’بندوق ڈگری سے بہتر لگتی ہے‘
ریاض مسروربی بی سی اردو ڈاٹ کام، سری نگر
Image caption21 سالہ برہان مظفر وانی اس نئی تحریک کے اعلی کمانڈر کے طور معروف ہیں اور ہتھیاروں سے لیس ہوکر وہ تصویروں میں نظر آتے ہیں
بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹرا کی ناگپور یونیورسٹی سے فزیکل ایجوکیشن کی ڈگری لینے کے بعد 24 سالہ طالب علم طالب حسین شاہ واپس کشمیر لوٹے تو یہاں فرضی جھڑپوں کی ہمہ گیر احتجاجی تحریک عروج پر تھی۔
یہ سنہ 2010 کا موسم گرما تھا اور کم سن لڑکوں کی چھاتیاں گولیوں سے چھلنی دیکھ کر بعض مظاہروں میں طالب حسین نے بھی شرکت کی لیکن فوراً ہی انھیں مزید تعلیم کا شوق ہوا۔
چنانچہ انھوں نے اندرا گاندھی اوپن یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ میں داخلہ لیا۔ ایم اے کی ڈگری کے بعد انھوں نے فیزیکل ایجوکیش میں اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے لیے کشمیر یونیورسٹی میں درخواست دی لیکن پولیس ان پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے تھی۔
ان کے بڑے بھائی فردوس شاہ کہتے ہیں کہ پولیس کا یہی تعاقب طالب حسین کی طبیعت میں تبدیلی کا باعث بنا۔ ’پھر وہ زیادہ تر اسلام کے انقلابی لٹریچر کا مطالعہ کرنے لگے۔ ظاہر ہے ان تحریروں کا انھوں نے گہرا اثر لیا، اور اسی دوران ان کے خلاف پولیس نے دو درجن مقدمے درج کیے۔‘
فردوس کہتے ہیں کہ مارچ سنہ 2014 میں ایک دن ایسا آیا کہ طالب کو یونیورسٹی میں داخلے کے امتحان کے لیے جانا تھا اور اسی روز انھیں عدالت میں بھی پیش ہونا تھا۔ ’وہ بہت تناؤ میں تھے، اور اچانک روپوش ہوگئے۔ نہ عدالت گئے اور نہ کمرۂ امتحان، انھوں نے جنگل کا راستہ لیا اور بندوق تھام لی۔‘
واضح رہے طالب شاہ اُن چار نوجوانوں میں شامل ہیں جو رتانی پورہ گاؤں میں ہونے والے الگ الگ تصادموں کے دوران مارے گئے۔ ضلعے میں نوجوانوں نے مارے جانے والے مسلح کمانڈروں کے حق میں مظاہرے کیے اور دس روز تک ہڑتال کی گئی۔
یہ اب ایک معمول بن چکا ہے۔ مارے جانے والے مسلح مزاحمت کاروں کے جنازوں میں ہزاروں لوگ شرکت کرتے ہیں، بچے نعرے بازی کرتے ہیں اور خواتین نوحہ خواں نظر آتی ہیں۔
طالب کی لائبریری میں کُلیات اقبال اور مولانا مودودی کی ’سیرت سرور عالم‘ موجود ہے، اور فردوس کا کہنا ہے کہ بے شمار کتابیں فورسز کے ڈر سے ضائع کر دی گئیں۔ فردوس کہتے ہیں کہ طالب جیسے نوجوانوں کو اب ’ڈگری سے بندوق بہتر لگتی ہے۔‘
طالب جیسے درجنوں نوجوان ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود مسلح گروپوں میں شامل ہوچکے ہیں۔
