فاروقی
معطل
یہ ہے ”وار آن ٹیرر…!!“,,,,نقش خیال…عرفان صدیقی
جارج ڈبلیو بش، تاریخ کے اندھیروں میں غرق ہونے کو ہے لیکن اس کا عہد انسانیت کا نوحہ بن کر برسوں تلک وقت کے ایوانوں میں گونجتا رہے گا۔ ممکن ہے بش کے البم میں فلوجہ، بغداد، حدیثہ، ابو غریب، قندھار، تورابورا، قلعہ جنگی، قندوز اور دشت لیلیٰ کی کچھ تصویریں ہوں جنہیں دیکھ دیکھ کر وہ اپنی تنہائیاں بہلاتا رہے لیکن اگر اس کے بدن میں رواں لہو کے کسی خلیے میں انسانیت کی ادنیٰ سی رمق بھی موجود ہے تو کبھی کبھی یخ بستہ راتوں کی گہری نیند میں اس کی آنکھ ضرور کھل جایا کرے گی اور پھر وہ دیر تک پہلو بدلتا رہے گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ لاکھوں انسانوں کو بے دردی سے قتل کردینے والا شخص، خونیوں کا تعاقب کرنے والے آسیب سے بچ سکے اور اس کربناک اذیت سے محفوظ رہے جو آدم خوروں کو معاف نہیں کیا کرتی۔
اب وہ جا رہا ہے اور پوری دنیا، حیاباختہ کروسیڈ کی تپش سے پگھلی جا رہی ہے۔ اپنی نوعیت کا سب سے ہولناک اقتصادی بحران، سونامی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ”وار آن ٹیرر“ کے بجرے میں سوار ممالک میں بھونچال کی سی کیفیت ہے۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی اور جاپان، جی سیون کے پرچم تلے واشنگٹن میں سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ اس سیل بلا کے سامنے کیسے بند باندھا جائے۔ آئی ایم ایف نے دہائی دی ہے کہ ”وقت تیزی سے نکلا جا رہا ہے اور عالمی مالیاتی نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔“ صرف ایک ہفتے میں امریکہ اور یورپ کی اسٹاک مارکیٹوں میں پانچ کھرب ڈالر ڈوب گئے۔ بوکھلائی ہوئی حکومتیں سنبھالا دینے کے لئے اربوں ڈالر جھونک رہی ہیں لیکن بپھری ہوئی موجیں بے قابو ہو رہی ہیں۔ شہنشاہ عالم پناہ نے ہاتھ جوڑ کر کانگریس سے سات سو ارب ڈالر مانگے لیکن دیوالیہ پن کی گرتی دیواروں کو سہارا نہیں مل رہا۔ اس کے واجب الادا قرضوں کو شمار کرنے والی مشینیں ناکارہ ہوگئی ہیں کیونکہ وہ دس کھرب ڈالر تک گنتی کر سکتی تھیں لیکن امریکہ پر قرضوں کا بوجھ دس کھرب ڈالر کی حد عبور کر کے گیارہ کھرب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ سات برس میں ساٹھ لاکھ امریکی، مڈل کلاس سے نکل کر غربت کے دائرے میں لڑھک گئے ہیں۔ بے روزگاری اور افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ستر لاکھ امریکی ہیلتھ انشورنس اور چالیس لاکھ پنشن سے محروم ہوگئے ہیں۔ بش اور ڈک چینی ٹولے سے رشتہ و تعلق رکھنے والے دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ رہے ہیں۔ امیر اور غریب کی خلیج تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ اوپر کا ایک فی صد طبقہ نیچے کے نوے فیصد طبقے سے زیادہ دولت رکھتا ہے۔ امریکہ کی عسکری قوت کا بھرم تو کابل و قندھار اور کوفہ و بغداد میں رسوا ہو ہی رہا تھا اب اس کی امارت کی قبائے خوشرنگ بھی دھجیاں ہو رہی ہیں اور اس کی اقتصادی قوت کا رعب و جلال، ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز کی طرح زمین بوس ہونے کو ہے۔
