عمراعظم
محفلین
اُس کی خوشبو میری غزلوں میں سِمٹ آئی ہے
نام کا نام ہے،رسوائی کی رسوائی ہے
دِل ہے اک اور دو عالم کا تمنّائی ہے
دوست کا دوست ہے،ہرجائی کا ہرجائی ہے
ہجر کی رات ہےاوراُن کے تصور کا چراغ
بزم کی بزم ہے،تنہائی کی تنہائی ہے
کون سے نام سے تعبیر کروں اِس رُت کو
پھول مُرجھائے ہیں،زخموں پہ بہار آئی ہے
کیسی ترتیب سے کاغذ پہ گرے ہیں آنسو
ایک بھولی ہوئی تصویر اُبھر آئی ہے
اقبال اشعر
نام کا نام ہے،رسوائی کی رسوائی ہے
دِل ہے اک اور دو عالم کا تمنّائی ہے
دوست کا دوست ہے،ہرجائی کا ہرجائی ہے
ہجر کی رات ہےاوراُن کے تصور کا چراغ
بزم کی بزم ہے،تنہائی کی تنہائی ہے
کون سے نام سے تعبیر کروں اِس رُت کو
پھول مُرجھائے ہیں،زخموں پہ بہار آئی ہے
کیسی ترتیب سے کاغذ پہ گرے ہیں آنسو
ایک بھولی ہوئی تصویر اُبھر آئی ہے
اقبال اشعر