السلام علیکم -ما شاء الله مفید سلسلہ ہے -ابتدا بھرپور رہی، نہایت سادہ انداز میں مشکل تعبیرات کو واضح کیا گیا مگر جیسے جیسے سلسلہ آگے بڑھتا جا رہا ہے یوں محسوس ہوتا ہے سلسلے کو طول دینے کے لیے آسان باتوں کو بھی مشکل کیا جا رہا ہے -پہلے ارادہ تھا کہ آخر میں رائے دوں لیکن اشکال ہی کچھ ایسا ہے کہ جی میں ہے ،ابھی پیش کر دوں -
ذیل میں پیر بننے کی شرائط میں سے کچھ بیان کرتے ہیں:
۔۔۔پیر کو متبع شریعت و سنت ہونا چاہیے۔
۔۔۔خود اس کا بھی کوئی پیر ہو جس کا سلسلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہو۔
۔۔۔پیر کو دین کا بھی خوب علم ہو۔ آج کل نیٹ پرہر طرح کا علم عام ہوچکا ہے۔ لوگ علم دین سے بالکل بے بہرہ نہیں رہے۔ اس لیے پیر کو علوم دینی پر بنیادی یا معمولی نہیں خوب خوب دسترس ہونی چاہیے۔
۔۔۔ پیر کو عقل و فہم بھی ہو ۔ اسے علم ہو کہ وہ جو کچھ دوسروں کو بتا رہا ہے اس کے دور رس نتائج کیا نکلیں گے۔
۔۔۔ پیر کا علماء کے حلقہ میں اعتماد ہو۔ اس کے خلاف گمراہی، بددینی، بدعتی یا اعتدال سے ہٹنے کے فتاویٰ نہ ہوں۔ یہ نہیں کہ علماء کی اکثریت اس کی تعلیم و تربیت سے ناراض ہو۔ اور اشکال قائم کیے ہوئے ہو۔
۔۔۔ پیر اپنے نفس کو مٹائے ہوئے ہو۔ حق بات قبول کرے چاہے کوئی بھی کہے۔ یہ نہیں کہ الٹا اس پر چڑھائی کردے کہ خود تم میں بھی فلاں برائی ہے، ہمیں کیا سمجھا رہے ہو۔ اس کی اصلاح پر برا مان کر اس سے قطع تعلق نہ کرے۔ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کرے۔ جو خود اپنی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرنا چاہتا اسے دوسروں کی اصلاح کا بھی کوئی حق نہیں۔
۔۔۔ پیر تفاخر پسند نہ ہو۔ اپنی شہرت کے لیے بلند بانگ دعوے نہ کرتا ہو۔ اپنے نام کے ساتھ القابات کی بھرمار لگا کر القابات کی بے حرمتی نہ کرتا ہو۔ آج کل جسے دیکھو پیر طریقت، رہبر شریعت، عارف باللہ اور مستند عالم نہ ہونے کے باوجود ادھر ادھر سے ایک یا دو سالہ دینی کورس کرکے اپنے نام کے ساتھ مولانا لکھ رہا ہے۔ یہ سب امت سے دھوکہ دہی ہے کہ جو نہیں ہے اسے ظاہر کیا جا رہا ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مولانا ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے خط میں عقیدت مندی کے اظہار کے طور پر غوث لکھ دیا. انہوں نے جوابی خط میں لکھا کہ میں غوث نہیں ہوں.
۔۔۔ پیر کثرت عبادات ذکر و نوافل کا عادی ہو کہ اس کی برکت سے اس کی تعلیم میں پختگی رہتی ہے۔ یہ نہیں کہ قلندر اور حصولِ قربِ الٰہی کا نام لے کر سب نوافل سے دست بردار ہوچکا ہو۔ جیسا کہ آج کل کے پیروں کا وتیرہ بن گیا ہے کہ نت نئے بہانے تراش کر ذکر و تلاوت و نوافل سے کنارہ کش ہوئے بیٹھے ہیں۔ بھلا قرب الٰہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھ سکتے ہیں جو آخر وقت تک تہجد کی طویل رکعات، مغرب سے عشاء تک نوافل کی ادائیگی، چاشت و اشراق، خسوف و کسوف، کثرت سے روزے، پابندی سے اعتکاف، مستقل جہاد اور سارا مال صدقہ کرتے رہے۔
۔۔۔ پیر دنیا کا حریص نہ ہو یعنی مسجد مدرسہ کے صدقہ زکوٰۃ کے مال پر مال غنیمت سمجھ کر نہ ٹوٹ پڑتا ہو، مریدوں کی جیب، کمیشن، نذرانے پر نظر نہ رکھتا ہو، مریدوں سے اشیاء دنیا کی فرمائشیں اور مانگ تانگ نہ کرتا ہو۔ مریدوں کے مال سے استغناء کے لیے اپنا بھی کوئی جائز کاروبار یا ملازمت ہو، یہ نہیں کہ مریدوں کی کمائی پر ہی پڑا رہے۔
۔۔۔ سب سے بڑھ کر پیر خود بھی صاحب نسبت ہو۔ اس کی پہچان یہی ہے کہ وہ مندرجہ بالا کوتاہیوں کا کبھی مرتکب نہیں ہوسکتا۔
ایسے صاحب نسبت بزرگ کی صحبتوں سے مرید کا دل خود بخود دنیا سے، گناہوں سے اچاٹ ہونے لگتا ہے، عبادات میں دل لگتا ہے، اللہ تعالیٰ کی محبت میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن آتا ہے کہ وہ خود بھی صاحب نسبت ہوکر گوہر مراد پالیتا ہے!!!
آپ کی باتوں سے یوں لگ رہا ہے کہ مندرجہ بالا کڑی شرائط پہ پورا اترتا شیخ اگر مل بھی جائے تو مرید پر پہلا حق نہ عظمت شیخ ہے ،نہ حب شیخ ،بلکہ نہ دیکھے آؤ نہ دیکھے تاؤ اس کا فائنینشل آڈٹ شروع کر دے -گو شیخ کی محبّت اور حسن ظن کے متعلق آپ پہلے لکھ چکے ہیں مگر یہاں عنوان قائم کر کے دوسرا نمبر حق یہی بیان کرنا بہت کھٹک رہا ہے -
۲۔۔۔ مرید اپنے شیخ کو قسم بھی قسم کی مالی بدعنوانی میں ملوث دیکھے تو فوراً دو باتوں پر عمل کرے:
ان باتوں کو آپ مرشد کی اہلیت کے ذیل میں تقویٰ کی تفصیل میں بھی لکھ سکتے تھے -
خیر اس پہ ایک مثال یاد آئی :ایک غیر مقلد دوست کو، جو ٹانگیں خوب خوب کھول کر نماز پڑھنے کے قائل تھے گویا مسجد میں الله سائیں سے بھی قتال فی سبیل الله کے لیے آئے ہوں ،جمعے کے دن دار العلوم کورنگی لے گیا- ماشاء الله مفتی رفیع عثمانی رحمه الله تعالیٰ کا پر تاثیر بیان سن کر اور نماز ادا کرنے کے بعد جب پوچھا کہ بیان کیسا لگا تو فرماتے کیا ہیں ،"بیان کو رہنے دو ،یہ کہو کہ ان شاندار تعمیرات کا پیسا کدھر سے آتا ہے ؟"
گئی بھینس پانی میں - بقول غالب :
نکتہ چیں ہے غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے