سید عمران

محفلین
تصوف کیا ہے؟؟؟
احکام الٰہی کو محبت سے ادا کرنا!!!
بس یہی ہے حاصل تصوف کا بلکہ کل شریعت کا۔۔۔
کما قال اللہ۔۔۔
والذین آمنوا اشد حب اللہ۔۔۔
کامل ایمان والے وہی ہیں جو اللہ سے شدید محبت رکھتے ہیں۔۔۔
خدا کی یہ شدید محبت کیسے حاصل ہوتی ہے؟؟؟
اور اسے دائمی قرار کیسے نصیب ہوتا ہے؟؟؟
اسے حاصل کرنے کا نام ہی تصوف ہے، سلوک ہے۔۔۔
اس راہ پر چلنے کا نام طریقت ہے۔۔۔
راہ طے کرنے والے کو صوفی یا سالک کہتے ہیں۔۔۔
اللہ تعالیٰ کی دائمی محبت حاصل کرنے کا نام نسبت ہے۔۔۔
نسبت کو بہت سے نام دئیے گئے مثلاً۔۔۔
نروان، وجدان، عرفان، معرفتِ الٰہیہِ معیتِ الٰہیہ!!!
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
احکام الٰہی دو طرح کے ہیں:
  • ظاہری یا جسمانی
  • باطنی یا قلبی
ظاہری اعمال جن کا تعلق جسم سے ہے جیسے نماز، روزہ، حج، جہاد، نامحرم سے نظر کی حفاظت وغیرہ۔
باطنی اعمال جن کا تعلق قلب سے ہے ۔ باطنی اعمال میں نہ کرنے کے کام زیادہ ہیں مثلاً حسد نہ کرنا، غیبت نہ کرنا، دل میں نامحرم کا خیال نہ لانا وغیرہ۔
گویا سمجھنے کے لیے یہ دو طرح کے اعمال ہوگئے۔ مثبت یعنی نیک کام کرنا اور منفی یعنی برے کاموں سے بچنا۔ جس طرح بلب مثبت اور منفی تاریں لگانے سے روشن ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یہ دو اعمال کرنے سے قلب روشن ہوجاتا ہے۔
(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
باطنی اعمال جن کا تعلق قلب سے ہے ۔ باطنی اعمال میں نہ کرنے کا کام زیادہ ہیں مثلاً حسد نہ کرنا، غیبت نہ کرنا، دل میں نامحرم کا خیال نہ لانا وغیرہ۔
گویا سمجھنے کے لیے یہ دو طرح کے اعمال ہوگئے۔ مثبت یعنی نیک کام کرنا اور منفی یعنی برے کاموں سے بچنا۔ جس طرح بلب مثبت اور منفی تاریں لگانے سے روشن ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یہ دو اعمال کرنے سے قلب روشن ہوجاتا ہے۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا
سلامت رہیے شاد و آباد رہیے آمین
 

نور وجدان

لائبریرین
احکام الٰہی دو طرح کے ہیں:
  • ظاہری یا جسمانی
  • باطنی یا قلبی
ظاہری اعمال جن کا تعلق جسم سے ہے جیسے نماز، روزہ، حج، جہاد، نامحرم سے نظر کی حفاظت وغیرہ۔
باطنی اعمال جن کا تعلق قلب سے ہے ۔ باطنی اعمال میں نہ کرنے کا کام زیادہ ہیں مثلاً حسد نہ کرنا، غیبت نہ کرنا، دل میں نامحرم کا خیال نہ لانا وغیرہ۔
گویا سمجھنے کے لیے یہ دو طرح کے اعمال ہوگئے۔ مثبت یعنی نیک کام کرنا اور منفی یعنی برے کاموں سے بچنا۔ جس طرح بلب مثبت اور منفی تاریں لگانے سے روشن ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یہ دو اعمال کرنے سے قلب روشن ہوجاتا ہے۔
(جاری ہے)
منفی تار لگنے سے شزوفرینیا، OCD, Delusion, یا دیگر بیماریاں ہوجاتی ہیں.
 

