سید اسد محمود
محفلین
’انڈیا میں کرنل جیل جا سکتا ہے تو یہاں کیوں نہیں‘
-----------------------------------------
ربط
آخری وقت اشاعت: منگل 25 جون 2013 , 14:57 GMT 19:57 PST
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ اگر خیبر پختونخوا پولیس بوری بند لاشوں کے مقدمات میں تفتیش مکمل نہیں کرسکتی ہے تو پھر وہ برطانوی پولیس سکاٹ لینڈ یارڈ کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں۔
چیف جسٹس کے مطابق ان کے نزدیک عام شہری اور اعلی شخصیت برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ ریمارکس چیف جسٹس دوست محمد خان نے بوری بند لاشوں سے متعلق ہیومن رائٹس ڈائریکٹوریٹ کی رپورٹ پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے موقع پر دیے۔
فاضل بینچ چیف جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس اسد اللہ چمکنی پر مشتمل تھا۔
عدالت عالیہ میں کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس دوست محمد خان نے ایس ایس پی انوسٹی گیشن جاوید ضمیر الدین فاروقی سے بوری بند لاشوں کے مقدمات کی تفتیش میں ہونے والی پیش رفت سے متعلق پوچھا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ تحقیقات جاری ہے تاہم مقتولین کے ورثاء کسی پر دعویداری نہیں کر رہے اور نہ ہی کسی خاص اہلکار کو نامزد کر رہے بلکہ ایجنسیوں کا نام لے رہے ہیں جس کی وجہ سے تفتیش کا عمل آگے نہیں بڑھ رہا۔
چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ یہ کام تو پولیس کا ہے کہ ایجنسی اور ان کے اہلکاروں کا پتہ لگائے لیکن یہاں سارا بوجھ مقتول کے لواحقین پر ڈالا جا رہا ہے۔
ڈی ایس پی انوسٹی گیشن نے عدالت کو بتایا کہ مختلف مقدمات میں لواحقین کے بیانات قلم بند کیےگئے ہیں جو عدالت کو لفافوں میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے عام شہری اور اعلی شخصیت کی زندگی ایک جیسی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اگر سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقات کے لیے سکاٹ لینڈ یارڈ کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں تو ہم عام شہریوں کی قتل کی تفتیش کے لیے وفاقی حکومت کو برطانوی پولیس کی خدمات حاصل کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔
دوست محمد خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت شہر پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے ہاتھوں یرغمال ہے لیکن قاتل دنداناتے پھر رہے ہیں، اگر ہندوستانی پولیس ایک کرنل کو جیل میں بند کر سکتی ہے تو آپ پولیس والے کیوں ڈرتے ہیں عدالت آپ کے ساتھ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ پولیس نتائج نہیں دے رہی، اگر قاتلوں کا پتہ نہ چلا تو جس تھانہ کے حدود میں بوری بند لاش ملی گی تو ان متعلقہ تھانوں کے ایس ایچ اوز کو نوکری سے برخاست کرنے کے لیے لکھا جائے گا۔
عدالت عالیہ نے پولیس کو آخری موقع دیتے ہوئے حکم دیا کہ تمام ریکارڈ عدالتی فائل پر لایا جائے اور اصل ملزمان کو بے نقاب کیا جائے بصورت دیگر سخت کارروائی کی جائیگی۔
عدالت نے کیس کی سماعت 23 جولائی تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع اور بالخصوص پشاور میں گزشتہ کئی ماہ سے بوری بند لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے اور ابتک کوئی پینتیس کے قریب لاشیں ملی چکی ہیں۔ تاہم ابھی یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان افراد کے قتل میں کون لوگ ملوث ہیں۔
-----------------------------------------
ربط
آخری وقت اشاعت: منگل 25 جون 2013 , 14:57 GMT 19:57 PST
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ اگر خیبر پختونخوا پولیس بوری بند لاشوں کے مقدمات میں تفتیش مکمل نہیں کرسکتی ہے تو پھر وہ برطانوی پولیس سکاٹ لینڈ یارڈ کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں۔
چیف جسٹس کے مطابق ان کے نزدیک عام شہری اور اعلی شخصیت برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ ریمارکس چیف جسٹس دوست محمد خان نے بوری بند لاشوں سے متعلق ہیومن رائٹس ڈائریکٹوریٹ کی رپورٹ پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے موقع پر دیے۔
فاضل بینچ چیف جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس اسد اللہ چمکنی پر مشتمل تھا۔
عدالت عالیہ میں کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس دوست محمد خان نے ایس ایس پی انوسٹی گیشن جاوید ضمیر الدین فاروقی سے بوری بند لاشوں کے مقدمات کی تفتیش میں ہونے والی پیش رفت سے متعلق پوچھا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ تحقیقات جاری ہے تاہم مقتولین کے ورثاء کسی پر دعویداری نہیں کر رہے اور نہ ہی کسی خاص اہلکار کو نامزد کر رہے بلکہ ایجنسیوں کا نام لے رہے ہیں جس کی وجہ سے تفتیش کا عمل آگے نہیں بڑھ رہا۔
چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ یہ کام تو پولیس کا ہے کہ ایجنسی اور ان کے اہلکاروں کا پتہ لگائے لیکن یہاں سارا بوجھ مقتول کے لواحقین پر ڈالا جا رہا ہے۔
ڈی ایس پی انوسٹی گیشن نے عدالت کو بتایا کہ مختلف مقدمات میں لواحقین کے بیانات قلم بند کیےگئے ہیں جو عدالت کو لفافوں میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے عام شہری اور اعلی شخصیت کی زندگی ایک جیسی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اگر سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقات کے لیے سکاٹ لینڈ یارڈ کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں تو ہم عام شہریوں کی قتل کی تفتیش کے لیے وفاقی حکومت کو برطانوی پولیس کی خدمات حاصل کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔
دوست محمد خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت شہر پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے ہاتھوں یرغمال ہے لیکن قاتل دنداناتے پھر رہے ہیں، اگر ہندوستانی پولیس ایک کرنل کو جیل میں بند کر سکتی ہے تو آپ پولیس والے کیوں ڈرتے ہیں عدالت آپ کے ساتھ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ پولیس نتائج نہیں دے رہی، اگر قاتلوں کا پتہ نہ چلا تو جس تھانہ کے حدود میں بوری بند لاش ملی گی تو ان متعلقہ تھانوں کے ایس ایچ اوز کو نوکری سے برخاست کرنے کے لیے لکھا جائے گا۔
عدالت عالیہ نے پولیس کو آخری موقع دیتے ہوئے حکم دیا کہ تمام ریکارڈ عدالتی فائل پر لایا جائے اور اصل ملزمان کو بے نقاب کیا جائے بصورت دیگر سخت کارروائی کی جائیگی۔
عدالت نے کیس کی سماعت 23 جولائی تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع اور بالخصوص پشاور میں گزشتہ کئی ماہ سے بوری بند لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے اور ابتک کوئی پینتیس کے قریب لاشیں ملی چکی ہیں۔ تاہم ابھی یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان افراد کے قتل میں کون لوگ ملوث ہیں۔