یہ 2002ء کی بات ہے۔ افغانستان اور عراق کے جنگی اخراجات کا اندازہ لگایا جا رہا تھا۔ بش کے اقتصادی مشیر لارنس لنڈزے نے کہا۔ ”ممکن ہے وار آن ٹیرر ہمارے دوسو ارب ڈالر کھا جائے۔“ بش نے اسے یہ کہہ کر برطرف کر دیا کہ تم مبالغہ آمیز تخمینے لگا کر امریکی عوام کو بددل کر رہے ہو اور اب، کوئی سات ماہ قبل، مارچ 2008ء میں ”نان پارٹیزن کانگریشنل بجٹ آفس“ کے جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق عراق و افغانستان کے فوجی آپریشنز کا براہ راست (DIRECT) خرچہ 752 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے نوبل انعام یافتہ اسکالر اور ورلڈ بینک کے سابق چیف اکانومسٹ پروفیسر جوزف سٹگلٹر اور ہارورڈ یونیورسٹی کی ماہر اقتصادیات لنڈا ہلمز نے اپنی مشترکہ جامع رپورٹ میں بتایا ہے کہ ”براہ راست خرچ میں لاتعداد دوسرے اخراجات شامل نہیں۔ حقیقت میں وار آن ٹیرر تین کھرب ڈالر سے زیادہ ہڑپ کرچکی ہے۔“ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر صرف 65 ہزار زخمیوں کی دیکھ بھال اور تاحیات مراعات اور ایک لاکھ سے زائد ذہنی عارضوں میں مبتلا فوجیوں کے علاج معالجے شامل کئے جائیں تو ڈائریکٹ خرچ میں 600 ارب ڈالر کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ان کے علاوہ بیسیوں مدات اور بھی ہیں۔ اے بی سی کے اکنامک رپورٹر سیٹو شیفرز کا تخمینہ بھی یہی ہے۔ مارچ 2008ء میں اس نے لکھا تھا کہ ”وار آن ٹیرر توقع سے کہیں زیادہ مہنگی ثابت ہوئی ہے۔ اندازہ ہے کہ اس سال کے اختتام تک اس جنگ کی لاگت تین کھرب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔“ فوجیوں کی پنشن، لواحقین کی مالی امداد اور تمام چھوٹے بڑے اخراجات کو جمع کرنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ جلد ہی یہ جنگ پانچ کھرب ڈالر سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ آج کی کرنسی میں دوسری جنگ عظیم کے مجموعی اخراجات بھی یہی تھے۔
کوئی تین سال قبل، امریکی ایوان نمائندگان کے رکن جان پی مرتھا کی چھوٹی سی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ امریکہ صرف عراق میں 8 ارب ڈالر ماہانہ خرچ کر رہا ہے۔ مرتھا کے حساب کے مطابق یہ رقم دو ارب ڈالر فی ہفتہ، 26 کروڑ 70 لاکھ ڈالر روزانہ اور ایک کروڑ دس لاکھ ڈالر فی گھنٹہ تھی۔ افغانستان کا خرچہ اس کے علاوہ تھا۔ مرتھا نے یہ بھی بتایا تھا کہ تعلیم و صحت جیسے سماجی شعبوں کے بجٹ میں کس بری طرح کٹ لگایا جا رہا ہے۔
امریکہ اس بے ننگ و نام ”وار آن ٹیرر“ میں ساڑھے چار ہزار سے زائد فوجی گنوا چکا ہے۔ افغانستان میں اس کے چھ سو کے لگ بھگ فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ برطانیہ، اٹلی، پولینڈ، یوکرین، بلغاریہ، اسپین اور چودہ دوسرے ممالک کے ہلاک شدگان کی فہرست الگ ہے۔ ہلاکتوں کا گراف اوپر ہی اوپر جا رہا ہے۔ 2001ء میں امریکہ کے صرف پانچ فوجی ہلاک ہوئے تھے اور 2002ء میں 35۔ اس سال کے نو مہینوں میں 113 امریکی بھسم ہو چکے ہیں اور جنگ ہے کہ ٹائی ٹینک کی طرح غرق ہو رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے افغانستان میں برطانوی کمانڈر، بریگیڈیئر مارک اسمتھ نے کہا تھا کہ ”ہم یہ جنگ نہیں جیت سکتے۔“ اور اب برطانوی افواج کے سپہ سالار ایئرچیف مارشل سر جوک سرپ نے کہا ہے کہ ”ہمارے عوام کسی فیصلہ کن فتح کی توقع نہ رکھیں۔ ہماری فوجیں ایک ایسے سفر میں ہیں جس کی کوئی منزل نہیں۔“ ایک مبصر کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے 33 ہزار فوجیوں کے قیام کا روزانہ خرچہ، مزاحمت کاروں کے سالانہ بجٹ کے لگ بھگ ہے۔ ان آشفتہ سروں کے پاس ہے کیا؟ نہ جنگی طیارے، نہ گن شپ ہیلی کاپٹرز، نہ ٹینک، نہ توپیں نہ جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی۔ ”جز دو حرف لاالہ“ اگر ان کے پاس کچھ ہے تو پُرکھوں کی یہ روایت کہ اپنی سرزمین پر کسی غیر کے قدم نہ پڑنے دینا، سو وہ لڑ رہے ہیں، مر رہے ہیں، ان کے بچے قتل گاہوں سے پرچم چن رہے ہیں اور دشت جنوں آباد ہے۔
اپنے آپ کو ناقابل تسخیر سمجھنے والی، خودپرست اور بدمست ریاستیں، قومیں اور تہذیبیں اسی طرح آپ اپنے خنجر سے خودکشی کیا کرتی ہیں۔ گرانڈیل ہاتھی کی طرح وہ خود اپنے ہی وزن سے گرتی ہیں اور پھر اٹھ نہیں سکتیں۔ اب امریکہ کو قندھار کے مرد جری کی یاد آئی ہے۔ وکیل متوکل کا خیال آیا ہے۔ گوانتانامو والے ملا عبدالسلام ضعیف کی ضرورت پڑی ہے۔ جن ”دہشت گردوں“ کو وہ سات برس سے گالیاں دے رہا تھا اور جن کی رگ جاں دبوچنے کے لئے وہ کھربوں ڈالر کروسیڈ کی بھینٹ چڑھا چکا ہے، آج وہ انہیں اپنے پہلو میں، اپنے ہم پلہ بٹھا کر ان سے مذاکرات کا آرزومند ہے۔
یہ سب کچھ کوئی نئی بات نہیں۔ ایسے ہوتا چلا آیا ہے بلکہ ایسے ہی ہوتا ہے۔ تاریخ تواتر کے ساتھ بتاتی چلی آئی ہے کہ فتح و شکست کا انحصار اسلحہ خانوں اور تجوریوں پر نہیں، مقصد کی سچائی اور ایمان و یقین پر ہوتا ہے۔ ہر بے مقصد اور بے چہرہ مہم جوئی اسی طرح بے آبرو اور ہر مبنی برحق مزاحمت اسی طرح سرخرو ٹھہرتی ہے۔
جارج ڈبلیو بش، تاریخ کے اندھیروں میں غرق ہونے کو ہے لیکن اس کا عہد انسانیت کا نوحہ بن کر برسوں تلک وقت کے ایوانوں میں گونجتا رہے گا۔ ممکن ہے بش کے البم میں فلوجہ، بغداد، حدیثہ، ابو غریب، قندھار، تورابورا، قلعہ جنگی، قندوز اور دشت لیلیٰ کی کچھ تصویریں ہوں جنہیں دیکھ دیکھ کر وہ اپنی تنہائیاں بہلاتا رہے لیکن اگر اس کے بدن میں رواں لہو کے کسی خلیے میں انسانیت کی ادنیٰ سی رمق بھی موجود ہے تو کبھی کبھی یخ بستہ راتوں کی گہری نیند میں اس کی آنکھ ضرور کھل جایا کرے گی اور پھر وہ دیر تک پہلو بدلتا رہے گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ لاکھوں انسانوں کو بے دردی سے قتل کردینے والا شخص، خونیوں کا تعاقب کرنے والے آسیب سے بچ سکے اور اس کربناک اذیت سے محفوظ رہے جو آدم خوروں کو معاف نہیں کیا کرتی۔
اب وہ جا رہا ہے اور پوری دنیا، حیاباختہ کروسیڈ کی تپش سے پگھلی جا رہی ہے۔ اپنی نوعیت کا سب سے ہولناک اقتصادی بحران، سونامی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ”وار آن ٹیرر“ کے بجرے میں سوار ممالک میں بھونچال کی سی کیفیت ہے۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی اور جاپان، جی سیون کے پرچم تلے واشنگٹن میں سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ اس سیل بلا کے سامنے کیسے بند باندھا جائے۔ آئی ایم ایف نے دہائی دی ہے کہ ”وقت تیزی سے نکلا جا رہا ہے اور عالمی مالیاتی نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔“ صرف ایک ہفتے میں امریکہ اور یورپ کی اسٹاک مارکیٹوں میں پانچ کھرب ڈالر ڈوب گئے۔ بوکھلائی ہوئی حکومتیں سنبھالا دینے کے لئے اربوں ڈالر جھونک رہی ہیں لیکن بپھری ہوئی موجیں بے قابو ہو رہی ہیں۔ شہنشاہ عالم پناہ نے ہاتھ جوڑ کر کانگریس سے سات سو ارب ڈالر مانگے لیکن دیوالیہ پن کی گرتی دیواروں کو سہارا نہیں مل رہا۔ اس کے واجب الادا قرضوں کو شمار کرنے والی مشینیں ناکارہ ہوگئی ہیں کیونکہ وہ دس کھرب ڈالر تک گنتی کر سکتی تھیں لیکن امریکہ پر قرضوں کا بوجھ دس کھرب ڈالر کی حد عبور کر کے گیارہ کھرب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ سات برس میں ساٹھ لاکھ امریکی، مڈل کلاس سے نکل کر غربت کے دائرے میں لڑھک گئے ہیں۔ بے روزگاری اور افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ستر لاکھ امریکی ہیلتھ انشورنس اور چالیس لاکھ پنشن سے محروم ہوگئے ہیں۔ بش اور ڈک چینی ٹولے سے رشتہ و تعلق رکھنے والے دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ رہے ہیں۔ امیر اور غریب کی خلیج تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ اوپر کا ایک فی صد طبقہ نیچے کے نوے فیصد طبقے سے زیادہ دولت رکھتا ہے۔ امریکہ کی عسکری قوت کا بھرم تو کابل و قندھار اور کوفہ و بغداد میں رسوا ہو ہی رہا تھا اب اس کی امارت کی قبائے خوشرنگ بھی دھجیاں ہو رہی ہیں اور اس کی اقتصادی قوت کا رعب و جلال، ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز کی طرح زمین بوس ہونے کو ہے۔
یہ 2002ء کی بات ہے۔ افغانستان اور عراق کے جنگی اخراجات کا اندازہ لگایا جا رہا تھا۔ بش کے اقتصادی مشیر لارنس لنڈزے نے کہا۔ ”ممکن ہے وار آن ٹیرر ہمارے دوسو ارب ڈالر کھا جائے۔“ بش نے اسے یہ کہہ کر برطرف کر دیا کہ تم مبالغہ آمیز تخمینے لگا کر امریکی عوام کو بددل کر رہے ہو اور اب، کوئی سات ماہ قبل، مارچ 2008ء میں ”نان پارٹیزن کانگریشنل بجٹ آفس“ کے جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق عراق و افغانستان کے فوجی آپریشنز کا براہ راست (DIRECT) خرچہ 752 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے نوبل انعام یافتہ اسکالر اور ورلڈ بینک کے سابق چیف اکانومسٹ پروفیسر جوزف سٹگلٹر اور ہارورڈ یونیورسٹی کی ماہر اقتصادیات لنڈا ہلمز نے اپنی مشترکہ جامع رپورٹ میں بتایا ہے کہ ”براہ راست خرچ میں لاتعداد دوسرے اخراجات شامل نہیں۔ حقیقت میں وار آن ٹیرر تین کھرب ڈالر سے زیادہ ہڑپ کرچکی ہے۔“ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر صرف 65 ہزار زخمیوں کی دیکھ بھال اور تاحیات مراعات اور ایک لاکھ سے زائد ذہنی عارضوں میں مبتلا فوجیوں کے علاج معالجے شامل کئے جائیں تو ڈائریکٹ خرچ میں 600 ارب ڈالر کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ان کے علاوہ بیسیوں مدات اور بھی ہیں۔ اے بی سی کے اکنامک رپورٹر سیٹو شیفرز کا تخمینہ بھی یہی ہے۔ مارچ 2008ء میں اس نے لکھا تھا کہ ”وار آن ٹیرر توقع سے کہیں زیادہ مہنگی ثابت ہوئی ہے۔ اندازہ ہے کہ اس سال کے اختتام تک اس جنگ کی لاگت تین کھرب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔“ فوجیوں کی پنشن، لواحقین کی مالی امداد اور تمام چھوٹے بڑے اخراجات کو جمع کرنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ جلد ہی یہ جنگ پانچ کھرب ڈالر سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ آج کی کرنسی میں دوسری جنگ عظیم کے مجموعی اخراجات بھی یہی تھے۔