سید عمران

محفلین
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مروجہ تصوف کا نام اس لیے نہیں تھا کہ آپ کی ایک نظر ہی سے قلب روشن ہوجاتے تھے۔ صحابہ کرام کا ایمان اس درجہ پہنچ جاتا تھا کہ اللہ اور رسول اپنی جان و مال و عیال سے زیادہ محبوب ہوجاتے تھے۔ دائمی استحضار حق اور تعلق مع اللہ کی دولت حاصل ہوجاتی تھی۔
جوں جوں زمانہ نبوت سے دوری ہوتی گئی اس میں کمی واقع ہوتی گئی۔ اس کے باوجود مدارس میں فقہی مسائل کے ساتھ ساتھ باطنی تربیت بھی ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سمیت اس وقت کے دیگر ائمہ فقہ و محدثین عظام کتاب اللہ کا عالم ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ کے عالم بھی ہوتے تھے یعنی عارف باللہ، صاحبِ نسبت ہوتے تھے۔
لیکن جوں جوں زمانہ گزرا مدارس میں قرآن، حدیث، فقہ اور عربی زبان دانی کے علوم میں وسعت آئی تو اصلاح باطن کے کام پر گرفت کمزور ہوتی گئی۔
یہ وہ وقت تھا جب لوگ تزکیہ نفس کے لیے، اللہ کی محبت حاصل کرنے کے لیے ان اہل اللہ کے پاس الگ سے وقت لگانے لگے جو اسی کام لیے اپنی زندگیاں وقف کیے ہوئے تھے۔ رفتہ رفتہ ان حجروں کا نام خانقاہ پڑ گیا جہاں لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لیے قلب کی صفائی اور کثرت ذکر و اشغال میں مشغول ہوتے تھے۔
خانقاہ کی تعریف ہے ’’جائے بودن دُر ویشاں‘‘۔ یہ دال کے زبر کے ساتھ دَر نہیں، دال کے پیش کے ساتھ دُر ہے۔ دُرویش یعنی موتی کی طرح چمکدار چہرہ والے لوگ۔ کیونکہ قلب کی صفائی، اصلاحِ باطن، تزکیہ نفس، گناہوں سے بچنے اور تقویٰ اختیار کرنے کا نور ان کے چہروں سے عیاں ہوتا تھا اس لیے اسے موتی کی چمک سے تشبیہ دی گئی۔ نیک اعمال کے اثرات کا چہرہ کی نورانیت سے ظاہر ہونے کو اللہ تعالیٰ صحابہ کرام کے بارے میں اس طرح ارشاد فرمارہے ہیں:

ترھم رکعا سجدا۔ یبتغون فضلا من اللہ و رضوانا۔ سیماھم فی وجوھہم من اثر السجود۔
تم انہیں دیکھو گے کیسے رکوع و سجود میں مشغول ہیں۔ اللہ کا فضل اور اس کی رضا حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ کثرت عبادت کے اثرات ان کے چہروں سے ظاہر ہوتے ہیں۔

جب دل اللہ کے نور سے بھر جاتا ہے تو یہ نور آنکھوں سے چھلکتا ہے، چہرہ سے جھلکتا ہے۔
تو خانقاہ یعنی جائے بودن دُرویشاں کا مطلب ہوا موتی کی طرح چمکدار چہرے والے لوگوں کی قیام گاہ!!!

(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
بس اتنی حقیقت ہے خانقاہ کی۔ یہ جو بعد میں دنیا پرست لوگوں نے سادہ عوام کو دھوکہ دے کر خانقاہ و تصوف کے نام پر نت نئے ڈھونگ رچائے، قبر پر عمارت بنا کے اسے خانقاہ کا نام دیا، اب وہاں قبر پرستی ہورہی ہے، عرس ہورہے ہیں، قوالیاں ہورہی ہیں، قوالیوں میں موسیقی بج رہی ہے، مرد عورت آپس میں بیٹھے قوالیاں سن رہے ہیں، گپیں ہانک رہے ہیں، برابر مسجد میں اذان ہورہی ہے مگر کوئی نماز کے لیے نہیں اٹھتا، چرس اور نشہ چل رہا ہے، مجاور اور پیر نذرانے لے کر جنت دلانے کا ٹھیکہ لے رہے ہیں، کبھی ہاتھ ملا کر مریدوں کو کرنٹ مار رہے ہیں، کہیں تعویذ گنڈے دئیے جارہے ہیں اور ان کے بھروسے سب کچھ چھوڑ کر بیٹھنے کو اصل سمجھا جارہا ہے، ناپاک و مشرکانہ عملیات ہورہے ہیں۔ ان سب کا دین سے، شریعت سے، طریقت سے کوئی تعلق نہیں۔
اگرچہ اصطلاحاً شریعت و طریقت کو الگ الگ بیان کیا جاتا ہے لیکن در حقیقت سب عین شریعت ہے۔ پہچان کے لیے شریعت ظاہری اعمال کے احکام کو کہنے سمجھنے لگے اور طریقت باطنی اعمال کو۔لیکن وہ طریقت ہرگز نہیں جو تابع شریعت نہیں!!!

