اکمل زیدی
محفلین
سلام ۔۔۔
جی کل شام کا واقعہ ہے یہ۔ ہم سب نے چھوٹی کے ہاں جانا تھا۔ میں آفس سے تھوڑالیٹ ہو گیا۔ امی نے منع کر دیا کہ اب نہیں جا رہی۔ مگر مجھے پتہ تھاکہ ان کا ذہن بنا ہوا تھا جانے کا۔ میں نے کہا نہیں ابھی چلتے ہیں۔ آپ نے رکنا ہے تو رک جائیے گا۔۔ ۔۔بس بچے اور بیگم بھی تیار ہو گئے کہ ہم بھی چلیں گے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ بچے اور امی رکشہ میں بیٹھ جائیں ۔ میں زوجہ کے ساتھ بائیک پر پیچھے ہو لوں گا۔ مختصر یہ کہ رکشہ کیا ۔ رکشہ والے کو سمجھا یا کہ کس طرف جانا ہے۔ آگے ایگزیکٹ لوکیشن پر میں آگے آجاؤں گا تم میرے پیچھے ہو لینا۔ بیگم کا موبائیل خراب ہے۔ بیٹے نے میرا موبائل فون لے لیا کہ وہاں پہنچ کر لے لیجیے گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ۔۔۔
بس روانہ ہوئے۔ پیچھے پیچھے ہم اس زعم میں کہ نئی 125 ہے رکشہ کہیں نہیں جا سکتا۔ اس لیے زیادہ فاصلہ ہونے کو کوئی اہمیت نہ دی اور فورا سپیڈ بڑھا کر قریب کر لیتے تھ۔ے بس اصل کہانی یہاں سے شروع ہوئی۔ کورنگی جانا تھا۔ وہاں آگے دو راستے نکلتے تھ۔ ے اتفاق سے رکشہ آگے نکل گیا اور ہم دوسرے رکشے کے پیچھے ہو لیے ۔ ہمارے والا دوسرے راستے پر جا چکا تھا۔ بیگم کو احساس ہوا کہ ہمارا رکشہ شمال کی طرف گیا اور ہم جنوب کی طرف جاتے ہوئے رکشے کے پیچھے تھے۔ بس ہوائیاں اڑ گئیں۔ بیگم کا برا حال ۔۔جو جو دعائیں یاد تھیں سب پڑھ ڈالیں ۔ سمجھ نہیں آیا کیا کریں ۔ پوری سپیڈ میں بائیک کو دوسرے سمت رونگ وے میں چلایا۔ بیگم اس صورتحال پر پریشان۔ دوسرے ہماری سپیڈ ہولائے دے رہی تھی۔ ہر رکشے میں جھانکتے ہوئے جا رہے تھے ۔مگر کافی دور تک نہیں ملے وہ لوگ۔ عجیب عجیب خیالات نے گھیر لیا ۔ بیگم کو چپ کرائیں یا خود بھی رونا شروع کر دیں۔ خود پر بھی غصہ آرہا تھا کہ اتنا فاصلہ دینے کی کیا ضرورت تھی۔ بیگم کو ٹشن دکھانے میں سارا معاملہ گڑ بڑ ہو چکا تھا۔ دو مرتبہ ٹرالر سے بچے ۔ آگے سنگر چورنگی پر بائیک روک دی۔ ہر رکشہ کو دیکھے جا رہے تھے ۔اچانک خیال آیا کہ بیٹے نے میرا سیل فون لیا ہوا ہے۔ بس بیگم اور بائیک کو ایک طرف کر کے ہم کچھ سائڈ میں گئے۔ ایک صاحب کے پاس جو وہیں ٹھیلے پر سیب لے رہے تھے، کے پاس گئے ۔ انہوں نے سیب کی تھیلی پیچھے کر لی۔ ہمارا انداز بولایا ہوا تھا۔ میں نے کہا بھائی ایک ہیلپ کر دینگے ۔ وہ سمجھے ہم کہیں گے ہمارے پاس کرائے کے پیسے نہیں ہیں، کچھ مدد کر دیں۔ ان کا سٹائل عجیب سا ہو گیا۔ بہرحال ان سے درخواست کی کہ ایک کال کرا دیں ۔۔۔انہوں نے اپنا عام س دو تین ہزار روپے والا فون نکالا اور کچھ دور ہٹ کر نمبر پوچھا۔ ہم نے نمبر بتایا ۔انہوں نے خود ملا یا ۔خدا کا شکر دوسری طرف بیٹی نے اٹھایا۔ مگر آواز نہیں آرہی تھی اس آئی فون 13 میں۔ ایک صاحب اور آگئے۔ صورتحال بھانپتے ہوئے اور ہماری کیفیت جانچتے ہوئے خود فون ملایا ۔المختصر بیٹی سے کہا رکشہ والے کو فون دو ۔اس سے پوچھا کہاں ہے۔ وہ فون واپس کیا۔ دونوں حضرات کا شکریہ ادا کیا۔ واپس اس جگہ آیا جہاں بیگم اور بائیک موجود تھیں۔ آنکھیں سوجی ہوئیں تھیں ۔ آنے والے وقت میں ہمیں جگہ جگہ خود میں سوجن محسوس ہونے لگی سب سے خطرناک مرحلہ امی سے سامنا تھا ۔ہم نے کہا چلو بیگم کی تو تشفی ہو جائے گی نا ۔تھوڑی ٹھنڈ پڑ جائے گی ۔بس سودا مہنگا نہیں تھا ۔وہاں پہنچے۔ امی کا غصہ کے مارے برا حال تھا ۔فورا رکشے والے کو کہا پیچھے آؤ ۔۔اپنے مقام پر پہنچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس مت پوچھیں پھر کیا ہوا ۔۔۔وہ رقم نہیں ہو سکتا ۔۔۔ بس اتنا ہوا کہ پھر بیگم نے کچھ نہیں کہا۔۔۔۔ ۔۔۔دل ہول جاتا ہے۔ اگر میرا بیٹا فون اپنے پاس نہیں رکھتا ۔۔۔۔تو۔۔۔۔یا اللہ تیرا شکر ہے۔
جی کل شام کا واقعہ ہے یہ۔ ہم سب نے چھوٹی کے ہاں جانا تھا۔ میں آفس سے تھوڑالیٹ ہو گیا۔ امی نے منع کر دیا کہ اب نہیں جا رہی۔ مگر مجھے پتہ تھاکہ ان کا ذہن بنا ہوا تھا جانے کا۔ میں نے کہا نہیں ابھی چلتے ہیں۔ آپ نے رکنا ہے تو رک جائیے گا۔۔ ۔۔بس بچے اور بیگم بھی تیار ہو گئے کہ ہم بھی چلیں گے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ بچے اور امی رکشہ میں بیٹھ جائیں ۔ میں زوجہ کے ساتھ بائیک پر پیچھے ہو لوں گا۔ مختصر یہ کہ رکشہ کیا ۔ رکشہ والے کو سمجھا یا کہ کس طرف جانا ہے۔ آگے ایگزیکٹ لوکیشن پر میں آگے آجاؤں گا تم میرے پیچھے ہو لینا۔ بیگم کا موبائیل خراب ہے۔ بیٹے نے میرا موبائل فون لے لیا کہ وہاں پہنچ کر لے لیجیے گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ۔۔۔
بس روانہ ہوئے۔ پیچھے پیچھے ہم اس زعم میں کہ نئی 125 ہے رکشہ کہیں نہیں جا سکتا۔ اس لیے زیادہ فاصلہ ہونے کو کوئی اہمیت نہ دی اور فورا سپیڈ بڑھا کر قریب کر لیتے تھ۔ے بس اصل کہانی یہاں سے شروع ہوئی۔ کورنگی جانا تھا۔ وہاں آگے دو راستے نکلتے تھ۔ ے اتفاق سے رکشہ آگے نکل گیا اور ہم دوسرے رکشے کے پیچھے ہو لیے ۔ ہمارے والا دوسرے راستے پر جا چکا تھا۔ بیگم کو احساس ہوا کہ ہمارا رکشہ شمال کی طرف گیا اور ہم جنوب کی طرف جاتے ہوئے رکشے کے پیچھے تھے۔ بس ہوائیاں اڑ گئیں۔ بیگم کا برا حال ۔۔جو جو دعائیں یاد تھیں سب پڑھ ڈالیں ۔ سمجھ نہیں آیا کیا کریں ۔ پوری سپیڈ میں بائیک کو دوسرے سمت رونگ وے میں چلایا۔ بیگم اس صورتحال پر پریشان۔ دوسرے ہماری سپیڈ ہولائے دے رہی تھی۔ ہر رکشے میں جھانکتے ہوئے جا رہے تھے ۔مگر کافی دور تک نہیں ملے وہ لوگ۔ عجیب عجیب خیالات نے گھیر لیا ۔ بیگم کو چپ کرائیں یا خود بھی رونا شروع کر دیں۔ خود پر بھی غصہ آرہا تھا کہ اتنا فاصلہ دینے کی کیا ضرورت تھی۔ بیگم کو ٹشن دکھانے میں سارا معاملہ گڑ بڑ ہو چکا تھا۔ دو مرتبہ ٹرالر سے بچے ۔ آگے سنگر چورنگی پر بائیک روک دی۔ ہر رکشہ کو دیکھے جا رہے تھے ۔اچانک خیال آیا کہ بیٹے نے میرا سیل فون لیا ہوا ہے۔ بس بیگم اور بائیک کو ایک طرف کر کے ہم کچھ سائڈ میں گئے۔ ایک صاحب کے پاس جو وہیں ٹھیلے پر سیب لے رہے تھے، کے پاس گئے ۔ انہوں نے سیب کی تھیلی پیچھے کر لی۔ ہمارا انداز بولایا ہوا تھا۔ میں نے کہا بھائی ایک ہیلپ کر دینگے ۔ وہ سمجھے ہم کہیں گے ہمارے پاس کرائے کے پیسے نہیں ہیں، کچھ مدد کر دیں۔ ان کا سٹائل عجیب سا ہو گیا۔ بہرحال ان سے درخواست کی کہ ایک کال کرا دیں ۔۔۔انہوں نے اپنا عام س دو تین ہزار روپے والا فون نکالا اور کچھ دور ہٹ کر نمبر پوچھا۔ ہم نے نمبر بتایا ۔انہوں نے خود ملا یا ۔خدا کا شکر دوسری طرف بیٹی نے اٹھایا۔ مگر آواز نہیں آرہی تھی اس آئی فون 13 میں۔ ایک صاحب اور آگئے۔ صورتحال بھانپتے ہوئے اور ہماری کیفیت جانچتے ہوئے خود فون ملایا ۔المختصر بیٹی سے کہا رکشہ والے کو فون دو ۔اس سے پوچھا کہاں ہے۔ وہ فون واپس کیا۔ دونوں حضرات کا شکریہ ادا کیا۔ واپس اس جگہ آیا جہاں بیگم اور بائیک موجود تھیں۔ آنکھیں سوجی ہوئیں تھیں ۔ آنے والے وقت میں ہمیں جگہ جگہ خود میں سوجن محسوس ہونے لگی سب سے خطرناک مرحلہ امی سے سامنا تھا ۔ہم نے کہا چلو بیگم کی تو تشفی ہو جائے گی نا ۔تھوڑی ٹھنڈ پڑ جائے گی ۔بس سودا مہنگا نہیں تھا ۔وہاں پہنچے۔ امی کا غصہ کے مارے برا حال تھا ۔فورا رکشے والے کو کہا پیچھے آؤ ۔۔اپنے مقام پر پہنچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس مت پوچھیں پھر کیا ہوا ۔۔۔وہ رقم نہیں ہو سکتا ۔۔۔ بس اتنا ہوا کہ پھر بیگم نے کچھ نہیں کہا۔۔۔۔ ۔۔۔دل ہول جاتا ہے۔ اگر میرا بیٹا فون اپنے پاس نہیں رکھتا ۔۔۔۔تو۔۔۔۔یا اللہ تیرا شکر ہے۔
مدیر کی آخری تدوین: