑی میں بیٹھ جانے کو کہا۔ مجھے لگا میرے اپنے بس میں کچھ نہیں رہا۔ میرا ریموٹ کنٹرول تو اس کے پاس ہے۔ میں جھٹ سے گاڑی کی فرںت سیٹ پر بیٹھ گئی اور اپنے چہرے سے بارش کے قطروں کو ہاتھ سے صاف کرنے لگی۔ تب ندیم نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھوں پر رکھ دیا۔“
” ڈر لگ رہا ہے۔“ میں نے نگاہیں اٹھا کر ندیم کی طرف دیکھا۔” تیم نہیں جانتیں کہ میں تم کو کتنا چاہتا ہوں۔ ثمینہ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں تم کو اپنے گھر اور دل کی ملکہ بنانا چاہتا ہوں۔“ تب میں نے اپنے آپ کو اتنا اونچا محسوس کیا جیسے ساری دنیا قدموں تلے ہو۔
یہ نہیں تھا کہ اس سے پہلے کسی نے مجھ سے محبت کا اظہار نہیں کیا لیکن مجھے تو کسی شہزادے کا انتظار تھا جو سفید گھوڑے پر آئے گا۔ آیا تو شہزادہ ہی تھا ، میرے سپنوں کا لیکن سفید گاڑی میں“۔ میں نے اس دوران ایک نظر ثمینہ کے چہرے پر ڈالی جو آنکھیںاوپر کیے چھت کو گھورہی تھی۔ ثمینہ بہت دکھی لہجے میں بولی۔
” جانتی ہو سب سے بڑا گناہ مڈل کلاس ہونا ہے اور جس کا احساس میرے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ہم یا تو پیدل چلنا یا بس میں سفر کرنا افورڈ کرسکتے ہیں اور ایسے میں ایک امیر کبیر چاہنے والا مل جائے تو مجھ جیسی لڑکی کو اور کیا چاہیے تھا بھلا۔ میں اپنے آپ کو ملکہ تصور کرنے لگی جو اپنی سطلنت کی مالک ہے جو راج کرنا چاہتی ہے ، جیسے میرے چاروں طرف نوکر چاکر بھاگ دوڑ رہے ہوں۔ واپسی کا ٹائم ہوچکا تھا ندیم سے دوری کا درد برداشت نہیں ہوتا تھا لیکن کل ملنے کا وعدہ کرکے اللہ حافظ کہنا پڑا۔ گھر کی آخری سیڑھی پر قدم رکھا تو حسبِ معمول امی کو کچن میں ہی پایا۔
دو کمروں کا یہ سرکاری گھر۔ ایک کمرا امی ، ابو کے پاس اور دوسرا بڑا کمرا جو کہنے کو تو ڈرائنگ روم تھا۔ ایک صوفہ سیٹ پرجس کی غربت بین کررہی تھی، کونے میں میری چار پائی اور ابو کے دفتر سے لائی ہوئی پرانی لوہے کی الماری۔ سب کچھ کبھی نہ بدلتا تھا۔
ابو سرکاری کلرک تھے۔ مجھ سے پہلے دو بہن بھائی پیدا ہوتے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اسی لیے گھر بھر کی لاڈلی تھی۔ میں امی کو نظر انداز کرکے اپنے کمرے کی طرف چل دی۔ اب تو یہ معمول بن گیا کہ گھر سے کالج کے لیے نکلتی اور سارا دن گھوم پھر کر آجاتی۔ ہم ایک دوسرے کے اتنے قریب آچکے تھے جہاں سے واپسی نا ممکن لگتی تھی۔ یقین کرو تب مجھے اپنے بوڑھے ماں باپ کی عزت کا بھی خیال نہیں آتا تھا بلکہ آج اسی گھر سے مجھے نفرت اور گٹھن محسوس ہورہی تھی جہاں پہلی دفعہ میں نے چلنا سیکھا تھا۔“
رات کافی ہوچکی تھی۔ میں جو ہمیشہ جلدی سونے والی، نیند کوسوں دور تھی اور چاہتی تھی کہ جتنا جلدی ممکن ہو سہ سب کچھ کہہ دے جو مجھے ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا۔ شادی والے گھر میں مکمل خاموشی تھی ، آدھی رات کا وقت، دونوں بچے گھری نیند میں جب کہ چھوٹے بیٹے کا سر ثمینہ کی گود میں تھا ، تھوڑی تھوڑی
دیر کے بعد وہ انگلیاں بیٹے کے بالوں میں پھیرتی جاتی تھی اور بڑے بیٹے کی ناک وقفے وقفے سے بند ہوجاتی جس کی وجہ سے وہ عجیب آوازیں نکالتا تو گھبرا کر اسے بھی کروٹیں دلاتی جاتی۔ باہر سے آتی ہوئی لکی سی روشنی میں مجھے ثمینہ کا چہرہ صاف دکھائی دے رہا تھا ……..کرب اور درد جواس کے چہرے پر عیاں تھا۔ میرے پوچھنے پر ایک آہ بھری اور پھر متوجہ ہوگئی۔
” ندیم سے میں اصرار کرنے لگی کہ مجھ سے شادی کرنلے تب اس نے مجھے بتایا کہ اس کی شادی تو بہت پہلے ہی اپنی کزن سے ہوچکی ہے جس کو وہ چاہتا تھا کسی زمانے میں اور اس کے چار بچے ہیں، ایک بیٹا اور تین بیٹیاں، بڑے بیٹے کی عمر بائیس سال ہے۔ جبکہ میری اس وقت انیس سال تھی لیکن سچ کہتے ہیں محبت اندھی ہوتی ہے لیکن میری محبت اندھی، گونگی، بہری سبھی کچھ تھی۔ ندیم یہ سب کچھ کہہ کر مجھے بس اسٹاپ پر چھوڑ کر کب کا جا چکا تھا۔ میں بوجھل قدموں کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی۔ ماں کو کچ دنوں سے مجھ پر شک تھا تبھی تو ایک دم ہی گرج پڑیں“۔
”کہاں گئی تھی “۔ کالج سے تو تمہارا نام خارج ہوچکا ہے۔ بکواس کرتی ہو۔ آج کوئی بھائی سر پر ہوتا تو تہمارے یہ چال چلن نہ ہوتے۔ غصے میں پھولی ہوئی سانس کے ساتھ وہ جانے کیا کچھ کہہ رہی تھیں۔ بے ربط جملے، بے بسی سے بھیگی آنکھیں۔ سونے کی انگوٹھی اور اس کے ساتھ کے ٹا پس کس ذلیل نے دیئے ہیں اور اس کے ساتھ کیا کچھ کیا۔ کیا جواب دیتی بس اتنی کہہ سکی کہ وہ بہت امیر کبیر ہے اور مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ ماں کو ایسی حالت میں کچھہ نہ سوجھا تو یہ کہہ کر چلی گئیں کہ اس سے کہو جلدی سے اپنے گھر والوں کو لے کر آئے۔“