(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
جس طرح احکام ظاہری کے استاد کو مولانا، مولوی، عالم، مفتی، شیخ الحدیث کہا جاتا ہے اسی طرح طریقت پر چلانے والے کو، سلوک طے کرانے والے کو پیر، مرشد یا شیخ کے القاب دئیے جاتے ہیں۔ جس طرح احکام ظاہری یعنی قرآن، حدیث، فقہ سیکھنے کے لیے ماہر و مستند استاد کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح تصوف کے لیے بھی رہنما چاہیے۔ بغیر استاد کے ظاہری علوم سیکھنے والا یا تو گمراہ ہوجاتا ہے یا علم میں نقص رہتا ہے۔لیکن طریقت کا راستہ بغیر استاد کے طے تو کیا شروع ہی نہیں ہوتا۔ سالک سمندر کنارے حیراں و ششدر کھڑا رہتا ہے کہ اس بحر بیکراں میں اتروں تو کیونکر، پار لگوں تو کیسے؟
ہم اپنے ماحول سے، والدین سے، پاس پڑوسیوں سے، دوستوں یا اساتذہ سے متاثر ہوکر، کچھ دینی کتابیں پڑھ کر اعمال ظاہرہ تو کسی نہ کسی حد تک کر لیتے ہیں لیکن گناہوں سے بچنے اور تقویٰ اختیار کرنے کے معاملہ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یونہی تو نہیں فرمارہے۔۔۔

یا ایھا الذین امنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین
اے ایمان والو تقویٰ اختیار کرو (اور اسے اختیار کرنے کے لیے) ان صدیقین کی صحبت اختیار کرو جو دل کے سچے، عمل کے سچے، قول کے سچے، ایمان کے سچے ہوِں۔

صدیقین کا تقویٰ سے جو تعلق ہے اس کی تفسیر دوسری آیت سے ہوتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔۔۔

اولٰئک الذین صدقوا و اولٰئک ھم المتقون۔۔۔
یہ لوگ جو صدقین ہیں یہی اصل میں متقی ہیں۔

تو پہلی آیت کا ترجمہ و تفسیر یہی ہے کہ اگر تقویٰ حاصل کرنا ہے تو ایسے ہی حاصل نہیں ہوگا، اس کے لیے کسی متقی کی صحبت لازم ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے حکم دے کر تقویٰ اختیار کرنا اور اس کے حصول کے لیے کسی متقی کی صحبت اختیار کرنا دونوں کو فرض عین قرار دے دیا!!!
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
خانقاہ کیا ہے یہ تو ہم جان گئے ہیں کہ دُرویشوں کے رہنے کی جگہ ہے۔ لیکن دُرویش خانقاہ میں رہ کر کیا کرتے ہیں؟ دوسرے لفظوں میں خانقاہ میں کیا ہوتا ہے؟ کیسے ہوتا ہے؟ اور کیوں ہوتا ہے؟آئیے ان سوالوں کے جواب جانتے ہیں۔
دُرویش یا سالک یا مرید خانقاہ میں رہ کر اپنے شیخ و مرشد سے اپنے نفس کی اصلاح کراتے ہیں۔ نفس کی اصلاح کیسے ہوتی ہے اور کون اسے کرنے کا اہل ہوتا ہے یہ جاننے سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ نفس کی اصلاح کیوں کروانی چاہیے؟ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قد افلح من زکھا و قد خاب من دسھا
بے شک کامیاب ہوا جس نے اپنا تزکیہ کروا لیا اور ناکام ہوگیا جو گناہوں میں لتھڑا رہا۔

تزکیہ کا مطلب ہے صفائی۔ تزکیہ زکّی کا مصدر ہے۔ زکّی فعل متعدی ہے۔ یہ اپنے فاعل پر تمام نہیں ہوتا۔ مطلب تزکیہ خود سے نہیں ہوتا کوئی دوسرا کرتا ہے۔ جیسے صحابہ کا تزکیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ اس کو قرآن اس طرح بیان کرتا ہے:

وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًامِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیَاتِکَ وَیُعَلِّمُہُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ
(حضرت ابراہیم دعا کرتے ہیں)اے ہمارے ربّ! (۱)ایک ایسا پیغمبر بھیجئے (یعنی نبی آخرالزّماں) جو (۲)آپ کے کلام کی تلاوت لوگوں کو سنائے اور (۳)آپ کی کتاب کی تعلیم دے اور (۴)لوگوں کا تزکیہ کرے۔

یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے چار دعائیں مانگیں جن کو اوپر ترجمہ میں نمبر لگا کر واضح کردیا۔ پہلی ایک نبی کی بعثت کی دعا، جو کلام پاک کے الفاظ کی تعلیم دے یعنی تجوید ، اور اس کلام کی تعلیم بھی دے اور چوتھے انسانوں کا تزکیہ کرے۔
تو قرآن پاک کی روشنی میں اس سوال کا جواب تفصیلاً مل گیا کہ دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے نفس کی اصلاح کی کس قدر ضرورت ہے بلکہ یہ بعثت نبی کے تین اہم مقاصد میں سے ایک ہے۔
(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
تو ایک بات معلوم ہوگئی کہ خانقاہ میں تزکیۂ نفس کا کام ہوتا ہے۔یہ کام کون کرتا ہے؟اور اس کام کے کرنے والے یعنی شیخ و مرشد کی اہلیت و خوبی کیا ہو؟ مگر اس سے پہلے بات کرتے ہیں کہ سالک یا مرید کی کیا خصوصیات ہونی چاہئیں۔ مرید کی بات اس لیے پہلے کی کہ اس میں کرنے کی زیادہ بات نہیں۔ جیسے عاشق ہونے کی کوئی شرط نہیں، ہر کالا پیلا لنگڑا کبڑا عاشق ہوسکتا ہے۔ لیکن معشوق یعنی جس پر عاشق ہوا جائے اس کے لیےکڑی شرائط ہوتی ہیں۔ آنکھ کجراری ہو، ناک ستواں ہو، چہرہ کتابی ہو وغیرہ۔
اسی طرح مرید ہونے کی کوئی شرط نہیں۔ مرید کہتے ہی اسے ہیں جس کی مراد اللہ ہو۔ اللہ کی مراد کے طلب گار کو مرید کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ
ان کی مراد اللہ ہی ہے۔

لہٰذا مرید کے لیے بس ایک ہی شرط ہے کہ وہ اللہ کا طلب گار ہو۔ اس کے علاوہ وہ ہر معاملہ میں بے شک زیرو ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ ہر ہیرو، ہیرو بننے سے پہلے زیرو ہوتا ہے۔
حتیٰ کہ شیخ بھی کبھی زیرو تھا!!!
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
اب دیکھتے ہیں شیخ بننے کے لیے کیا صلاحیتیں ہونی چاہئیں۔ کیونکہ دین ایسی چیز نہیں کہ کسی کے بھی ہاتھ میں ہاتھ دے دیں۔ ذیل میں پیر بننے کی شرائط میں سے کچھ بیان کرتے ہیں:

