غزل قاضی
محفلین
"یہ آدمی کی گُزر گاہ "
زندگی آج تُو کِس طرف آگئی
صُبح کی سِیپیا روشنی چھوڑ کر
مدھ بھری شام کی کم سِنی چھوڑ کر
اوس پِیتی ہُوئی چاندنی چھوڑ کر
اُس کے مُکھڑے کی مِیٹھی نمی چھوڑ کر
زندگی آج تُو کِس طرف آگئی
اِس نئے دیس کے اجنبی راستے
کِتنے تاریک ، کِتنے پُر اسرار ہیں
آج تو جیسے وحشی قبیلے یہاں
اِ ک نئے آدمی کے لہُو کے لیے
جِسم پر راکھ مَل کر نکل آئے ہیں
آنکھ میں چُبھ رہا ہے کسَیلا دُھواں
جِسم کو چُھو رہی ہیں خُنک سُوئیاں
ہر قدم پر ڈھچر ، ہر طرف ہڈیاں
وقت کی خوف سے سانس رُکتی ہُوئی
رات کے بوجھ سے ہانپتی خامُشی
ہر طرف تِیرگی ، تِیرگی ، تِیرگی
پیڑ کے روپ میں کوئی دُشمن نہ ہو
پاس کے موڑ پر کوئی رہزن نہ ہو
یہ کھنڈر کوئی رُوحوں کا مسکن نہ ہو
اِس بھٹکتی صدا میں کوئی راز ہے
یہ پُرانا دِیا کِس کا غماز ہے ؟
کِس کی آہٹ ہے یہ ، کِس کی آواز ہے ؟
کِس لِیے آج سامان ِ شبخُون ہیں ؟
کون سے راز سِینوں میں مدفُون ہیں ؟
کِس کے لشکر اب آمادہؑ خون ہیں ؟
ہر طرف دُھند ہَے ہَر طرف سہم ہے
کوئی صاحِب نظر ہے کہ نافہم ہے ؟
سانپ کی سرسراھٹ ہے یا وہم ہے ؟
زندگی آج تُو کِس طرف آگئی
مَیں تری راہ کس طرح روشن کروں
میری ویران آنکھوں میں آنسُو نہیں
تیرے سازوں کی تحریک کے واسطے
میرے ھونٹوں پہ گیتوں کا جادُو نہیں
رات سُنسان ہے راہ ویران ہے
کوئی نغمہ نہیں کوئی خُوشبُو نہیں
آج تک مَیں نے تیرے لیے رات دن
موتیوں اور چراغوں کے ہرتھال پر
کتنے گَجرے عقِیدت سے حاضر کیے
کنواریوں کے بدن کی جواں اوس سے
تیرے پُھولوں کے چہروں کو ضو بخش دی
جب بُجھی جا رہی تھی تری دل کشی
تیرا مُنہ چُوم کر تجھ کو لَو بخش دی
چُوڑیوں کی کھنک سے تِرے واسطے
ایسے معصُوم نغمے مُرتب کیے
جِن کو سُن کر ستاروں کے اک شہر میں
کِرشن کے پاتھ سے بانسری چُھٹ گئی
تیری ہر نیند کو ، تیرے ہر خواب کو
میں نے پریوں کی زُلفوں کا بِستر دیا
نَو عرُوسوں کی شرماہٹیں سونپ دیں
لَے کے گہنے ، تبسم کا زیور دیا
اپسراؤں کے سِینوں کے بھونچال سے
حِدتیں چِھین کر تُجھ کو پیکر دیا
تیرے بالوں پہ غزلوں سے اَفشاں چُنی
تیرے ماتھے کو نظموں کا جُھومر دیا
اُنگلیوں کو اجنتا کی صنعت گری
انکھڑیوں کو بنارس کا منظر دیا
ایک تشبِیہ کو اجنتا کی صنعت گری
انکھڑیوں کو بنارس کا منظر دیا
ایک تشبِیہ سوچی کمر کے لیے
استعارے تراشے نظر کے لیے
جِسم اور خُون سے ماورا کہہ دیا
اَور اک روز تجھ کو خُدا کہہ دیا
زندگی آج تُو کِس طرف آگئی
مَیں چٹانوں سے فرہاد بن کر لڑا
تُونے تیشے میں میرا لُہو بھر دیا
والمیک اَور بُدھ بن کے آواز دی
تُونے صحراؤں میں مُجھ کو گُم کر دیا
ٹرائے کی جنگ میں تیرا ہومر بنا
مُجھ سے آںکھوں کی سب نعمتیں چِھن گئیں
دشت ِ اِحساس میں تیرا شاعر بنا
تیرے کانٹوں نے میری رگیں چِھیل دِیں
میں نے ڈُھونڈا تُجھے ذھن ِ سُقراط میں
اور مجھے زہر کا جام پینا پڑا
مَیں نے جانا تُجھے بےحد و بےمکاں
اَور مجھے قید خانوں میں جِینا پڑا
حادثوں نے بُجھا دی عقِیدت کی لَو
تجربوں نے عقائد کو گُم کر دیا
پھر بھی مَیں نے تیرے دامن کو تھامے ہوئے
زخم دھوتا رہا اَور گاتا رہا
اَور مہکے یہ زخموں کا بن یا نہیں
اَور کچھ دن رہے یہ لگن یا نہیں
اَے مِری ہم سفر مُجھ کو آواز دے
مُسکرائے گی کوئی کِرن یا نہیں
جِس کھنڈر پر گھنی مَوت کا راج ہے
اُس سے اُبھرے گی صُبح ِ وطن یا نہیں
اقتصادی خیالات کی جنگ میں
جیت جائے گا شاعر کا فن یا نہیں
