’دھرنوں میں پی ٹی آئی سے کئی غلطیاں ہوئیں‘
ارم عباسی بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
’دھرنوں کے لائحہ عمل سے متعلق مشاورت میں کمی تھی اور ایسے پیغامات یا نعرے لگائے گئے جو غلط تھے‘
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس ان کی جماعت کی جانب سے کیے جانے والے احتجاجی دھرنوں میں ان کی جماعت سے کئی غلطیاں ہوئیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ ’ہاں بالکل، ہم سے غلطیاں ہوئی اور کئی غلطیاں ہوئیں، دھرنوں کے لائحہ عمل سے متعلق مشاورت میں کمی تھی اور ایسے پیغامات یا نعرے لگائے گئے جو غلط تھے۔‘
گذشتہ برس اسی مہینےمیں پاکستان کے سیاسی نظام کو اس وقت شدید دھچکہ لگا جب انتحابات میں دھاندلی کا معاملہ پارلیمنٹ کے ذریعے حل کرنے کے بجائے پاکستان تحریک انصاف سڑکوں پر نکل آئی۔
تو کیا دھرنوں میں عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کی کال یا لگائے گئے متعدد الزامات یک طرفہ تھے؟
اس سلسلے میں اسد عمر کا کہنا ہے کہ سول نافرمانی کی کال درست نہیں تھی۔
’میرے خیال میں سول نافرمانی کی کال کے بارے میں زیادہ سوچا نہیں گیا کیونکہ ایک تو اس کا اخلاقی پہلو ہے کہ کیا ریاست کے خلاف بغاوت کرنی چاہیے یا نہیں اور دوسرے حقیقی پہلو ہے کہ کیا ایسا کرنا اصل میں ممکن بھی ہے؟‘
عمران خان نے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا اور عوام کو سول نافرمانی کی کال دی تھی
پی ٹی آئی نے تصادم کی سیاست سے کیا سیکھا؟ اس سلسلے میں اسد عمر نے کہا: ’پہلے تو یہ کہ صرف لوگوں کو جمع کرنے سے منصوبہ بندی کی ضرورت ختم نہیں ہوتی اور دوسرا یہ کہ پارٹی میں ایک نظام ہونا چاہیے جس سے گزر کر چیزیں چیئرمین تک پہنچیں۔ تمام حقائق کی چھان بین کر کے چیزیں چیرمین تک پہنچائی جانی چاہیے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں چند اقدامات کیے گئے ہیں۔
حکومت کی جانب سے سازش کے الزامات پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’میں اور عوام الزام لگا سکتے ہیں مگر حکومت ایسے نہیں کر سکتی کیونکہ اس کا کام آئین اور قانون نافذ کرنا ہے، وہ محض الزام تراشی سے کام نہیں لے سکتی۔‘
مسلم لیگ ن کی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بیان بازی کا سلسلے ایک ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جب پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 100 سے زیادہ دن تک جاری رہنے والے احتجاجی دھرنے کو ایک برس ہو چلا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ کے اہم رکن اور قریبی ساتھی مشاہداللہ خان نے کہا ہے کہ پچھلے سال اسلام آباد میں تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے دوران پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی نے ایک سازش تیار کی تھی جس کے ذریعے وہ فوجی اور سول قیادت کو ہٹا کر ملک پر قبضہ کرنا چاہتے تھے
لندن میں دھرنوں کے لائحہ عمل کے لیے ہونے والی مبینہ ملاقات سے متعلق انھوں نے کہا کہ وہ لندن میں موجود نہیں تھے اور نہ ہی ان کے پاس اس بارے میں کوئی معلومات ہیں۔
’ اگر حکومت کے پاس ایسی کوئی آڈیو یا شواہد موجود ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آئین اور جمہوری نظام کے خلاف کوئی سازش کرنے کی کوشش کی گئی تھی تو حکومت کو چاہیے کہ وہ یہ شواہد عوام کے سامنے لائے، انھیں عدالت میں پیش کیا جائے اور جو بھی ملوث پایا جائے، چاہے وہ پی ٹی آئی کے کارکن ہو یا فوج کے اہلکار، سب کو لٹکایا جائے۔‘
دھرنوں میں اسلحہ لانے سے متعلق اسد عمر کا کہنا تھا کہ ’اتنے لوگ تھے، ہو سکتا ہے کوئی اسلحہ لے کر آیا ہو، اگر ایسا ہوا ہے تو حکومت نے ان افراد کو پکڑا کیوں نہیں؟‘
16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد عمران خان نے دھرنا ختم کر دیا تھا
جب عمران خان اور ان کی جماعت نے انتحابات میں دھاندلی سے متعلق آنے والی جوڈیشنل کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کو تسلیم کر کیا ہے تو سوشل میڈیا پر یا ان کے بیشتر حمایتی رپورٹ کو محض ردی کاغذ کیوں قرار دے رہے ہیں؟
اس سوال پر اسد عمر کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت آئین پر یقین رکھتی ہے اور ’ہمارے جو بھی مطالبات تھے وہ اسی آئین کے ذریعے پورے ہونے تھے اس لیے ایک نیوٹرل باڈی کی ضرورت تھی۔ چاہے ہم رپورٹ سے مطمئن ہوں یا نہ ہوں اسے قبول تو کرنا پڑے گا، مگر اس سے ہمارا نظریہ نہیں بدلا۔