۔۔۔پیر کو متبع شریعت و سنت ہونا چاہیے۔
۔۔۔خود اس کا بھی کوئی پیر ہو جس کا سلسلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہو۔
۔۔۔پیر کو دین کا بھی خوب علم ہو۔ آج کل نیٹ پرہر طرح کا علم عام ہوچکا ہے۔ لوگ علم دین سے بالکل بے بہرہ نہیں رہے۔ اس لیے پیر کو علوم دینی پر بنیادی یا معمولی نہیں خوب خوب دسترس ہونی چاہیے۔
۔۔۔ پیر کو عقل و فہم بھی ہو ۔ اسے علم ہو کہ وہ جو کچھ دوسروں کو بتا رہا ہے اس کے دور رس نتائج کیا نکلیں گے۔
۔۔۔ پیر کا علماء کے حلقہ میں اعتماد ہو۔ اس کے خلاف گمراہی، بددینی، بدعتی یا اعتدال سے ہٹنے کے فتاویٰ نہ ہوں۔ یہ نہیں کہ علماء کی اکثریت اس کی تعلیم و تربیت سے ناراض ہو۔ اور اشکال قائم کیے ہوئے ہو۔
۔۔۔ پیر اپنے نفس کو مٹائے ہوئے ہو۔ حق بات قبول کرے چاہے کوئی بھی کہے۔ یہ نہیں کہ الٹا اس پر چڑھائی کردے کہ خود تم میں بھی فلاں برائی ہے، ہمیں کیا سمجھا رہے ہو۔ اس کی اصلاح پر برا مان کر اس سے قطع تعلق نہ کرے۔ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کرے۔ جو خود اپنی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرنا چاہتا اسے دوسروں کی اصلاح کا بھی کوئی حق نہیں۔
۔۔۔ پیر تفاخر پسند نہ ہو۔ اپنی شہرت کے لیے بلند بانگ دعوے نہ کرتا ہو۔ اپنے نام کے ساتھ القابات کی بھرمار لگا کر القابات کی بے حرمتی نہ کرتا ہو۔ آج کل جسے دیکھو پیر طریقت، رہبر شریعت، عارف باللہ اور مستند عالم نہ ہونے کے باوجود ادھر ادھر سے ایک یا دو سالہ دینی کورس کرکے اپنے نام کے ساتھ مولانا لکھ رہا ہے۔ یہ سب امت سے دھوکہ دہی ہے کہ جو نہیں ہے اسے ظاہر کیا جا رہا ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مولانا ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے خط میں عقیدت مندی کے اظہار کے طور پر غوث لکھ دیا. انہوں نے جوابی خط میں لکھا کہ میں غوث نہیں ہوں.
۔۔۔ پیر کثرت عبادات ذکر و نوافل کا عادی ہو کہ اس کی برکت سے اس کی تعلیم میں پختگی رہتی ہے۔ یہ نہیں کہ قلندر اور حصولِ قربِ الٰہی کا نام لے کر سب نوافل سے دست بردار ہوچکا ہو۔ جیسا کہ آج کل کے پیروں کا وتیرہ بن گیا ہے کہ نت نئے بہانے تراش کر ذکر و تلاوت و نوافل سے کنارہ کش ہوئے بیٹھے ہیں۔ بھلا قرب الٰہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھ سکتے ہیں جو آخر وقت تک تہجد کی طویل رکعات، مغرب سے عشاء تک نوافل کی ادائیگی، چاشت و اشراق، خسوف و کسوف، کثرت سے روزے، پابندی سے اعتکاف، مستقل جہاد اور سارا مال صدقہ کرتے رہے۔
۔۔۔ پیر دنیا کا حریص نہ ہو یعنی مسجد مدرسہ کے صدقہ زکوٰۃ کے مال پر مال غنیمت سمجھ کر نہ ٹوٹ پڑتا ہو، مریدوں کی جیب، کمیشن، نذرانے پر نظر نہ رکھتا ہو، مریدوں سے اشیاء دنیا کی فرمائشیں اور مانگ تانگ نہ کرتا ہو۔ مریدوں کے مال سے استغناء کے لیے اپنا بھی کوئی جائز کاروبار یا ملازمت ہو، یہ نہیں کہ مریدوں کی کمائی پر ہی پڑا رہے۔
۔۔۔ سب سے بڑھ کر پیر خود بھی صاحب نسبت ہو۔ اس کی پہچان یہی ہے کہ وہ مندرجہ بالا کوتاہیوں کا کبھی مرتکب نہیں ہوسکتا۔
ایسے صاحب نسبت بزرگ کی صحبتوں سے مرید کا دل خود بخود دنیا سے، گناہوں سے اچاٹ ہونے لگتا ہے، عبادات میں دل لگتا ہے، اللہ تعالیٰ کی محبت میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن آتا ہے کہ وہ خود بھی صاحب نسبت ہوکر گوہر مراد پالیتا ہے!!!
(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
اب تک ہمیں کافی کچھ معلوم ہوگیا ہے کہ خانقاہ کیا ہے، مرید کون ہے اور شیخ کیسا ہو۔ اب ذرا خانقاہ کے اندر چل کر دیکھتے ہیں کہ خانقاہ کیسی ہوتی ہے اور وہاں یہ سارے کام کیسے سر انجام دئیے جاتے ہیں۔ اصل تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دین کو انسانی فطرت کے مطابق سادہ ترین رکھا ہے اسی لیے دین پر عمل کرنے کی ہر جہت انتہائی سادہ ہے۔
