انیس الرحمن
محفلین
۸۰ دن میں دنیا کا چکر
جولیس ورن
علی اسد
اب سے سو برس قبل نہ تو ایسے ہوائی جہاز ہوتے تھے جو چھے سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑتے ہوں اور نہ ایسے پانی کے جہاز تھے جو چار روز میں بحر اوقیانوس کو پار کرلیں۔ حقیقت تو یہ ہے ان دنوں میں ہوائی جہاز تھے ہی نہیں۔ چنانچہ پوری دنیا کے گرد چکر لگانے کے لیے کم از کم تین مہینے درکار ہوتے تھے۔ اس کے باوجود ہم آپ کو ایک ایسے آدمی کی داستان سناتے ہیں جس نے بیس ہزار پاؤنڈ اس شرط پر لگا دیے کہ وہ صرف اسی دن میں دنیا کا چکر لگا آئے گا۔لندن کے ایک شاندار کلب میں فلیس فاگ نامی ایک شخص آرام سے بیٹھا ہوا لوگوں کی باتیں سن رہا تھا۔ حال ہی میں لندن کے ایک بنک میں بڑی زبردست چوری ہوگئی تھی۔ چنانچہ یہ لوگ اسی کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ ایک بولا، "بنک کا کتنا نقصان ہوا؟"
دوسرے نے جواب دیا، "پچپن ہزار پاؤنڈ۔"
اس پر مسٹر فاگ نے پولیس کے ایک افسر سے پوچھا، "آپ نے چور پکڑنے کے لیے کیا کوششیں کی ہیں۔"
افسر نے جواب دیا، "خفیہ پولیس کے ہوشیار افسروں کو امریکا اور یورپ کی تمام بندرگاہوں پر بھیج دیا گیا ہے۔"
اس پر ایک اور آدمی بولا، "پھر تو چور کے لیے بچنا بڑا دشوار ہوگا۔"
دوسرے نے پولیس افسر سے پوچھا، "چور کا حلیہ معلوم ہے؟"
افسر نے کہا، "ہاں، حلیے سے تو آسودہ حال معلوم ہوتا ہے۔"
تیسرا بولا، "یقین نہیں آتا کہ یہ چوری ہوئی کیسے!"
پولیس افسر بولا، "کہاں جائے گا بچ کر۔ اسے تو کسی ملک میں پناہ نہیں ملے گی۔"
ایک بولا، "کہاں جائے گا؟"
دوسرا بولا، "کچھ نہیں کہہ سکتے۔ دنیا بہت وسیع ہے"
اس پر مسٹر فاگ بولے، "ہاں۔ پہلے تھی۔"
یہ سن کر دوسرا شخص بولا، "کیا مطلب ہے تمہارا؟ کیا دنیا اب چھوٹی ہوگئی ہے؟"
پولیس افسر بولا، "مجھے مسٹر فاگ کی رائے اتفاق ہے۔ دنیا تنگ ہوگئی ہے۔ اب آپ تین مہینے کے اندر ساری دنیا کا چکر لگا سکتے ہیں۔"
اس پر فاگ بولا، "جی نہیں صرف اسی دن میں۔"
اس پر ایک شخص بولا، "لیکن اس میں حادثات کو شامل نہ کرنا چاہیے۔ مثلا موسم کی خرابی، ہوا کا مخالف سمت ہونا۔ جہاز کا تباہ ہو جانا۔ ریلوں کا ٹکرانا وغیرہ۔"
یہ سن کر فاگ نے کہا، "جی نہیں، ان تمام حادثات کو شامل کرتے ہوئے بھی اسی دن کافی ہیں۔"
اس پر ایک بولا، "اچھا مسٹر فاگ، ذرا یہ کر کے بتاؤ تو جانیں!"