ارم عباسی بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
’دھرنوں کے لائحہ عمل سے متعلق مشاورت میں کمی تھی اور ایسے پیغامات یا نعرے لگائے گئے جو غلط تھے‘
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس ان کی جماعت کی جانب سے کیے جانے والے احتجاجی دھرنوں میں ان کی جماعت سے کئی غلطیاں ہوئیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ ’ہاں بالکل، ہم سے غلطیاں ہوئی اور کئی غلطیاں ہوئیں، دھرنوں کے لائحہ عمل سے متعلق مشاورت میں کمی تھی اور ایسے پیغامات یا نعرے لگائے گئے جو غلط تھے۔‘
گذشتہ برس اسی مہینےمیں پاکستان کے سیاسی نظام کو اس وقت شدید دھچکہ لگا جب انتحابات میں دھاندلی کا معاملہ پارلیمنٹ کے ذریعے حل کرنے کے بجائے پاکستان تحریک انصاف سڑکوں پر نکل آئی۔
تو کیا دھرنوں میں عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کی کال یا لگائے گئے متعدد الزامات یک طرفہ تھے؟
اس سلسلے میں اسد عمر کا کہنا ہے کہ سول نافرمانی کی کال درست نہیں تھی۔
’میرے خیال میں سول نافرمانی کی کال کے بارے میں زیادہ سوچا نہیں گیا کیونکہ ایک تو اس کا اخلاقی پہلو ہے کہ کیا ریاست کے خلاف بغاوت کرنی چاہیے یا نہیں اور دوسرے حقیقی پہلو ہے کہ کیا ایسا کرنا اصل میں ممکن بھی ہے؟‘
عمران خان نے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا اور عوام کو سول نافرمانی کی کال دی تھی
پی ٹی آئی نے تصادم کی سیاست سے کیا سیکھا؟ اس سلسلے میں اسد عمر نے کہا: ’پہلے تو یہ کہ صرف لوگوں کو جمع کرنے سے منصوبہ بندی کی ضرورت ختم نہیں ہوتی اور دوسرا یہ کہ پارٹی میں ایک نظام ہونا چاہیے جس سے گزر کر چیزیں چیئرمین تک پہنچیں۔ تمام حقائق کی چھان بین کر کے چیزیں چیرمین تک پہنچائی جانی چاہیے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں چند اقدامات کیے گئے ہیں۔
حکومت کی جانب سے سازش کے الزامات پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’میں اور عوام الزام لگا سکتے ہیں مگر حکومت ایسے نہیں کر سکتی کیونکہ اس کا کام آئین اور قانون نافذ کرنا ہے، وہ محض الزام تراشی سے کام نہیں لے سکتی۔‘
مسلم لیگ ن کی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بیان بازی کا سلسلے ایک ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جب پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 100 سے زیادہ دن تک جاری رہنے والے احتجاجی دھرنے کو ایک برس ہو چلا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ کے اہم رکن اور قریبی ساتھی مشاہداللہ خان نے کہا ہے کہ پچھلے سال اسلام آباد میں تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے دوران پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی نے ایک سازش تیار کی تھی جس کے ذریعے وہ فوجی اور سول قیادت کو ہٹا کر ملک پر قبضہ کرنا چاہتے تھے
لندن میں دھرنوں کے لائحہ عمل کے لیے ہونے والی مبینہ ملاقات سے متعلق انھوں نے کہا کہ وہ لندن میں موجود نہیں تھے اور نہ ہی ان کے پاس اس بارے میں کوئی معلومات ہیں۔
’ اگر حکومت کے پاس ایسی کوئی آڈیو یا شواہد موجود ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آئین اور جمہوری نظام کے خلاف کوئی سازش کرنے کی کوشش کی گئی تھی تو حکومت کو چاہیے کہ وہ یہ شواہد عوام کے سامنے لائے، انھیں عدالت میں پیش کیا جائے اور جو بھی ملوث پایا جائے، چاہے وہ پی ٹی آئی کے کارکن ہو یا فوج کے اہلکار، سب کو لٹکایا جائے۔‘
دھرنوں میں اسلحہ لانے سے متعلق اسد عمر کا کہنا تھا کہ ’اتنے لوگ تھے، ہو سکتا ہے کوئی اسلحہ لے کر آیا ہو، اگر ایسا ہوا ہے تو حکومت نے ان افراد کو پکڑا کیوں نہیں؟‘
16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد عمران خان نے دھرنا ختم کر دیا تھا
جب عمران خان اور ان کی جماعت نے انتحابات میں دھاندلی سے متعلق آنے والی جوڈیشنل کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کو تسلیم کر کیا ہے تو سوشل میڈیا پر یا ان کے بیشتر حمایتی رپورٹ کو محض ردی کاغذ کیوں قرار دے رہے ہیں؟
اس سوال پر اسد عمر کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت آئین پر یقین رکھتی ہے اور ’ہمارے جو بھی مطالبات تھے وہ اسی آئین کے ذریعے پورے ہونے تھے اس لیے ایک نیوٹرل باڈی کی ضرورت تھی۔ چاہے ہم رپورٹ سے مطمئن ہوں یا نہ ہوں اسے قبول تو کرنا پڑے گا، مگر اس سے ہمارا نظریہ نہیں بدلا۔