دیکھیے سب سے بنیادی عبادات نماز روزہ کتنا آسان ہے، ان کی ادائیگی میں نہ مال خرچ ہوتا ہے نہ خاص محنت۔ صدقہ دینے کو اتنا آسان کردیا کہ غریب سے غریب آدمی بھی دے سکتا ہے کہ کچھ نہ ہو تو اللہ کے لیے ایک کھجور ہی کسی کو کھلا دو یا پانی پلا دو یہ بھی صدقہ ہے۔
اسی طرح سب سے بنیادی عبادت نماز کے لیے سب سے بنیادی جگہ یعنی مسجد کو بھی اتنا سادہ بنا کر دکھایا کہ چند غریب مسلمان مل کر بھی مسجد بنا سکتے ہیں۔ جائز طریقہ سے حاصل کی گئی زمین پر چند کھجور کے تنے کھڑے کیے، ان پر کھجور کے پتوں کی چھت ڈال دی، کچی مٹی کی اینٹوں سے چھوٹی سی چار دیواری بنا دی۔ اور بس اسلام کی سب سے پہلی مسجد نبوی تیار۔
اسی طرح درخت کے نیچے بیٹھ کر بھی قرآن حدیث پڑھایا جاسکتا ہے، لیجیے یہی مدرسہ بن گیا۔ یہیں اللہ اللہ کرنا سکھایا یہ خانقاہ بن گئی۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ مالی استطاعت دے تو اسے دین کی بہتر سے بہتر خدمت کے لیے استعمال کریں۔ اہم ضروریات کے ساتھ اچھی بڑی مسجد بنائیں ، مدرسہ بنائیں، خانقاہ بنائیں۔
یہ تو ہو گیا جملہ معترضہ۔ ہم تو چل رہے ہیں خانقاہ کے اندر۔ دیکھتے ہیں کیا نقشہ ہے۔ مرکزی دروازہ سے اندر داخل ہوئے تو سامنے مسجد کا صحن ہے۔ برابر میں ایک وسیع کمرہ یا ہال ہے۔ دائیں بائیں برآمدوں میں کمرے بنے ہیں۔ ہال میں مرشد موقع بہ موقع مقیمین خانقاہ یعنی سالکین کرام کے لیے دین کی باتیں کرتا ہے، کبھی وعظ کی شکل میں، کبھی مختصر مواعظ کی شکل میں۔ کبھی سالکین کے خطوط کے جواب دیتا ہے۔ کبھی تعلیم کے لیے اجتماعی ذکر کرنا سکھاتا ہے کہ ذکر اس طرح کیا جاتا ہے۔ کمروں میں سالکین کا قیام ہوتا ہے جو شیخ کے پاس وقت لگانے کی غرض سے آئے ہوئے ہوتے ہیں۔
اس قیام کی کوئی مدت متعین نہیں۔ جس کو جتنا وقت ملے آکر ٹھہر سکتا ہے۔ ایک دن، ایک ہفتہ، ایک ماہ۔ اگر کوئی دنیا سے بالکل فارغ ہے، بلاوجہ ادھر ادھر مٹر گشتی کرکے زندگی کے قیمتی و انمول ایام ضائع کررہا ہے،اسے تو بس کوچۂ شیخ میں ہی گھر بنا لینا چاہیئے۔
بہرحال تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ کم از کم چالیس دن جسے چلہ بھی کہتے ہیں اگر مسلسل شیخ کی صحبت میں تاعمر اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی نیت سے قیام کرے تو اس کی اثرات ہی کچھ اور ہوتے ہیں۔ جن کا اثر تاحیات اس کی حیات پر قائم رہتا ہے۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
قیام خانقاہ میں سالکین کا معمول تھا کہ عشاء پڑھتے ہی سو گئے۔ پھر رات کو دو تین بجے اٹھے۔ تہجد پڑھی اور فجر تک شیخ کے بتائے ہوئے ذکر میں مشغول ہوگئے۔ ناشتہ کے بعد دینی کتابیں پڑھ لیں، کسی قاری سے قرآن کی تجوید سیکھ لی، عالم سے مسائل سیکھ لیے اور تھوڑا آرام کرلیا۔ ظہر سے قبل یا بعد کھانا کھایا۔ ظہر کے بعد پانچ پارے پڑھے۔ پھر عصر تک ذکر و شغل میں مشغول۔ عصر کے بعد شیخ کی مجلس۔ مغرب کے بعد کھانا اور عشاء تک نوافل میں مشغولی۔
یہ معمولات صرف معلومات دینے کی غرض سے لکھے ہیں۔ ہر کوئی اس پر عمل نہ شروع کردے۔ یہ تو مرید کی جسمانی صحت دیکھ کر شیخ ہی بتاتا ہے کہ کس کو کتنا ذکر و تلاوت و نوافل ادا کرنے ہیں۔
ذکر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک نفی اثبات، دوسرا اسمِ ذات۔نفی اثبات یعنی لا الٰہ الا اللہ اس طرح کہنا کہ لا الٰہ کہتے وقت یہ دھیان رہے کہ دل سے غیر اللہ نکل رہا ہے اور الا اللہ کہتے وقت یہ تصور کرے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت، اللہ کا نور دل میں داخل ہورہا ہے۔ الا اللہ کہتے وقت دل کو ہلکی سی ضرب لگائے۔ اس ضرب کا کیا مقصد ہے آگے چل کر بتاتے ہیں۔
