محسن وقار علی
محفلین
سچن تیندلکر کو بعض لوگ کرکٹ کا خدا مانتے ہیں
بدھ کو بھارت کے معروف بلے باز سچن تندولکر چالیس سال کے ہوگئے ہیں۔
بی بی سی کے راہول ٹنڈن بھارت کے مشرقی شہر کولکاتہ میں موجود ہیں جہاں تندولکر ممبئی انڈیئنز کی جانب سے کولکاتہ نائٹ رائڈرز کے خلاف قریب 60 ہزار شائقین کی موجودگی میں آئی پی ایل کا ميچ کھیل رہے ہیں۔
ویسے یہ کوئی بیماری نہیں ہے۔ اس وائرس کا نام دراصل ’تندولکر فيور‘ ہے۔ اپنے غائب ملازمین کو اگر کمپنی تلاش کرنا چاہتی ہے تو انھیں ایڈن گارڈن کے ٹکٹ کاؤنٹر پر جانا چاہیے۔ٹنڈن کہتے ہیں کہ کئی روز سے سینکڑوں لوگ کولکاتہ میں اپنے کام پر نہیں جا رہے ہیں۔ مختلف کمپنیوں کے منتظمین کسی پراسرار بیماری کو لوگوں کے گھروں میں بیٹھنے کی وجہ سمجھ رہے ہوں گے۔
واضح رہے کہ ممبئی انڈیئنز اور کولکاتہ نائٹ رائڈرز کے درمیان بدھ کو ہونے والے میچ کی تمام ٹکٹیں پہلے ہی فروخت ہو چکی ہیں۔
اس کے باوجود کرکٹ شائقین چلچلاتی دھوپ میں اس امکان میں گھنٹوں قطار میں لگے رہتے ہیں کہ انہیں کسی صورت ایک ٹکٹ مل جائے تاکہ وہ اپنے پسندیدہ کھلاڑی سچن تندولکر کو ان کی سالگرہ کے موقع پر کھیلتے ہوئے دیکھ سکیں۔
قطار میں سب سے آگے منار کمار یادو ہیں۔ اتوار کی صبح سے وہ سارا دن قطار میں لگے رہے لیکن انہیں پھر بھی ٹکٹ نہیں مل سکی۔ اگلے دن وہ صبح تین بجے ہی آ کر ٹکٹ لینے والوں کی قطار میں لگ گئے۔
دریافت کرنے پر وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں: ’سچن میرے بھگوان ہیں۔ مجھے ان کو ان کی سالگرہ والے دن دیکھنا ہے۔‘
یادو کے اردگرد کے لوگ بھی ان سے اتفاق رکھتے ہیں۔ تبھی قطار کے پچھلے حصے سے ایک بلند آواز سنائی دیتی ہے: ’وہ ان چند لوگوں اور چیزوں میں شامل ہیں، جن کی وجہ سے ہمیں ہندوستانی ہونے پر فخر ہے۔‘
کچھ دیر بعد چاروں طرف سے ’سچن، سچن‘ کے نعرے بلند ہونے لگتے ہیں۔
جب منار یادو سے ٹکٹ ملنے کی امید کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: ’اگر آج بھی ان کو ٹکٹ نہیں ملا، تو میں کل پھر آؤں گا۔‘
ٹکٹ کے لیے قطار میں کھڑے لوگ بھارت کے تمام حصوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ بنگالی، بہاری، پنجابی، مارواڑي یا تمل، تمام ایک ساتھ نظر آ رہے ہیں۔
سچن نے پاکستان کے خلاف اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا
مختلف زبانوں میں بات کرنے والے ان لوگوں کی ثقافت، پسند، مذہب سب کچھ مختلف ہے۔ ان کی قومی شناخت پر علاقائی شناخت حاوی ہے۔
تاہم جب تندولکر بیٹنگ کرنے میدان میں آتے ہیں، تو معاملہ یکسر بدل جاتا ہے۔ ہر کوئی اس وقت سب کچھ بھول جاتا ہے۔ اچانک ایک ارب سے زیادہ لوگ ساری شناخت کو بھول کر صرف بھارتی رہ جاتے ہیں۔
کھیل کے کالم نگار گوتم بھٹّاچاریہ تندولکر سے اچھی طرح واقف ہیں۔ انھوں نے سچن پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’تندولکر جب ریٹائرمنٹ لیں گے تو ایک بڑا خلا یقینی طور پر ابھر کر سامنے آئے گا، یہ خلا صرف ہندوستانی کرکٹ میں نہیں، بلکہ ہندوستانی سماج میں بھی نظر آئے گا۔‘
اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’اس کی وجہ تندولکر کا بیٹ ہے جو مسیحائی کرتا نظر آتا ہے۔ جب سچن رن بناتے ہیں، تو آپ کے ارد گرد چاروں طرف اچانک ہی خوشی نظر آنے لگتی ہے۔‘
یہ لوگ اس امید پر ٹکٹ کے لیے آئے ہیں کہ شاید وہ آخری بار ہی سہی سچن کو ایڈن گارڈن پر کھیلتے دیکھ پائیں۔
سچن کے نام بلے بازی کے کئی عالمی ریکارڈز ہیں
اسی بابت دیول کہتے ہیں: ’سچن چالیس سال کے ہیں۔ انہوں نے ایک روزہ کرکٹ کھیلنی چھوڑ ہی دی ہے۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ ایڈن گارڈن میں اب ٹیسٹ میچ کب ہوگا۔ تو یہ آخری موقع ہی ہے۔ ہمیں وہاں رہنا ہی ہے۔‘
ان باتوں کے بعد وہاں باقاعدہ بحث شروع ہو جاتی ہے، ایک آدمی کہتا ہے کہ ’نوجوانوں کی بات کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ سچن پچاس سال تک کھیلیں گے۔ ان کے بغیر کرکٹ ہی نہیں بچے گی۔‘
اچانک بات چیت بند ہو جاتی ہے. لوگ جوش میں چلانے لگتے ہیں. اچانک ہی پراسرار طریقے سے کچھ ٹکٹ آ گئے ہیں اور ان کی فروخت ہونے لگی ہے۔
پولیس کو بھیڑ کو قابو کرنے میں خاصی محنت کرنی پڑ رہی ہے۔ اب بھی قطار میں منار کمار یادو ہی آگے ہیں۔ وہ پہلے شخص ہیں، جنہیں بالآخر کئی دن کی محنت کے بعد ٹکٹ مل ہی گیا۔
وہ اپنی خوشی کا اظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’یہ میری زندگی کا سب سے خوشی والا دن ہے۔ میں اب سچن کی سالگرہ پر ان کو دیکھ پاؤں گا۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا جشن ہوگا۔‘
بہ شکریہ بی بی سی اردو