یہ ہو تم ۔۔۔۔ از قلم نیرنگ خیال

نیرنگ خیال

لائبریرین
گزشتہ برسوں کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے اس سال کے آغاز میں بھی تحریر پیش خدمت ہے۔ اور سابقہ تحاریر کی طرح منتشر الذہنی کی عکاس بھی ہے۔
یہ ہو تم

میٹرک کے دنوں کی بات ہے۔ نئی نئی داڑھی آ رہی تھی، سو ہم جماعتوں سے معتبر نظر آنے کو جوں کی توں چہرے پر موجود رہتی تھی۔سخت، کھردری اور الجھی زلفیں ہمیشہ سے میری شناخت رہی ہیں۔ الجھی اور پریشان۔ آئینہ یوں بھی ان دنوں میں کم ہی دیکھا کرتا تھا۔ ماں کہہ دیتی تھی۔ بہت پیارا لگ رہا ہے میرا لعل۔۔۔ اورمجھے آئینہ دیکھنے کی چنداں ضرورت نہ رہتی تھی۔ یار دوستوں کو بھی اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ میں کتنے اجڑے حلیے میں ہوں، یوں بھی ان کے حلیے کچھ ایسے مختلف نہ تھے۔بورڈ کے امتحانات جاری و ساری تھے۔ میری ساری توجہ امتحانات کی تیاری پر مرکوز تھی کہ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے میرا شمار ان طلباء میں ہوتا تھا جو مصیبت سر پڑنے کے بعد ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کرتےتھے۔ مزید یہ کہ ان دنوں ایسے اشعار بھی یاد نہ تھے کہ "تجھے گنوا کے فرصت کسے سنورنے کی۔۔۔ شراب ہی نہ جب ملے تو مستیاں کیسی" ۔ سو کوئی بھی ہمارے حال پر معترض ہوتا تو میں امتحانات ہی کو قصور وار ٹھہراتا تھا۔ایک دن کمرہ امتحان میں تمام طلباء سر جھکائے تیز رفتاری سے اپنے اپنے پرچوں کو حل کرنے میں مصروف تھے کہ ڈپٹی صاحب کمرے میں تشریف لائے اور کہنے لگے کہ سب لڑکے میری طرف توجہ کریں۔ میں نے اشہب قلم کو لگام دی اور ڈپٹی صاحب کی طرف توجہ کی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ نصف سے زیادہ پرچے گزر چکے ہیں، اور ابھی تک بہاولپور بورڈ کی طرف سے عملی امتحانات کے لیے رول نمبر سلپ جاری نہیں کی گئیں، اور اگر کی گئی ہیں تو ہمیں ابھی تک موصول نہیں ہوئیں۔ سو تمام "سائنس طلباء" سے درخواست ہے کہ اگلے پرچے کی تاریخ پر اپنی تین عدد پاسپورٹ سائز تصاویر لے آئیں، ان کے پیچھے اپنا نام اور بورڈ کا رول نمبر بھی درج کر دیں۔تاکہ ہم عملی امتحانات کی رول نمبر سلپ یہیں سے جاری کر دیں۔میں نے گھر میں قدم رکھتے ہی بابا کے سامنے ساری صورتحال پیش کی اور تصاویر کے لیے رقم کی درخواست دائر کی۔ کتنی رقم اب یہ یاد نہیں۔ ایک فوٹو سٹوڈیو جا کر تصاویر بنوائی جو کہ اس نے کاغذ کی ایک چھوٹی سی لفافی میں ڈال کر دے دیں۔ میں نے تصاویر کو بالکل نہیں دیکھا کہ کیسی آئی ہیں۔ بس گھر آکر ان کے پیچھے اپنا نام اور رول نمبر لکھا۔ اور دوبارہ اسے کاغذی پڑیا میں قید کر دیااور اگلے پرچے میں جاتے ہی وہ تصاویر ممتحن کو جا تھمائیں۔

بورڈ کا آخری پرچہ تھا۔ تمام طلباء خوش نظر آتے تھے، میں بھی شاید ایسی ملی جلی کیفیات کے زیر اثر ہوں گا۔ پرچہ حل کر رہے تھے کہ ڈپٹی صاحب دوبارہ کمرہ امتحان میں داخل ہوئے اور گزشتہ کی طرح اس بار بھی سب بچوں کی توجہ کا تقاضا کیا۔ پھر فرمانے لگے کہ بہاولپور بورڈ نے رولنمبر سلپ جاری کر دی تھیں جو ڈاک کی تاخیر کے سبب کل موصول ہوگئی ہیں، سو ایک تو تمام سائنس طلباء فلاں دن آکر اپنی رول نمبر سلپ وصول کر لیں۔ مزید یہ کہ وہ جو تصاویر آپ سب سے لی گئی تھیں، وہ باہر ایک بہت بڑے میز پر قطاروں میں لگا دی گئی ہیں۔ اپنی اپنی تصویر پہنچان کر اٹھا لیں، اب ان کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ میں پرچہ جمع کروا کر باہر نکلا تو برامدے سے آگے ایک لان میں بڑا سا میز دھرا تھا اور اس کے اوپر قطار در قطار تصاویر رکھی تھیں۔ میں اپنی عادت کے مطابق ایک طرف ہو کر کھڑا ہوگیا کہ یہ بھیڑ جو میز کے گرد ہے ذرا کم ہو تو میں اپنی تصاویر ڈھونڈوں۔کچھ دیر بعد جب تصاویر بھی کم ہوگئیں اور طلباء بھی تو میں آگے بڑھا۔ میز کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک۔۔۔ دوسرے سے پھر پہلے تک۔ لیکن میری تصویر کہیں نہیں تھی۔ اسی عالم تحیر میں جب ایک دو چکر اور لگا چکا تو قریب ہی کھڑے ایک استاد کو دیکھا جو میری طرف ہی دیکھ رہے تھے اور مسکرا رہے تھے۔ میں نے بھی ایک خفیف سی مسکراہٹ جوابا ارسال کی۔ تو وہ قریب آ کر کہنے لگے۔ کیا معاملہ ہے؟ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟ میں نے اپنی مشکل عرض کی کہ اپنی تصویر نہیں ڈھونڈ پا رہا ہوں۔انہوں نے ایک گہری نگاہ میز پر رکھی تصاویر پر ڈالی۔ پھر ایک تصویر اٹھائی اور میرے سر پر ہلکی سی چپت رسید کر کے مسکراتے ہوئے بولے۔" یہ ہو تم!"