فوجی کمانڈر لیفٹنٹ جنرل سوبرت ساہا کے مطابق نوجوانوں کا مسلح مزاحمت کی طرف مائل ہونا واقعی تشویشناک ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ مزاحمت کی اس لہر کے خلاف کامیاب آپریشن ہورہے ہیں۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق کشمیر میں فی الوقت 142مسلح مزاحمت کار سرگرم ہیں جن میں سے 54 غیر کشمیری ہیں اور 88 مقامی ہیں جبکہ 30 سے زائد نوجوان رواں برس کے سات ماہ میں مسلح گروپوں میں شامل ہوئے ہیں۔
ان میں سے بیشتر نے ایک سے زیادہ شعبۂ علم میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں اور پولیس کا کہنا ہے کہ جنوبی کشمیر کے اضلاع پلوامہ اور شوپیاں کے جنگلات میں یہ نوجوان منظم ہورہے ہیں۔
جنوبی کشمیر کے ہی ترال قصبے کے رہنے والے 21 سالہ برہان مظفر وانی اس نئی تحریک کے اعلیٰ کمانڈر کے طور معروف ہیں۔
ہتھیاروں سے لیس ہوکر وہ تصویروں میں نظر آتے ہیں اور سوشل میڈیا پر مقبول ہورہے ہیں۔ انھوں نے اپنے تازہ ویڈیو پیغام میں نوجوانوں سے ’جہاد‘ کرنے کی اپیل کی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو پیغام کے بعد شمال میں سات نوجوان روپوش ہوکر مسلح مزاحمت کاروں کی صفوں میں شامل ہوچکے ہیں۔
برہان اور ان کے بھائی خالد کو سنہ 2010 میں پولیس نے ہراساں کیا، انھیں حراست میں اذیتیں دی گئیں جس کے بعد بُرہان روپوش ہوگئے اور کچھ ہی ماہ بعد حزب المجاہدین میں شامل ہوگئے۔
قابل ذکر ہے کہ کشمیر میں اب پستول بردار اچانک پولیس یا نیم فوجی اہلکاروں کو نزدیک سے گولی مار کر ہلاک کرتے ہیں اور ان کا اسلحہ چھین کر فرار ہوجاتے ہیں۔
اسلحہ چھیننے کے ان واقعات سے متعلق کشمیر میں تعینات فوجی کمانڈر لیفٹنٹ جنرل سوبرت ساہا کا کہنا ہے: ’لائن آف کنٹرول پر نگرانی سخت ہے، اور ہتھیاروں کی سمگلنگ اب ممکن نہیں۔ اسی لیے یہ لوگ اب ہتھیار چھیننے کی حکمت عملی اپنا رہے ہیں۔‘
سنہ 1990 میں جب کشمیر میں مسلح مزاحمت شروع ہوئی تو فوری طور پر حکومت ہند نے مذاکرات کی پیشکش کی لیکن اب حکومت ہند ان واقعات کو نظرانداز کررہی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سنہ 1990 میں بھارت کی معاشی حالت کمزور تھی، اور اس کے دفاعی اتحادی سویت یونین کو افغانستان میں شکست کا سامنا تھا۔ لیکن اب بھارت اور امریکہ کے درمیان نیوکلیائی معاہدہ ہوچکاہے، معیشت مضبوط ہورہی ہے اور ملک پر ہندوقوم پرست بی جے پی کا اقتدار قائم ہو چکا ہے۔
کیا مسلح مزاحمت کے اس نئے رجحان کی وجہ دولت اسلامیہ اور طالبان کا عروج ہے؟ تجزیہ نگار ڈاکٹر شیخ شوکت حسین کہتے ہیں: ’کشمیر کا سماج افغانستان اور عراق سے مختلف ہے۔ یہاں لوگوں کا کوئی عالمی ایجنڈا نہیں ہے۔ یہ تحریک مقامی ہے اور اس کا مطالبہ خالص سیاسی اور قانونی ہے۔ لیکن اگر مسئلہ کشمیر کے حل میں مزید تاخیر ہوئی تو نظریاتی حد تک داعش کی لہر یہاں وارد ہو سکتی ہے۔‘
