نیرنگ خیال
لائبریرین
گزشتہ برسوں کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے اس سال کے آغاز میں بھی تحریر پیش خدمت ہے۔ اور سابقہ تحاریر کی طرح منتشر الذہنی کی عکاس بھی ہے۔
میٹرک کے دنوں کی بات ہے۔ نئی نئی داڑھی آ رہی تھی، سو ہم جماعتوں سے معتبر نظر آنے کو جوں کی توں چہرے پر موجود رہتی تھی۔سخت، کھردری اور الجھی زلفیں ہمیشہ سے میری شناخت رہی ہیں۔ الجھی اور پریشان۔ آئینہ یوں بھی ان دنوں میں کم ہی دیکھا کرتا تھا۔ ماں کہہ دیتی تھی۔ بہت پیارا لگ رہا ہے میرا لعل۔۔۔ اورمجھے آئینہ دیکھنے کی چنداں ضرورت نہ رہتی تھی۔ یار دوستوں کو بھی اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ میں کتنے اجڑے حلیے میں ہوں، یوں بھی ان کے حلیے کچھ ایسے مختلف نہ تھے۔بورڈ کے امتحانات جاری و ساری تھے۔ میری ساری توجہ امتحانات کی تیاری پر مرکوز تھی کہ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے میرا شمار ان طلباء میں ہوتا تھا جو مصیبت سر پڑنے کے بعد ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کرتےتھے۔ مزید یہ کہ ان دنوں ایسے اشعار بھی یاد نہ تھے کہ "تجھے گنوا کے فرصت کسے سنورنے کی۔۔۔ شراب ہی نہ جب ملے تو مستیاں کیسی" ۔ سو کوئی بھی ہمارے حال پر معترض ہوتا تو میں امتحانات ہی کو قصور وار ٹھہراتا تھا۔ایک دن کمرہ امتحان میں تمام طلباء سر جھکائے تیز رفتاری سے اپنے اپنے پرچوں کو حل کرنے میں مصروف تھے کہ ڈپٹی صاحب کمرے میں تشریف لائے اور کہنے لگے کہ سب لڑکے میری طرف توجہ کریں۔ میں نے اشہب قلم کو لگام دی اور ڈپٹی صاحب کی طرف توجہ کی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ نصف سے زیادہ پرچے گزر چکے ہیں، اور ابھی تک بہاولپور بورڈ کی طرف سے عملی امتحانات کے لیے رول نمبر سلپ جاری نہیں کی گئیں، اور اگر کی گئی ہیں تو ہمیں ابھی تک موصول نہیں ہوئیں۔ سو تمام "سائنس طلباء" سے درخواست ہے کہ اگلے پرچے کی تاریخ پر اپنی تین عدد پاسپورٹ سائز تصاویر لے آئیں، ان کے پیچھے اپنا نام اور بورڈ کا رول نمبر بھی درج کر دیں۔تاکہ ہم عملی امتحانات کی رول نمبر سلپ یہیں سے جاری کر دیں۔میں نے گھر میں قدم رکھتے ہی بابا کے سامنے ساری صورتحال پیش کی اور تصاویر کے لیے رقم کی درخواست دائر کی۔ کتنی رقم اب یہ یاد نہیں۔ ایک فوٹو سٹوڈیو جا کر تصاویر بنوائی جو کہ اس نے کاغذ کی ایک چھوٹی سی لفافی میں ڈال کر دے دیں۔ میں نے تصاویر کو بالکل نہیں دیکھا کہ کیسی آئی ہیں۔ بس گھر آکر ان کے پیچھے اپنا نام اور رول نمبر لکھا۔ اور دوبارہ اسے کاغذی پڑیا میں قید کر دیااور اگلے پرچے میں جاتے ہی وہ تصاویر ممتحن کو جا تھمائیں۔