صبح کی اذاں سنائی دی تب ثمینہ خاموش ہوگئی۔
میں اٹھی، وضو کیا اور نماز پڑھنے لگ گئی۔ سلام پھیرنے کے بعد ثمینہ پر نظر پری ، وہ سوچکی تھی تب میں بھی اپنے بیڈ کی طرف چل دی۔
اگلا دن کافی مصروف گزرا۔ بازار سے چند چیزیں لینی تھیں۔ رات کو برات تھی۔کافی ہلاّ گلا، شورشرابا ہر کسی کو جلدی تھی۔ خواتین تو چلو بدنام لیکن یہ مرد حضرات کو کیا ہوگیا کہ بیوی سے زیادہ فیشن کے چکروں میں۔ برات تیار تھی کہ سامنے سے ثمینہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ آتی دکھائی دی۔ کالے رنگ کی شیفون کی ساڑی جس کے اوپر خوبصورت سفید کام ہو اتھا اور ساتھ میں سفید موتیوں کا خوبصورت گولڈ کا سیٹ۔ بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔ ویسے وہ کسی ملکہ سے کم تھی بھی نہیں۔ براتکی بھی رسمیں رات دیر تک چلتی رہیں لیکن میری ہمت جواب دے چکی تھی اور میں سونا چاہتی تھی سو اپنے کمرے میں آگئی۔
بچوں کے شور اور خواتین کے اونچا اونچا بولنے پر آنکھ کھل گئی۔ خواتین کو پتہ نہیں یہ بیماری کیوں ہے اونچا بولنے کی۔ ساتھ بیٹھی خاتون کے ساتھ اتنی اونچی آواز سے بات کریں گی ، لگے گا جیسے وہ چاند پر بیٹھی ہوں۔ حلوہ پوری کی خوشبو نے بھوک دو چند بڑھادی۔ سامنے سے آتی ہوئی ثمینہ کو میں نے ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بلوالیا تاکہ ناشتا ساتھ ہی کرلیں۔ ولیمہ چونکہ رات کا تھا اس لیے کوئی جلدی نہیں تھی۔
” بچے کہاں ہیں؟“ دونوں کو ساتھ نہ پاکر پوچھا۔
” رات کو پاپا کے ساتھ گھر چلے گئے“
”اور تم؟“
”نہیں میں نہیں گئی۔ نہ جانے کیوں اس گھر میں میرا دم گھٹتا ہے۔“
”تم نے تو اپنی پسند اور اپنی مرضی سے شادی کی۔
کیا تم اپنی سلطنت میں خوش نہیں ہو؟“ میرے اندر بہت سے سوالات مجھے پریشان کررہے تھے لیکن میں نے پوچھا کچھ نہیں۔
” ایک دن میں نے ندیم سے کہہ ہی دیا۔ جو بات مجھے اندر ہی اندر کھائے جارہی تھی کہ میں اپنے ماں باپ کو کیسے بتا?ں کہ تم شادی شدہ ہو“
یہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔ ندیم نے اتنے پرسکون لہجے میں جواب دیا جیسے یہ کوئی بڑی بات ہی نہ ہو پھر ایک دن وہ ہمارے گھر آ ہی گیا۔ تعارف کرانے کے بعد وہ امی ابو کو یقین دلارہا تھا۔آپ یقین کریں۔ میں ثمینہ کو بہت خوش رکھوں گا۔ چونکہ میں ایک پٹھان بنگش فیملی سے تعلق رکھتا ھوں اس لیے ابھی اپنے گھر والوں کو نہیں بتانا چاہتا۔ بعد میں سب ٹھیک ہو جائے گا وہ نہایت دھیمے لجہے میں امی ابو کو بتا رہا تھا، بس آپ شادی کی تیاری کریں۔؛ اچھا پھر۔۔۔۔۔۔ میں بیچ میں ھی بول پڑی
ہونا کیا تھا۔ مجھے بھی ثمینہ عزیز سے ثمینہ ندیم بینے کی جلدی تھی۔ انسان کتنا خودغرض ہے اپنی ذات کے سوائ کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا اور مجھے بھی بس ندیم چاہیے تھا۔ یا پھر ان چمکتی ہوئی گاڑیوں کا اثر تھا۔ میں یہ بھی بھول گئی کہ وہ شادی شدہ ہے اور چار بچوں کا باپ بھی ، لیکن گھر والوں کو توفکر تھی۔
لڑکے کی عمر زیادہ ہے ثمینہ کی ماں۔ابو کی کمزور آواز سنائی دی
آدمیوں کی عمریں کس نے دیکھی ہیں۔ اچھی شکل اور سب سے بڑی بات پیسے والا ، اور کیا چاہیے اپنی ثمینہ کے لیے، نا جانے کس مجبوری میں ابھی تک شادی نہیں کی۔ میں نے باوجود اس کے کے ندیم شادی شدہ ہے اور چار بچوں کا باپ بھی کچھ نا سوچا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور نہ ہی سوچا کہ پہلی بیوی پر کیا گزرے گی۔؛
ثمینہ تئمھاری چاے ٹھنڈی ہو گئی ہے لاو دوسری لادوں۔ میں نے کپ اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہاتھا۔
نہیں جہاں زندگی ٹھنڈی پڑ گئی ہو وہاں چاے کا ٹھنڈا ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ وہ اسی یاسیت سے بولی تھی
بعض دفعہ ہم کو ہمارے کیے کی سزا ملتی ہے
وہ بہت دکھ سے بولی
شادی کا یہ فیصلہ ہوا کہ خالہ کے گھر برات جائے گی اور میں دلہن بن کر اپنے ہی گھر آوں گی اور کچھ دنوں بعد وہ مجھے الگ گھر میں رکھے گا۔ میرا ریموٹ تو اسکے ہاتھ میں تھا۔ جیسے وہ چاہتا میں ویسے ہی کرتی۔ امی ابو نے شور کیا لیکن میری ضد اور زہر کھاکر مر جانے کی دھمکی کارآمد ثابت ہوئی اور وہ اعتراز بھی نا کر سکے۔
ندیم کی طرف سے کوئی نہیں تھا۔ نا کوئی دوست ، اور رشتےدار کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دلہن بن کر اپنے اسی کمرے میں ، اب اس کمرے میں چارپائی کی جگہ ڈبلبیڈ نے لے لی تھی کونے میں پڑی الماری کو ہٹا کر ڈریسنگ ٹیبل رکھ دی اور نیا صوفہ سیٹ جو ندیم نے خریدا تھا۔
اسکمرے میں تو یہی تبدیلی آئی تھی ہاں میری زندگی کی تبدیلی میں ندیم کا احساس ، ندیم کو حاصل کرنے کا غرور ،جو آب میری ملکیت تھا، جس کو کوئی مجھ سے چھین نہیں سکتا تھا۔
وقت گزرتا رہا۔ جب بھی میں دوسرے گھر کی بات کرتی۔ تو یہ کہہ کر خاموش کروادیا جاتا کہ ثمینہ تم میری بیوی کو نہیں جانتی اس کو اگر ہماری شادی کا پتہ چل گیا تو وہ مجھ کو قتل کر دے گی۔آخر کار اپنے مجھے اپنی امی اور ابو کو بتانا ہی پڑا ندیم کے بارے میں لکین اب وہ کیا کر سکتے تھے۔ سب کچھ تو داو پر لگ چکا تھا۔ اس دوران میں نے بیٹے کو جنم دیا۔ بچے کی پیدائش پر ندیم بہت خوش تھا۔ ثمینہ تم نے مجھے ایک وارث دے دیا۔جانتی ہو۔ ہم پٹھان لوگوں میں لڑکے کی کتنی اہمیت ہے۔ تب میرے اندر غرور اور بھی بڑھ جاتا۔ جب بار بارمجھے میری اہمیت کا احساس دلاتا۔ اب ندیم کا معمول بن گیا تھا کہ وہ تین دن میرے پاس اور تین دن دوسری بیوی کے پاس ہوتا۔ ایکسال بعد میرا دوسرا بیٹا پیدا ہوا۔
سونو تم رات کو ولیمے پر کون سا ڈریس پہنوگی؟ کیا مجھ سے کچھ کہا میں نے سر اٹھا کر پاس کھڑی کزن ماہم سے پوچھا میں ثمینہ کی باتوں میں اتنی گم تھی۔
جی نہیں فرشتوں سے کہا۔ تو لڑکی پھر جواب بھی فرشتے ھی دیں گے میں نے باظاہر ہنس کر کہا تھا لیکن ماہم تپ کر چلی گئی میں پھر ثمینہ کی طرف متوجہ ھوئی جو اپنے ہاتھ کی لکیروں میں گم تھی
کیا دیکھ رہی ہو؟میں نے پوچھا۔ کہتے ھیں جب ہم پیدا ہوتے ہیں تو ہمارا اچھا برا ہاتھ کی لکیروں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ تو پھر۔۔۔۔۔۔ ثمینہ نے بے بسی سے ہنس رہی تھی۔ یا شاید مجھے لگ رہا تھا
نہیں میری جان اللہ نے اسی لیے تو عقل بھی دی ھے میں اس کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی اس دن میری سلطنت اور میرے خواب کرچی کرچی ہوئے جب ندیم نے یہ کہا کہ وہ شوروم کا مالک نہیں بلکہ ملازم ہے مالک خود دبئی ہوتا ہے اس لیے شوروم اس کے حوالے کر کے گیا ہوا تھا۔ اب وہ واپس آگیا ھے اس لیے ساری عیاشی ختم۔ میں یہ سب کچھ نہ سہہ سکی اور پھر ہمارے درمیاں کسی نہ کسی بات پر جھگڑا رہنے لگا۔ ندیم اب وہ پہلے والا ندیم نہیں تھا۔ جس طرح پتینگ آڑاتے ہوئے آہستہ آستہ ڈور چھوڑنی پڑتی ہےاور ندیم بھی مجھے اس ڈور کی مانند لگا ۔جو آہستہ آہستہ چھوٹ رہی ہے اور ساتھ میں پتنیگ کے کٹ جانے کا ڈر بھی
ایک دفعہ تو حد ہو گی جب اس نے میرے ساتھ اسچھوٹے سے گھر میں رہنے سے انکار کر دیا۔اور یہ دھمکی بھی دی کہ دونوں بچے مجھ سے چھیں لے گا۔تب میری حالت اس زخمی شیرنی جیسی ہوگئی۔ جو چوٹ لگنے کے بعد پاگل ہو جاتی ہے۔ مجھے چھوڑ دے گا۔ کیسے سوچ لیا اس نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نا ممکن
آپ کا فون ھے ہم دونوں نے چونک کر اس لڑکی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ میرا نہیں ثمینہ باجی کا وہ یقینا کی کوئی جاننے والی تھی۔واپس آتی ثمینہ کے چہرے پر ہلکی سی پریشانی تھی۔ کیا ہوا سب ٹھیک تو ھے نا میں نے فوراَ پوچھا۔ بیٹے کی طبیعت خراب ہے جانا ہو گا۔
پریشان نہ ہو سب ٹھیک ہو گا انشائ اللہ میں نے تسلی دی۔
رات کو میں نے انتظار کیا لیکن وہ نہیں آئی ولیمے کے بعد ہر کوئی اپنی کاروبار زندگی میں مصروف ہوگیا
فون کی بیل کب سے بج رہی تھی اور دینو بابا ہمیشہ کی طرح نا جانے کہاں تھے۔ میں کچن سے تقربیا بھاگ کر فون پر لپکی۔ کہیں بند ھی نہہو جائے مجھے نہ جانے کیوں ثمینہ کے فون کا انتظار تھا۔ کہکہیں وہ اپنے ساتھ کچھ کر نا لیے
ہیلو کون ؟ دوسری طرح میری کزن ماہم تھی تم کو پتہ ھے ثمینہ کا ، ناجانے اس کی آواز میں کیا تھا۔ جو میرا دل اتنی زور سے دھڑکا جیسے مجھے ہارٹ اٹیک ھو جائے گا۔ کیا ثمینہ نے خودکشی کر لی۔ میں اس کے سوا اور کیا سوچتی۔ اسی بات کا مجھے ڈر تھا۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ تو کچھ بتاو بھی۔کیا ہوا۔تب ماہم نے مجھ سے جو کہا وہ بھی کسی ہارٹ آٹیک سے کم نہیں تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا ،اف میرے خدایا دونوں بچے کیسے مر سکتے ہیں۔ میں نے اپنی ساری قوت گویائی یکجا کی
