۹۳ سے ۹۶ تک لندن فلیٹس حسین نواز کی ملکیت تھے،واجد ضیا
آکٹوپس
MARCH 27, 2018
پاناماجے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے کہا ہے کہ 1993 سے 96تک لندن فلیٹس حسین نواز کی ملکیت تھے، 1996 میں میاں شریف بھی علاج کے سلسلے میں ان ہی فلیٹس میں رہے۔
احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نیب کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کررہے ہیں.پاناماجے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے اپنا بیان قلمبند کرایا۔
واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ لینڈ رجسٹری ریکارڈ کے مطابق نواز شریف نے 1993 سے 1996 تک دو فلیٹس خریدے جب کہ ملزمان خود اعتراف کرتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں فلیٹس کا قبضہ حاصل کیا اور جب فلیٹس کا قبضہ حاصل کیا گیا تو حسین نواز طالبعلم تھے۔
واجد ضیاء نے کہا کہ تمام ملزمان مانتے ہیں کہ فلیٹ نمبر 16 صرف نواز شریف کے زیر استعمال رہا اور میاں شریف نے فلیٹ صرف اس وقت استعمال کیا جب وہ علاج کے لیے برطانیہ گئے تھے۔
واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ ملزمان نے دو ٹرسٹ ڈیڈز جمع کرائی اور جے آئی ٹی کے مطابق دونوں ٹرسٹ ڈیڈ کا صفحہ نمبر 2 اور 3 ایک جیسا تھا جن پر تاریخیں تبدیل کی گئیں۔
واجد ضیاء کے مطابق ملزمان نے ٹرسٹ ڈیڈ پر اوور رائٹنگ کر کے 2004 کو 2006 بنایا جس پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض اٹھایا کہ گواہ اپنی رائے دے رہا ہے۔
استغاثہ کے گواہ کا کہنا تھا کہ 2006 آف شور کمپنیز سے متعلق قانون سازی کا اہم سال تھا،نئی قانون سازی کے بعد بیئرر شیئرز کی ملکیت چھپانا ممکن نہیں تھا۔
واجد ضیاء نے کہا کہ سپریم کورٹ میں دی گئی نیلسن اور نیسکول کی ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی فرانزک ٹیسٹ کے لیے بھجوائی، ریڈلے کی رپورٹ کے بعد جے آئی ٹی نے نتیجہ اخذ کیا کہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے جس کے بعد مریم نواز کو طلب کیا گیا اور انہوں نے دو ٹرسٹ ڈیڈز جمع کرائیں جو بقول ان کے اصلی تھیں۔
واجد ضیاء نے کہا کہ فرانزک ٹیسٹ کے بعد جے آئی ٹی نے نتیجہ اخذ کیا کہ مریم نواز کی جانب سے جمع کرائی جانے والی ٹرسٹ ڈیڈز بھی جعلی ہیں جب کہ مریم نواز، حسین اور کیپٹن (ر) صفدر نے جعلی دستاویزات پر دستخط کر کے سپریم کورٹ میں پیش کیں۔
واجد ضیاء نے مزید کہا کہ حسن نواز نے بھی ٹرسٹ ڈیڈ کی یہی کاپیاں عدالت میں پیش کیں، حسن اور حسین نواز کی طرف سے اسٹیفن مورلے سے لی گئی قانونی رائے جامع نہیں تھی جب کہ مورلے نے ٹرسٹ ڈیڈ اور دیگر متعلقہ دستاویزات کو دیکھے بغیر رائے دی۔
جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ مورلے کی رائے کے مطابق ٹرسٹ ڈیڈ کی رجسٹریشن ضروری نہیں تھی اور اس کے مقابلے میں درخواست گزار عمران خان کی طرف سے جمع کرائی گئی قانونی رائے تفصیلی تھی۔
مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے عمران خان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا اور واجد ضیاء عمران خان کا بیان لیے بغیر ان کی پٹیشن کے ساتھ جمع دستاویزات کا متن پیش کر رہے ہیں۔
سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نیب کی جانب سے ملزمان کے خلاف قطری خط سمیت تین اضافی دستاویزات بطور شواہد پیش کرنے کے لیے درخواست دائر کی گئی۔
نیب کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ 17 جولائی 2017 کو قطری شہزادے حمد بن جاسم کا واجد ضیا کو لکھا گیا خط پیش کرنا چاہتے ہیں جو کہ سپریم کورٹ میں بھی پیش ہوا تھا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ برٹش ورجن آئی لینڈ کے اٹارنی جنرل آفس کا واجد ضیاء کو لکھا گیا خط بھی پیش کرنا چاہتے ہیں، برٹش ورجن آئی لینڈ کو اٹارنی جنرل آفس نے 4 جولائی 2014 کا خط بھجوایا۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے مشاورت کے لئے واجد ضیاء کو برٹش ورجن آئی لینڈ سے رابطہ کرنے کی اجازت دی، واجد ضیاء کو برٹش ورجن آئی لینڈ سے رابطے کا اختیار دینے کا خط بھی پیش کرنے دیا جائے۔
واضح رہے سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق تھے