مصطفیٰ زیدی ۔۔ از قبائے ساز
زندگی آج تُو کِس طرف آگئی
صُبح کی سِیپیا روشنی چھوڑ کر
مدھ بھری شام کی کم سِنی چھوڑ کر
اوس پِیتی ہُوئی چاندنی چھوڑ کر
اُس کے مُکھڑے کی مِیٹھی نمی چھوڑ کر
زندگی آج تُو کِس طرف آگئی
اِس نئے دیس کے اجنبی راستے
کِتنے تاریک ، کِتنے پُر اسرار ہیں
آج تو جیسے وحشی قبیلے یہاں
اِ ک نئے آدمی کے لہُو کے لیے
جِسم پر راکھ مَل کر نکل آئے ہیں
آنکھ میں چُبھ رہا ہے کسَیلا دُھواں
جِسم کو چُھو رہی ہیں خُنک سُوئیاں
ہر قدم پر ڈھچر ، ہر طرف ہڈیاں
وقت کی خوف سے سانس رُکتی ہُوئی
رات کے بوجھ سے ہانپتی خامُشی
ہر طرف تِیرگی ، تِیرگی ، تِیرگی
پیڑ کے روپ میں کوئی دُشمن نہ ہو
پاس کے موڑ پر کوئی رہزن نہ ہو
یہ کھنڈر کوئی رُوحوں کا مسکن نہ ہو
اِس بھٹکتی صدا میں کوئی راز ہے
یہ پُرانا دِیا کِس کا غماز ہے ؟
کِس کی آہٹ ہے یہ ، کِس کی آواز ہے ؟
کِس لِیے آج سامان ِ شبخُون ہیں ؟
کون سے راز سِینوں میں مدفُون ہیں ؟
کِس کے لشکر اب آمادہؑ خون ہیں ؟
ہر طرف دُھند ہَے ہَر طرف سہم ہے
کوئی صاحِب نظر ہے کہ نافہم ہے ؟
سانپ کی سرسراھٹ ہے یا وہم ہے ؟
زندگی آج تُو کِس طرف آگئی
مَیں تری راہ کس طرح روشن کروں
میری ویران آنکھوں میں آنسُو نہیں
تیرے سازوں کی تحریک کے واسطے
میرے ھونٹوں پہ گیتوں کا جادُو نہیں
رات سُنسان ہے راہ ویران ہے
کوئی نغمہ نہیں کوئی خُوشبُو نہیں
آج تک مَیں نے تیرے لیے رات دن
موتیوں اور چراغوں کے ہرتھال پر
کتنے گَجرے عقِیدت سے حاضر کیے
کنواریوں کے بدن کی جواں اوس سے
تیرے پُھولوں کے چہروں کو ضو بخش دی
جب بُجھی جا رہی تھی تری دل کشی
تیرا مُنہ چُوم کر تجھ کو لَو بخش دی
چُوڑیوں کی کھنک سے تِرے واسطے
ایسے معصُوم نغمے مُرتب کیے
جِن کو سُن کر ستاروں کے اک شہر میں
کِرشن کے پاتھ سے بانسری چُھٹ گئی
تیری ہر نیند کو ، تیرے ہر خواب کو
میں نے پریوں کی زُلفوں کا بِستر دیا
نَو عرُوسوں کی شرماہٹیں سونپ دیں
لَے کے گہنے ، تبسم کا زیور دیا
اپسراؤں کے سِینوں کے بھونچال سے
حِدتیں چِھین کر تُجھ کو پیکر دیا
تیرے بالوں پہ غزلوں سے اَفشاں چُنی
تیرے ماتھے کو نظموں کا جُھومر دیا
اُنگلیوں کو اجنتا کی صنعت گری
انکھڑیوں کو بنارس کا منظر دیا
ایک تشبِیہ کو اجنتا کی صنعت گری
انکھڑیوں کو بنارس کا منظر دیا
ایک تشبِیہ سوچی کمر کے لیے
استعارے تراشے نظر کے لیے
جِسم اور خُون سے ماورا کہہ دیا
اَور اک روز تجھ کو خُدا کہہ دیا
زندگی آج تُو کِس طرف آگئی
مَیں چٹانوں سے فرہاد بن کر لڑا
تُونے تیشے میں میرا لُہو بھر دیا
والمیک اَور بُدھ بن کے آواز دی
تُونے صحراؤں میں مُجھ کو گُم کر دیا
ٹرائے کی جنگ میں تیرا ہومر بنا
مُجھ سے آںکھوں کی سب نعمتیں چِھن گئیں
دشت ِ اِحساس میں تیرا شاعر بنا
تیرے کانٹوں نے میری رگیں چِھیل دِیں
میں نے ڈُھونڈا تُجھے ذھن ِ سُقراط میں
اور مجھے زہر کا جام پینا پڑا
مَیں نے جانا تُجھے بےحد و بےمکاں
اَور مجھے قید خانوں میں جِینا پڑا
حادثوں نے بُجھا دی عقِیدت کی لَو
تجربوں نے عقائد کو گُم کر دیا
پھر بھی مَیں نے تیرے دامن کو تھامے ہوئے
زخم دھوتا رہا اَور گاتا رہا
اَور مہکے یہ زخموں کا بن یا نہیں
اَور کچھ دن رہے یہ لگن یا نہیں
اَے مِری ہم سفر مُجھ کو آواز دے
مُسکرائے گی کوئی کِرن یا نہیں
جِس کھنڈر پر گھنی مَوت کا راج ہے
اُس سے اُبھرے گی صُبح ِ وطن یا نہیں
اقتصادی خیالات کی جنگ میں
جیت جائے گا شاعر کا فن یا نہیں
مصطفیٰ زیدی ۔۔ از قبائے ساز