ثمینہ تو پاگل ہو گئی ہو گی۔ نہیں وہ بڑی پرسکون ہے۔۔کیا میں زور سے چلائی۔ پھر تم پاگل ہو گی ہو ۔جس ماں کے ایک ہفتے میں دو بچے مر گے ہوں تو وہ پرسکون کیسے ہو سکتی ہے÷۔ مجھے ماہم کی ذہنی حالت پر شک ہونے لگا۔
کچھ ٹائم پہلے وہ اپنے بیٹے کو جاویدکے کلینک لر کر گئی تھی۔ اور یہ کہا تھا۔ کہ اس نے غلطی سے نیند کی گولیاں کھا لی ہیں۔ بروقت علاج کی وجہ سے یوں تو بچہ خطرے سے باھر تھا میرے میاں نے دو دن بعد آنے کو کہا لیکن ثمینہ نہیں گئی۔ میں سانس روکے سن رہی تھی۔ دوسری طرف سے ماہم نے مجھے خاموش پاکر پوچھا سن رہی ہو نا۔ وہ چلائی۔مجھے لگا اب تو بس قیامت ھی آنے والی ھے
ہاں ہاں جلدی بولو۔
چھوٹے بیٹے کے ٹھیک ایک ہفتے بعد پتا چلا کہ بڑے بیٹے کو بخار ہوا اور وہ دو گھنٹے کے اندر اندر وہ بھی چل بسا
یا میرے خدایا۔وہ تو پہلے اتنی دکھی تھی اور یوں دونوں بچوں کا مر جانا کیا کرتی ہو گی ثمینہ
میرے آنسو روکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ پھر ماہم نے یہ کہہ کر حیران کر دیا سب تو یہ کہتے۔ہیں اور جاوید بھی کہ وہ بچے مرے نہیں ہیں۔ مارے گے ہیں ان کو ثمینہ نے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا ھے۔کیونکہ چند دن پہلے اس نے کسیسے کہا تھا کہاگر میں ندیم کی نا ہوئی تو یہ بچے بھی کسی طرح اس کے نہیں ھونے دوں گی۔ میں نیم مردہ حالت میں اپنے بکھرے وجود کو یکجا کر رہی تھی۔اور وہی کرسی پر ڈھیر ہو گئی۔فون کب کا بند ہوچکا تھا۔ ھر طرف ویرانی اور اداسی چھائی ہوئی تھی۔
یہ کیسی محبت تھی۔خود غرضٰ کی انتہا۔۔۔۔۔۔ بدلہ لینے کی آگ میں جلنے والی بےچاری ثمینہ خود جہنمی ہوگئہی تھی۔ اس کے پاس کیا بچا تھا، سواے خسارے کے اس پرتو کسی صورت رحم بھی نہیں آتا ،جس نے دو معصوموں کی۔ جان لی۔ یہ کیسی محبت تھی۔ محبت کرنے والے تو جان دیتے ہیں جان لیتے نہیں اس وقت مجھے رہ رہ کر یوکے کی اس عورت کا خیال آرہا تھا۔ جس نے اپنے بچوں کو مار کر خود اپنی جان دے دی۔۔ کل ثمینہ نے بھی وہی کچھ کیا۔ لیکن ثمینہ زندہ ھے۔ محبت ایسی کب تھی اسے تو خودغرضوں نے اپنی خواہشوں کی سولی چڑھا کر بے رحم کر دیا ہے محبت بھی محبت سے پوچھ رہی تھی۔ کہ یہ کسی محبت تھی ، خوف اوردرد سے میرا پورا وجود کانپ رہا تھا۔ ایک ھی بازگشت بار بار سنائی دے رہی تھی۔ یہ کیسی محبت تھی؟؟
افسانے۔۔تانیہ رحمان۔۔
http://nawaiadab.com/یہ-کیسی-محبت-تھی/
” دیکھو کون ہے باہر کب سے ڈور بیل بج رہی ہے ، نہ جانے کہاں چلے گئے سب کے سب۔“
افوہ ، ہر کوئی اس چکر میں ہے کہ اس کو دوروازہ نہ کھولنا پڑ جائے، ایسے ٹائم میں سب خاموشی میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ منٹو جو میرا پسندیدہ افسانہ نگارہے، ویسے جب بھی میں کوئی تحریر پڑھتی ہوں ساتھ میں یہ ٹی وی کی وجہ سے میں نے کتاب ایک طرف رکھی کیوں کہ ایک وقت میں دو مہمان لوگوں کے ساتھ نا انصافی مجھ سے نہیں ہوسکتی تھی۔ میں نور جہاں کے گیت میں پوری طرح کھوئی ہوئی تھی۔ ” وہ مجھ سے پہلی سے محبت میرے محبوب نہ مانگ۔“ دینو بابا کی آواز آئی۔
” میں دیکھتا ہوںبٹیا“۔ ہمارے دینو بابا بھی کمال کے موڈی انسان ہیں اگر دل ہو تو پورے گھر کے کام ان کے ذمّے اور اگر انہوں نے نہ کردی تو کیا مجال کوئی ان سے ہاں تو کروالے۔ انکی نہ تو صدر بش کی نہ سے بھی زیادہ پتھر پر لکھیر ہوتی ہے۔” خبروں کا وقت ہوا چاہتا ہے“ ٹی وی پر زیادہ خبریں ہی تو ہوتی ہیں۔ یہ کون سی نئی بات تھی بھلا۔
” میں ہوں ثنائ سب سے پہلے اہم خبریں۔“ میں نور جہاں کی جادو بھری آواز کے سحر سے نکلی، اب میری نظریں ٹی وی اسکرین پر جمی ہوئی تھیں۔
”یوکے، کے شہر لیڈز میں ایک خاتون نے پہلے اپنے تین عدد بچوں کو ریل کی پٹڑی پر دھکا دیا اور اس کے عبد خود بھی چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔“ اس خبر نے جیسے مجھے ہلاکر رکھ دیا۔
” کوئی ماں اپنے بچوں کو کیسے مار سکتی ہے ؟“۔ یوں لگا جیسے میرے ماضی کے بند دریچے آہستہ آہستہ کھلنے کھلنے لگے اور میں اس لمحے کو یاد کرنے لگی جب کافی عرصے کے بعد ثمینہ مجھے میرے کزن کی شادی میں ملی تھی۔
ظالم ہمیشہ کی طرح خوبصورت ساتھ میں دو گول مٹول سے بچے۔ شادی کے بعد پانچ سال بعد بھی وہ ویسے کی ویسے اسمارٹ تھی۔“ ہاں تھوڑی سی موٹی ضرور ہوئی تھی۔ ثمینہ کو پڑھنے کے سوا ہر چیز پسند تھی۔ گانے اور ناچنے کے علاوہ ہر وقت بننے سنورنے کا بے انتہائ شوق۔ کالج میں بھی وہ میری اس بات سے خفا ہوتی کہ میں اس کو پڑھنے کا کہتی۔