میں نے پہلے تصویر اور پیچھے لکھا اپنا نام اور رولنمبر دیکھا۔ تصویر کیا تھی۔ ایک عبرت بھرا منظر تھا۔ سر کے بال جھاڑیوں کی طرح بکھرے اور ہر طرف پھیلے ہوئے۔ آدھی پیشانی انہی بالوں نے ڈھانپ رکھی تھی۔ گھنی بھنویں اور پھر ان کے نیچے گول مٹول دو آنکھیں۔ اور باقی سب چہرہ گہرے بالوں میں چھپا ہوا، جن کی کوئی سمت متعین نہ تھی۔ جو جس رخ پر نکلا تھا، لہلہا رہا تھا۔ میں نے تصویریں جیب میں ڈال لیں۔ گھر واپسی پر نہر پڑتی تھی۔ اسی نہر کے پل پر کھڑے ہو کر تصاویر کے ٹکڑے ٹکڑے کیے۔ اور نہر میں بہا دیں۔

گزرتے برسوں سے مجھے یہ احساس رہنے لگا تھا کہ میرا خود سے تعلق بہت رسمی سا ہے۔ میں کیا چاہتا ہوں، کدھر جانا چاہتا ہوں۔ میری کیا ترجیحات ہیں اور کیا میری ترجیحات نہیں ہیں، اس سب نے مجھے بہت پریشان کرنا شروع کر دیا۔ میں کتنی کتنی دیر ہی اپنے معاملات کو دیکھنے لگا کہ شاید کہیں سے کوئی سرا ملے۔ کوئی کھوج ملے۔ کوئی راہ نکلے۔ شاید مجھے کوئی ایسے انہماک سے اپنے ہی شب و روز کو تکتا دیکھے تو ایک شفیق سی چپت لگا کر کہے یہ ہو تم۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ ایسا ہو نہیں سکتا تھا۔ کیوں کہ شکست و ریخت کے یہ مظاہر بیرونی نہیں ہوتے۔ ان تک کسی کی رسائی نہیں ہوتی۔ یا پھر ان روز و شب سے منسلک لوگ اپنی ترجیحات میں مصروف ہوتے ہیں اور ان کے لیے پلٹ کر دیکھنے کا وقت نہیں ہوتا۔ کتنا آسان ہوتا ہے آگے بڑھ جانا۔ میں بھی اپنے آپ سے آگے بڑھنا چاہتا ہوں؟ یا نہیں؟ شاید میرے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں تھے کہ اس برس کرونا نے ہمارے معاشی اور سماجی معاملات کی قلعی کھول دی۔ معلوم ہوا کہ معاشرے میں بسنے والے افراد کے درمیان جو تعلق ہوتا ہے وہ بھی نہیں رہا۔ یہ ڈاکٹرز کی کالونی ہے اور یہ انجینرز کی۔ یہ امراء کی کالونی ہے اور یہ متوسط طبقے کی۔ اس طرف کچی بستیاں ہیں۔ یہ سب لوگ الگ الگ رہتے ہیں۔ امیروں کے ہمسائے بھی امیر ہیں اور بھوکے کا ہمسایہ بھی بھوکا ہی ہے۔ کہیں کوئی ایسا رابطہ نہیں ہے جس میں ضرورتمند کی ضرورت بھلے اور احسن طریقے سے پوری کی جا سکے۔ ماسک کی بات ہوئی تو قیمتیں آسمان تک پہنچ گئیں۔ ضروریات زندگی کی بات ہوئی تو لوگ بھوکوں کی طرح جھپٹ پڑے۔ جیسے آج ہی جتنا جمع کرنا ہے کر لو۔ دوبارہ کبھی یہ سورج طلوع نہ ہوگا۔ پھر جب سخیوں نے سخاوت دکھائی تو ایک ہی بھکاری طبقہ ہر جگہ سے لوٹ مار کر کر کے واپس وہی اشیا بازار میں فروخت کرتا نظر آنے لگا۔ ضرورت مند لوگوں کی تو آواز ہی حلق میں گھٹ گئی۔ ہر طرف خود غرضی اور موقع سے فائدہ اٹھانے کا وہ چلن نظر آیا کہ الاماں۔۔۔ اس سب حرص، طمع اوربےغرض و بےمقصد افراتفری کے درمیان جب میں وقت کے بہاؤ میں بہتا بہتا یہاں تک آگیا کہ سال کا آخری دن بھی ڈوبنے کو آپہنچا تو میں نے ڈوبتے سورج پر ایک الوداعی نظر ڈالی۔ اس ایک لمحے میں مجھے احساس ہوا کہ سورج مسکرا رہا ہے۔اور پھر ڈوبتے سورج نےآخری لمحے جھک کر مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔ یہ ہل من مزید کا نعرہ لگاتے، یہ ضرورت کی چیزوں کو بےمقصد جمع کرتے اور ہر موقع سے فائدہ اٹھانے کی تاک میں مصروف عمل گروہ۔یہ فیاضی دکھاتے سخی لوگ اور یہ بھیس بدل بدل کر قطار میں شامل ہوتے حریص۔ ان سب کو دیکھو۔ یہ ہو تم!

از قلم نیرنگ خیال
۱ جنوری ۲۰۲۱

گزشتہ برسوں کے آغاز و اختتام پر لکھی گئی تحاریر
یکم جنوری ۲۰۲۰ کو لکھی گئی تحریر "دو باتیں"
یکم جنوری 2019 کو لکھی گئی تحریر "کچھ آگہی کی سبیلیں بھی ہیں انتشار میں"
یکم جنوری 2018 کو لکھی گئی تحریر "تتلیاں"
یکم جنوری 2017 کو لکھی گئی تحریر "عجب تعلق"
یکم جنوری 2016 کو لکھی گئی تحریر "اوستھا"
2 جنوری 2015 کو لکھی گئی تحریر "سال رفتہ"
31 دسمبر 2013 کو لکھی گئی تحریر" کہروا"
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
سر کے بال جھاڑیوں کی طرح بکھرے اور ہر طرف پھیلے ہوئے۔ آدھی پیشانی انہی بالوں نے ڈھانپ رکھی تھی۔ گھنی بھنویں اور پھر ان کے نیچے گول مٹول دو آنکھیں۔ اور باقی سب چہرہ گہرے بالوں میں چھپا ہوا، جن کی کوئی سمت متعین نہ تھی۔ جو جس رخ پر نکلا تھا، لہلہا رہا تھا۔ میں نے تصویریں جیب میں ڈال لیں۔ گھر واپسی پر نہر پڑتی تھی۔ اسی نہر کے پل پر کھڑے ہو کر تصاویر کے ٹکڑے ٹکڑے کیے۔ اور نہر میں بہا دیں۔
میرا بھیا پھر بھی چاند جیسا ہے ہمیں دیکھا تھا کیسے صرف ہا تھ سے پہچان لیا تھا ۔۔۔یہ چندن جیسا دل جو نظر آ گیا ۔ پھر اصل سمت دل ہے وہ میرے بھیا کا انمول ہے اور سب سے افضل چیز انسان کا اندر ہے وہ چمکتا ہو تو باہر آپ ہی آپ چمک اُٹھتا ہے ۔قلم شاہکار تخلیق کرتا ہے درد مند دل رکھتا ہے محبت ہے حساسیت ہے جو نادر ہے ۔میرے بھیا کی نذر؀
اپنی مثال آپ ہے وہ بے مثال ہے
یہ دیکھنا ہے کون مرا ہم خیال ہے

اس ایک لمحے میں مجھے احساس ہوا کہ سورج مسکرا رہا ہے۔اور پھر ڈوبتے سورج نےآخری لمحے جھک کر مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔ یہ ہل من مزید کا نعرہ لگاتے، یہ ضرورت کی چیزوں کو بےمقصد جمع کرتے اور ہر موقع سے فائدہ اٹھانے کی تاک میں مصروف عمل گروہ۔یہ فیاضی دکھاتے سخی لوگ اور یہ بھیس بدل بدل کر قطار میں شامل ہوتے حریص۔ ان سب کو دیکھو۔ یہ ہو تم!
بہت اعلیٰ ۔۔اپنا آپ کھوجنا سب سے مشکل کام اور پھر سچ کا سامنا کرنا ہم سب کے اندر سے ایسے ہی حریص ہیں کچھ کو آئنیے میں اپنا آپ نظر آتا ہے اور کچھ کو چاروں اطراف لگے آئینوں میں کچھ نظر نہیں آتا تو صد شکر اُس مالک کا کہ اپنا آپ نظر آجائے۔یہ عطا ہے پروردگار کی جو دعاؤں کے صلے میں ملتیں ہیں ۔۔
جیتے رہیے ڈھیر ساری دعائیں سلامت رہیے نین بھیا۔
اک موج دبے پاؤں تعاقب میں چلی آئی
ہم خوش تھے بہت ریت کی دیوار بنا کر

ہم چاہیں کہ مل جائیں ہمیں ڈھیر سے موتی
سیڑھی کسی پر ہول سمندر میں لگا کر!!!!!!
 
آخری تدوین:

ام اویس

محفلین
سال گزرتے جاتے ہیں۔ معاملات سنبھلتے بگڑتے رہتے ہیں۔ خواہشات کی گائے پیچھے پیچھے رسی سے بندھی چلی آتی ہے۔ یہ سالہا سال کی چھوٹی چھوٹی لکڑیاں جو قدرت کی کارگر ی نے زندگی سے موت کے درمیان ڈوری پر لگائی ہوئی ہیں، یہ سب استعارے ہیں۔ پر کھولو، ان لکڑیوں کے سیدھے الٹے ہونے پر وقت مت ضائع کرو۔ اگر اڑنے کی تاب باقی ہے تو کیسے گر سکتے ہو۔ مٹھی کھولواور خواہشات کی رسی کو چھوڑو۔ دیکھو کہ وہ تمہاری وفادار نہیں ہیں۔ یہ تم ہو جو ان کے پیچھے بھاگتے ہو۔ ان کو اپنے ساتھ گھسیٹے پھرتے ہو۔نئے سال کی لکڑی پر بیٹھتے ہوئے یہ مت سوچو کہ یہ الٹنے والی ہے۔ کیوں کہ الٹنا ہی اس کا مقدر ہے۔ اپنے ہاتھوں کو بےنام خواہشات کی رسی سے آزاد کرو کہ یہ رسی تمہیں خود ہی توڑنی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
دو باتیں از قلم نیرنگ خیال
 

سیما علی

لائبریرین
سال گزرتے جاتے ہیں۔ معاملات سنبھلتے بگڑتے رہتے ہیں۔ خواہشات کی گائے پیچھے پیچھے رسی سے بندھی چلی آتی ہے۔ یہ سالہا سال کی چھوٹی چھوٹی لکڑیاں جو قدرت کی کارگر ی نے زندگی سے موت کے درمیان ڈوری پر لگائی ہوئی ہیں، یہ سب استعارے ہیں۔ پر کھولو، ان لکڑیوں کے سیدھے الٹے ہونے پر وقت مت ضائع کرو۔ اگر اڑنے کی تاب باقی ہے تو کیسے گر سکتے ہو۔ مٹھی کھولواور خواہشات کی رسی کو چھوڑو۔ دیکھو کہ وہ تمہاری وفادار نہیں ہیں۔ یہ تم ہو جو ان کے پیچھے بھاگتے ہو۔ ان کو اپنے ساتھ گھسیٹے پھرتے ہو۔نئے سال کی لکڑی پر بیٹھتے ہوئے یہ مت سوچو کہ یہ الٹنے والی ہے۔ کیوں کہ الٹنا ہی اس کا مقدر ہے۔ اپنے ہاتھوں کو بےنام خواہشات کی رسی سے آزاد کرو کہ یہ رسی تمہیں خود ہی توڑنی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
دو باتیں از قلم نیرنگ خیال
بہت خوب کہا آپ نے امُ اویس مٹھی کھول کہ خواہشات کی رسی کو آزاد کرنا بہت ضروری ہے ۔یہ آزادی ہی ذریعہٓ نجات ہے ۔
سلامت رہیے بہت ساری دعائیں اور پیار :in-love::in-love:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت اعلیٰ ہے ، ذوالقرنین! بہت ہی خوب!!!
بہت جاندار اورمؤثر تحریر ہے ۔ آخری سطور میں بہت ہی خوبصورت طریقے سے سمیٹا ہے بات کو !
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میرا بھیا پھر بھی چاند جیسا ہے ہمیں دیکھا تھا کیسے صرف ہا تھ سے پہچان لیا تھا ۔۔۔یہ چندن جیسا دل جو نظر آ گیا ۔ پھر اصل سمت دل ہے وہ میرے بھیا کا انمول ہے اور سب سے افضل چیز انسان کا اندر ہے وہ چمکتا ہو تو باہر آپ ہی آپ چمک اُٹھتا ہے ۔قلم شاہکار تخلیق کرتا ہے درد مند دل رکھتا ہے محبت ہے حساسیت ہے جو نادر ہے ۔میرے بھیا کی نذر؀
اپنی مثال آپ ہے وہ بے مثال ہے
یہ دیکھنا ہے کون مرا ہم خیال ہے


