اکمل زیدی
محفلین
آپ اسے کچھ بھی نام دیں ، شوق،تجسس،اشتیاق، یا عادت کہ ہم جب بھی گھر کو رواں ہوتے ہیں شام کو تو اپنے ارد گرد سے پوری طرح باخبر رہنے کی کوشش کرتے ہیں، اس لیے سامنے کم اور ارد گرد نظر زیادہ ہوتی ہے ۔۔اب خدا کے واسطے ہمیں کوئی نظر باز قسم کا انسان مت سمجھ لیجئے گا اس سے تو ہم باز ہی رہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ہماری عادت ذرا دوسری قسم کی ہے یعنی جیسے کہ۔ ۔ جب ہم آفس میں لفٹ میں سوار ہوتے ہیں اور ساتھ میں کچھ مستورات بھی داخل ہو جائیں تو ہماری نظریں یکدم طواف شروع کردیتی ہیں ۔ ۔ ۔ لا حول ولا۔۔ نہیں بھئی مستورات کا نہیں آس پاس کھڑے لوگوں کی نظروں کا ۔ ۔ جنہیں لفٹ بہت تیز لگنا شروع ہو جاتی ہے اور وہ بچاریاں بار بار نمبر دیکھ رہی ہوتی ہیں اپنے فلور کے لئے خیر بات ہو رہی تھی شام کو گھر جاتے ہوے روڈ پر مناظر کی اس تحریر کی تحریک بھی کل کے ایک واقعے کی مرہون منت ہے ہوا یوں کے ہماری عادت ہے کے ہم گاڑیوں کے پیچھے لکھے ہوے جملے بڑے شوق سے پڑھتے اور انجوائے کرتے ہیں کیونکے اکثر جملے ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے آپ نے بھی دیکھا ہو گا اکثر ٹیکسی کے پیچھے لکھا ہوتا ہے "میں بڑی ہو کر پجارو بنوںگی"
یا کوئی تاوء دلاتا ہوا جملہ "تپڑ ہے تو پاس کر ورنہ برداشت کر" اور بھی کئی جملے ہیں جو ابھی یاد نہیں آرہے مگر کل والا یاد رہے گا ۔ ۔ ۔ واقعہ درج ذیل ہے :
ایک ہائی روف زوں کرکے ہمارے پاس سے گذری پیچھے لکھا ہوا جملہ ہم صحیح سے نہ پڑھ
پڑھ سکے مگر ایک لفظ جان پڑھ سکے پوری سطر میں اس لفظ نے ہمارے مطالعے کے شوق کو اور مہمیز کردیا ہم نے اس "جان"
کے چکر میں اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے کا رسک لے لیا سپڈ بڑھا دی (بالکل ایسے جیسے کبھی بیگم کو اس کے میکے چھوڑنے کے لیے جاتا تھا کے کہیں ارادہ نا بدل جائے)
ہائی روف کافی آگے نکل چکی تھی مگر ہم اپنی دھن میں تھے تھے ایسے میں ہمیں علی عظمت کا 1992 کے ورلڈ کپ والا سونگ یاد آرہا تھا "ہو جذبہء جنون تو ہمت نا ہار" مگر لگ رہا تھا اپنا حال بھی پاکستانی ٹیم کی طرح ہونے والا تھا مگر بھلا ہو ہمارے ٹریفک سگنل کا جس نے ہمارے جذبے کی قدر کی اور ٹریفک روک دیا گیا قریب پہنچے گاڑیوں کے درمیانی کھانچوں میں سے اپنی بائیک قریب لے کر گئے تحریر سامنے تھی پڑھا پڑھتے ہی ڈھیروں پانی پڑ گیا سگنل کھل چکا تھا ہم آہستہ
آہستہ رواں تھے
شاید اس نصیحت آمیز جملے کا اثر تھا
۔ ۔ ۔ " اپنا نہیں تو اپنے چاہنے والوں کا خیال کریں تیز رفتاری سے بچیں اس میں آپ کی
جان جا سکتی ہے"
یا کوئی تاوء دلاتا ہوا جملہ "تپڑ ہے تو پاس کر ورنہ برداشت کر" اور بھی کئی جملے ہیں جو ابھی یاد نہیں آرہے مگر کل والا یاد رہے گا ۔ ۔ ۔ واقعہ درج ذیل ہے :
ایک ہائی روف زوں کرکے ہمارے پاس سے گذری پیچھے لکھا ہوا جملہ ہم صحیح سے نہ پڑھ
پڑھ سکے مگر ایک لفظ جان پڑھ سکے پوری سطر میں اس لفظ نے ہمارے مطالعے کے شوق کو اور مہمیز کردیا ہم نے اس "جان"
کے چکر میں اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے کا رسک لے لیا سپڈ بڑھا دی (بالکل ایسے جیسے کبھی بیگم کو اس کے میکے چھوڑنے کے لیے جاتا تھا کے کہیں ارادہ نا بدل جائے)
ہائی روف کافی آگے نکل چکی تھی مگر ہم اپنی دھن میں تھے تھے ایسے میں ہمیں علی عظمت کا 1992 کے ورلڈ کپ والا سونگ یاد آرہا تھا "ہو جذبہء جنون تو ہمت نا ہار" مگر لگ رہا تھا اپنا حال بھی پاکستانی ٹیم کی طرح ہونے والا تھا مگر بھلا ہو ہمارے ٹریفک سگنل کا جس نے ہمارے جذبے کی قدر کی اور ٹریفک روک دیا گیا قریب پہنچے گاڑیوں کے درمیانی کھانچوں میں سے اپنی بائیک قریب لے کر گئے تحریر سامنے تھی پڑھا پڑھتے ہی ڈھیروں پانی پڑ گیا سگنل کھل چکا تھا ہم آہستہ
آہستہ رواں تھے
شاید اس نصیحت آمیز جملے کا اثر تھا
۔ ۔ ۔ " اپنا نہیں تو اپنے چاہنے والوں کا خیال کریں تیز رفتاری سے بچیں اس میں آپ کی
جان جا سکتی ہے"
آخری تدوین: