۔۔گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔روداد بہ دلِ خستہ۔۔

اکمل زیدی

محفلین
۔کل مورخہ 10 دسمبر بروز جمعہ وقت 10 بجے صبح : ۔۔ہمارا سیل فون کی بیل بجی۔۔۔ہم انٹر کام پر بات کر رہے تھے ۔۔۔ دیکھا نمبر نیا تھا انٹر کام رکھ کر فون رسیو کیا ۔۔دوسری طرف سے آواز آئی۔۔۔ٗٗ اکمل صاحب بات کر رہے ہیں ۔۔۔جی میں لانڈھی تھانے سے بات کر رہا ہوں آپ کا انوسٹیگیشن آفیسر۔۔آپ ابھی آسکتے ہیں میرا تو خوشی کے مارے بُرا حال فوراّّ حامی بھری انہوں نے کہا 12 سے پہلے پہلے تک آجائیں ہم نے- جی -ایم صاحب کو بتایا انہوں نے آدھی بات سُن کے ہی فوراّّ کہہ دیا ہاں ہاں جاو ۔۔۔فوراٗٗ ضروری کام نمٹایا۔۔۔اور ایک بائیک مستعار لے کر روانہ ہوئے ہمارے آفس سے لانڈھی کا تھانہ تقریباّّ 35 کلو میٹر کے لگ بھگ ہوگا مختصر یہ کہ وہاں پہنچے گیٹ پر سنتری نے بڑی خوش دلی سے استقبال کیا بڑی خوشگوار حیرت کا سامنا ہوا بتایا کے بلایا گیا ہے آفیسر کا نام بتایا انہوں نے کہا اوپر دوسری منزل آفس ہے زینہ سے لے کر اوپر تک گندگی پھیلی ہوئی تھی اور جگہ جگہ لکھا ہوا تھا --صفائی نصف ایمان ہے ۔۔صفائی کا خاص خیال رکھیں۔۔۔شاید رکھا گیا ہو کہیں خیال اور سارا کچرا وہاں ڈال دیا گیا ہو۔۔اسی مثبت سوچ کے ساتھ ہم وہاں پہنچے تو پتہ چلا صاحب ابھی ابھی نکلے ہیں ٹائم دیکھا ساڑھے گیارہ ہوئے تھے کال کی تو کہا بس آپ بیٹھیں میں ابھی آیا ایک کام سے نکلا ہوں ایمرجنسی ۔ہماری پھر مثبت خیالی بھئی پولیس ہے تھانہ ہے کوئی ایمرجنسی ہو گئی ہو گی ۔۔۔ہم نے او کے کہہ کر کال منقطع کی اور پھر نیچے آگئے وہاں جابجا بائیکس کے ڈھیر لگے ہوئے تھے کچھ ادھوری اور کچھ تقریباٗٗ ۔۔ پوری کسی کا کچھ غائب کسی کا کچھ غائب یہ سمجھ نہیں آیا کے بائیک ایسے ہی ملیں یا جن کو ملیں اس کے بعد اس حالت کو پہنچیں ہم نے پھر مثبت خیالی کا دامن تھاما شاید کچھ ضرورت مندوں نے اپنی ضرورت پوری کی ہو جس کی جو حاجت رہی ہوگی بائیکس کے حوالے سے ُاس نے بائیکس میں سے وہ وصول کیا ہو مگر ہمارا دل دھک دھک کر رہا تھا ۔۔۔اگر ہماری بائیک بھی اسی طرح ہوئی تو۔۔۔بس اس سے آگے بڑے روح فرسا خیالات تھے جیسے تیسے کر کے ذہن سے جھٹکے اور دوبارہ دل سنبھال کر تلاش میں مصروف ہوگئے ایک خیال یہ بھی تھا کے جمعئہ المبارک کا دن ہے شاید کوئی مبارک خبر مل جائے ، بہر حال کافی تلاش و بسیار کے بعد بھی ہمیں وہ دِل رُبا نظر نہ آئی اور نہ آفیسر موصوف کی کوئی کال آئی ۔۔۔بہرحال چلتے پھرتے پولیس والے ہمیں سلام کرتے ہوئے گذر رہے تھے ہم مسرور بھی تھے اور کچھ حیرت زدہ بھی پہلی بار پولیس سے واسطہ پڑا تھا تھانہ کورٹ کچہری کا جو تصور تھا وہ ہنوز نظر سے اجھل تھا پھر یہ عقدہ بعد میں کھلا کے جمعہ کی وجہ سے کچھ اچھی ڈریسنگ واسکٹ وغیرہ زیب تن ہونے کی وجہ سے سب ہمیں ایس ایچ او کا کوئی رشتہ دار سمجھ رہے تھے ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔سین بدلتا ہے ۔۔صاحب آچکے ہیں ہم بھی ایک قریبی مسجد سے نماز جمعہ کے بعد آچکے ہیں ۔۔۔کاغذات کا انبار ہے ۔۔