بہت اعلیٰ ۔۔اپنا آپ کھوجنا سب سے مشکل کام اور پھر سچ کا سامنا کرنا ہم سب کے اندر سے ایسے ہی حریص ہیں کچھ کو آئنیے میں اپنا آپ نظر آتا ہے اور کچھ کو چاروں اطراف لگے آئینوں میں کچھ نظر نہیں آتا تو صد شکر اُس مالک کا کہ اپنا آپ نظر آجائے۔یہ عطا ہے پروردگار کی جو دعاؤں کے صلے میں ملتیں ہیں ۔۔
جیتے رہیے ڈھیر ساری دعائیں سلامت رہیے نین بھیا۔
اک موج دبے پاؤں تعاقب میں چلی آئی
ہم خوش تھے بہت ریت کی دیوار بنا کر

ہم چاہیں کہ مل جائیں ہمیں ڈھیر سے موتی
سیڑھی کسی پر ہول سمندر میں لگا کر!!!!!!
آپی! آپ کی شفقت او رکرم مجھے حاصل ہے۔ اللہ پاک مجھے آپ کے حسن گماں جیسا ہی بنا دے۔ آمین یا رب العالمین
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
سال گزرتے جاتے ہیں۔ معاملات سنبھلتے بگڑتے رہتے ہیں۔ خواہشات کی گائے پیچھے پیچھے رسی سے بندھی چلی آتی ہے۔ یہ سالہا سال کی چھوٹی چھوٹی لکڑیاں جو قدرت کی کارگر ی نے زندگی سے موت کے درمیان ڈوری پر لگائی ہوئی ہیں، یہ سب استعارے ہیں۔ پر کھولو، ان لکڑیوں کے سیدھے الٹے ہونے پر وقت مت ضائع کرو۔ اگر اڑنے کی تاب باقی ہے تو کیسے گر سکتے ہو۔ مٹھی کھولواور خواہشات کی رسی کو چھوڑو۔ دیکھو کہ وہ تمہاری وفادار نہیں ہیں۔ یہ تم ہو جو ان کے پیچھے بھاگتے ہو۔ ان کو اپنے ساتھ گھسیٹے پھرتے ہو۔نئے سال کی لکڑی پر بیٹھتے ہوئے یہ مت سوچو کہ یہ الٹنے والی ہے۔ کیوں کہ الٹنا ہی اس کا مقدر ہے۔ اپنے ہاتھوں کو بےنام خواہشات کی رسی سے آزاد کرو کہ یہ رسی تمہیں خود ہی توڑنی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
دو باتیں از قلم نیرنگ خیال
ہم کو ہمیں میں الجھا کر چل دیے۔۔۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
ماشاء اللہ !

بہت خوبصورت تحریر ہے نین بھائی!

یوں سمجھیے کہ ہم سب کو آئنہ دکھا دیا آپ نے کہ "یہ ہو تم"۔

اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آمین۔

ہمیشہ کی طرح لاجواب اور بے مثال تحریر ہے یہ۔

خوش رہیے۔ :) :) :)
 

ام اویس

محفلین
ہم کو ہمیں میں الجھا کر چل دیے۔۔۔ :)
آپ نے جیسے الجھایا اس کا جواب یہی ہونا چاہیے تھا۔ بہت دیر تک سوچتی رہی، اتنی مایوس حقیقت اچھی نہیں لگی لیکن کوئی جواب نہیں سوجھا اور جو سوجھا وہ اس جواب سے بہتر نہیں ہو سکتا تھا۔
وہ کیا کہتے ہیں
آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
 
گزشتہ برسوں کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے اس سال کے آغاز میں بھی تحریر پیش خدمت ہے۔ اور سابقہ تحاریر کی طرح منتشر الذہنی کی عکاس بھی ہے۔
یہ ہو تم

میٹرک کے دنوں کی بات ہے۔ نئی نئی داڑھی آ رہی تھی، سو ہم جماعتوں سے معتبر نظر آنے کو جوں کی توں چہرے پر موجود رہتی تھی۔سخت، کھردری اور الجھی زلفیں ہمیشہ سے میری شناخت رہی ہیں۔ الجھی اور پریشان۔ آئینہ یوں بھی ان دنوں میں کم ہی دیکھا کرتا تھا۔ ماں کہہ دیتی تھی۔ بہت پیارا لگ رہا ہے میرا لعل۔۔۔ اورمجھے آئینہ دیکھنے کی چنداں ضرورت نہ رہتی تھی۔ یار دوستوں کو بھی اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ میں کتنے اجڑے حلیے میں ہوں، یوں بھی ان کے حلیے کچھ ایسے مختلف نہ تھے۔بورڈ کے امتحانات جاری و ساری تھے۔ میری ساری توجہ امتحانات کی تیاری پر مرکوز تھی کہ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے میرا شمار ان طلباء میں ہوتا تھا جو مصیبت سر پڑنے کے بعد ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کرتےتھے۔ مزید یہ کہ ان دنوں ایسے اشعار بھی یاد نہ تھے کہ "تجھے گنوا کے فرصت کسے سنورنے کی۔۔۔ شراب ہی نہ جب ملے تو مستیاں کیسی" ۔ سو کوئی بھی ہمارے حال پر معترض ہوتا تو میں امتحانات ہی کو قصور وار ٹھہراتا تھا۔ایک دن کمرہ امتحان میں تمام طلباء سر جھکائے تیز رفتاری سے اپنے اپنے پرچوں کو حل کرنے میں مصروف تھے کہ ڈپٹی صاحب کمرے میں تشریف لائے اور کہنے لگے کہ سب لڑکے میری طرف توجہ کریں۔ میں نے اشہب قلم کو لگام دی اور ڈپٹی صاحب کی طرف توجہ کی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ نصف سے زیادہ پرچے گزر چکے ہیں، اور ابھی تک بہاولپور بورڈ کی طرف سے عملی امتحانات کے لیے رول نمبر سلپ جاری نہیں کی گئیں، اور اگر کی گئی ہیں تو ہمیں ابھی تک موصول نہیں ہوئیں۔ سو تمام "سائنس طلباء" سے درخواست ہے کہ اگلے پرچے کی تاریخ پر اپنی تین عدد پاسپورٹ سائز تصاویر لے آئیں، ان کے پیچھے اپنا نام اور بورڈ کا رول نمبر بھی درج کر دیں۔تاکہ ہم عملی امتحانات کی رول نمبر سلپ یہیں سے جاری کر دیں۔میں نے گھر میں قدم رکھتے ہی بابا کے سامنے ساری صورتحال پیش کی اور تصاویر کے لیے رقم کی درخواست دائر کی۔ کتنی رقم اب یہ یاد نہیں۔ ایک فوٹو سٹوڈیو جا کر تصاویر بنوائی جو کہ اس نے کاغذ کی ایک چھوٹی سی لفافی میں ڈال کر دے دیں۔ میں نے تصاویر کو بالکل نہیں دیکھا کہ کیسی آئی ہیں۔ بس گھر آکر ان کے پیچھے اپنا نام اور رول نمبر لکھا۔ اور دوبارہ اسے کاغذی پڑیا میں قید کر دیااور اگلے پرچے میں جاتے ہی وہ تصاویر ممتحن کو جا تھمائیں۔

بورڈ کا آخری پرچہ تھا۔ تمام طلباء خوش نظر آتے تھے، میں بھی شاید ایسی ملی جلی کیفیات کے زیر اثر ہوں گا۔ پرچہ حل کر رہے تھے کہ ڈپٹی صاحب دوبارہ کمرہ امتحان میں داخل ہوئے اور گزشتہ کی طرح اس بار بھی سب بچوں کی توجہ کا تقاضا کیا۔ پھر فرمانے لگے کہ بہاولپور بورڈ نے رولنمبر سلپ جاری کر دی تھیں جو ڈاک کی تاخیر کے سبب کل موصول ہوگئی ہیں، سو ایک تو تمام سائنس طلباء فلاں دن آکر اپنی رول نمبر سلپ وصول کر لیں۔ مزید یہ کہ وہ جو تصاویر آپ سب سے لی گئی تھیں، وہ باہر ایک بہت بڑے میز پر قطاروں میں لگا دی گئی ہیں۔ اپنی اپنی تصویر پہنچان کر اٹھا لیں، اب ان کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ میں پرچہ جمع کروا کر باہر نکلا تو برامدے سے آگے ایک لان میں بڑا سا میز دھرا تھا اور اس کے اوپر قطار در قطار تصاویر رکھی تھیں۔ میں اپنی عادت کے مطابق ایک طرف ہو کر کھڑا ہوگیا کہ یہ بھیڑ جو میز کے گرد ہے ذرا کم ہو تو میں اپنی تصاویر ڈھونڈوں۔کچھ دیر بعد جب تصاویر بھی کم ہوگئیں اور طلباء بھی تو میں آگے بڑھا۔ میز کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک۔۔۔ دوسرے سے پھر پہلے تک۔ لیکن میری تصویر کہیں نہیں تھی۔ اسی عالم تحیر میں جب ایک دو چکر اور لگا چکا تو قریب ہی کھڑے ایک استاد کو دیکھا جو میری طرف ہی دیکھ رہے تھے اور مسکرا رہے تھے۔ میں نے بھی ایک خفیف سی مسکراہٹ جوابا ارسال کی۔ تو وہ قریب آ کر کہنے لگے۔ کیا معاملہ ہے؟ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟ میں نے اپنی مشکل عرض کی کہ اپنی تصویر نہیں ڈھونڈ پا رہا ہوں۔انہوں نے ایک گہری نگاہ میز پر رکھی تصاویر پر ڈالی۔ پھر ایک تصویر اٹھائی اور میرے سر پر ہلکی سی چپت رسید کر کے مسکراتے ہوئے بولے۔" یہ ہو تم!"

میں نے پہلے تصویر اور پیچھے لکھا اپنا نام اور رولنمبر دیکھا۔ تصویر کیا تھی۔ ایک عبرت بھرا منظر تھا۔ سر کے بال جھاڑیوں کی طرح بکھرے اور ہر طرف پھیلے ہوئے۔ آدھی پیشانی انہی بالوں نے ڈھانپ رکھی تھی۔ گھنی بھنویں اور پھر ان کے نیچے گول مٹول دو آنکھیں۔ اور باقی سب چہرہ گہرے بالوں میں چھپا ہوا، جن کی کوئی سمت متعین نہ تھی۔ جو جس رخ پر نکلا تھا، لہلہا رہا تھا۔ میں نے تصویریں جیب میں ڈال لیں۔ گھر واپسی پر نہر پڑتی تھی۔ اسی نہر کے پل پر کھڑے ہو کر تصاویر کے ٹکڑے ٹکڑے کیے۔ اور نہر میں بہا دیں۔

گزرتے برسوں سے مجھے یہ احساس رہنے لگا تھا کہ میرا خود سے تعلق بہت رسمی سا ہے۔ میں کیا چاہتا ہوں، کدھر جانا چاہتا ہوں۔ میری کیا ترجیحات ہیں اور کیا میری ترجیحات نہیں ہیں، اس سب نے مجھے بہت پریشان کرنا شروع کر دیا۔ میں کتنی کتنی دیر ہی اپنے معاملات کو دیکھنے لگا کہ شاید کہیں سے کوئی سرا ملے۔ کوئی کھوج ملے۔ کوئی راہ نکلے۔ شاید مجھے کوئی ایسے انہماک سے اپنے ہی شب و روز کو تکتا دیکھے تو ایک شفیق سی چپت لگا کر کہے یہ ہو تم۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ ایسا ہو نہیں سکتا تھا۔ کیوں کہ شکست و ریخت کے یہ مظاہر بیرونی نہیں ہوتے۔ ان تک کسی کی رسائی نہیں ہوتی۔ یا پھر ان روز و شب سے منسلک لوگ اپنی ترجیحات میں مصروف ہوتے ہیں اور ان کے لیے پلٹ کر دیکھنے کا وقت نہیں ہوتا۔ کتنا آسان ہوتا ہے آگے بڑھ جانا۔ میں بھی اپنے آپ سے آگے بڑھنا چاہتا ہوں؟ یا نہیں؟ شاید میرے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں تھے کہ اس برس کرونا نے ہمارے معاشی اور سماجی معاملات کی قلعی کھول دی۔ معلوم ہوا کہ معاشرے میں بسنے والے افراد کے درمیان جو تعلق ہوتا ہے وہ بھی نہیں رہا۔ یہ ڈاکٹرز کی کالونی ہے اور یہ انجینرز کی۔ یہ امراء کی کالونی ہے اور یہ متوسط طبقے کی۔ اس طرف کچی بستیاں ہیں۔ یہ سب لوگ الگ الگ رہتے ہیں۔ امیروں کے ہمسائے بھی امیر ہیں اور بھوکے کا ہمسایہ بھی بھوکا ہی ہے۔ کہیں کوئی ایسا رابطہ نہیں ہے جس میں ضرورتمند کی ضرورت بھلے اور احسن طریقے سے پوری کی جا سکے۔ ماسک کی بات ہوئی تو قیمتیں آسمان تک پہنچ گئیں۔ ضروریات زندگی کی بات ہوئی تو لوگ بھوکوں کی طرح جھپٹ پڑے۔ جیسے آج ہی جتنا جمع کرنا ہے کر لو۔ دوبارہ کبھی یہ سورج طلوع نہ ہوگا۔ پھر جب سخیوں نے سخاوت دکھائی تو ایک ہی بھکاری طبقہ ہر جگہ سے لوٹ مار کر کر کے واپس وہی اشیا بازار میں فروخت کرتا نظر آنے لگا۔ ضرورت مند لوگوں کی تو آواز ہی حلق میں گھٹ گئی۔ ہر طرف خود غرضی اور موقع سے فائدہ اٹھانے کا وہ چلن نظر آیا کہ الاماں۔۔۔ اس سب حرص، طمع اوربےغرض و بےمقصد افراتفری کے درمیان جب میں وقت کے بہاؤ میں بہتا بہتا یہاں تک آگیا کہ سال کا آخری دن بھی ڈوبنے کو آپہنچا تو میں نے ڈوبتے سورج پر ایک الوداعی نظر ڈالی۔ اس ایک لمحے میں مجھے احساس ہوا کہ سورج مسکرا رہا ہے۔اور پھر ڈوبتے سورج نےآخری لمحے جھک کر مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔ یہ ہل من مزید کا نعرہ لگاتے، یہ ضرورت کی چیزوں کو بےمقصد جمع کرتے اور ہر موقع سے فائدہ اٹھانے کی تاک میں مصروف عمل گروہ۔یہ فیاضی دکھاتے سخی لوگ اور یہ بھیس بدل بدل کر قطار میں شامل ہوتے حریص۔ ان سب کو دیکھو۔ یہ ہو تم!

از قلم نیرنگ خیال
۱ جنوری ۲۰۲۱

گزشتہ برسوں کے آغاز و اختتام پر لکھی گئی تحاریر
یکم جنوری ۲۰۲۰ کو لکھی گئی تحریر "دو باتیں"
یکم جنوری 2019 کو لکھی گئی تحریر "کچھ آگہی کی سبیلیں بھی ہیں انتشار میں"
یکم جنوری 2018 کو لکھی گئی تحریر "تتلیاں"
یکم جنوری 2017 کو لکھی گئی تحریر "عجب تعلق"
یکم جنوری 2016 کو لکھی گئی تحریر "اوستھا"
2 جنوری 2015 کو لکھی گئی تحریر "سال رفتہ"
31 دسمبر 2013 کو لکھی گئی تحریر" کہروا"
ماضی کے جھروکوں سے ہوتے ہوئے حال کے حالات میں لاتی یہ تحریر۔ ہمیشہ کی طرح لاجواب۔ تحریر پڑھتے ہوئے پہلے تو ماضی کی کھڑکی کی میں جھانک کر حالت کو دیکھا۔ اور حال کے حالات میں اپنا وجود جیسے کہیں کھویا ہوا ہو۔ نیا سال پر آپ کی تحریر نئے سال کا ایک تحفہ ہوتا ہے۔ امید واثق ہے کہ آپ یہ تحفہ بلاناغہ بھیجتے رہیں گے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
گزشتہ برسوں کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے اس سال کے آغاز میں بھی تحریر پیش خدمت ہے۔ اور سابقہ تحاریر کی طرح منتشر الذہنی کی عکاس بھی ہے۔
یہ ہو تم

میٹرک کے دنوں کی بات ہے۔ نئی نئی داڑھی آ رہی تھی، سو ہم جماعتوں سے معتبر نظر آنے کو جوں کی توں چہرے پر موجود رہتی تھی۔سخت، کھردری اور الجھی زلفیں ہمیشہ سے میری شناخت رہی ہیں۔ الجھی اور پریشان۔ آئینہ یوں بھی ان دنوں میں کم ہی دیکھا کرتا تھا۔ ماں کہہ دیتی تھی۔ بہت پیارا لگ رہا ہے میرا لعل۔۔۔ اورمجھے آئینہ دیکھنے کی چنداں ضرورت نہ رہتی تھی۔ یار دوستوں کو بھی اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ میں کتنے اجڑے حلیے میں ہوں، یوں بھی ان کے حلیے کچھ ایسے مختلف نہ تھے۔بورڈ کے امتحانات جاری و ساری تھے۔ میری ساری توجہ امتحانات کی تیاری پر مرکوز تھی کہ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے میرا شمار ان طلباء میں ہوتا تھا جو مصیبت سر پڑنے کے بعد ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کرتےتھے۔ مزید یہ کہ ان دنوں ایسے اشعار بھی یاد نہ تھے کہ "تجھے گنوا کے فرصت کسے سنورنے کی۔۔۔ شراب ہی نہ جب ملے تو مستیاں کیسی" ۔ سو کوئی بھی ہمارے حال پر معترض ہوتا تو میں امتحانات ہی کو قصور وار ٹھہراتا تھا۔ایک دن کمرہ امتحان میں تمام طلباء سر جھکائے تیز رفتاری سے اپنے اپنے پرچوں کو حل کرنے میں مصروف تھے کہ ڈپٹی صاحب کمرے میں تشریف لائے اور کہنے لگے کہ سب لڑکے میری طرف توجہ کریں۔ میں نے اشہب قلم کو لگام دی اور ڈپٹی صاحب کی طرف توجہ کی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ نصف سے زیادہ پرچے گزر چکے ہیں، اور ابھی تک بہاولپور بورڈ کی طرف سے عملی امتحانات کے لیے رول نمبر سلپ جاری نہیں کی گئیں، اور اگر کی گئی ہیں تو ہمیں ابھی تک موصول نہیں ہوئیں۔ سو تمام "سائنس طلباء" سے درخواست ہے کہ اگلے پرچے کی تاریخ پر اپنی تین عدد پاسپورٹ سائز تصاویر لے آئیں، ان کے پیچھے اپنا نام اور بورڈ کا رول نمبر بھی درج کر دیں۔تاکہ ہم عملی امتحانات کی رول نمبر سلپ یہیں سے جاری کر دیں۔میں نے گھر میں قدم رکھتے ہی بابا کے سامنے ساری صورتحال پیش کی اور تصاویر کے لیے رقم کی درخواست دائر کی۔ کتنی رقم اب یہ یاد نہیں۔ ایک فوٹو سٹوڈیو جا کر تصاویر بنوائی جو کہ اس نے کاغذ کی ایک چھوٹی سی لفافی میں ڈال کر دے دیں۔ میں نے تصاویر کو بالکل نہیں دیکھا کہ کیسی آئی ہیں۔ بس گھر آکر ان کے پیچھے اپنا نام اور رول نمبر لکھا۔ اور دوبارہ اسے کاغذی پڑیا میں قید کر دیااور اگلے پرچے میں جاتے ہی وہ تصاویر ممتحن کو جا تھمائیں۔