دوسرا بولا، "ہاں ٹھیک ہے۔"
تیسرا بولا، "میں چار ہزار پاؤنڈ کی شرط لگاتا ہوں کہ یہ ناممکن ہے۔"
فاگ نے سب کی باتیں جب سن لیں تو بولا، "بنک میں میرے بیس ہزار پاؤنڈ جمع ہیں، جنہیں میں بخوشی اس شرط پر لگائے دیتا ہوں۔"
پہلا شخص بولا، "ذرا سوچ لو۔ اتنی بڑی رقم ایک ذراسی ناگہانی بات کی وجہ سے کھو دو گے۔"
فاگ نے کہا، "ناگہانی بات ہوتی ہی نہیں۔"
اس پر پولیس افسر نے کہا، "لیکن مسٹر فاگ اسی دن تو ایک اندازے کے مطابق کم سے کم مدت ہے۔"
فاگ اپنی بات پر قائم رہا۔ کہنے لگا، "بس کم سے کم مدت ہی کافی ہے۔"
یہ کہہ کر اس نے چیک نکال کر پیش کردیا اور بولا، "یہ لیجیے میرا چیک۔ آج بدھ کا دن ہے اور اکتوبر کی دوسری تاریخ۔ میں اس کمرے میں ۲۱ دسمبر کو پونے نو بجے رات آپ سے ملوں گا۔ ورنہ شرط ہار جاؤں گا۔"
سب لوگوں نے اس شرط کو قبول کر لیا۔
اس کے بعد فاگ اپنے گھر گیا اور اپنے فرانسیسی ملازم پاسپتو کھ ساری باتیں بتائیں اور کہا، "جلدی سے ضروری سامان کچھ رکھ لو۔ دو قمیضیں اور تین جوڑے موزے کافی ہوں گے۔ باقی کپڑے ہم راستے میں خریدتے رہیں گے۔"
چنانچہ پاسپتو تو سامان باندھنے لگا اور خود فاگ نے اپنے تھیلے میں نوٹوں کے بنڈل رکھ لیے۔ تھوڑی دیر بعد میں جب دونوں تیار ہوگئے تو فاگ نے کہا، "پاسپتو، اس تھیلے کا خیال رکھنا۔ اس میں بیس ہزار پاؤنڈ ہیں۔"
اسٹیشن پر فاگ کے دوست جمع تھے۔ فاگ نے کہا، "دوستو! اب میں روانہ ہوتا ہوں۔ جب واپس آؤں تو میرے پاسپورٹ سے دیکھ لینا کہ میں نے ساری دنیا کا چکر لگایا ہے یا نہیں۔"
ایک دوست بولا، "بس تمہاری زبان کافی ہے۔ مگر یاد رکھنا۔ تم کو ۲۱ دسمبر کو لندن پہنچنا ہے۔"
دوسرا بولا، "پونے نو بجے رات۔"
فلیس فاگ کی روانگی کے ساتویں دن لندن کے پولیس کمشنر کے پاس جسب ذیل ایک تار آیا:
سوئیز سے لندن
کوؤن، کمشنر آف پولیس، اسکاٹ لینڈ اسکوائر۔
میں نے بنک کے چور فلیس فاگ کو تلاش کر لیا ہے۔ اس کی گرفتاری کا وارنٹ فورا بمبئی روانہ کردیجیے۔
فکس (سراغ رساں)
جو پولیس افسر تار لایا تھا اس نے کمشنر سے کہا، "چور کا حلیہ فاگ سے ملتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا چور کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کوئی آسودہ حال شخص ہے۔ میرا خیال ہے کہ فاگ نے دنیا کا چکر لگانے کی شرا محض دھوکا دینے کے لیے لگائی ہے۔"
کمشنر نے کہا، "ہم فاگ کی گرفتاری کا وارنٹ بمبئی بھیج دیں گے۔"
ادھر یہ ہوا کہ سراغ رساں فکس مسٹر فاگ کے ساتھ اسی جہاز میں سفر کر رہا تھا، لیکن اسے نہیں معلوم تھا کہ جہاز دو روز قبل بمبئی پہنچنے والا ہے، کیوں کہ مسٹر فاگ نے جہاز کے عملے کو بہت سا روپیہ دے دیا تھا۔ چنانچہ جوں ہی جہاز بمبئی میں لنگر انداز ہوا سراغ رساں فکس پولیس کے صدر دفتر پہنچا۔ وہاں اسے معلوم ہوا کہ گرفتاری کا وارنٹ ابھی نہیں آیا ہے۔ اب تو فکس بڑا سٹ پٹایا۔ ہندوستانی پولیس افسر سے کہنے لگا، "لیکن چور تو کلکتے چلا جارہا ہے!"