ریاض مسروربی بی سی اردو ڈاٹ کام، سری نگر
Image caption21 سالہ برہان مظفر وانی اس نئی تحریک کے اعلی کمانڈر کے طور معروف ہیں اور ہتھیاروں سے لیس ہوکر وہ تصویروں میں نظر آتے ہیں
بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹرا کی ناگپور یونیورسٹی سے فزیکل ایجوکیشن کی ڈگری لینے کے بعد 24 سالہ طالب علم طالب حسین شاہ واپس کشمیر لوٹے تو یہاں فرضی جھڑپوں کی ہمہ گیر احتجاجی تحریک عروج پر تھی۔
یہ سنہ 2010 کا موسم گرما تھا اور کم سن لڑکوں کی چھاتیاں گولیوں سے چھلنی دیکھ کر بعض مظاہروں میں طالب حسین نے بھی شرکت کی لیکن فوراً ہی انھیں مزید تعلیم کا شوق ہوا۔
چنانچہ انھوں نے اندرا گاندھی اوپن یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ میں داخلہ لیا۔ ایم اے کی ڈگری کے بعد انھوں نے فیزیکل ایجوکیش میں اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے لیے کشمیر یونیورسٹی میں درخواست دی لیکن پولیس ان پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے تھی۔
ان کے بڑے بھائی فردوس شاہ کہتے ہیں کہ پولیس کا یہی تعاقب طالب حسین کی طبیعت میں تبدیلی کا باعث بنا۔ ’پھر وہ زیادہ تر اسلام کے انقلابی لٹریچر کا مطالعہ کرنے لگے۔ ظاہر ہے ان تحریروں کا انھوں نے گہرا اثر لیا، اور اسی دوران ان کے خلاف پولیس نے دو درجن مقدمے درج کیے۔‘
فردوس کہتے ہیں کہ مارچ سنہ 2014 میں ایک دن ایسا آیا کہ طالب کو یونیورسٹی میں داخلے کے امتحان کے لیے جانا تھا اور اسی روز انھیں عدالت میں بھی پیش ہونا تھا۔ ’وہ بہت تناؤ میں تھے، اور اچانک روپوش ہوگئے۔ نہ عدالت گئے اور نہ کمرۂ امتحان، انھوں نے جنگل کا راستہ لیا اور بندوق تھام لی۔‘
واضح رہے طالب شاہ اُن چار نوجوانوں میں شامل ہیں جو رتانی پورہ گاؤں میں ہونے والے الگ الگ تصادموں کے دوران مارے گئے۔ ضلعے میں نوجوانوں نے مارے جانے والے مسلح کمانڈروں کے حق میں مظاہرے کیے اور دس روز تک ہڑتال کی گئی۔
یہ اب ایک معمول بن چکا ہے۔ مارے جانے والے مسلح مزاحمت کاروں کے جنازوں میں ہزاروں لوگ شرکت کرتے ہیں، بچے نعرے بازی کرتے ہیں اور خواتین نوحہ خواں نظر آتی ہیں۔
طالب کی لائبریری میں کُلیات اقبال اور مولانا مودودی کی ’سیرت سرور عالم‘ موجود ہے، اور فردوس کا کہنا ہے کہ بے شمار کتابیں فورسز کے ڈر سے ضائع کر دی گئیں۔ فردوس کہتے ہیں کہ طالب جیسے نوجوانوں کو اب ’ڈگری سے بندوق بہتر لگتی ہے۔‘
طالب جیسے درجنوں نوجوان ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود مسلح گروپوں میں شامل ہوچکے ہیں۔