کوئی تین سال قبل، امریکی ایوان نمائندگان کے رکن جان پی مرتھا کی چھوٹی سی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ امریکہ صرف عراق میں 8 ارب ڈالر ماہانہ خرچ کر رہا ہے۔ مرتھا کے حساب کے مطابق یہ رقم دو ارب ڈالر فی ہفتہ، 26 کروڑ 70 لاکھ ڈالر روزانہ اور ایک کروڑ دس لاکھ ڈالر فی گھنٹہ تھی۔ افغانستان کا خرچہ اس کے علاوہ تھا۔ مرتھا نے یہ بھی بتایا تھا کہ تعلیم و صحت جیسے سماجی شعبوں کے بجٹ میں کس بری طرح کٹ لگایا جا رہا ہے۔
امریکہ اس بے ننگ و نام ”وار آن ٹیرر“ میں ساڑھے چار ہزار سے زائد فوجی گنوا چکا ہے۔ افغانستان میں اس کے چھ سو کے لگ بھگ فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ برطانیہ، اٹلی، پولینڈ، یوکرین، بلغاریہ، اسپین اور چودہ دوسرے ممالک کے ہلاک شدگان کی فہرست الگ ہے۔ ہلاکتوں کا گراف اوپر ہی اوپر جا رہا ہے۔ 2001ء میں امریکہ کے صرف پانچ فوجی ہلاک ہوئے تھے اور 2002ء میں 35۔ اس سال کے نو مہینوں میں 113 امریکی بھسم ہو چکے ہیں اور جنگ ہے کہ ٹائی ٹینک کی طرح غرق ہو رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے افغانستان میں برطانوی کمانڈر، بریگیڈیئر مارک اسمتھ نے کہا تھا کہ ”ہم یہ جنگ نہیں جیت سکتے۔“ اور اب برطانوی افواج کے سپہ سالار ایئرچیف مارشل سر جوک سرپ نے کہا ہے کہ ”ہمارے عوام کسی فیصلہ کن فتح کی توقع نہ رکھیں۔ ہماری فوجیں ایک ایسے سفر میں ہیں جس کی کوئی منزل نہیں۔“ ایک مبصر کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے 33 ہزار فوجیوں کے قیام کا روزانہ خرچہ، مزاحمت کاروں کے سالانہ بجٹ کے لگ بھگ ہے۔ ان آشفتہ سروں کے پاس ہے کیا؟ نہ جنگی طیارے، نہ گن شپ ہیلی کاپٹرز، نہ ٹینک، نہ توپیں نہ جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی۔ ”جز دو حرف لاالہ“ اگر ان کے پاس کچھ ہے تو پُرکھوں کی یہ روایت کہ اپنی سرزمین پر کسی غیر کے قدم نہ پڑنے دینا، سو وہ لڑ رہے ہیں، مر رہے ہیں، ان کے بچے قتل گاہوں سے پرچم چن رہے ہیں اور دشت جنوں آباد ہے۔
اپنے آپ کو ناقابل تسخیر سمجھنے والی، خودپرست اور بدمست ریاستیں، قومیں اور تہذیبیں اسی طرح آپ اپنے خنجر سے خودکشی کیا کرتی ہیں۔ گرانڈیل ہاتھی کی طرح وہ خود اپنے ہی وزن سے گرتی ہیں اور پھر اٹھ نہیں سکتیں۔ اب امریکہ کو قندھار کے مرد جری کی یاد آئی ہے۔ وکیل متوکل کا خیال آیا ہے۔ گوانتانامو والے ملا عبدالسلام ضعیف کی ضرورت پڑی ہے۔ جن ”دہشت گردوں“ کو وہ سات برس سے گالیاں دے رہا تھا اور جن کی رگ جاں دبوچنے کے لئے وہ کھربوں ڈالر کروسیڈ کی بھینٹ چڑھا چکا ہے، آج وہ انہیں اپنے پہلو میں، اپنے ہم پلہ بٹھا کر ان سے مذاکرات کا آرزومند ہے۔
یہ سب کچھ کوئی نئی بات نہیں۔ ایسے ہوتا چلا آیا ہے بلکہ ایسے ہی ہوتا ہے۔ تاریخ تواتر کے ساتھ بتاتی چلی آئی ہے کہ فتح و شکست کا انحصار اسلحہ خانوں اور تجوریوں پر نہیں، مقصد کی سچائی اور ایمان و یقین پر ہوتا ہے۔ ہر بے مقصد اور بے چہرہ مہم جوئی اسی طرح بے آبرو اور ہر مبنی برحق مزاحمت اسی طرح سرخرو ٹھہرتی ہے۔
سورس