arifkarim
معطل
’برفانی دور ممکنہ طور پر 50 ہزار سال تک ٹل گیا‘
جرمنی کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسان کی جانب سے ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کو شامل کرنے کی وجہ سے اگلا برفانی دور ممکنہ طور پر 50 ہزار سال سے زیادہ تک کے عرصے کے لیے ٹل گیا ہے۔
انھوں نے 12 ہزار سال قبل زمین کے جمنے کی وجوہات کا تجزیہ پیش کیا اور معلوم کیا کہ سورج کے اطراف میں زمین کے مدار کی شکل بھی اس انجماد کا باعث ہو سکتی ہے لیکن فضا میں کاربن ڈائی اوکسائیڈ کی اونچی سطح اس عمل کو روک رہی ہے۔
انھوں نیچر نامی جریدے میں چھپنے والی تحقیق میں کہا ہے کہ زمین ایک طویل اور گرم دور کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔
پوٹسڈیم انسٹیٹیوٹ فار کلائمٹ امپیکٹ ریسرچ سے تعلق رکھنے والے اینڈری گانوپولسکی کا کہنا ہے کہ ’اصولی طور پر اگلا برفانی دور مزید آگے چلا گیا ہے۔ لیکن اس بات کا کوئی حتمی علم نہیں ہے کہ وہ آج سے 50 ہزار سال بعد شروع ہو گا یا پھر ایک لاکھ سال بعد۔‘
انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا ’اہم چیز یہ ہے کہ ہم نے وہ طاقت حاصل کر لی ہے کہ قدرت کی ترتیب کو ہزاروں سال تک اگے لے جا سکتے ہیں۔‘
زمین کے برفانی دور میں داخل ہونے کی بنیادی وجہ سورج کے گرد اس کے مدار کی تبدیل ہوتی ہوئی شکل ہے۔
سورج کے گرد زمین کا مدار مکمل دائرے کی شکل میں نہیں ہے اور وقت کے ساتھ ہمارے سیارے کی گردش کا محور بھی آگے پیچھے ہوتا رہتا ہے۔
یہ حرکات زمین کی سطح پر پڑنے والی شمسی حدت کی مقدار میں تبدیلی کا باعث ہوتی ہیں۔ اور جب یہ تعداد کرہ شمالی پر ایک خاص حد تک پہنچ جاتی ہے تو برف جمنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے، جو برفانی دور پر منتج ہوتا ہے اور زمین کا بڑا حصہ برف تلے دب جاتا ہے۔
ڈاکٹر گانوپولسکی کے ساتھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کی کثافت کا بھی اہم کردار ہے۔
ان کی معلومات کے مطابق چند سو سال پہلے صنعتی انقلاب سے کچھ عرصہ قبل تک زمین برف کے دور میں داخل ہونے کے تقریباً دہانے پر تھی۔
’اور اگر دو سو سال قبل ہمارے ماحول میں ہر فی دس لاکھ 240 حصے کاربن ڈائی اوکسائیڈ موجود ہوتی تو برفانی دور شروع ہو سکتا تھا، لیکن خوش قسمتی سے اس وقت ہمارے ماحول میں کاربن کی کثافت فی دس لاکھ 280 حصے تھی۔‘
آج کل کے صنعتی معاشرے میں یہ کثافت فی دس لاکھ 400 حصے ہے۔
ٹیم کا کہنا ہے کہ گذشتہ 20 ہزار سال سے انٹرگلیشئل موسم برقرار ہے اور ممکن ہے کہ اگلے 50ہزار سال تک قائم رہے، چاہے کاربن ڈائی اوکسائید کی سطح 18ویں صدی جتنی ہی نہ ہو جائے۔
لنک
جرمنی کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسان کی جانب سے ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کو شامل کرنے کی وجہ سے اگلا برفانی دور ممکنہ طور پر 50 ہزار سال سے زیادہ تک کے عرصے کے لیے ٹل گیا ہے۔
انھوں نے 12 ہزار سال قبل زمین کے جمنے کی وجوہات کا تجزیہ پیش کیا اور معلوم کیا کہ سورج کے اطراف میں زمین کے مدار کی شکل بھی اس انجماد کا باعث ہو سکتی ہے لیکن فضا میں کاربن ڈائی اوکسائیڈ کی اونچی سطح اس عمل کو روک رہی ہے۔
انھوں نیچر نامی جریدے میں چھپنے والی تحقیق میں کہا ہے کہ زمین ایک طویل اور گرم دور کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔
پوٹسڈیم انسٹیٹیوٹ فار کلائمٹ امپیکٹ ریسرچ سے تعلق رکھنے والے اینڈری گانوپولسکی کا کہنا ہے کہ ’اصولی طور پر اگلا برفانی دور مزید آگے چلا گیا ہے۔ لیکن اس بات کا کوئی حتمی علم نہیں ہے کہ وہ آج سے 50 ہزار سال بعد شروع ہو گا یا پھر ایک لاکھ سال بعد۔‘
انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا ’اہم چیز یہ ہے کہ ہم نے وہ طاقت حاصل کر لی ہے کہ قدرت کی ترتیب کو ہزاروں سال تک اگے لے جا سکتے ہیں۔‘
اصولی طور پر اگلا برفانی دور مزید آگے چلا گیا ہے۔ لیکن اس بات کا کوئی حتمی علم نہیں ہے کہ وہ آج سے 50 ہزار سال بعد شروع ہو گا یا پھر ایک لاکھ سال بعد۔ اہم چیز یہ ہے کہ ہم نے وہ طاقت حاصل کر لی ہے کہ قدرت کی ترتیب کو ہزاروں سال تک اگے لے جا سکتے ہیں۔
پوٹسڈیم انسٹیٹیوٹ فار کلائمٹ امپیکٹ ریسرچ سے تعلق رکھنے والے اینڈری گانوپولسکی
انھوں نے کواٹرنیری دور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کرۂ ارض گذشتہ 25 لاکھ سالوں سے برفانی ادوار اور گرم زمانوں سے گزرتا رہا ہے۔ اس دوران برف کی تہیں جمتی اور پگھلتی رہی ہیں۔ گلیشیئر جمنے کا آخری واقعہ شمالی امریکہ، شمالی یورپ، روس اور ایشیا میں ہوئی تھی۔ جبکہ جنوب میں موجودہ چلی اور ارجنٹائن کے وسیع علاقے بھی منجمد ہوگئے تھے۔پوٹسڈیم انسٹیٹیوٹ فار کلائمٹ امپیکٹ ریسرچ سے تعلق رکھنے والے اینڈری گانوپولسکی
زمین کے برفانی دور میں داخل ہونے کی بنیادی وجہ سورج کے گرد اس کے مدار کی تبدیل ہوتی ہوئی شکل ہے۔
سورج کے گرد زمین کا مدار مکمل دائرے کی شکل میں نہیں ہے اور وقت کے ساتھ ہمارے سیارے کی گردش کا محور بھی آگے پیچھے ہوتا رہتا ہے۔
یہ حرکات زمین کی سطح پر پڑنے والی شمسی حدت کی مقدار میں تبدیلی کا باعث ہوتی ہیں۔ اور جب یہ تعداد کرہ شمالی پر ایک خاص حد تک پہنچ جاتی ہے تو برف جمنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے، جو برفانی دور پر منتج ہوتا ہے اور زمین کا بڑا حصہ برف تلے دب جاتا ہے۔
ڈاکٹر گانوپولسکی کے ساتھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کی کثافت کا بھی اہم کردار ہے۔
ان کی معلومات کے مطابق چند سو سال پہلے صنعتی انقلاب سے کچھ عرصہ قبل تک زمین برف کے دور میں داخل ہونے کے تقریباً دہانے پر تھی۔
’اور اگر دو سو سال قبل ہمارے ماحول میں ہر فی دس لاکھ 240 حصے کاربن ڈائی اوکسائیڈ موجود ہوتی تو برفانی دور شروع ہو سکتا تھا، لیکن خوش قسمتی سے اس وقت ہمارے ماحول میں کاربن کی کثافت فی دس لاکھ 280 حصے تھی۔‘
آج کل کے صنعتی معاشرے میں یہ کثافت فی دس لاکھ 400 حصے ہے۔
ٹیم کا کہنا ہے کہ گذشتہ 20 ہزار سال سے انٹرگلیشئل موسم برقرار ہے اور ممکن ہے کہ اگلے 50ہزار سال تک قائم رہے، چاہے کاربن ڈائی اوکسائید کی سطح 18ویں صدی جتنی ہی نہ ہو جائے۔
لنک