حسان خان
لائبریرین
پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو صرف فوج کی جنگ سمجھنا ہمیں انتشار کی طرف لے جائے گا جس کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔
جنرل کیانی نے منگل کوجی ایچ کیو راولپنڈی میں’یوم شہدا 2012‘ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں دہشت گردی اور شدت پسندی کا ناسور سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں اور عام شہریوں سمیت ہزاروں افراد کی جان لے چکا ہے اور ہمارے بیرونی دشمن اس آگ کو مزید بھڑکانے میں مصروف ہیں۔
’اس خونریزی کے باوجود کچھ حلقے اب بھی اس بحث میں الجھا رہنا چاہتے ہیں کہ یہ جنگ کیوں شروع ہوئی اور کس نے مسلط کی، اس کی وجوہات کو سمجھنا اور ان کا ادراک کرنا اپنی جگہ ضروری سہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور پاکستانی عوام آج اس کا نشانہ ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ 11 مئی کا دن ہم سب کے لئے سنہری موقع ہے جس سے ایک نیا آغاز ہوسکتا ہے۔ ’اگر ہم لسانی، سماجی اور فرقہ وارانہ تعصب سے بلند ہوکر صرف اہلیت اور ایمانداری کی بنا پر ووٹ کا استعمال کرسکے تو نہ آمریت کا خوف ہوگا اور نہ شکوہ۔‘
جنرل کیانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگر کوئی گروہ پاکستان کے آئین اور قانون سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے غلط نظریات ہم پر جبراً مسلط کرنا چاہے اور اس مقصد کے لیے ہر قسم کی حونریزی کو نہ صرف جائز سجھتا ہو بلکہ پاکستانی ریاست، جموری عمل اور بے گناہ شہریوں کے خلاف باقاعدہ ہتھیار بند ہو جائے تو کیا اس کا قلع قمع کرنا کسی اور کی جنگ ہے؟
جنرل کیانی کے بقول آج کی مہذب ترین اور جمہوری ممالک کی تاریخ میں بھی ملک اور آئین سے بغاوت کبھی برداشت نہیں کی گئی اور ایسے موقع پر فوج کو ہمیشہ عوام کی مکمل حمایت حاصل رہی لیکن کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کہ کیا یہ ہماری جنگ ہے اور ایک سپاہی کا ذہن اور اس کا مشن اس قسم کے شکوک کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
جنرل کیانی نے کہا کہ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ تمام لوگ جو پاکستان کے خلاف ہتھیار بند ہیں لیکن صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ وہ غیر مشروط طور پر پاکستان اور اس کے آئین کی مکمل اطلاعات قبول کر کے قومی دھارے میں واپس آ جائیں۔
’ریاست کے باغیوں سے نمٹنے کے معاملے میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب ہم سب آپس کے باہم مشورے سے قوم کی امنگوں اور ہلاک ہونے والے خون کی قدر کرتے ہوئے ایک حکمت عملی پر یکسو ہو جائیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو صرف فوج کی جنگ سمجھنا ہمیں انتشار کی طرف لے جائےگا جس کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔‘
جنرل کیانی نے عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ’ملک میں انتخابات کا انعقاد گیارہ مئی کو ہی ہو گا اور ہمیں اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔‘
جنرل کیانی کے بقول’میری نظر میں جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی کا اعصاب شکن کھیل صرف سزا اور جزا کے نظام ہی سے نہیں بلکہ عوام کی آگہی اور بھرپور شمولیت سے ہی ختم ہو سکتا ہے۔‘
’میں یقین دلاتا ہوں کہ فوج اپنی تمام تر بساط اور صلاحیت کے مطابق اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے انتخابات کے صاف و شفاف اور پرامن انعقاد میں بھرپور معاونت کرے گی‘
ربط
جنرل کیانی نے منگل کوجی ایچ کیو راولپنڈی میں’یوم شہدا 2012‘ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں دہشت گردی اور شدت پسندی کا ناسور سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں اور عام شہریوں سمیت ہزاروں افراد کی جان لے چکا ہے اور ہمارے بیرونی دشمن اس آگ کو مزید بھڑکانے میں مصروف ہیں۔
’اس خونریزی کے باوجود کچھ حلقے اب بھی اس بحث میں الجھا رہنا چاہتے ہیں کہ یہ جنگ کیوں شروع ہوئی اور کس نے مسلط کی، اس کی وجوہات کو سمجھنا اور ان کا ادراک کرنا اپنی جگہ ضروری سہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور پاکستانی عوام آج اس کا نشانہ ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ 11 مئی کا دن ہم سب کے لئے سنہری موقع ہے جس سے ایک نیا آغاز ہوسکتا ہے۔ ’اگر ہم لسانی، سماجی اور فرقہ وارانہ تعصب سے بلند ہوکر صرف اہلیت اور ایمانداری کی بنا پر ووٹ کا استعمال کرسکے تو نہ آمریت کا خوف ہوگا اور نہ شکوہ۔‘
جنرل کیانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگر کوئی گروہ پاکستان کے آئین اور قانون سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے غلط نظریات ہم پر جبراً مسلط کرنا چاہے اور اس مقصد کے لیے ہر قسم کی حونریزی کو نہ صرف جائز سجھتا ہو بلکہ پاکستانی ریاست، جموری عمل اور بے گناہ شہریوں کے خلاف باقاعدہ ہتھیار بند ہو جائے تو کیا اس کا قلع قمع کرنا کسی اور کی جنگ ہے؟
جنرل کیانی کے بقول آج کی مہذب ترین اور جمہوری ممالک کی تاریخ میں بھی ملک اور آئین سے بغاوت کبھی برداشت نہیں کی گئی اور ایسے موقع پر فوج کو ہمیشہ عوام کی مکمل حمایت حاصل رہی لیکن کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کہ کیا یہ ہماری جنگ ہے اور ایک سپاہی کا ذہن اور اس کا مشن اس قسم کے شکوک کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
جنرل کیانی نے کہا کہ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ تمام لوگ جو پاکستان کے خلاف ہتھیار بند ہیں لیکن صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ وہ غیر مشروط طور پر پاکستان اور اس کے آئین کی مکمل اطلاعات قبول کر کے قومی دھارے میں واپس آ جائیں۔
’ریاست کے باغیوں سے نمٹنے کے معاملے میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب ہم سب آپس کے باہم مشورے سے قوم کی امنگوں اور ہلاک ہونے والے خون کی قدر کرتے ہوئے ایک حکمت عملی پر یکسو ہو جائیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو صرف فوج کی جنگ سمجھنا ہمیں انتشار کی طرف لے جائےگا جس کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔‘
جنرل کیانی نے عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ’ملک میں انتخابات کا انعقاد گیارہ مئی کو ہی ہو گا اور ہمیں اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔‘
جنرل کیانی کے بقول’میری نظر میں جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی کا اعصاب شکن کھیل صرف سزا اور جزا کے نظام ہی سے نہیں بلکہ عوام کی آگہی اور بھرپور شمولیت سے ہی ختم ہو سکتا ہے۔‘
’میں یقین دلاتا ہوں کہ فوج اپنی تمام تر بساط اور صلاحیت کے مطابق اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے انتخابات کے صاف و شفاف اور پرامن انعقاد میں بھرپور معاونت کرے گی‘
ربط