وہ صاحب ہمیں مسلسل تسلیاں دے رہے ہیں سر جی فکر نہ کریں ہم آپ کی بائیک بازیاب کر ا کے رہینگے ۔(اس سے یہ تو پتہ چل گیا کہ بائیک نہیں ملی )۔۔پھر تھوڑا جھک کر رازداری سے کہنے لگے اگر آپ کی مصروفیت زیادہ ہے آپ نہ آسکیں تو ہمارے پاس بندے ہوتے ہیں ایسے کاموں کے لیے ۔۔کہیں تو آپ کے لیے بندوبست کردوں ۔۔ہم نے چٹا منع کر دیا اور کہا آج کل ہماری بھی یہی مصرفیت ہے آپ جہاں اور جب کہینگے ہم آجائینگے ۔۔۔بات تھوڑی کِرکِری ہو گئی تھی پھر انہوں نے ایک پلندہ ہمارے ہاتھ میں تھما دیا کے اس کی فوٹو کاپی کر ا کر لے آ ئیں آگے ہی فوٹو کاپی کی دکان ہے تین سیٹ بنوا لیں ۔۔۔با دلِ نا خواستہ اُٹھے کاپی کروائی ۔۔۔پورے تین سو روپے لگے مرتا کیا نہ کرتا ۔۔دیے۔۔واپس آکر انہیں تھمائے ہمارے ایکسپریشن وہ دیکھ چکے تھے شاید اسی لیے دوسرا پلندہ رکھ دیا جو ہاتھ میں تھا اور کہا ّّ اکمل صاحب جیسے ہی بائیک بازیاب ہوئی ہم آپ کو کال کردینگے انشاءاللہ ہماری پوری کوشش ہوگی آپ نے بہت تعاون کیا ّّ ہم نے سپاٹ انداز میں بغیر کوئی تاثر لائے گردن ہلائی اور اُن سے اجازت چاہی۔۔۔
۔۔۔۔پکچر ابھی باقی ہے دوستو !!۔۔۔ ہم جب جانے لگے تو انہوں نے کہا آپ کہاں سے جائنگے ہم نے روٹ بتایا تو کہنے لگے ہمیں آگے تک چھوڑ دیں کورنگی تھانے کی طرف ہم نے حامی بھری انہیں چھوڑا تو انہوں نے بم گرایا بس دو منٹ رکیں یہ دے کر میں ابھی آیا تھوڑا سا آگے جانا ہے مجھے مزید۔۔۔ ہم رُ ک گئے 3 بج چکے تھے بھوک کے مارے بُرا حال بہرحال ہم کوئی ری ایکشن اس لیے ظاہر نہیں کر رہے تھے کہیں ہمارا کیس تاخیری حربوں کا شکار نہ ہو جائے کافی دیر گذر گئی پہلے تو خیال آیا نکل بھاگیں مگر مندر جہ بالا وجہ کی وجہ سے رکے رہے پھر بائیک سائڈ میں کھڑی کی اندر پہنچے وہ صاحب نظر آئے تو ہمیں دیکھتے ہی فوراٗٗ ہماری طرف آئے اور بڑی معصومیت سے کہا میں بس آہی رہا تھا یہ بتانے کے لیے کہ آپ چلے جائیں مجھے تو کافی دیر لگ جائے گی ۔۔۔دل چاہا کہ ایسا گھونسا ان کے پیٹ پر مار وں کے سروس کی ریکوائرمنٹ کے حساب سے ہو جائے جس کی وجہ سے ہمیں بائیک کی ٹنکی پر بیٹھ کر آنا پڑا تھا ۔۔ہم نے خشک دلی سے ان سے مصافحہ کیا اور واپس آفس کی جانب چل دیے ۔۔ویسے تو ہم سارے راستے دعائیں پڑھتے ہوئے جاتے ہیں سفر میں ۔۔۔یہ شاید پہلا موقع تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سمجھ تو گئے ہونگے آپ ۔۔۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
میں بھی اس ہنسی مذاق میں دیدہ دانستہ شریک ہونا چاہتا ہوں کہ واقعہ اپنی جگہ دلچسپ ہے۔ یعنی کہ کچھ بھی ہو، اخیر میں شامل اکمل زیدی کی ہی آتی ہے۔ :)
چلیں ہماری طرف کے باراتی بھی آنا شروع ہوگئے مذاق ہی مذاق میں۔۔۔
لگتا ہے کچھ نہ کچھ ہوکے رہے گا اب مذاق ہی مذاق میں!!!
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
عمران بھائی! کیوں بے چارے پر ہنس رہے ہیں آپ.. لگتا ہے وہ پولیس والے آپ تھے😆
یہ شاید پہلا موقع تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سمجھ تو گئے ہونگے آپ ۔۔۔

ہم تو ان کہی گالم گلوچ پر سوچ سوچ کے ہنس رہے ہیں!!!
اکمل بھائی نے خالی جگہ جان بوجھ کے چھوڑ دی کہ ہر کوئی حسبِ مزاج خالی جگہ پُر کرے۔۔۔😊
 

صابرہ امین

لائبریرین
ہاں بھئی کون سنتا ہے کسی کے دکھڑے ۔ ۔ ۔ :sigh:
چچ چچ چچ چچ ۔ ۔ بہت افسوس ہوا :ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:۔
بڑی اچھی روداد لکھی ۔ اس بائیک کی گمشدگی کے طفیل آپ ایک اچھے لکھاری ضرور بن جائیں گے۔ یعنی ہر کام میں اللہ کی مصلحت ہوتی ہے۔
ہم نے بھی مہینوں پہلے ایک کہانی لکھنا شروع کی۔ آگے نہیں بڑھ رہی۔ کاش ہماری بھی بائیک ہوتی، اور چوری ہوتی تو ہماراقلم بھی رواں ہو جاتا!!
 

سید عمران

محفلین
چچ چچ چچ چچ ۔ ۔ بہت افسوس ہوا :ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:۔
بڑی اچھی روداد لکھی ۔ اس بائیک کی گمشدگی کے طفیل آپ ایک اچھے لکھاری ضرور بن جائیں گے۔ یعنی ہر کام میں اللہ کی مصلحت ہوتی ہے۔
ہم نے بھی مہینوں پہلے ایک کہانی لکھنا شروع کی۔ آگے نہیں بڑھ رہی۔ کاش ہماری بھی بائیک ہوتی، اور چوری ہوتی تو ہماراقلم بھی رواں ہو جاتا!!
آپ اگلا ناشتہ ہماے ساتھ کریں۔۔۔
وہاں آپ کا ہینڈ بیگ چوری ہوجائے گا۔۔۔
اس میں بڑی موٹی رقم اور نہایت اہم کاغذات ہوں گے۔۔۔
یوں بارہ مسالے کی چٹ پٹی کہانی کے تمام لوازمات مل جائیں گے۔۔۔
پھر بھی کہیں گاڑی اٹکے تو بصد قلب صمیم ہم مدد کو حاضر ہیں!!!
 
Top