ہندوستانی افسر بولا، "بغیر وارنٹ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔"
چنانچہ فکس بھاگا بھاگا اسٹیشن پہنچا۔ یہاں فاگ کھڑا تھا۔ اتنے میں اس کا ملازم پاسپتو ہانپتا ہوا آپہنچا۔ فاگ نے اس سے پوچھا، "تمہیں اتنی دیر کہاں لگ گئی؟"
پاسپتو بولا، "جناب، مجھے لوگوں نے گھیر لیا تھا۔ میں ایک مندر میں داخل ہو گیا تھا۔ جوتے اتارنے کا مجھے خیال نہیں آیا۔ بس پھر کیا تھا۔ مندر کے سارے پجاری مجھ پر پل پڑے اور لگے پیٹنے۔ بڑی مشکل سے میں نے اپنی جان بچائی اور بھاگتا بھاگتا یہاں آیا۔"
فاگ نے کہا، "دیکھو آئندہ ایسا نہ ہو!"
ملازم بولا، "ٹھیک جناب۔"
یہ تمام باتیں سراغ رساں فکس قریب کھڑا سن رہا تھا۔ لہذا وہ اپنے دل میں سوچنے لگا کہ چلو بڑا اچھا ہوا۔ ہندوستان کی سر زمین پر ایک جرم سرزد ہوگیا ہے۔ بس اب میں اسے پکڑ لوں گا!
بحرحال دو روز ریل کا سفر جاری رہا۔ اس کے بعد اچانک ریل رک گئی۔ فاگ نے کنڈکٹر سے پوچھا، "اس وقت ہم لوگ کہاں ہیں اور یہ ریل کیوں رک گئی ہے؟"
کنڈکٹر نے کہا، "ہم لوگ اس وقت کھولبی گاؤں کے پاس ہیں۔ گاڑی رکنے کی وجہ یہ ہے کہ پٹری پوری طرح نہیں بچھی ہے۔"
یہ سن کر ایک فوجی افسر سر فرانسس جو قریب ہی بیٹھا تھا بولا، "لیکن اخباروں میں تو لکھا تھا کہ پٹری بچھائی جا چکی ہے اور تم لوگ بمبئی سے کلکتے تک کا ٹکٹ بھی تو فروخت کر رہے ہو۔"
اس پر کنڈکٹر بولا، "کھولبی سے الہ آباد تک مسافر خود اپنے سفر کا انتظام کرتے ہیں۔"
لہذا سب کو گاڑی سے اترنا پڑا۔ فوجی افسر بولا، "مسٹر فاگ، اس سے تو آپ کے لیے بڑی تاخیر ہوجائے گی۔"
فاگ نے کہا، "جی نہیں سر فرانسس، میں دو دن آگے ہوں، اس لیے اتنی تاخیر آسانی سے برداشت کر سکتا ہوں۔ ۲۵ تاریخ کو کلکتے سے ہانگ کانگ کے لیے ایک جہاز روانہ ہونے والا ہے اور آج ۲۳ تاریخ ہے۔ ہم وقت پر کلکتے پہنچ جائیں گے۔"
سر فرانسس اس یقین کے آگے کچھ بھی نہ کہہ سکے۔
اتنے میں پاسپتو نے سفر جاری رکھنے کے لیے ایک ہاتھی تلاش کر لیا۔ فاگ کو ہاتھی پر بٹھاتے ہوئے پاسپتو نے کہا، "یہ دیکھیے جناب، لیکن اس کے دام بہت زیادہ دینے پڑیں گے۔"
قصہ مختصر دو ہزار پاؤنڈ پر ہاتھی خرید لیا گیا اور یہ لوگ اس پر سوار ہو کر روانہ ہوگئے۔ کئی گھنٹوں کے بعد ہاتھی اچانک رک گیا۔ فاگ نے مہاوت سے پوچھا، "کیا بات ہے؟"
مہاوت بولا، "برہمنوں کا ایک جلوس آرہا ہے۔ ہمیں ان کی نظروں سے دور ہی رہنا چاہیے۔"
چنانچہ مہاوت نے ہاتھی کو گھنے درختوں کے جھنڈ میں لے جاکر روک لیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک بڑا جلوس دکھائی دیا۔ فاگ اور اس کے ساتھیوں نے درختوں کی آڑ میں سے عجیب و غریب سی رسم دیکھی۔ ایک بڑی سی بیل گاڑی پر ایک مورت کھڑی تھی۔ فاگ نے مورت دیکھ کر کہا، "یہ کالی دیوی ہے محبت اور موت کی دیوی۔"
اس پر سر فرانسس بولے، "صرف موت کی دیوی کہو۔ بلا کہیں کی!"