اسمِ ذات یعنی اللہ اللہ کہنا۔ اور اللہ اللہ کہتے وقت یہ تصور کرنا کہ ایک زبان منہ میں ہے اور ایک دل میں اور دونوں سے بیک وقت اللہ نکل رہا ہے۔
پرانے وقت میں یہ دونوں ذکر چوبیس چوبیس ہزار تک کیے جاتے تھے۔ استغفار ستر ہزار بار۔ اسی طرح درود شریف بھی بکثرت۔ لیکن اب زمانہ کمزوری کا ہے۔ اتنا ذکر کرنا تو کجا اس کا تصور ہی محال ہے۔ اس لیے شیخ سالک کی جسمانی صحت اور فرصت دیکھ کر اس کو جتنا ذکر بتائے وہی اس کے لیے سلوک طے کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔
اب بات کرتے ہیں دل پر ضرب لگانے کی۔ یہ نہ کوئی شرعی چیز ہے جس کا کرنا ضروری یا مستحسن ہے نہ کوئی ثواب کا کام ہے۔ اس سے صرف اتنا ہوتا ہے کہ ضرب لگا کر قلب کو متحرک کرنے اور اللہ اللہ کا ذکر کرتے وقت یہ مراقبہ کرنے کہ دل کی بھی زبان ہے اور وہ بھی اللہ اللہ کہہ رہا ہے، آہستہ آہستہ دل بھی اللہ اللہ کہنے لگتا ہے۔ قلب سے ذکر اللہ جاری ہونا بھی ثواب کا کام نہیں ہے، البتہ اتنا ہوتا ہے کہ جب دل ذکر کرتا ہے تو سالک کا دھیان خود بخود اللہ کی طرف متوجہ رہتا ہے، عبادات میں دل لگتا ہے اور گناہ کرنے پر کسی طور جراءت نہیں ہوتی۔
ماضی قریب میں سکھر میں ایک بزرگ گزرے ہیں حاجی عبد الستار صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔ ابھی تین چار سال قبل ان کا انتقال ہوا ہے۔ جب ان کا بائی پاس آپریشن ہوا اور دل سینہ سے باہر نکالا گیا تو ڈاکٹر ششدر رہ گئے کہ دل اللہ اللہ کررہا تھا۔
ذکر اللہ کے اثرات پر ایک اور واقعہ یاد آگیا۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے بانی مفتی محمد حسن امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کی ٹانگ کاٹنے کی تجویز ہوئی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ بے ہوش کرنا ہوگا تو مفتی صاحب نے فرمایا میں بے ہوش ہوکر اتنی دیر اللہ کی یاد سے غافل نہیں رہ سکتا۔ پھر ڈاکٹروں سے کہا کہ جب آپریشن کرنا ہو تو مجھے تسبیح تھما دینا۔ بس مفتی صاحب ذکر میں مشغول رہے اور ڈاکٹروں نے لوکل انستھیسیا دے کر ٹانگ کاٹ دی، اور مفتی صاحب کو احساس تک نہ ہوا۔
(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
قیام خانقاہ میں سالکین کا معمول تھا کہ عشاء پڑھتے ہی سو گئے۔ پھر رات کو دو تین بجے اٹھے۔ تہجد پڑھی اور فجر تک شیخ کے بتائے ہوئے ذکر میں مشغول ہوگئے۔ ناشتہ کے بعد دینی کتابیں پڑھ لیں، کسی قاری سے قرآن کی تجوید سیکھ لی، عالم سے مسائل سیکھ لیے اور تھوڑا آرام کرلیا۔ ظہر سے قبل یا بعد کھانا کھایا۔ ظہر کے بعد پانچ پارے پڑھے۔ پھر عصر تک ذکر و شغل میں مشغول۔ عصر کے بعد شیخ کی مجلس۔ مغرب کے بعد کھانا اور عشاء تک نوافل میں مشغولی۔
یہ معمولات صرف معلومات دینے کی غرض سے لکھے ہیں۔ ہر کوئی اس پر عمل نہ شروع کردے۔ یہ تو مرید کی جسمانی صحت دیکھ کر شیخ ہی بتاتا ہے کہ کس کو کتنا ذکر و تلاوت و نوافل ادا کرنے ہیں۔
ذکر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک نفی اثبات، دوسرا اسمِ ذات۔نفی اثبات یعنی لا الٰہ الا اللہ اس طرح کہنا کہ لا الٰہ کہتے وقت یہ دھیان رہے کہ دل سے غیر اللہ نکل رہا ہے اور الا اللہ کہتے وقت یہ تصور کرے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت، اللہ کا نور دل میں داخل ہورہا ہے۔ الا اللہ کہتے وقت دل کو ہلکی سی ضرب لگائے۔ اس ضرب کا کیا مقصد ہے آگے چل کر بتاتے ہیں۔