بورڈ کا آخری پرچہ تھا۔ تمام طلباء خوش نظر آتے تھے، میں بھی شاید ایسی ملی جلی کیفیات کے زیر اثر ہوں گا۔ پرچہ حل کر رہے تھے کہ ڈپٹی صاحب دوبارہ کمرہ امتحان میں داخل ہوئے اور گزشتہ کی طرح اس بار بھی سب بچوں کی توجہ کا تقاضا کیا۔ پھر فرمانے لگے کہ بہاولپور بورڈ نے رولنمبر سلپ جاری کر دی تھیں جو ڈاک کی تاخیر کے سبب کل موصول ہوگئی ہیں، سو ایک تو تمام سائنس طلباء فلاں دن آکر اپنی رول نمبر سلپ وصول کر لیں۔ مزید یہ کہ وہ جو تصاویر آپ سب سے لی گئی تھیں، وہ باہر ایک بہت بڑے میز پر قطاروں میں لگا دی گئی ہیں۔ اپنی اپنی تصویر پہنچان کر اٹھا لیں، اب ان کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ میں پرچہ جمع کروا کر باہر نکلا تو برامدے سے آگے ایک لان میں بڑا سا میز دھرا تھا اور اس کے اوپر قطار در قطار تصاویر رکھی تھیں۔ میں اپنی عادت کے مطابق ایک طرف ہو کر کھڑا ہوگیا کہ یہ بھیڑ جو میز کے گرد ہے ذرا کم ہو تو میں اپنی تصاویر ڈھونڈوں۔کچھ دیر بعد جب تصاویر بھی کم ہوگئیں اور طلباء بھی تو میں آگے بڑھا۔ میز کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک۔۔۔ دوسرے سے پھر پہلے تک۔ لیکن میری تصویر کہیں نہیں تھی۔ اسی عالم تحیر میں جب ایک دو چکر اور لگا چکا تو قریب ہی کھڑے ایک استاد کو دیکھا جو میری طرف ہی دیکھ رہے تھے اور مسکرا رہے تھے۔ میں نے بھی ایک خفیف سی مسکراہٹ جوابا ارسال کی۔ تو وہ قریب آ کر کہنے لگے۔ کیا معاملہ ہے؟ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟ میں نے اپنی مشکل عرض کی کہ اپنی تصویر نہیں ڈھونڈ پا رہا ہوں۔انہوں نے ایک گہری نگاہ میز پر رکھی تصاویر پر ڈالی۔ پھر ایک تصویر اٹھائی اور میرے سر پر ہلکی سی چپت رسید کر کے مسکراتے ہوئے بولے۔" یہ ہو تم!"
میں نے پہلے تصویر اور پیچھے لکھا اپنا نام اور رولنمبر دیکھا۔ تصویر کیا تھی۔ ایک عبرت بھرا منظر تھا۔ سر کے بال جھاڑیوں کی طرح بکھرے اور ہر طرف پھیلے ہوئے۔ آدھی پیشانی انہی بالوں نے ڈھانپ رکھی تھی۔ گھنی بھنویں اور پھر ان کے نیچے گول مٹول دو آنکھیں۔ اور باقی سب چہرہ گہرے بالوں میں چھپا ہوا، جن کی کوئی سمت متعین نہ تھی۔ جو جس رخ پر نکلا تھا، لہلہا رہا تھا۔ میں نے تصویریں جیب میں ڈال لیں۔ گھر واپسی پر نہر پڑتی تھی۔ اسی نہر کے پل پر کھڑے ہو کر تصاویر کے ٹکڑے ٹکڑے کیے۔ اور نہر میں بہا دیں۔