اپنی پیاری دوست کو اتنے سالوں بعد دیکھا تو میری خوشی کی کوئی انتہائ تھی اور یہی حال اس کا بھی تھا۔ چونکہ کافی عرصے بعد ملے اس لیے بہت سے سوالات کا دماغ میں گردش کرنا کوئی بڑی بات بھی نہ تھی۔ میں بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئی جہاں وہ ہمیشہ کی طرح ڈھولک سنبھالے ہوئے تھی۔ کوئی تقریب ہو شادی کی ڈھولک ہمیشہ ثمینہ ہی بجاتی تھی۔ دونوں بیٹوں کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی شرارت تھی۔ آمنے سامنے بیٹھے ہوئے بار بار وہ اپنی ماں سے ڈھولک چھیننے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے جن کو وہ وقفے وفقے سے غصہ کرکے پیچھے ہٹاتی۔ رات گئے تک مہندی کی رسمیں چلتی رہیں۔ اس کے عبد ہم دونوں اور بچے کمرے میں سونے کے لیے آگئے تھے۔ جب بچے سوگئے تو مجھے یوں لگا جیسے وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی تھی۔ بات کو میں نے آگے بڑھایا او
پوچھ بیٹھی۔
” تم نے اچانک کالج کیوں چھوڑا؟“ تھوڑی دیر خاموشی رہی ، جیسے وہ الفاظ کو جمع کرکے کوئی مضمون بنانا چاہ رہی ہو۔ اس کی کھوئی ہوئی آواز نے جمود توڑا۔
”بہت کچھ بولنا ہے تم سے۔“ میں نے جواباً ہاتھ اس کے ہاتھوں پر رکھ دیا۔
” میری یہ شادی محبت کی شادی ہے۔ میری شادی پر کوئی خوش نہیں تھا نہ ماں، باپ نہ ماموں، خالہ لیکن مجھے ان سب کی پروا کب تھی۔ میں تو بس اتنا جانتی تھی کہ میری ضد کے آگے کچھ نہیں ہوسکتا۔ میں نے ندیم کودل و جان سے چاہا۔
”ندیم تم کو کہاں اور کیسے ملا؟“
” میں کالج جاتے ہوئے بس کی کھڑکی سے آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھ رہی تھی۔ ایک سفید رنگ کی گاڑی پر میری نظر ٹھہر سی گئی۔ بس کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی گاڑی میں بیٹھا شخص میری طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ وہ ندیم ہی تھا۔ اب تو روز ایک نئی گاڑی کے ساتھ وہ آتا۔ اس کو دیکھنے کے بعد تو مجھے یوں لگتا جیسے میرا دل دھڑکنا بند کردے گا۔
ایک دن ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ میں ابھی بس اسٹاپ پر پہنچی ہی تھی کہ ایک جھٹکے کے ساتھ ندیم کی کار آکر رکی۔ مجھے گاڑی میں بیٹھ جانے کو کہا۔ مجھے لگا میرے اپنے بس میں کچھ نہیں رہا۔ میرا ریموٹ کنٹرول تو اس کے پاس ہے۔ میں جھٹ سے گاڑی کی فرںت سیٹ پر بیٹھ گئی اور اپنے چہرے سے بارش کے قطروں کو ہاتھ سے صاف کرنے لگی۔ تب ندیم نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھوں پر رکھ دیا۔“
” ڈر لگ رہا ہے۔“ میں نے نگاہیں اٹھا کر ندیم کی طرف دیکھا۔” تیم نہیں جانتیں کہ میں تم کو کتنا چاہتا ہوں۔ ثمینہ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں تم کو اپنے گھر اور دل کی ملکہ بنانا چاہتا ہوں۔“ تب میں نے اپنے آپ کو اتنا اونچا محسوس کیا جیسے ساری دنیا قدموں تلے ہو۔
یہ نہیں تھا کہ اس سے پہلے کسی نے مجھ سے محبت کا اظہار نہیں کیا لیکن مجھے تو کسی شہزادے کا انتظار تھا جو سفید گھوڑے پر آئے گا۔ آیا تو شہزادہ ہی تھا ، میرے سپنوں کا لیکن سفید گاڑی میں“۔ میں نے اس دوران ایک نظر ثمینہ کے چہرے پر ڈالی جو آنکھیںاوپر کیے چھت کو گھورہی تھی۔ ثمینہ بہت دکھی لہجے میں بولی۔
” جانتی ہو سب سے بڑا گناہ مڈل کلاس ہونا ہے اور جس کا احساس میرے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ہم یا تو پیدل چلنا یا بس میں سفر کرنا افورڈ کرسکتے ہیں اور ایسے میں ایک امیر کبیر چاہنے والا مل جائے تو مجھ جیسی لڑکی کو اور کیا چاہیے تھا بھلا۔ میں اپنے آپ کو ملکہ تصور کرنے لگی جو اپنی سطلنت کی مالک ہے جو راج کرنا چاہتی ہے ، جیسے میرے چاروں طرف نوکر چاکر بھاگ دوڑ رہے ہوں۔ واپسی کا ٹائم ہوچکا تھا ندیم سے دوری کا درد برداشت نہیں ہوتا تھا لیکن کل ملنے کا وعدہ کرکے اللہ حافظ کہنا پڑا۔ گھر کی آخری سیڑھی پر قدم رکھا تو حسبِ معمول امی کو کچن میں ہی پایا۔
دو کمروں کا یہ سرکاری گھر۔ ایک کمرا امی ، ابو کے پاس اور دوسرا بڑا کمرا جو کہنے کو تو ڈرائنگ روم تھا۔ ایک صوفہ سیٹ پرجس کی غربت بین کررہی تھی، کونے میں میری چار پائی اور ابو کے دفتر سے لائی ہوئی پرانی لوہے کی الماری۔ سب کچھ کبھی نہ بدلتا تھا۔
ابو سرکاری کلرک تھے۔ مجھ سے پہلے دو بہن بھائی پیدا ہوتے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اسی لیے گھر بھر کی لاڈلی تھی۔ میں امی کو نظر انداز کرکے اپنے کمرے کی طرف چل دی۔ اب تو یہ معمول بن گیا کہ گھر سے کالج کے لیے نکلتی اور سارا دن گھوم پھر کر آجاتی۔ ہم ایک دوسرے کے اتنے قریب آچکے تھے جہاں سے واپسی نا ممکن لگتی تھی۔ یقین کرو تب مجھے اپنے بوڑھے ماں باپ کی عزت کا بھی خیال نہیں آتا تھا بلکہ آج اسی گھر سے مجھے نفرت اور گٹھن محسوس ہورہی تھی جہاں پہلی دفعہ میں نے چلنا سیکھا تھا۔“
رات کافی ہوچکی تھی۔ میں جو ہمیشہ جلدی سونے والی، نیند کوسوں دور تھی اور چاہتی تھی کہ جتنا جلدی ممکن ہو سہ سب کچھ کہہ دے جو مجھے ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا۔ شادی والے گھر میں مکمل خاموشی تھی ، آدھی رات کا وقت، دونوں بچے گھری نیند میں جب کہ چھوٹے بیٹے کا سر ثمینہ کی گود میں تھا ، تھوڑی تھوڑی
دیر کے بعد وہ انگلیاں بیٹے کے بالوں میں پھیرتی جاتی تھی اور بڑے بیٹے کی ناک وقفے وقفے سے بند ہوجاتی جس کی وجہ سے وہ عجیب آوازیں نکالتا تو گھبرا کر اسے بھی کروٹیں دلاتی جاتی۔ باہر سے آتی ہوئی لکی سی روشنی میں مجھے ثمینہ کا چہرہ صاف دکھائی دے رہا تھا ……..کرب اور درد جواس کے چہرے پر عیاں تھا۔ میرے پوچھنے پر ایک آہ بھری اور پھر متوجہ ہوگئی۔
” ندیم سے میں اصرار کرنے لگی کہ مجھ سے شادی کرنلے تب اس نے مجھے بتایا کہ اس کی شادی تو بہت پہلے ہی اپنی کزن سے ہوچکی ہے جس کو وہ چاہتا تھا کسی زمانے میں اور اس کے چار بچے ہیں، ایک بیٹا اور تین بیٹیاں، بڑے بیٹے کی عمر بائیس سال ہے۔ جبکہ میری اس وقت انیس سال تھی لیکن سچ کہتے ہیں محبت اندھی ہوتی ہے لیکن میری محبت اندھی، گونگی، بہری سبھی کچھ تھی۔ ندیم یہ سب کچھ کہہ کر مجھے بس اسٹاپ پر چھوڑ کر کب کا جا چکا تھا۔ میں بوجھل قدموں کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی۔ ماں کو کچ دنوں سے مجھ پر شک تھا تبھی تو ایک دم ہی گرج پڑیں“۔
”کہاں گئی تھی “۔ کالج سے تو تمہارا نام خارج ہوچکا ہے۔ بکواس کرتی ہو۔ آج کوئی بھائی سر پر ہوتا تو تہمارے یہ چال چلن نہ ہوتے۔ غصے میں پھولی ہوئی سانس کے ساتھ وہ جانے کیا کچھ کہہ رہی تھیں۔ بے ربط جملے، بے بسی سے بھیگی آنکھیں۔ سونے کی انگوٹھی اور اس کے ساتھ کے ٹا پس کس ذلیل نے دیئے ہیں اور اس کے ساتھ کیا کچھ کیا۔ کیا جواب دیتی بس اتنی کہہ سکی کہ وہ بہت امیر کبیر ہے اور مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ ماں کو ایسی حالت میں کچھہ نہ سوجھا تو یہ کہہ کر چلی گئیں کہ اس سے کہو جلدی سے اپنے گھر والوں کو لے کر آئے۔“
صبح کی اذاں سنائی دی تب ثمینہ خاموش ہوگئی۔
میں اٹھی، وضو کیا اور نماز پڑھنے لگ گئی۔ سلام پھیرنے کے بعد ثمینہ پر نظر پری ، وہ سوچکی تھی تب میں بھی اپنے بیڈ کی طرف چل دی۔
اگلا دن کافی مصروف گزرا۔ بازار سے چند چیزیں لینی تھیں۔ رات کو برات تھی۔کافی ہلاّ گلا، شورشرابا ہر کسی کو جلدی تھی۔ خواتین تو چلو بدنام لیکن یہ مرد حضرات کو کیا ہوگیا کہ بیوی سے زیادہ فیشن کے چکروں میں۔ برات تیار تھی کہ سامنے سے ثمینہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ آتی دکھائی دی۔ کالے رنگ کی شیفون کی ساڑی جس کے اوپر خوبصورت سفید کام ہو اتھا اور ساتھ میں سفید موتیوں کا خوبصورت گولڈ کا سیٹ۔ بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔ ویسے وہ کسی ملکہ سے کم تھی بھی نہیں۔ براتکی بھی رسمیں رات دیر تک چلتی رہیں لیکن میری ہمت جواب دے چکی تھی اور میں سونا چاہتی تھی سو اپنے کمرے میں آگئی۔
بچوں کے شور اور خواتین کے اونچا اونچا بولنے پر آنکھ کھل گئی۔ خواتین کو پتہ نہیں یہ بیماری کیوں ہے اونچا بولنے کی۔ ساتھ بیٹھی خاتون کے ساتھ اتنی اونچی آواز سے بات کریں گی ، لگے گا جیسے وہ چاند پر بیٹھی ہوں۔ حلوہ پوری کی خوشبو نے بھوک دو چند بڑھادی۔ سامنے سے آتی ہوئی ثمینہ کو میں نے ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بلوالیا تاکہ ناشتا ساتھ ہی کرلیں۔ ولیمہ چونکہ رات کا تھا اس لیے کوئی جلدی نہیں تھی۔
” بچے کہاں ہیں؟“ دونوں کو ساتھ نہ پاکر پوچھا۔
” رات کو پاپا کے ساتھ گھر چلے گئے“
”اور تم؟“
”نہیں میں نہیں گئی۔ نہ جانے کیوں اس گھر میں میرا دم گھٹتا ہے۔“
”تم نے تو اپنی پسند اور اپنی مرضی سے شادی کی۔
کیا تم اپنی سلطنت میں خوش نہیں ہو؟“ میرے اندر بہت سے سوالات مجھے پریشان کررہے تھے لیکن میں نے پوچھا کچھ نہیں۔
” ایک دن میں نے ندیم سے کہہ ہی دیا۔ جو بات مجھے اندر ہی اندر کھائے جارہی تھی کہ میں اپنے ماں باپ کو کیسے بتا?ں کہ تم شادی شدہ ہو“
یہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔ ندیم نے اتنے پرسکون لہجے میں جواب دیا جیسے یہ کوئی بڑی بات ہی نہ ہو پھر ایک دن وہ ہمارے گھر آ ہی گیا۔ تعارف کرانے کے بعد وہ امی ابو کو یقین دلارہا تھا۔آپ یقین کریں۔ میں ثمینہ کو بہت خوش رکھوں گا۔ چونکہ میں ایک پٹھان بنگش فیملی سے تعلق رکھتا ھوں اس لیے ابھی اپنے گھر والوں کو نہیں بتانا چاہتا۔ بعد میں سب ٹھیک ہو جائے گا وہ نہایت دھیمے لجہے میں امی ابو کو بتا رہا تھا، بس آپ شادی کی تیاری کریں۔؛ اچھا پھر۔۔۔۔۔۔ میں بیچ میں ھی بول پڑی
ہونا کیا تھا۔ مجھے بھی ثمینہ عزیز سے ثمینہ ندیم بینے کی جلدی تھی۔ انسان کتنا خودغرض ہے اپنی ذات کے سوائ کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا اور مجھے بھی بس ندیم چاہیے تھا۔ یا پھر ان چمکتی ہوئی گاڑیوں کا اثر تھا۔ میں یہ بھی بھول گئی کہ وہ شادی شدہ ہے اور چار بچوں کا باپ بھی ، لیکن گھر والوں کو توفکر تھی۔
لڑکے کی عمر زیادہ ہے ثمینہ کی ماں۔ابو کی کمزور آواز سنائی دی
آدمیوں کی عمریں کس نے دیکھی ہیں۔ اچھی شکل اور سب سے بڑی بات پیسے والا ، اور کیا چاہیے اپنی ثمینہ کے لیے، نا جانے کس مجبوری میں ابھی تک شادی نہیں کی۔ میں نے باوجود اس کے کے ندیم شادی شدہ ہے اور چار بچوں کا باپ بھی کچھ نا سوچا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور نہ ہی سوچا کہ پہلی بیوی پر کیا گزرے گی۔؛
ثمینہ تئمھاری چاے ٹھنڈی ہو گئی ہے لاو دوسری لادوں۔ میں نے کپ اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہاتھا۔
نہیں جہاں زندگی ٹھنڈی پڑ گئی ہو وہاں چاے کا ٹھنڈا ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ وہ اسی یاسیت سے بولی تھی
بعض دفعہ ہم کو ہمارے کیے کی سزا ملتی ہے
وہ بہت دکھ سے بولی
شادی کا یہ فیصلہ ہوا کہ خالہ کے گھر برات جائے گی اور میں دلہن بن کر اپنے ہی گھر آوں گی اور کچھ دنوں بعد وہ مجھے الگ گھر میں رکھے گا۔ میرا ریموٹ تو اسکے ہاتھ میں تھا۔ جیسے وہ چاہتا میں ویسے ہی کرتی۔ امی ابو نے شور کیا لیکن میری ضد اور زہر کھاکر مر جانے کی دھمکی کارآمد ثابت ہوئی اور وہ اعتراز بھی نا کر سکے۔
ندیم کی طرف سے کوئی نہیں تھا۔ نا کوئی دوست ، اور رشتےدار کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دلہن بن کر اپنے اسی کمرے میں ، اب اس کمرے میں چارپائی کی جگہ ڈبلبیڈ نے لے لی تھی کونے میں پڑی الماری کو ہٹا کر ڈریسنگ ٹیبل رکھ دی اور نیا صوفہ سیٹ جو ندیم نے خریدا تھا۔
اسکمرے میں تو یہی تبدیلی آئی تھی ہاں میری زندگی کی تبدیلی میں ندیم کا احساس ، ندیم کو حاصل کرنے کا غرور ،جو آب میری ملکیت تھا، جس کو کوئی مجھ سے چھین نہیں سکتا تھا۔
وقت گزرتا رہا۔ جب بھی میں دوسرے گھر کی بات کرتی۔ تو یہ کہہ کر خاموش کروادیا جاتا کہ ثمینہ تم میری بیوی کو نہیں جانتی اس کو اگر ہماری شادی کا پتہ چل گیا تو وہ مجھ کو قتل کر دے گی۔آخر کار اپنے مجھے اپنی امی اور ابو کو بتانا ہی پڑا ندیم کے بارے میں لکین اب وہ کیا کر سکتے تھے۔ سب کچھ تو داو پر لگ چکا تھا۔ اس دوران میں نے بیٹے کو جنم دیا۔ بچے کی پیدائش پر ندیم بہت خوش تھا۔ ثمینہ تم نے مجھے ایک وارث دے دیا۔جانتی ہو۔ ہم پٹھان لوگوں میں لڑکے کی کتنی اہمیت ہے۔ تب میرے اندر غرور اور بھی بڑھ جاتا۔ جب بار بارمجھے میری اہمیت کا احساس دلاتا۔ اب ندیم کا معمول بن گیا تھا کہ وہ تین دن میرے پاس اور تین دن دوسری بیوی کے پاس ہوتا۔ ایکسال بعد میرا دوسرا بیٹا پیدا ہوا۔
سونو تم رات کو ولیمے پر کون سا ڈریس پہنوگی؟ کیا مجھ سے کچھ کہا میں نے سر اٹھا کر پاس کھڑی کزن ماہم سے پوچھا میں ثمینہ کی باتوں میں اتنی گم تھی۔
جی نہیں فرشتوں سے کہا۔ تو لڑکی پھر جواب بھی فرشتے ھی دیں گے میں نے باظاہر ہنس کر کہا تھا لیکن ماہم تپ کر چلی گئی میں پھر ثمینہ کی طرف متوجہ ھوئی جو اپنے ہاتھ کی لکیروں میں گم تھی
کیا دیکھ رہی ہو؟میں نے پوچھا۔ کہتے ھیں جب ہم پیدا ہوتے ہیں تو ہمارا اچھا برا ہاتھ کی لکیروں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ تو پھر۔۔۔۔۔۔ ثمینہ نے بے بسی سے ہنس رہی تھی۔ یا شاید مجھے لگ رہا تھا
نہیں میری جان اللہ نے اسی لیے تو عقل بھی دی ھے میں اس کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی اس دن میری سلطنت اور میرے خواب کرچی کرچی ہوئے جب ندیم نے یہ کہا کہ وہ شوروم کا مالک نہیں بلکہ ملازم ہے مالک خود دبئی ہوتا ہے اس لیے شوروم اس کے حوالے کر کے گیا ہوا تھا۔ اب وہ واپس آگیا ھے اس لیے ساری عیاشی ختم۔ میں یہ سب کچھ نہ سہہ سکی اور پھر ہمارے درمیاں کسی نہ کسی بات پر جھگڑا رہنے لگا۔ ندیم اب وہ پہلے والا ندیم نہیں تھا۔ جس طرح پتینگ آڑاتے ہوئے آہستہ آستہ ڈور چھوڑنی پڑتی ہےاور ندیم بھی مجھے اس ڈور کی مانند لگا ۔جو آہستہ آہستہ چھوٹ رہی ہے اور ساتھ میں پتنیگ کے کٹ جانے کا ڈر بھی