اتنے میں مہاوت بولا، "ذرا خاموش رہیے۔"
سر فرانسس نے کہا، "ارے یہ تو ستی والا معاملہ ہے!"
فاگ نے پوچھا، "یہ ستی کیا ہے؟"
مہاوت بولا، "انسان کی قربانی جو عموما خود ہی دی جاتی ہے۔ کل صبح تڑکے اس عورت کو اس کے شوہر کی لاش کے ساتھ زندہ جلا دیا جائے گا۔"
جلوس میں کچھ لوگ ایک بوڑھے آدمی کی لاش اٹھائے چلے جارہے تھے اور اسی کے آگے آگے ایک خوبصورت نوجوان عورت کو لوگ پکڑے لیے جا رہے تھے۔ چاروں طرف آدمی ننگی تلواریں لیے اس عورت کو گھیرے ہوئے تھے۔
جب جلوس گزر گیا تو فلیس فاگ اور سر فرانسس نے اس پر گفتگو کی۔ مہاوت بولا، "یہ عورت خود نہیں مرنا چاہتی، مگر چوں کہ اسے نشہ پلا دیا گیا ہے، اس لیے یہ مزاحمت نہیں کر رہی ہے۔"
فاگ نے پوچھا، "مگر اسے کہاں لیے جارہے ہیں۔"
مہاوت نے جواب دیا، "پلا جی کے مندر۔ یہاں سے دو میل دور ہے۔ رات بھر یہ عورت وہیں رہے گی۔"
یہ سن کر فاگ نے کہا، "میرے پاس دو گھنٹے کا وقت ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان دو گھنٹوں کو اس عورت کے بچانے میں صرف کردوں۔"
اس پر سر فرانسس بولے، "آپ تو بڑے نرم دل انسان معلوم ہوتے ہیں۔"
بہرحال یہ لوگ بڑی احتیاط سے بچتے بچاتے اس جگہ تک پہنچ گئے جہاں عورت کی قربانی دی جانے والی تھی۔ سر فرانسس نے کہا، "میرا خیال ہے رات تک ہم لوگوں کو انتظار کرنا چاہیے۔ اس کے بعد پھر کچھ کیا جائے۔"
اتنے میں فاگ نے مہاوت سے پوچھا، "اس عورت کے بارے میں تم کیا جانتے ہو؟"
مہاوت نے کہا، "اس کا نام رادھا ہے۔ وہ بمبئ کے ایک بڑے تاجر کی بیٹی ہے۔ اس کی شادی زبردستی ایک راجا سے کردی گئی تھی۔ جب راجا مر گیا تو یہ وہاں سے بھاگی، کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اس کا انجام کیا ہوگا، لیکن اسے پکڑ لیا گیا اور اب اسے ستی ہونے کے لیے لے جا رہے ہیں۔
فلیس فاگ، اس کا ملازم پاسپتو، سر فرانسس اور مہاوت اندھیرے میں مندر کے قریب پہنچ گئے۔ کچھ دور پر آگ جل رہی تھی جس میں راجا کی لاش کو اور اس کی بیوہ کو جلایا جانے والا تھا۔ فاگ نے کہا، "ایک گھنٹے میں صبح ہوجائے گی۔"
غرض انسانی قربانی کا وقت قریب آتا جارہا تھا، لیکن رادھا کو بچانے کے لیے فاگ اور اس کے ساتھیوں کی سمجھ میں کوئی ترکیب نہیں آرہی تھی۔ چاروں طرف سے لوگ رادھا کو گھیرے ہوئے تھے۔ آخر کار رادھا بھنگ اور افیم کے نشے کی وجہ سے بےہوش ہوگئی اور اسے لوگوں نے راجا کی لاش کے قریب لٹا دیا۔ اس کے بعد جونہی لکڑیوں میں مشعل لگائی گئی آگ بھڑک اٹھی کیوں کہ لکڑیوں پر تیل چھڑکا ہوا تھا۔ پاسپتو سے اب اور زیادہ دیکھا نہ گیا لہذا وہ پھاند پڑا۔ چشم زدن لوگوں نے دیکھا کہ ایک لاش زندہ ہو کر کھڑی ہوگئی ہے۔