گزرتے برسوں سے مجھے یہ احساس رہنے لگا تھا کہ میرا خود سے تعلق بہت رسمی سا ہے۔ میں کیا چاہتا ہوں، کدھر جانا چاہتا ہوں۔ میری کیا ترجیحات ہیں اور کیا میری ترجیحات نہیں ہیں، اس سب نے مجھے بہت پریشان کرنا شروع کر دیا۔ میں کتنی کتنی دیر ہی اپنے معاملات کو دیکھنے لگا کہ شاید کہیں سے کوئی سرا ملے۔ کوئی کھوج ملے۔ کوئی راہ نکلے۔ شاید مجھے کوئی ایسے انہماک سے اپنے ہی شب و روز کو تکتا دیکھے تو ایک شفیق سی چپت لگا کر کہے یہ ہو تم۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ ایسا ہو نہیں سکتا تھا۔ کیوں کہ شکست و ریخت کے یہ مظاہر بیرونی نہیں ہوتے۔ ان تک کسی کی رسائی نہیں ہوتی۔ یا پھر ان روز و شب سے منسلک لوگ اپنی ترجیحات میں مصروف ہوتے ہیں اور ان کے لیے پلٹ کر دیکھنے کا وقت نہیں ہوتا۔ کتنا آسان ہوتا ہے آگے بڑھ جانا۔ میں بھی اپنے آپ سے آگے بڑھنا چاہتا ہوں؟ یا نہیں؟ شاید میرے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں تھے کہ اس برس کرونا نے ہمارے معاشی اور سماجی معاملات کی قلعی کھول دی۔ معلوم ہوا کہ معاشرے میں بسنے والے افراد کے درمیان جو تعلق ہوتا ہے وہ بھی نہیں رہا۔ یہ ڈاکٹرز کی کالونی ہے اور یہ انجینرز کی۔ یہ امراء کی کالونی ہے اور یہ متوسط طبقے کی۔ اس طرف کچی بستیاں ہیں۔ یہ سب لوگ الگ الگ رہتے ہیں۔ امیروں کے ہمسائے بھی امیر ہیں اور بھوکے کا ہمسایہ بھی بھوکا ہی ہے۔ کہیں کوئی ایسا رابطہ نہیں ہے جس میں ضرورتمند کی ضرورت بھلے اور احسن طریقے سے پوری کی جا سکے۔ ماسک کی بات ہوئی تو قیمتیں آسمان تک پہنچ گئیں۔ ضروریات زندگی کی بات ہوئی تو لوگ بھوکوں کی طرح جھپٹ پڑے۔ جیسے آج ہی جتنا جمع کرنا ہے کر لو۔ دوبارہ کبھی یہ سورج طلوع نہ ہوگا۔ پھر جب سخیوں نے سخاوت دکھائی تو ایک ہی بھکاری طبقہ ہر جگہ سے لوٹ مار کر کر کے واپس وہی اشیا بازار میں فروخت کرتا نظر آنے لگا۔ ضرورت مند لوگوں کی تو آواز ہی حلق میں گھٹ گئی۔ ہر طرف خود غرضی اور موقع سے فائدہ اٹھانے کا وہ چلن نظر آیا کہ الاماں۔۔۔ اس سب حرص، طمع اوربےغرض و بےمقصد افراتفری کے درمیان جب میں وقت کے بہاؤ میں بہتا بہتا یہاں تک آگیا کہ سال کا آخری دن بھی ڈوبنے کو آپہنچا تو میں نے ڈوبتے سورج پر ایک الوداعی نظر ڈالی۔ اس ایک لمحے میں مجھے احساس ہوا کہ سورج مسکرا رہا ہے۔اور پھر ڈوبتے سورج نےآخری لمحے جھک کر مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔ یہ ہل من مزید کا نعرہ لگاتے، یہ ضرورت کی چیزوں کو بےمقصد جمع کرتے اور ہر موقع سے فائدہ اٹھانے کی تاک میں مصروف عمل گروہ۔یہ فیاضی دکھاتے سخی لوگ اور یہ بھیس بدل بدل کر قطار میں شامل ہوتے حریص۔ ان سب کو دیکھو۔ یہ ہو تم!
