پانامہ میں سچ مچ نواز شریف صاحب کا براہِ راست نام نہیں تھا۔ اس لیے پانامہ پر بغیر ٹھوس تحقیقات کیے، نااہلی نہیں ہو سکتی تھی۔ اقامہ پر نااہل کرنا کمزور فیصلہ تھا جس کے اثرات اس وقت بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ویسے نواز شریف پر تو عدلیہ نے احسان ہی کیا کہ پانامہ کے بجائے اقامہ پر نا اہل کیا۔
پانامہ میں سچ مچ نواز شریف صاحب کا براہِ راست نام نہیں تھا۔ اس لیے پانامہ پر بغیر ٹھوس تحقیقات کیے، نااہلی نہیں ہو سکتی تھی۔ اقامہ پر نااہل کرنا کمزور فیصلہ تھا جس کے اثرات اس وقت بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
یہ تو خیر مزاح کی ذیل میں بات ہے۔ اس پر نااہلی نہیں ہو سکتی تھی۔یہ بات تو خود نواز شریف نے قوم کو بتائی ہے کہ چور لوگ چوری کا پیسہ اپنے نام سے نہیں رکھتے۔
میرے خیال میں عدالت اقامہ کو قوم سے ’’مخلصی‘‘ ٹیسٹ کرنے کیلئے پیمانہ بنا رہی ہے۔ اور یہ بات درست بھی ہے کہ پبلک آفس ہولڈر ہوتے ہوئے آپ کسی بیرون ملک کے اقامہ پر کیوں بیٹھے ہیں۔پانامہ میں سچ مچ نواز شریف صاحب کا براہِ راست نام نہیں تھا۔ اس لیے پانامہ پر بغیر ٹھوس تحقیقات کیے، نااہلی نہیں ہو سکتی تھی۔ اقامہ پر نااہل کرنا کمزور فیصلہ تھا جس کے اثرات اس وقت بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
دراصل کیس پانامہ پر تھا، اقامہ پر نکال باہر کیا گیا۔ فیصلہ درست تھا، بنیاد کمزور تھی۔میرے خیال میں عدالت اقامہ کو قوم سے ’’مخلصی‘‘ ٹیسٹ کرنے کیلئے پیمانہ بنا رہی ہے۔ اور یہ بات درست بھی ہے کہ پبلک آفس ہولڈر ہوتے ہوئے آپ کسی بیرون ملک کے اقامہ پر کیوں بیٹھے ہیں۔
یہ تو خیر مزاح کی ذیل میں بات ہے۔ اس پر نااہلی نہیں ہو سکتی تھی۔
آپ کی بات درست ہے۔ دراصل سیاسی منظرنامے پر موجود نام نہاد سیاست دان بھی ان مستعد اور چاق و چوبند اداروں کی سوغات ہیں۔سچی بات تو یہی ہے کہ ہمیں میڈیا نے بڑے سے بڑے جرائم پر ہنسنا سکھا دیا ۔سو ہم نےسیاستدانوں کی تمام تر بدعنوانی کو ہنس کر اُڑانا سیکھ لیا ہے۔
اگر عدالت کی مستعدی کسی اور کی مرہونِ منت نہ ہوتی تو نواز شریف اور زرداری کی پاکستان کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں تھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں کم و بیش تمام تر سیاستدان ایسے ایسے کالے کرتوت کر چکے ہیں کہ ان کا آزاد گھومنا ہی پاکستان کے سزا و جزا کے نظام پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
جگہ تو خیر کسی ڈکٹیٹر کی بھی نہیں تھی جسے یہی عدالتیں نظریہ ضرورت کے نام پر حلال کرتی رہی ہیں۔اگر عدالت کی مستعدی کسی اور کی مرہونِ منت نہ ہوتی تو نواز شریف اور زرداری کی پاکستان کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں تھی
جگہ تو خیر کسی ڈکٹیٹر کی بھی نہیں تھی جسے یہی عدالتیں نظریہ ضرورت کے نام پر حلال کرتی رہی ہیں۔
آپ کی بات درست ہے۔ دراصل سیاسی منظرنامے پر موجود نام نہاد سیاست دان بھی ان مستعد اور چاق و چوبند اداروں کی سوغات ہیں۔
این آر او نہ لاتے تو ان کے خلاف بڑے پیمانے پر تحریک شروع ہو جاتی۔ ایک وقت آتا ہے جب کوئی فرد، چاہے وہ کتنا بھی اہم کیوں نہ ہوں، ملکی و غیر ملکی قوتوں کے لیے ناقابل قبول بن جاتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر پرویز مشرف این آر او نہ لاتے تو آج پاکستان کی سیاست کافی مختلف ہوتی۔
بات خاطر میں لانے کی نہیں ہے بلکہ عدل پر قائم رہنے کی ہے۔ افسوس کیساتھ عدلیہ میں ہمیشہ سے ایسی کالی بھیڑیں موجود رہی ہیں جو ذاتی مفادات کو نظریہ ضرورت بنا کر بکنے کو تیار رہتی ہیں۔ جہاں بہت سے ججوں نے ڈکٹیٹرز کے نیچے کام سے انکار کر کے گھر کی راہ لی وہیں دوسروں نے اس کو مراعات کیلئے موقع غنیمت جان کر فائدہ اٹھایا۔ جب تک یہ بھیڑیں موجود ہیں، پاکستان کا عدالتی نظام ایسے ہی چلتا رہے گا۔ڈکٹیٹر عدلیہ کو کب خاطر میں لاتے ہیں۔
ایک شخص جو حکومت میں آیا ہی کارگل کی خفت چھپانے کے لئے تھا اس سے ایسی توقع عبث تھیمیں سمجھتا ہوں کہ اگر پرویز مشرف این آر او نہ لاتے تو آج پاکستان کی سیاست کافی مختلف ہوتی۔
این آر او نہ لاتے تو ان کے خلاف بڑے پیمانے پر تحریک شروع ہو جاتی۔ ایک وقت آتا ہے جب کوئی فرد، چاہے وہ کتنا بھی اہم کیوں نہ ہوں، ملکی و غیر ملکی قوتوں کے لیے ناقابل قبول بن جاتا ہے۔
زرداری پر کتنے سال مقدمے چلے اور کتنے سال اس نے جیل میں کاٹے۔ کیا نتیجہ نکلا اس سب کا؟سچی بات تو یہی ہے کہ ہمیں میڈیا نے بڑے سے بڑے جرائم پر ہنسنا سکھا دیا ۔سو ہم نےسیاستدانوں کی تمام تر بدعنوانی کو ہنس کر اُڑانا سیکھ لیا ہے۔
اگر عدالت کی مستعدی کسی اور کی مرہونِ منت نہ ہوتی تو نواز شریف اور زرداری کی پاکستان کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں تھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں کم و بیش تمام تر سیاستدان ایسے ایسے کالے کرتوت کر چکے ہیں کہ ان کا آزاد گھومنا ہی پاکستان کے سزا و جزا کے نظام پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
مقبول لیڈرشپ، چاہے وہ کرپٹ بھی کیوں نہ ہو، غیر فطری طریقے سے ہٹائی جاتی رہے گی تو یہی کچھ ہوتا رہے گا۔ انہیں اپنے بوجھ سے خود گرنا چاہیے۔آخر کار ہوا تو وہی۔ یعنی اُنہیں حکومت سے بے دخل کر دیا گیا۔
نواز شریف اور بے نظیر جیسے بڑے (کرپٹ) لیڈر اگر سیاست سے علیحدہ رکھے جاتے تو نئے چہرے سامنے آتے۔ لیکن اقتدارکو طول دینے کی ہوس نے مشرف صاحب کو یہ سب کرنے کی مہلت نہیں دی۔
بات خاطر میں لانے کی نہیں ہے بلکہ عدل پر قائم رہنے کی ہے۔ افسوس کیساتھ عدلیہ میں ہمیشہ سے ایسی کالی بھیڑیں موجود رہی ہیں جو ذاتی مفادات کو نظریہ ضرورت بنا کر بکنے کو تیار رہتی ہیں۔ جہاں بہت سے ججوں نے ڈکٹیٹرز کے نیچے کام سے انکار کر کے گھر کی راہ لی وہیں دوسروں نے اس کو مراعات کیلئے موقع غنیمت جان کر فائدہ اٹھایا۔ جب تک یہ بھیڑیں موجود ہیں، پاکستان کا عدالتی نظام ایسے ہی چلتا رہے گا۔