اسمِ ذات یعنی اللہ اللہ کہنا۔ اور اللہ اللہ کہتے وقت یہ تصور کرنا کہ ایک زبان منہ میں ہے اور ایک دل میں اور دونوں سے بیک وقت اللہ نکل رہا ہے۔
پرانے وقت میں یہ دونوں ذکر چوبیس چوبیس ہزار تک کیے جاتے تھے۔ استغفار ستر ہزار بار۔ اسی طرح درود شریف بھی بکثرت۔ لیکن اب زمانہ کمزوری کا ہے۔ اتنا ذکر کرنا تو کجا اس کا تصور ہی محال ہے۔ اس لیے شیخ سالک کی جسمانی صحت اور فرصت دیکھ کر اس کو جتنا ذکر بتائے وہی اس کے لیے سلوک طے کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔
اب بات کرتے ہیں دل پر ضرب لگانے کی۔ یہ نہ کوئی شرعی چیز ہے جس کا کرنا ضروری یا مستحسن ہے نہ کوئی ثواب کا کام ہے۔ اس سے صرف اتنا ہوتا ہے کہ ضرب لگا کر قلب کو متحرک کرنے اور اللہ اللہ کا ذکر کرتے وقت یہ مراقبہ کرنے کہ دل کی بھی زبان ہے اور وہ بھی اللہ اللہ کہہ رہا ہے، آہستہ آہستہ دل بھی اللہ اللہ کہنے لگتا ہے۔ قلب سے ذکر اللہ جاری ہونا بھی ثواب کا کام نہیں ہے، البتہ اتنا ہوتا ہے کہ جب دل ذکر کرتا ہے تو سالک کا دھیان خود بخود اللہ کی طرف متوجہ رہتا ہے، عبادات میں دل لگتا ہے اور گناہ کرنے پر کسی طور جراءت نہیں ہوتی۔
ماضی قریب میں سکھر میں ایک بزرگ گزرے ہیں حاجی عبد الستار صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔ ابھی تین چار سال قبل ان کا انتقال ہوا ہے۔ جب ان کا بائی پاس آپریشن ہوا اور دل سینہ سے باہر نکالا گیا تو ڈاکٹر ششدر رہ گئے کہ دل اللہ اللہ کررہا تھا۔
ذکر اللہ کے اثرات پر ایک اور واقعہ یاد آگیا۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے بانی مفتی محمد امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کی ٹانگ کاٹنے کی تجویز ہوئی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ بے ہوش کرنا ہوگا تو مفتی صاحب نے فرمایا میں بے ہوش ہوکر اتنی دیر اللہ کی یاد سے غافل نہیں رہ سکتا۔ پھر ڈاکٹروں سے کہا کہ جب آپریشن کرنا ہو تو مجھے تسبیح تھما دینا۔ بس مفتی صاحب ذکر میں مشغول رہے اور ڈاکٹروں نے لوکل انستھیسیا دے کر ٹانگ کاٹ دی، اور مفتی صاحب کو احساس تک نہ ہوا۔
(جاری ہے)
یہ مثال ہمارے اسلاف کی بہترین نشانی ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
خواجہ شمس الدین سیالوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:
علمائے دین خدا کے شیر ہوتے ہیں۔ ان کے گلے میں محبتِ الہی کی زنجیر ڈالنا مردوں ہی کا کام ہے۔
پھر فرمایا جس وقت حافظ محمد جمال ملتانی ، خواجہ مہاروی کی خدمت میں پہنچے تو حضرت مہاروی اپنے شہر کے باہر نہر کے کنارے پر بیٹھے تھے۔ آپ نے حافظ صاحب سے پوچھا تمہاری کیا حاجت ہے اور کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے کہا میں ایک ملتانی درویش ہوں اور ایک عورت سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا اگر وہ غالب آگئی تو تمہیں کھینچ لے جائے گی اور اگر میں غالب آ گیا تو تمہیں اس سے رہائی دلا دوں گا۔ اس وقت جا کر ہماری مسجد میں بیٹھو ، میں بھی تمہارے پیچھے پیچھے آتا ہوں۔ جب حضرت قبلہ عالم خواجہ نور محمد مہاروی اپنے مکان پر تشریف لائے اور حافظ صاحب کو طلب کیا اور فرمایا۔ تم نے اُس وقت اپنے آپ کو کیوں ظاہر نہ کیا؟ انہوں نے کہا۔ میں ڈر گیا تھا کیونکہ بعض فقراء علماء کو حقیر مانتے ہیں۔ لہذا میں نے اپنے آپ کو پوشیدہ رکھا۔ آپ نے فرمایا وہ لوگ جو علماء کو حقیر جانتے ہیں ، ہم ان میں سے نہیں ہیں بلکہ ہم علماء کو نائب رسول اور فقرا کو صرّاف سمجھتے ہیں۔

بحوالہ: مرات العاشقین از خواجہ شمس الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ ، اردو ترجمہ از صاحبزادہ غلام نظام الدین ، صفحہ 176
 
Top