از قلم نیرنگ خیال
۱ جنوری ۲۰۲۱
گزشتہ برسوں کے آغاز و اختتام پر لکھی گئی تحاریر
یکم جنوری ۲۰۲۰ کو لکھی گئی تحریر "دو باتیں"
یکم جنوری 2019 کو لکھی گئی تحریر "کچھ آگہی کی سبیلیں بھی ہیں انتشار میں"
یکم جنوری 2018 کو لکھی گئی تحریر "تتلیاں"
یکم جنوری 2017 کو لکھی گئی تحریر "عجب تعلق"
یکم جنوری 2016 کو لکھی گئی تحریر "اوستھا"
2 جنوری 2015 کو لکھی گئی تحریر "سال رفتہ"
31 دسمبر 2013 کو لکھی گئی تحریر" کہروا"
یہ ہو تم
میٹرک کے دنوں کی بات ہے۔ نئی نئی داڑھی آ رہی تھی، سو ہم جماعتوں سے معتبر نظر آنے کو جوں کی توں چہرے پر موجود رہتی تھی۔سخت، کھردری اور الجھی زلفیں ہمیشہ سے میری شناخت رہی ہیں۔ الجھی اور پریشان۔ آئینہ یوں بھی ان دنوں میں کم ہی دیکھا کرتا تھا۔ ماں کہہ دیتی تھی۔ بہت پیارا لگ رہا ہے میرا لعل۔۔۔ اورمجھے آئینہ دیکھنے کی چنداں ضرورت نہ رہتی تھی۔ یار دوستوں کو بھی اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ میں کتنے اجڑے حلیے میں ہوں، یوں بھی ان کے حلیے کچھ ایسے مختلف نہ تھے۔بورڈ کے امتحانات جاری و ساری تھے۔ میری ساری توجہ امتحانات کی تیاری پر مرکوز تھی کہ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے میرا شمار ان طلباء میں ہوتا تھا جو مصیبت سر پڑنے کے بعد ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کرتےتھے۔ مزید یہ کہ ان دنوں ایسے اشعار بھی یاد نہ تھے کہ "تجھے گنوا کے فرصت کسے سنورنے کی۔۔۔ شراب ہی نہ جب ملے تو مستیاں کیسی" ۔ سو کوئی بھی ہمارے حال پر معترض ہوتا تو میں امتحانات ہی کو قصور وار ٹھہراتا تھا۔ایک دن کمرہ امتحان میں تمام طلباء سر جھکائے تیز رفتاری سے اپنے اپنے پرچوں کو حل کرنے میں مصروف تھے کہ ڈپٹی صاحب کمرے میں تشریف لائے اور کہنے لگے کہ سب لڑکے میری طرف توجہ کریں۔ میں نے اشہب قلم کو لگام دی اور ڈپٹی صاحب کی طرف توجہ کی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ نصف سے زیادہ پرچے گزر چکے ہیں، اور ابھی تک بہاولپور بورڈ کی طرف سے عملی امتحانات کے لیے رول نمبر سلپ جاری نہیں کی گئیں، اور اگر کی گئی ہیں تو ہمیں ابھی تک موصول نہیں ہوئیں۔ سو تمام "سائنس طلباء" سے درخواست ہے کہ اگلے پرچے کی تاریخ پر اپنی تین عدد پاسپورٹ سائز تصاویر لے آئیں، ان کے پیچھے اپنا نام اور بورڈ کا رول نمبر بھی درج کر دیں۔تاکہ ہم عملی امتحانات کی رول نمبر سلپ یہیں سے جاری کر دیں۔میں نے گھر میں قدم رکھتے ہی بابا کے سامنے ساری صورتحال پیش کی اور تصاویر کے لیے رقم کی درخواست دائر کی۔ کتنی رقم اب یہ یاد نہیں۔ ایک فوٹو سٹوڈیو جا کر تصاویر بنوائی جو کہ اس نے کاغذ کی ایک چھوٹی سی لفافی میں ڈال کر دے دیں۔ میں نے تصاویر کو بالکل نہیں دیکھا کہ کیسی آئی ہیں۔ بس گھر آکر ان کے پیچھے اپنا نام اور رول نمبر لکھا۔ اور دوبارہ اسے کاغذی پڑیا میں قید کر دیااور اگلے پرچے میں جاتے ہی وہ تصاویر ممتحن کو جا تھمائیں۔
