محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹنگ کا معاملہ: ’خفیہ رائے شماری کا حق چھینا گیا تو اراکین اسمبلی ’ڈیپ سٹیٹ`کے رحم وکرم پر ہوں گے‘
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ بیلٹ پیپرز سیل کیے جانے کے باوجود 'ڈیپ سٹیٹ کی ان تک رسائی ہوتی ہے
سپریم کورٹ میں سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹنگ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران حزب مخالف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت اوپن بیلٹنگ نہیں بلکہ ’خفیہ رائے شماری‘ ہی ہوسکتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر سینیٹ کے انتحابات اوپن بیلٹنگ سے کروانے کے بارے میں کوئی فیصلہ دیا گیا تو پھر پارلیمان کے ارکان ’ڈیپ سٹیٹ کے رحم وکرم پر ہوں گے‘۔
اُنھوں نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں 20 پریزائیڈنگ افسران کے ’لاپتہ‘ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’جو ریاست ان افسران کو تحفظ فراہم نہیں کرسکی وہ کیسے ارکان کو تحفظ فراہم کریں گے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’خفیہ رائے شماری کا حق بھی چھینا گیا تو اراکین اسمبلی ’ڈیپ سٹیٹ‘ کے ہاتھوں مشکل میں ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ اس لیے اس بنا پر بھی ووٹ قابل شناخت نہیں ہونے چاہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ڈیپ سٹیٹ کی رسائی بیلٹ پیپر تک ہوتی ہے‘، جس پر بینچ میں موجود جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیے کہ ایسا کوئی معاملہ عدالت کے سامنے نہیں ہے کیونکہ بیلٹ پیپر پولنگ سٹیشن پر ہی سیل کیے جاتے ہیں۔
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ بیلٹ پیپرز سیل کیے جانے کے باوجود ’ڈیپ سٹیٹ کی ان تک رسائی ہوتی ہے یہ آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں‘، جس پر جسٹس اعجاز الااحسن نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔
یہ بھی پڑھیے
سینیٹ الیکشن: ڈر کاہے کو
سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹنگ کا معاملہ: ’نوٹوں سے بھرے بیگ اسلام آباد پہنچ چکے ہیں‘
سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹنگ کا معاملہ: ’نوٹوں سے بھرے بیگ اسلام آباد پہنچ چکے ہیں‘
سینیٹ انتخابات: ’حکومت سیاسی اتفاق رائے پیدا کیوں نہیں کرتی؟‘
انھوں نے کہا کہ حکمراں اتحاد میں شامل جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی میں دوبارہ مردم شماری کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے تو کیا عدالت اس عمل کو کرپشن قرار دے گی۔
صدارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’سیاسی اتحاد خفیہ نہیں ہونے چاہییں‘ جس پر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ بعض سیاسی اتحاد خفیہ ہوتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل کا کہنا تھا کہ سنہ 1962 کا آئین صدارتی نظام کے حوالے سے تھا اور اس میں بھی خفیہ رائے شماری کا ذکر کیا گیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہSCP
،تصویر کا کیپشن
جسٹس اعجاز الاحسن نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ آئین بنانے والوں کی متناسب نمائندگی سے متعلق دانشمندی کہاں گئی
انھوں نے کہا کہ سینیٹ سیاسی جماعتوں کی نہیں بلکہ وفاق کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلیاں براہ راست سیاسی جماعتوں کے فورم ہیں۔
بینچ کے سربراہ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل سے استفسار کیا کہ ان کی دلیل یہ ہے کہ متناسب نمائندگی صرف ووٹ گننے سے متعلق ہے اور اگر سیاسی پارٹیاں تقسیم ہیں تو صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کی سینیٹ میں کیسے نمائندگی ہوگی جس پر رضا ربانی نے جواب دیا کہ ہوسکتا ہے کہ کسی پارٹی کی آپ کو صحیح متناسب نمائندگی نظر آئے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اٹھایا کہ قانون کا اطلاق کہاں ہوتا ہے اگر ’پارٹی اے‘ کی چھ سیٹیں بنتی ہیں اور اسے دو ملی ہیں تو تب کیا ہوگا اور پھر متناسب نمائندگی کہاں گئی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ آئین بنانے والوں کی متناسب نمائندگی سے متعلق دانشمندی کہاں گئی۔ رضا ربانی نے جواب دیا کہ یہ ریاضی کا سوال نہیں اور نہ یہ اے، بی یا پھر سی کی بات ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ سینیٹ ہے اور یہ وفاق کا معاملہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ کسی بھی بات کو سیاق وسباق سے ہٹ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 10 کے تحت کیس ہے، ہر فریق کا حق ہے کہ اسے دیا جائے لیکن جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد اس آئینی حق سے محروم ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ دنیا کی تاریخ اختلاف رائے کرنے والوں سے بھری پڑی ہے اور اختلاف رائے کرنے والے نتائج کی پرواہ نہیں کرتے۔ انھوں نے کہا کہ ڈکٹیٹر کے خلاف بھی لوگوں نے کھل کر اختلاف رائے کیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ آئین میں اختلاف رائے پر کوئی نااہلی نہیں ہوتی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل کا کہنا تھا کہ ملک میں آئین کے تحت مجموعی طور پر بیس الیکشن ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے انتحابات بھی آئین کے تحت ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آئین سازوں نے صرف وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا الیکشن اوپن بیلٹ سے رکھا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیا ڈسپلین کی خلاف ورزی کرنے والے نظام کو چلنے دیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ جہموریت میں انفردای پسند ناپسند اکثریتی رائے پر حاوی نہیں ہوتیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’اچھی جمہوریت کے لیے سیاسی جماعتوں کا مضبوط ہونا ضروری ہے‘، جس پر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ’اونچ نیچ کے بعد عدلیہ میں استحکام آگیا جبکہ سیاسی جماعتوں کو مضبوط ہونے میں جمہوریت کا تسلسل بہت ضروری ہے۔‘
رضا ربانی منگل کے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
- شہزاد ملک
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ بیلٹ پیپرز سیل کیے جانے کے باوجود 'ڈیپ سٹیٹ کی ان تک رسائی ہوتی ہے
سپریم کورٹ میں سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹنگ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران حزب مخالف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت اوپن بیلٹنگ نہیں بلکہ ’خفیہ رائے شماری‘ ہی ہوسکتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر سینیٹ کے انتحابات اوپن بیلٹنگ سے کروانے کے بارے میں کوئی فیصلہ دیا گیا تو پھر پارلیمان کے ارکان ’ڈیپ سٹیٹ کے رحم وکرم پر ہوں گے‘۔
اُنھوں نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں 20 پریزائیڈنگ افسران کے ’لاپتہ‘ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’جو ریاست ان افسران کو تحفظ فراہم نہیں کرسکی وہ کیسے ارکان کو تحفظ فراہم کریں گے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’خفیہ رائے شماری کا حق بھی چھینا گیا تو اراکین اسمبلی ’ڈیپ سٹیٹ‘ کے ہاتھوں مشکل میں ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ اس لیے اس بنا پر بھی ووٹ قابل شناخت نہیں ہونے چاہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ڈیپ سٹیٹ کی رسائی بیلٹ پیپر تک ہوتی ہے‘، جس پر بینچ میں موجود جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیے کہ ایسا کوئی معاملہ عدالت کے سامنے نہیں ہے کیونکہ بیلٹ پیپر پولنگ سٹیشن پر ہی سیل کیے جاتے ہیں۔
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ بیلٹ پیپرز سیل کیے جانے کے باوجود ’ڈیپ سٹیٹ کی ان تک رسائی ہوتی ہے یہ آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں‘، جس پر جسٹس اعجاز الااحسن نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔
یہ بھی پڑھیے
سینیٹ الیکشن: ڈر کاہے کو
سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹنگ کا معاملہ: ’نوٹوں سے بھرے بیگ اسلام آباد پہنچ چکے ہیں‘
سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹنگ کا معاملہ: ’نوٹوں سے بھرے بیگ اسلام آباد پہنچ چکے ہیں‘
سینیٹ انتخابات: ’حکومت سیاسی اتفاق رائے پیدا کیوں نہیں کرتی؟‘
انھوں نے کہا کہ حکمراں اتحاد میں شامل جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی میں دوبارہ مردم شماری کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے تو کیا عدالت اس عمل کو کرپشن قرار دے گی۔
صدارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’سیاسی اتحاد خفیہ نہیں ہونے چاہییں‘ جس پر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ بعض سیاسی اتحاد خفیہ ہوتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل کا کہنا تھا کہ سنہ 1962 کا آئین صدارتی نظام کے حوالے سے تھا اور اس میں بھی خفیہ رائے شماری کا ذکر کیا گیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہSCP
،تصویر کا کیپشن
جسٹس اعجاز الاحسن نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ آئین بنانے والوں کی متناسب نمائندگی سے متعلق دانشمندی کہاں گئی
انھوں نے کہا کہ سینیٹ سیاسی جماعتوں کی نہیں بلکہ وفاق کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلیاں براہ راست سیاسی جماعتوں کے فورم ہیں۔
بینچ کے سربراہ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل سے استفسار کیا کہ ان کی دلیل یہ ہے کہ متناسب نمائندگی صرف ووٹ گننے سے متعلق ہے اور اگر سیاسی پارٹیاں تقسیم ہیں تو صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کی سینیٹ میں کیسے نمائندگی ہوگی جس پر رضا ربانی نے جواب دیا کہ ہوسکتا ہے کہ کسی پارٹی کی آپ کو صحیح متناسب نمائندگی نظر آئے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اٹھایا کہ قانون کا اطلاق کہاں ہوتا ہے اگر ’پارٹی اے‘ کی چھ سیٹیں بنتی ہیں اور اسے دو ملی ہیں تو تب کیا ہوگا اور پھر متناسب نمائندگی کہاں گئی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ آئین بنانے والوں کی متناسب نمائندگی سے متعلق دانشمندی کہاں گئی۔ رضا ربانی نے جواب دیا کہ یہ ریاضی کا سوال نہیں اور نہ یہ اے، بی یا پھر سی کی بات ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ سینیٹ ہے اور یہ وفاق کا معاملہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ کسی بھی بات کو سیاق وسباق سے ہٹ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 10 کے تحت کیس ہے، ہر فریق کا حق ہے کہ اسے دیا جائے لیکن جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد اس آئینی حق سے محروم ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ دنیا کی تاریخ اختلاف رائے کرنے والوں سے بھری پڑی ہے اور اختلاف رائے کرنے والے نتائج کی پرواہ نہیں کرتے۔ انھوں نے کہا کہ ڈکٹیٹر کے خلاف بھی لوگوں نے کھل کر اختلاف رائے کیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ آئین میں اختلاف رائے پر کوئی نااہلی نہیں ہوتی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل کا کہنا تھا کہ ملک میں آئین کے تحت مجموعی طور پر بیس الیکشن ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے انتحابات بھی آئین کے تحت ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آئین سازوں نے صرف وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا الیکشن اوپن بیلٹ سے رکھا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیا ڈسپلین کی خلاف ورزی کرنے والے نظام کو چلنے دیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ جہموریت میں انفردای پسند ناپسند اکثریتی رائے پر حاوی نہیں ہوتیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’اچھی جمہوریت کے لیے سیاسی جماعتوں کا مضبوط ہونا ضروری ہے‘، جس پر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ’اونچ نیچ کے بعد عدلیہ میں استحکام آگیا جبکہ سیاسی جماعتوں کو مضبوط ہونے میں جمہوریت کا تسلسل بہت ضروری ہے۔‘
رضا ربانی منگل کے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