ایک دفعہ تو حد ہو گی جب اس نے میرے ساتھ اسچھوٹے سے گھر میں رہنے سے انکار کر دیا۔اور یہ دھمکی بھی دی کہ دونوں بچے مجھ سے چھیں لے گا۔تب میری حالت اس زخمی شیرنی جیسی ہوگئی۔ جو چوٹ لگنے کے بعد پاگل ہو جاتی ہے۔ مجھے چھوڑ دے گا۔ کیسے سوچ لیا اس نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نا ممکن
آپ کا فون ھے ہم دونوں نے چونک کر اس لڑکی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ میرا نہیں ثمینہ باجی کا وہ یقینا کی کوئی جاننے والی تھی۔واپس آتی ثمینہ کے چہرے پر ہلکی سی پریشانی تھی۔ کیا ہوا سب ٹھیک تو ھے نا میں نے فوراَ پوچھا۔ بیٹے کی طبیعت خراب ہے جانا ہو گا۔
پریشان نہ ہو سب ٹھیک ہو گا انشائ اللہ میں نے تسلی دی۔
رات کو میں نے انتظار کیا لیکن وہ نہیں آئی ولیمے کے بعد ہر کوئی اپنی کاروبار زندگی میں مصروف ہوگیا
فون کی بیل کب سے بج رہی تھی اور دینو بابا ہمیشہ کی طرح نا جانے کہاں تھے۔ میں کچن سے تقربیا بھاگ کر فون پر لپکی۔ کہیں بند ھی نہہو جائے مجھے نہ جانے کیوں ثمینہ کے فون کا انتظار تھا۔ کہکہیں وہ اپنے ساتھ کچھ کر نا لیے
ہیلو کون ؟ دوسری طرح میری کزن ماہم تھی تم کو پتہ ھے ثمینہ کا ، ناجانے اس کی آواز میں کیا تھا۔ جو میرا دل اتنی زور سے دھڑکا جیسے مجھے ہارٹ اٹیک ھو جائے گا۔ کیا ثمینہ نے خودکشی کر لی۔ میں اس کے سوا اور کیا سوچتی۔ اسی بات کا مجھے ڈر تھا۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ تو کچھ بتاو بھی۔کیا ہوا۔تب ماہم نے مجھ سے جو کہا وہ بھی کسی ہارٹ آٹیک سے کم نہیں تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا ،اف میرے خدایا دونوں بچے کیسے مر سکتے ہیں۔ میں نے اپنی ساری قوت گویائی یکجا کی
ثمینہ تو پاگل ہو گئی ہو گی۔ نہیں وہ بڑی پرسکون ہے۔۔کیا میں زور سے چلائی۔ پھر تم پاگل ہو گی ہو ۔جس ماں کے ایک ہفتے میں دو بچے مر گے ہوں تو وہ پرسکون کیسے ہو سکتی ہے÷۔ مجھے ماہم کی ذہنی حالت پر شک ہونے لگا۔
کچھ ٹائم پہلے وہ اپنے بیٹے کو جاویدکے کلینک لر کر گئی تھی۔ اور یہ کہا تھا۔ کہ اس نے غلطی سے نیند کی گولیاں کھا لی ہیں۔ بروقت علاج کی وجہ سے یوں تو بچہ خطرے سے باھر تھا میرے میاں نے دو دن بعد آنے کو کہا لیکن ثمینہ نہیں گئی۔ میں سانس روکے سن رہی تھی۔ دوسری طرف سے ماہم نے مجھے خاموش پاکر پوچھا سن رہی ہو نا۔ وہ چلائی۔مجھے لگا اب تو بس قیامت ھی آنے والی ھے
ہاں ہاں جلدی بولو۔
چھوٹے بیٹے کے ٹھیک ایک ہفتے بعد پتا چلا کہ بڑے بیٹے کو بخار ہوا اور وہ دو گھنٹے کے اندر اندر وہ بھی چل بسا
یا میرے خدایا۔وہ تو پہلے اتنی دکھی تھی اور یوں دونوں بچوں کا مر جانا کیا کرتی ہو گی ثمینہ
میرے آنسو روکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ پھر ماہم نے یہ کہہ کر حیران کر دیا سب تو یہ کہتے۔ہیں اور جاوید بھی کہ وہ بچے مرے نہیں ہیں۔ مارے گے ہیں ان کو ثمینہ نے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا ھے۔کیونکہ چند دن پہلے اس نے کسیسے کہا تھا کہاگر میں ندیم کی نا ہوئی تو یہ بچے بھی کسی طرح اس کے نہیں ھونے دوں گی۔ میں نیم مردہ حالت میں اپنے بکھرے وجود کو یکجا کر رہی تھی۔اور وہی کرسی پر ڈھیر ہو گئی۔فون کب کا بند ہوچکا تھا۔ ھر طرف ویرانی اور اداسی چھائی ہوئی تھی۔
یہ کیسی محبت تھی۔خود غرضٰ کی انتہا۔۔۔۔۔۔ بدلہ لینے کی آگ میں جلنے والی بےچاری ثمینہ خود جہنمی ہوگئہی تھی۔ اس کے پاس کیا بچا تھا، سواے خسارے کے اس پرتو کسی صورت رحم بھی نہیں آتا ،جس نے دو معصوموں کی۔ جان لی۔ یہ کیسی محبت تھی۔ محبت کرنے والے تو جان دیتے ہیں جان لیتے نہیں اس وقت مجھے رہ رہ کر یوکے کی اس عورت کا خیال آرہا تھا۔ جس نے اپنے بچوں کو مار کر خود اپنی جان دے دی۔۔ کل ثمینہ نے بھی وہی کچھ کیا۔ لیکن ثمینہ زندہ ھے۔ محبت ایسی کب تھی اسے تو خودغرضوں نے اپنی خواہشوں کی سولی چڑھا کر بے رحم کر دیا ہے محبت بھی محبت سے پوچھ رہی تھی۔ کہ یہ کسی محبت تھی ، خوف اوردرد سے میرا پورا وجود کانپ رہا تھا۔ ایک ھی بازگشت بار بار سنائی دے رہی تھی۔ یہ کیسی محبت تھی؟؟
افسانے۔۔تانیہ رحمان۔۔
http://nawaiadab.com/یہ-کیسی-محبت-تھی/