ظہور احمد سولنگی
محفلین
متحدہ قومی مومنٹ نے صوفی محمد کی جانب سے جمہوری اور عدالتی نظام کو غیر شرعی قرار دینے پر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤوں کی خاموشی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
منگل کو لندن سے جاری ہونے والے ایک بیان میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی کے مرکزی امیر صوفی محمد نے ملک میں قائم جمہوری اور عدالتی نظام، تہتر کے آئین اور پارلیمان کو غیرشرعی اور کفرقرار دیا ہے لیکن ملک کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس معاملے پر پُراسرار خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان سیاسی ومذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے اقتدار کے حصول اور پارٹی مفادات کے لیے بڑے بڑے مظاہرے، جلسے، جلوس اورلانگ مارچ کیے لیکن آج صوفی محمد کے کھلم کھلا دھمکی آمیزبیانات پر اپنے لب سی لیے ہیں۔
الطاف حسین نے ملک کی بار کونسلوں کے وکلاء سے سوال کیا کہ کل تک تو وہ عدلیہ کی آزادی اورججوں کی بحالی کے لیے مظاہرے، دھرنے، لانگ مارچ اور جلسے، جلوس کررہے تھے لیکن آج وہ بھی ملک کے پارلیمانی اور عدالتی نظام کو غیرشرعی قراردینے اور ساڑھے چارسو وکلاء کوقاضی عدالتوں سے دور رکھنے اوران کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کرنے کے عمل پر کیوں خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
انہوں نے سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں اور خواتین انجمنوں کو صوفی محمد کے دھمکی آمیز بیانات پر ’مجرمانہ خاموشی‘ اختیارکرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور دلی افسوس کااظہارکیا۔
ایم کیو ایم کے قائد نے پاکستان کے تمام محبِ وطن عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود ان سیاسی ومذہبی جماعتوں اورسول سوسائٹی کی دیگرانجمنوں کی پُراسرار خاموشی پر ان سے سوال کریں کہ وہ اس معاملے سے نظریں کیوں چُرا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عالمی میڈیا میں پاکستان کی سلامتی وبقاء کے بارے میں سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ پاکستان ٹوٹنے والاہے۔ ایسی صورتحال میں صرف فوج، قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے، پولیس اورصرف ایم کیوایم ملک کونہیں بچاسکتے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا ہر فرد میدان عمل میں آئے اور اپنی اپنی جماعتوں اورانجمنوں کے رہنماؤں کو اس بات پر رضامند کرے کہ وہ اس کڑے وقت میں ملک بچانے کے لیے اپنامثبت کردار ادا کریں۔
بشکریہ بی بی سی اردو
منگل کو لندن سے جاری ہونے والے ایک بیان میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی کے مرکزی امیر صوفی محمد نے ملک میں قائم جمہوری اور عدالتی نظام، تہتر کے آئین اور پارلیمان کو غیرشرعی اور کفرقرار دیا ہے لیکن ملک کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس معاملے پر پُراسرار خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان سیاسی ومذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے اقتدار کے حصول اور پارٹی مفادات کے لیے بڑے بڑے مظاہرے، جلسے، جلوس اورلانگ مارچ کیے لیکن آج صوفی محمد کے کھلم کھلا دھمکی آمیزبیانات پر اپنے لب سی لیے ہیں۔
الطاف حسین نے ملک کی بار کونسلوں کے وکلاء سے سوال کیا کہ کل تک تو وہ عدلیہ کی آزادی اورججوں کی بحالی کے لیے مظاہرے، دھرنے، لانگ مارچ اور جلسے، جلوس کررہے تھے لیکن آج وہ بھی ملک کے پارلیمانی اور عدالتی نظام کو غیرشرعی قراردینے اور ساڑھے چارسو وکلاء کوقاضی عدالتوں سے دور رکھنے اوران کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کرنے کے عمل پر کیوں خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
انہوں نے سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں اور خواتین انجمنوں کو صوفی محمد کے دھمکی آمیز بیانات پر ’مجرمانہ خاموشی‘ اختیارکرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور دلی افسوس کااظہارکیا۔
ایم کیو ایم کے قائد نے پاکستان کے تمام محبِ وطن عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود ان سیاسی ومذہبی جماعتوں اورسول سوسائٹی کی دیگرانجمنوں کی پُراسرار خاموشی پر ان سے سوال کریں کہ وہ اس معاملے سے نظریں کیوں چُرا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عالمی میڈیا میں پاکستان کی سلامتی وبقاء کے بارے میں سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ پاکستان ٹوٹنے والاہے۔ ایسی صورتحال میں صرف فوج، قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے، پولیس اورصرف ایم کیوایم ملک کونہیں بچاسکتے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا ہر فرد میدان عمل میں آئے اور اپنی اپنی جماعتوں اورانجمنوں کے رہنماؤں کو اس بات پر رضامند کرے کہ وہ اس کڑے وقت میں ملک بچانے کے لیے اپنامثبت کردار ادا کریں۔
بشکریہ بی بی سی اردو