بورڈ کا آخری پرچہ تھا۔ تمام طلباء خوش نظر آتے تھے، میں بھی شاید ایسی ملی جلی کیفیات کے زیر اثر ہوں گا۔ پرچہ حل کر رہے تھے کہ ڈپٹی صاحب دوبارہ کمرہ امتحان میں داخل ہوئے اور گزشتہ کی طرح اس بار بھی سب بچوں کی توجہ کا تقاضا کیا۔ پھر فرمانے لگے کہ بہاولپور بورڈ نے رولنمبر سلپ جاری کر دی تھیں جو ڈاک کی تاخیر کے سبب کل موصول ہوگئی ہیں، سو ایک تو تمام سائنس طلباء فلاں دن آکر اپنی رول نمبر سلپ وصول کر لیں۔ مزید یہ کہ وہ جو تصاویر آپ سب سے لی گئی تھیں، وہ باہر ایک بہت بڑے میز پر قطاروں میں لگا دی گئی ہیں۔ اپنی اپنی تصویر پہنچان کر اٹھا لیں، اب ان کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ میں پرچہ جمع کروا کر باہر نکلا تو برامدے سے آگے ایک لان میں بڑا سا میز دھرا تھا اور اس کے اوپر قطار در قطار تصاویر رکھی تھیں۔ میں اپنی عادت کے مطابق ایک طرف ہو کر کھڑا ہوگیا کہ یہ بھیڑ جو میز کے گرد ہے ذرا کم ہو تو میں اپنی تصاویر ڈھونڈوں۔کچھ دیر بعد جب تصاویر بھی کم ہوگئیں اور طلباء بھی تو میں آگے بڑھا۔ میز کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک۔۔۔ دوسرے سے پھر پہلے تک۔ لیکن میری تصویر کہیں نہیں تھی۔ اسی عالم تحیر میں جب ایک دو چکر اور لگا چکا تو قریب ہی کھڑے ایک استاد کو دیکھا جو میری طرف ہی دیکھ رہے تھے اور مسکرا رہے تھے۔ میں نے بھی ایک خفیف سی مسکراہٹ جوابا ارسال کی۔ تو وہ قریب آ کر کہنے لگے۔ کیا معاملہ ہے؟ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟ میں نے اپنی مشکل عرض کی کہ اپنی تصویر نہیں ڈھونڈ پا رہا ہوں۔انہوں نے ایک گہری نگاہ میز پر رکھی تصاویر پر ڈالی۔ پھر ایک تصویر اٹھائی اور میرے سر پر ہلکی سی چپت رسید کر کے مسکراتے ہوئے بولے۔" یہ ہو تم!"
میں نے پہلے تصویر اور پیچھے لکھا اپنا نام اور رولنمبر دیکھا۔ تصویر کیا تھی۔ ایک عبرت بھرا منظر تھا۔ سر کے بال جھاڑیوں کی طرح بکھرے اور ہر طرف پھیلے ہوئے۔ آدھی پیشانی انہی بالوں نے ڈھانپ رکھی تھی۔ گھنی بھنویں اور پھر ان کے نیچے گول مٹول دو آنکھیں۔ اور باقی سب چہرہ گہرے بالوں میں چھپا ہوا، جن کی کوئی سمت متعین نہ تھی۔ جو جس رخ پر نکلا تھا، لہلہا رہا تھا۔ میں نے تصویریں جیب میں ڈال لیں۔ گھر واپسی پر نہر پڑتی تھی۔ اسی نہر کے پل پر کھڑے ہو کر تصاویر کے ٹکڑے ٹکڑے کیے۔ اور نہر میں بہا دیں۔