فوجی کمانڈر لیفٹنٹ جنرل سوبرت ساہا کے مطابق نوجوانوں کا مسلح مزاحمت کی طرف مائل ہونا واقعی تشویشناک ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ مزاحمت کی اس لہر کے خلاف کامیاب آپریشن ہورہے ہیں۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق کشمیر میں فی الوقت 142مسلح مزاحمت کار سرگرم ہیں جن میں سے 54 غیر کشمیری ہیں اور 88 مقامی ہیں جبکہ 30 سے زائد نوجوان رواں برس کے سات ماہ میں مسلح گروپوں میں شامل ہوئے ہیں۔
ان میں سے بیشتر نے ایک سے زیادہ شعبۂ علم میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں اور پولیس کا کہنا ہے کہ جنوبی کشمیر کے اضلاع پلوامہ اور شوپیاں کے جنگلات میں یہ نوجوان منظم ہورہے ہیں۔
جنوبی کشمیر کے ہی ترال قصبے کے رہنے والے 21 سالہ برہان مظفر وانی اس نئی تحریک کے اعلیٰ کمانڈر کے طور معروف ہیں۔
ہتھیاروں سے لیس ہوکر وہ تصویروں میں نظر آتے ہیں اور سوشل میڈیا پر مقبول ہورہے ہیں۔ انھوں نے اپنے تازہ ویڈیو پیغام میں نوجوانوں سے ’جہاد‘ کرنے کی اپیل کی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو پیغام کے بعد شمال میں سات نوجوان روپوش ہوکر مسلح مزاحمت کاروں کی صفوں میں شامل ہوچکے ہیں۔
برہان اور ان کے بھائی خالد کو سنہ 2010 میں پولیس نے ہراساں کیا، انھیں حراست میں اذیتیں دی گئیں جس کے بعد بُرہان روپوش ہوگئے اور کچھ ہی ماہ بعد حزب المجاہدین میں شامل ہوگئے۔
قابل ذکر ہے کہ کشمیر میں اب پستول بردار اچانک پولیس یا نیم فوجی اہلکاروں کو نزدیک سے گولی مار کر ہلاک کرتے ہیں اور ان کا اسلحہ چھین کر فرار ہوجاتے ہیں۔
اسلحہ چھیننے کے ان واقعات سے متعلق کشمیر میں تعینات فوجی کمانڈر لیفٹنٹ جنرل سوبرت ساہا کا کہنا ہے: ’لائن آف کنٹرول پر نگرانی سخت ہے، اور ہتھیاروں کی سمگلنگ اب ممکن نہیں۔ اسی لیے یہ لوگ اب ہتھیار چھیننے کی حکمت عملی اپنا رہے ہیں۔‘
سنہ 1990 میں جب کشمیر میں مسلح مزاحمت شروع ہوئی تو فوری طور پر حکومت ہند نے مذاکرات کی پیشکش کی لیکن اب حکومت ہند ان واقعات کو نظرانداز کررہی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سنہ 1990 میں بھارت کی معاشی حالت کمزور تھی، اور اس کے دفاعی اتحادی سویت یونین کو افغانستان میں شکست کا سامنا تھا۔ لیکن اب بھارت اور امریکہ کے درمیان نیوکلیائی معاہدہ ہوچکاہے، معیشت مضبوط ہورہی ہے اور ملک پر ہندوقوم پرست بی جے پی کا اقتدار قائم ہو چکا ہے۔
کیا مسلح مزاحمت کے اس نئے رجحان کی وجہ دولت اسلامیہ اور طالبان کا عروج ہے؟ تجزیہ نگار ڈاکٹر شیخ شوکت حسین کہتے ہیں: ’کشمیر کا سماج افغانستان اور عراق سے مختلف ہے۔ یہاں لوگوں کا کوئی عالمی ایجنڈا نہیں ہے۔ یہ تحریک مقامی ہے اور اس کا مطالبہ خالص سیاسی اور قانونی ہے۔ لیکن اگر مسئلہ کشمیر کے حل میں مزید تاخیر ہوئی تو نظریاتی حد تک داعش کی لہر یہاں وارد ہو سکتی ہے۔‘