بورڈ کا آخری پرچہ تھا۔ تمام طلباء خوش نظر آتے تھے، میں بھی شاید ایسی ملی جلی کیفیات کے زیر اثر ہوں گا۔ پرچہ حل کر رہے تھے کہ ڈپٹی صاحب دوبارہ کمرہ امتحان میں داخل ہوئے اور گزشتہ کی طرح اس بار بھی سب بچوں کی توجہ کا تقاضا کیا۔ پھر فرمانے لگے کہ بہاولپور بورڈ نے رولنمبر سلپ جاری کر دی تھیں جو ڈاک کی تاخیر کے سبب کل موصول ہوگئی ہیں، سو ایک تو تمام سائنس طلباء فلاں دن آکر اپنی رول نمبر سلپ وصول کر لیں۔ مزید یہ کہ وہ جو تصاویر آپ سب سے لی گئی تھیں، وہ باہر ایک بہت بڑے میز پر قطاروں میں لگا دی گئی ہیں۔ اپنی اپنی تصویر پہنچان کر اٹھا لیں، اب ان کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ میں پرچہ جمع کروا کر باہر نکلا تو برامدے سے آگے ایک لان میں بڑا سا میز دھرا تھا اور اس کے اوپر قطار در قطار تصاویر رکھی تھیں۔ میں اپنی عادت کے مطابق ایک طرف ہو کر کھڑا ہوگیا کہ یہ بھیڑ جو میز کے گرد ہے ذرا کم ہو تو میں اپنی تصاویر ڈھونڈوں۔کچھ دیر بعد جب تصاویر بھی کم ہوگئیں اور طلباء بھی تو میں آگے بڑھا۔ میز کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک۔۔۔ دوسرے سے پھر پہلے تک۔ لیکن میری تصویر کہیں نہیں تھی۔ اسی عالم تحیر میں جب ایک دو چکر اور لگا چکا تو قریب ہی کھڑے ایک استاد کو دیکھا جو میری طرف ہی دیکھ رہے تھے اور مسکرا رہے تھے۔ میں نے بھی ایک خفیف سی مسکراہٹ جوابا ارسال کی۔ تو وہ قریب آ کر کہنے لگے۔ کیا معاملہ ہے؟ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟ میں نے اپنی مشکل عرض کی کہ اپنی تصویر نہیں ڈھونڈ پا رہا ہوں۔انہوں نے ایک گہری نگاہ میز پر رکھی تصاویر پر ڈالی۔ پھر ایک تصویر اٹھائی اور میرے سر پر ہلکی سی چپت رسید کر کے مسکراتے ہوئے بولے۔" یہ ہو تم!"

میں نے پہلے تصویر اور پیچھے لکھا اپنا نام اور رولنمبر دیکھا۔ تصویر کیا تھی۔ ایک عبرت بھرا منظر تھا۔ سر کے بال جھاڑیوں کی طرح بکھرے اور ہر طرف پھیلے ہوئے۔ آدھی پیشانی انہی بالوں نے ڈھانپ رکھی تھی۔ گھنی بھنویں اور پھر ان کے نیچے گول مٹول دو آنکھیں۔ اور باقی سب چہرہ گہرے بالوں میں چھپا ہوا، جن کی کوئی سمت متعین نہ تھی۔ جو جس رخ پر نکلا تھا، لہلہا رہا تھا۔ میں نے تصویریں جیب میں ڈال لیں۔ گھر واپسی پر نہر پڑتی تھی۔ اسی نہر کے پل پر کھڑے ہو کر تصاویر کے ٹکڑے ٹکڑے کیے۔ اور نہر میں بہا دیں۔

گزرتے برسوں سے مجھے یہ احساس رہنے لگا تھا کہ میرا خود سے تعلق بہت رسمی سا ہے۔ میں کیا چاہتا ہوں، کدھر جانا چاہتا ہوں۔ میری کیا ترجیحات ہیں اور کیا میری ترجیحات نہیں ہیں، اس سب نے مجھے بہت پریشان کرنا شروع کر دیا۔ میں کتنی کتنی دیر ہی اپنے معاملات کو دیکھنے لگا کہ شاید کہیں سے کوئی سرا ملے۔ کوئی کھوج ملے۔ کوئی راہ نکلے۔ شاید مجھے کوئی ایسے انہماک سے اپنے ہی شب و روز کو تکتا دیکھے تو ایک شفیق سی چپت لگا کر کہے یہ ہو تم۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ ایسا ہو نہیں سکتا تھا۔ کیوں کہ شکست و ریخت کے یہ مظاہر بیرونی نہیں ہوتے۔ ان تک کسی کی رسائی نہیں ہوتی۔ یا پھر ان روز و شب سے منسلک لوگ اپنی ترجیحات میں مصروف ہوتے ہیں اور ان کے لیے پلٹ کر دیکھنے کا وقت نہیں ہوتا۔ کتنا آسان ہوتا ہے آگے بڑھ جانا۔ میں بھی اپنے آپ سے آگے بڑھنا چاہتا ہوں؟ یا نہیں؟ شاید میرے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں تھے کہ اس برس کرونا نے ہمارے معاشی اور سماجی معاملات کی قلعی کھول دی۔ معلوم ہوا کہ معاشرے میں بسنے والے افراد کے درمیان جو تعلق ہوتا ہے وہ بھی نہیں رہا۔ یہ ڈاکٹرز کی کالونی ہے اور یہ انجینرز کی۔ یہ امراء کی کالونی ہے اور یہ متوسط طبقے کی۔ اس طرف کچی بستیاں ہیں۔ یہ سب لوگ الگ الگ رہتے ہیں۔ امیروں کے ہمسائے بھی امیر ہیں اور بھوکے کا ہمسایہ بھی بھوکا ہی ہے۔ کہیں کوئی ایسا رابطہ نہیں ہے جس میں ضرورتمند کی ضرورت بھلے اور احسن طریقے سے پوری کی جا سکے۔ ماسک کی بات ہوئی تو قیمتیں آسمان تک پہنچ گئیں۔ ضروریات زندگی کی بات ہوئی تو لوگ بھوکوں کی طرح جھپٹ پڑے۔ جیسے آج ہی جتنا جمع کرنا ہے کر لو۔ دوبارہ کبھی یہ سورج طلوع نہ ہوگا۔ پھر جب سخیوں نے سخاوت دکھائی تو ایک ہی بھکاری طبقہ ہر جگہ سے لوٹ مار کر کر کے واپس وہی اشیا بازار میں فروخت کرتا نظر آنے لگا۔ ضرورت مند لوگوں کی تو آواز ہی حلق میں گھٹ گئی۔ ہر طرف خود غرضی اور موقع سے فائدہ اٹھانے کا وہ چلن نظر آیا کہ الاماں۔۔۔ اس سب حرص، طمع اوربےغرض و بےمقصد افراتفری کے درمیان جب میں وقت کے بہاؤ میں بہتا بہتا یہاں تک آگیا کہ سال کا آخری دن بھی ڈوبنے کو آپہنچا تو میں نے ڈوبتے سورج پر ایک الوداعی نظر ڈالی۔ اس ایک لمحے میں مجھے احساس ہوا کہ سورج مسکرا رہا ہے۔اور پھر ڈوبتے سورج نےآخری لمحے جھک کر مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔ یہ ہل من مزید کا نعرہ لگاتے، یہ ضرورت کی چیزوں کو بےمقصد جمع کرتے اور ہر موقع سے فائدہ اٹھانے کی تاک میں مصروف عمل گروہ۔یہ فیاضی دکھاتے سخی لوگ اور یہ بھیس بدل بدل کر قطار میں شامل ہوتے حریص۔ ان سب کو دیکھو۔ یہ ہو تم!

از قلم نیرنگ خیال
۱ جنوری ۲۰۲۱

گزشتہ برسوں کے آغاز و اختتام پر لکھی گئی تحاریر
یکم جنوری ۲۰۲۰ کو لکھی گئی تحریر "دو باتیں"
یکم جنوری 2019 کو لکھی گئی تحریر "کچھ آگہی کی سبیلیں بھی ہیں انتشار میں"
یکم جنوری 2018 کو لکھی گئی تحریر "تتلیاں"
یکم جنوری 2017 کو لکھی گئی تحریر "عجب تعلق"
یکم جنوری 2016 کو لکھی گئی تحریر "اوستھا"
2 جنوری 2015 کو لکھی گئی تحریر "سال رفتہ"
31 دسمبر 2013 کو لکھی گئی تحریر" کہروا"
حسبِ روایت بہترین تحریر۔ اللہ کرے زورِ قلم اورزیادہ
دیگر تحاریر کی طرح یہاں بھی ایسا ہی محسوس ہوا کہ یہ آپ بیتی ایک جگ بیتی بھی ہے۔ ہمیں خود سے تعلق قائم کرنا آتا ہی نہیں۔ اورجب آتا ہے تو وقت اور مصروفیات سب کچھ بھلا دیتی ہیں۔ اسی طرح کووڈ 19 کی وجہ سے دنیا میں طبقاتی تقسیم کی تفسیر کرنا مزید آسان ہو گیا ہے۔ وبا کے پھیلاؤ، اس کے اثرات سے لے کر اب اس کی ویکسین کی دستیابی تک ہر جگہ آپ کو انسانی برادری میں یہ تفریق اس قدر واضح دکھائی دیتی ہے کہ آپ کو انسانی فطرت کو سمجھنے کے لیے کسی اور انڈیکس کو دیکھنا باقی نہیں رہتا۔ ہم سب اسی اژدھام کا حصہ ہیں۔
 

عاطف ملک

محفلین
کہنے کو تو خود شناسی بہت بڑی نعمت ہے لیکن کبھی کبھی یہ بہت تکلیف دیتی ہے۔
ذہن کے دریچے کھولنے والی ایک خوبصورت تحریر لکھنے پر مبارکباد۔ایسے ہی ہمیں جگاتے رہا کریں کہ
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ:)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ماشاء اللہ !

بہت خوبصورت تحریر ہے نین بھائی!

یوں سمجھیے کہ ہم سب کو آئنہ دکھا دیا آپ نے کہ "یہ ہو تم"۔

اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آمین۔

ہمیشہ کی طرح لاجواب اور بے مثال تحریر ہے یہ۔

خوش رہیے۔ :) :) :)
احمد بھائی۔۔۔ :bighug:
آپ کے تبصرے بنا تو یہ دھاگہ ادھورا تھا۔۔۔ :bighug::bighug:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ نے جیسے الجھایا اس کا جواب یہی ہونا چاہیے تھا۔ بہت دیر تک سوچتی رہی، اتنی مایوس حقیقت اچھی نہیں لگی لیکن کوئی جواب نہیں سوجھا اور جو سوجھا وہ اس جواب سے بہتر نہیں ہو سکتا تھا۔
وہ کیا کہتے ہیں
آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
بہت شرارتی ہیں آپ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ماضی کے جھروکوں سے ہوتے ہوئے حال کے حالات میں لاتی یہ تحریر۔ ہمیشہ کی طرح لاجواب۔ تحریر پڑھتے ہوئے پہلے تو ماضی کی کھڑکی کی میں جھانک کر حالت کو دیکھا۔ اور حال کے حالات میں اپنا وجود جیسے کہیں کھویا ہوا ہو۔ نیا سال پر آپ کی تحریر نئے سال کا ایک تحفہ ہوتا ہے۔ امید واثق ہے کہ آپ یہ تحفہ بلاناغہ بھیجتے رہیں گے۔
شکریہ حسن بھائی۔۔۔۔
 
Top