گزرتے برسوں سے مجھے یہ احساس رہنے لگا تھا کہ میرا خود سے تعلق بہت رسمی سا ہے۔ میں کیا چاہتا ہوں، کدھر جانا چاہتا ہوں۔ میری کیا ترجیحات ہیں اور کیا میری ترجیحات نہیں ہیں، اس سب نے مجھے بہت پریشان کرنا شروع کر دیا۔ میں کتنی کتنی دیر ہی اپنے معاملات کو دیکھنے لگا کہ شاید کہیں سے کوئی سرا ملے۔ کوئی کھوج ملے۔ کوئی راہ نکلے۔ شاید مجھے کوئی ایسے انہماک سے اپنے ہی شب و روز کو تکتا دیکھے تو ایک شفیق سی چپت لگا کر کہے یہ ہو تم۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ ایسا ہو نہیں سکتا تھا۔ کیوں کہ شکست و ریخت کے یہ مظاہر بیرونی نہیں ہوتے۔ ان تک کسی کی رسائی نہیں ہوتی۔ یا پھر ان روز و شب سے منسلک لوگ اپنی ترجیحات میں مصروف ہوتے ہیں اور ان کے لیے پلٹ کر دیکھنے کا وقت نہیں ہوتا۔ کتنا آسان ہوتا ہے آگے بڑھ جانا۔ میں بھی اپنے آپ سے آگے بڑھنا چاہتا ہوں؟ یا نہیں؟ شاید میرے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں تھے کہ اس برس کرونا نے ہمارے معاشی اور سماجی معاملات کی قلعی کھول دی۔ معلوم ہوا کہ معاشرے میں بسنے والے افراد کے درمیان جو تعلق ہوتا ہے وہ بھی نہیں رہا۔ یہ ڈاکٹرز کی کالونی ہے اور یہ انجینرز کی۔ یہ امراء کی کالونی ہے اور یہ متوسط طبقے کی۔ اس طرف کچی بستیاں ہیں۔ یہ سب لوگ الگ الگ رہتے ہیں۔ امیروں کے ہمسائے بھی امیر ہیں اور بھوکے کا ہمسایہ بھی بھوکا ہی ہے۔ کہیں کوئی ایسا رابطہ نہیں ہے جس میں ضرورتمند کی ضرورت بھلے اور احسن طریقے سے پوری کی جا سکے۔ ماسک کی بات ہوئی تو قیمتیں آسمان تک پہنچ گئیں۔ ضروریات زندگی کی بات ہوئی تو لوگ بھوکوں کی طرح جھپٹ پڑے۔ جیسے آج ہی جتنا جمع کرنا ہے کر لو۔ دوبارہ کبھی یہ سورج طلوع نہ ہوگا۔ پھر جب سخیوں نے سخاوت دکھائی تو ایک ہی بھکاری طبقہ ہر جگہ سے لوٹ مار کر کر کے واپس وہی اشیا بازار میں فروخت کرتا نظر آنے لگا۔ ضرورت مند لوگوں کی تو آواز ہی حلق میں گھٹ گئی۔ ہر طرف خود غرضی اور موقع سے فائدہ اٹھانے کا وہ چلن نظر آیا کہ الاماں۔۔۔ اس سب حرص، طمع اوربےغرض و بےمقصد افراتفری کے درمیان جب میں وقت کے بہاؤ میں بہتا بہتا یہاں تک آگیا کہ سال کا آخری دن بھی ڈوبنے کو آپہنچا تو میں نے ڈوبتے سورج پر ایک الوداعی نظر ڈالی۔ اس ایک لمحے میں مجھے احساس ہوا کہ سورج مسکرا رہا ہے۔اور پھر ڈوبتے سورج نےآخری لمحے جھک کر مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔ یہ ہل من مزید کا نعرہ لگاتے، یہ ضرورت کی چیزوں کو بےمقصد جمع کرتے اور ہر موقع سے فائدہ اٹھانے کی تاک میں مصروف عمل گروہ۔یہ فیاضی دکھاتے سخی لوگ اور یہ بھیس بدل بدل کر قطار میں شامل ہوتے حریص۔ ان سب کو دیکھو۔ یہ ہو تم!
از قلم نیرنگ خیال
۱ جنوری ۲۰۲۱
گزشتہ برسوں کے آغاز و اختتام پر لکھی گئی تحاریر
یکم جنوری ۲۰۲۰ کو لکھی گئی تحریر "دو باتیں"
یکم جنوری 2019 کو لکھی گئی تحریر "کچھ آگہی کی سبیلیں بھی ہیں انتشار میں"
یکم جنوری 2018 کو لکھی گئی تحریر "تتلیاں"
یکم جنوری 2017 کو لکھی گئی تحریر "عجب تعلق"
یکم جنوری 2016 کو لکھی گئی تحریر "اوستھا"
2 جنوری 2015 کو لکھی گئی تحریر "سال رفتہ"
31 دسمبر 2013 کو لکھی گئی تحریر" کہروا"
آخری تدوین: