۔۔۔ایسی کی تیسی

اکمل زیدی

محفلین
مزاج یار کی ایسی کی تیسی
اور اس پندار کی ایسی کی تیسی

ترے گیسو نشان تیرگی اور
ترے رخسار کی ایسی کی تیسی

نگاہ ناز پر سو بار تف ہو
لب خم دار کی ایسی کی تیسی

غزل میں اب نئے مضمون لاؤ
گل و گلزار کی ایسی کی تیسی

جہاں پر جنس الفت بک رہی ہے
ترے بازار کی ایسی کی تیسی

میں سچی بات کہنے جا رہا ہوں
رسن کی، دار کی ایسی کی تیسی

امیر شہر کی شاہی پہ لعنت
بھرے دربار کی ایسی کی تیسی
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
(سمجھ نہیں آرہا تھا کہا ں فٹ کروں سو یہاں کردیا ۔ ۔ ۔ ۔ شاعر کا پتہ نہیں ۔ ۔ ۔کسی کو معلوم ہو تو بتائیے گا۔ ۔ )
 

فرقان احمد

محفلین
اکمل زیدی صاحب! اِس غزل یا نظم کو پسندیدہ شاعری کے زمرے میں ہونا چاہیے۔ اب آپ فرمائیے، یہ کلام آپ کا ہے یا کسی اور کا ہے تاکہ ہم اسے ٹھکانے لگا سکیں؛ ہمارا مطلب ہے کہ اپنے ٹھکانے پر پہنچا سکیں۔
 
انہوں نے کلامِ دسمبر کی ایسی کی تیسی کی تھی

ہر کوئی ایسی کی تیسی کر رہا ہے۔ اب تو یوں کہنے کو جی چاہتا ہے:
اس ایسی کی تیسی کی ایسی کی تیسی
پھر ایسی کی تیسی کی ایسی کی تیسی:)
 
Top