آکٹوپس
MARCH 27, 2018
پاناماجے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے کہا ہے کہ 1993 سے 96تک لندن فلیٹس حسین نواز کی ملکیت تھے، 1996 میں میاں شریف بھی علاج کے سلسلے میں ان ہی فلیٹس میں رہے۔
احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نیب کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کررہے ہیں.پاناماجے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے اپنا بیان قلمبند کرایا۔
واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ لینڈ رجسٹری ریکارڈ کے مطابق نواز شریف نے 1993 سے 1996 تک دو فلیٹس خریدے جب کہ ملزمان خود اعتراف کرتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں فلیٹس کا قبضہ حاصل کیا اور جب فلیٹس کا قبضہ حاصل کیا گیا تو حسین نواز طالبعلم تھے۔
واجد ضیاء نے کہا کہ تمام ملزمان مانتے ہیں کہ فلیٹ نمبر 16 صرف نواز شریف کے زیر استعمال رہا اور میاں شریف نے فلیٹ صرف اس وقت استعمال کیا جب وہ علاج کے لیے برطانیہ گئے تھے۔
واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ ملزمان نے دو ٹرسٹ ڈیڈز جمع کرائی اور جے آئی ٹی کے مطابق دونوں ٹرسٹ ڈیڈ کا صفحہ نمبر 2 اور 3 ایک جیسا تھا جن پر تاریخیں تبدیل کی گئیں۔
واجد ضیاء کے مطابق ملزمان نے ٹرسٹ ڈیڈ پر اوور رائٹنگ کر کے 2004 کو 2006 بنایا جس پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض اٹھایا کہ گواہ اپنی رائے دے رہا ہے۔
استغاثہ کے گواہ کا کہنا تھا کہ 2006 آف شور کمپنیز سے متعلق قانون سازی کا اہم سال تھا،نئی قانون سازی کے بعد بیئرر شیئرز کی ملکیت چھپانا ممکن نہیں تھا۔
واجد ضیاء نے کہا کہ سپریم کورٹ میں دی گئی نیلسن اور نیسکول کی ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی فرانزک ٹیسٹ کے لیے بھجوائی، ریڈلے کی رپورٹ کے بعد جے آئی ٹی نے نتیجہ اخذ کیا کہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے جس کے بعد مریم نواز کو طلب کیا گیا اور انہوں نے دو ٹرسٹ ڈیڈز جمع کرائیں جو بقول ان کے اصلی تھیں۔
واجد ضیاء نے کہا کہ فرانزک ٹیسٹ کے بعد جے آئی ٹی نے نتیجہ اخذ کیا کہ مریم نواز کی جانب سے جمع کرائی جانے والی ٹرسٹ ڈیڈز بھی جعلی ہیں جب کہ مریم نواز، حسین اور کیپٹن (ر) صفدر نے جعلی دستاویزات پر دستخط کر کے سپریم کورٹ میں پیش کیں۔
واجد ضیاء نے مزید کہا کہ حسن نواز نے بھی ٹرسٹ ڈیڈ کی یہی کاپیاں عدالت میں پیش کیں، حسن اور حسین نواز کی طرف سے اسٹیفن مورلے سے لی گئی قانونی رائے جامع نہیں تھی جب کہ مورلے نے ٹرسٹ ڈیڈ اور دیگر متعلقہ دستاویزات کو دیکھے بغیر رائے دی۔
جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ مورلے کی رائے کے مطابق ٹرسٹ ڈیڈ کی رجسٹریشن ضروری نہیں تھی اور اس کے مقابلے میں درخواست گزار عمران خان کی طرف سے جمع کرائی گئی قانونی رائے تفصیلی تھی۔
مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے عمران خان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا اور واجد ضیاء عمران خان کا بیان لیے بغیر ان کی پٹیشن کے ساتھ جمع دستاویزات کا متن پیش کر رہے ہیں۔
سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نیب کی جانب سے ملزمان کے خلاف قطری خط سمیت تین اضافی دستاویزات بطور شواہد پیش کرنے کے لیے درخواست دائر کی گئی۔
نیب کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ 17 جولائی 2017 کو قطری شہزادے حمد بن جاسم کا واجد ضیا کو لکھا گیا خط پیش کرنا چاہتے ہیں جو کہ سپریم کورٹ میں بھی پیش ہوا تھا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ برٹش ورجن آئی لینڈ کے اٹارنی جنرل آفس کا واجد ضیاء کو لکھا گیا خط بھی پیش کرنا چاہتے ہیں، برٹش ورجن آئی لینڈ کو اٹارنی جنرل آفس نے 4 جولائی 2014 کا خط بھجوایا۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے مشاورت کے لئے واجد ضیاء کو برٹش ورجن آئی لینڈ سے رابطہ کرنے کی اجازت دی، واجد ضیاء کو برٹش ورجن آئی لینڈ سے رابطے کا اختیار دینے کا خط بھی پیش کرنے دیا جائے۔
واضح رہے سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق تھے