بات یہ ہوئی کہ پاسپتو نے لپک کر رادھا کو اٹھا لیا مگر لوگ سمجھے کہ راجا زندہ ہوگیا ہے اور اس نے رادھا کو اٹھا لیا ہے۔ پھر تمام پنڈتوں، سادھوؤں اور پجاریوں پر دہشت طاری ہوگئی اور ڈر کے مارے کسی نے بھی نظر اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ کی۔ چنانچہ دھویں اور کہر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاسپتو رادھا کو لے بھاگا اور یہ لوگ سب ہاتھی پر سوار ہو کر روانہ ہوگئے، لیکن تھوڑی دیر بعد لوگوں کو پتا چل گیا کہ کیا ہوا۔ پھر تو سب نے ہاتھی کا پیچھا کیا اور تیروں اور گولیوں کی بوچھاڑ کردی، مگر بھاگنے والے بچ کر نکل گئے۔ پھر کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد یہ لوگ الہ آباد پہنچے جہاں انہیں دوسری ریل گاڑی میں سوار ہونا تھا۔ سر فرانسس نے فاگ سے کہا، "مسٹر فاگ! آپ اس نوجوان عورت کو ہندوستان میں نہ چھوڑیے گا ورنہ یہ لوگ اسے ضرور مار ڈالیں گے۔"
فاگ نے کہا، "میں آپ کے مشورے کو یاد رکھوں گا۔ فی الحال تو میں اسے اپنے ہی ساتھ لیے جاتا ہوں۔"
تھوڑی دیر بعد یہ لوگ ریل پر سوار ہوگئے۔ فاگ نے ہاتھی مہاوت کو دے دیا۔ ریل میں رادھا نے اپنے بچانے والوں کا شکریہ ادا کیا۔ جب اس سے اس کے رشتے داروں کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ اس کا ایک چچا ہانگ کانگ میں تجارت کرتا ہے۔ فاگ نے کہا، "بس تو پھر ہم تم کو ہانگ کانگ لیے چلتے ہیں۔"
کلکتے سے پہلے ایک اسٹیشن پر سر فرانسس اتر گئے کیوں کہ انہیں اسی جگہ اپنی رجمنٹ میں شامل ہونا تھا۔ فاگ، پاسپتو اور رادھا نے اپنا سفر جاری رکھا۔
آخر یہ لوگ کلکتے پہنچ گئے، لیکن وہاں پہنچتے ہی پولیس کے ایک افسر نے انہیں آگھیرا اور بولا، "مسٹر فلیس فاگ! آپ اپنے ملازم کو لے کر ہمارے ساتھ چلیے۔"
چنانچہ ان کو ایک عدالت میں پیش کیا گیا۔ جج نے کہا، "تم لوگوں کی دو دن سے تلاش ہورہی تھی۔"
فاگ نے پوچھا، "ہمارے اوپر آخر الزا م کیا ہے؟"
سرکاری وکیل بولا، "خاموش رہو، تم کو ابھی بتایا جاتا ہے۔"
اس کے بعد جج نے کہا، "مدعی کو حاضر کرو۔"
یہ کہنا تھا کہ عدالت میں بہت سے پجاری داخل ہو گئے۔ پاسپتو سمجھا کہ یہ وہی پجاری ہیں جو رادھا کو ستی کرنے والے تھے۔ اتنے میں جج بولا، "فلیس فاگ تم نے اور تمہارے نوکر نے مندر کی بےحرمتی کی ہے۔"
فاگ نے کہا، "میں اس کا اعتراف کرتا ہوں۔"
جج نے حیران ہو کر کہا، "اچھا تم اقبال جرم کرتے ہو؟"
فاگ نے کہا، "میں اقبال جرم کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ یہ پجاری بھی بتائیں گے کہ یہ پلا جی کے مندر میں کیا کرنے والے تھے۔"
اس پر جج نے ایک جوڑی جوتے اٹھا کر دکھائے اور بولا، "نہ جانے تم کیا کہہ رہے ہو۔ تم پر یہ الزام ہے کہ تمہارا نوکر ان جوتوں کو پہنے ہوئے بمبئی کے ایک مندر میں داخل ہوگیا تھا۔"
دراصل اس کاروائی کا الزام سراغ رساں فکس نے کیا تھا۔ وہ بھی یہاں موجود تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی بہانے ان لوگوں کو اس وقت تک یہاں روک لیا جائے جب تک کہ چوری کے الزام میں فاگ کی گرفتاری کا وارنٹ نہیں پہنچ جاتا۔ بحرحال جج نے اپنا فیصلہ سنادیا۔ پاسپتو کو پندرہ دن کی قید اور تین سو پاؤنڈ کا جرمانہ اور مسٹر فاگ چوں کہ اپنے ملازم کی حرکتوں کے ذمےدار سمجھے گئے لہذا انہیں آٹھ دن کی قید اور ڈیڑھ سو پاؤنڈ جرمانہ ہوا۔ یہ فیصلہ سن کر پاسپتو سوچنے لگا اس طرح تو ایک ہفتے کی دیر ہوجائے گی۔ میرا مالک تو تباہ ہوجائے گا، لیکن فاگ اتنی آسانی سے ہارنے والا آدمی نہ تھا۔ اس نے دو ہزار پاؤنڈ کی ضمانت داخل کردی اور آذادی حاصل کرلی۔ اس کے بعد فاگ ضمانت کی رقم ضبط کیے جانے کی پروا کیے بغیر ایک کشتی میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا۔ اس کا ملازم اور رادھا بھی اس کے ساتھ تھی۔
سراغ رساں فکس نے جو یہ دیکھا تو دل ہی دل میں کہنے لگا، "دو ہزار پاؤنڈ کی قربانی دے کر یہ آخر پھر چمپت ہوگیا۔ ایک چور ہی اس طرح رپیہ برباد کرسکتا ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو میں بھی اس کے پیچھے لگا رہوں گا۔"
لہذا اس نے بھی ایک کشتی کرائے پر لی اور فاگ کے پیچھے چل دیا۔ دونوں کشتیوں کے مسافر جب جہاز پر سوار ہوگئے تو فکس نے اپنی اصلیت کو چھپائے رکھا، مگر پاسپتو سے دوستی کی پینگ بڑھاتا رہا۔ پاسپتو کو فکس کے بارے میں کچھ شبہ تو ہوا، مگر وہ یہ سمجھا کہ شاید فکس کو ان لوگوں نے بھیجا ہے جن سے فاگ نے شرط لگائی ہے اور یہ اس لیے پیچھا کر رہا ہے کہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ فاگ نے واقعی دنیا کا چکر لگایا یا نہیں۔
غرض جب یہ لوگ ہانگ کانگ پہنچے تو پتا چلا کہ رادھا کے چچا امریکا چلے گئے ہیں۔ چنانچہ یہ طے کیا گیا کہ رادھا کو لے کر یہ لوگ امریکا چلے جائیں۔ فکس کو پتا چل گیا کہ فاگ امریکا جانے والا ہے۔ فکس چاہتا تھا کہ فاگ کو ہانگ کانگ میں روک لے تاکہ وارنٹ گرفتاری جب آجائے تو اسے یہیں گرفتار کرلے، کیوں کہ ہانگ کانگ پر انگریزوں کی حکومت ہے۔ چنانچہ اس نے پاسپتو سے کہا، "میں تمہارے آقا کے بارے میں تم سے چند اہم باتیں کرنا چاہتا ہوں۔"