’اسے بچائے کوئی کیسے ٹوٹ جانے سے ۔۔۔ (اقبال اشعر)

عمراعظم

محفلین
’اسے بچائے کوئی کیسے ٹوٹ جانے سے
وہ دل جو باز نہ آئے فریب کھانے سے

وہ شخص ایک ہی لمحے میں ٹوٹ پھوٹ گیا
جسے تراش رہا تھا میں اک زمانے سے

’رکی ’رکی سی نظر آ رہی ہے نبضِ حیات
یہ کون ’اٹھ کے گیا ہے میرے سرہانے سے

نہ جانے کتنے چراغوں کو مِل گئی شہرت
اک آفتاب کے بے وقت ڈوب جانے سے

’اداس ’چھوڑ گیا وہ ہر اک موسم کو
گلاب کِھلتے تھے کل جس کے مسکرانے سے


اقبال اشعر
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہہہ
کیا کہا کہنے والے نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ جانے کتنے چراغوں کو مِل گئی شہرت​
اک آفتاب کے بے وقت ڈوب جانے سے​
 
نہ جانے کتنے چراغوں کو مِل گئی شہرت
اک آفتاب کے بے وقت ڈوب جانے سے
کیا کہنے بہت خوب :)
شریک محفل کرنے کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اسے بچائے کوئی کیسے ٹوٹ جانے سے​
وہ دل جو باز نہ آئے فریب کھانے سے​

واہ سر۔۔ بہت عمدہ کلام منتخب کیا ہے۔۔۔ شکریہ :)
 

شکیب

محفلین
غزل
اقبال اشہر
اسے بچائے کوئی کیسے ٹوٹ جانے سے
وہ دِل جو بازنہ آئے فریب کھانے سے

وہ شخص اک ہی لمحے میں ٹوٹ پھوٹ گیا
جسے تراش رہا تھا میں اک زمانے سے

پڑا ہے وقت تو لگتا ہے سہما سہما سا
وہ اک چراغ جو بجھتا نہ تھا بجھانے سے

رکی رکی سی نظر آ رہی ہے نبضِ حیات
یہ کون اٹھ كے گیا ہے میرے سرہانے سے

ناجانے کتنے چراغوں کو مل گئی شہرت
اک آفْتاب كے بے وقت ڈوب جانے سے

اداس چھوڑ گئے وہ ہر اک موسم کو
گلاب کھلتے تھے کل جسکے مسکرانے سے​
 
Top