خالد محمود چوہدری
محفلین
’ریکارڈ ٹوٹ جاتا لیکن مرّوت آڑے آ گئی‘
کرکٹرز کے بارے میں عام طور پر مشہور ہے کہ وہ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے زیادہ سروکار نہیں رکھتے اور انھیں ریکارڈز کا بھی بہت کم پتہ ہوتا ہے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بیٹسمین یونس خان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ جاوید میانداد کے 8,832 رنز کے ریکارڈ کے بہت قریب آ چکے ہیں اور انھوں نے سری لنکا کے گذشتہ دورے میں ہی رنز کا حساب کتاب جوڑنا شروع کردیا تھا۔
یونس خان کو19 رنز کا بے چینی سےانتظار
یونس خان نے بی بی سی اردو کو ایک انٹرویو میں بتایا: ’پالیکلے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں مجھے جاوید بھائی کا ریکارڈ برابر کرنے کے لیے 189 رنز درکار تھے۔ میچ کے دوران ہوٹل کے کمرے میں بیٹھے میں نے کاغذ پر ’انشا اللہ 189‘ لکھا اور ایک طرف رکھ دیا تو میری بیگم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ کچھ نہیں۔ یہ میں میچ کے بعد بتاؤں گا۔ دوسری اننگز میں نے سنچری بنائی اور 171 رنز پر ناٹ آؤٹ رہا۔‘
یونس خان نے انٹرویو میں یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا کہ وہ پالیکلے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں ہی جاوید میانداد سے آگے نکل جاتے لیکن ان کی مرّوت آڑے آگئی۔
’دوسری اننگز میں میرے ساتھ کپتان مصباح الحق بیٹنگ کر رہے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ اسی اننگز میں جاوید بھائی کا ریکارڈ ٹوٹ جائے اور مجھ پر سے دباؤ ختم ہو لیکن میں مصباح الحق کو یہ تک نہ کہہ سکا کہ وہ تھوڑا سا آہستہ کھیل کر مجھے اسٹرائیک دیں تاکہ میں رنز بناسکوں۔ حالانکہ عام طور پر بیٹسمین ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ کس بولر کو وہ زیادہ بہتر کھیل سکتے ہیں اور کس سے بچنا ہے۔ مصباح الحق کو ایک دو اوورز اچھے مل گئے اور انھوں نے جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے نصف سنچری سکور کر لی اور پاکستان یہ ٹیسٹ اور سیریز جیت گیا۔‘
تو کیا اب بھی خود پر دباؤ محسوس کررہے ہیں؟۔یونس خان نے بڑے اطمینان سے اس سوال کا جواب نفی میں دیا۔
’میں خود کو نارمل محسوس کر رہا ہوں اور اس ریکارڈ کو اپنے اوپر طاری نہیں کر رہا ہوں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انضمام الحق کو جاوید میانداد کا ریکارڈ توڑنے کے لیے صرف تین رنز درکار تھے لیکن وہ اپنی آخری اننگز میں اسٹمپڈ ہوگئے تھے لہذا میں غیرجذباتی رہ کر اس سنگ میل کو عبور کرنا چاہتا ہوں۔‘
یونس خان میانداد کے ریکارڈ تک پہنچنے کو خرگوش اور کچھوے کی دوڑ سے تعبیر کرتے ہیں۔
’لوگ کہتے ہیں کہ مجھے اتنی زیادہ توجہ نہیں ملی جو دوسرے کرکٹرز کو ملی لیکن یہ میرے لیے اچھا ہی رہا کہ میں نے خاموشی سے آہستہ آہستہ بڑھتے ہوئے 8,000 رنز بھی مکمل کر ڈالے اور پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ 30 سنچریاں بھی بنالیں۔ میری مثال اس کچھوے کی ہے جس نے خرگوش سے ریس جیتی ہے۔‘
سب سے زیادہ رنز اور سنچریوں کے بعد یونس خان کا اگلا ہدف ٹیسٹ کرکٹ میں دس ہزار رنز کی تکمیل ہے۔
’میں جب ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمینوں کی فہرست دیکھتا ہوں تو اس میں بھارت اور سری لنکا کے کرکٹرز بھی شامل ہیں تو میری بھی یہ خواہش ہے کہ جس طرح 30 سنچریاں بنانے والے بیٹسمینوں میں میرا نام شامل ہو چکا ہے اسی طرح دس ہزار رنز بنانے والا میں پہلا پاکستانی بیٹسمین بن جاؤں۔‘
صرف اس ایک خواہش پر کیا موقوف یونس خان کے دل میں دوبارہ کپتانی کی خواہش بھی جاگ اٹھی ہے۔
’جب میں پہلے کپتان بنا تھا تو میں نوجوان تھا اور بہت زیادہ جارحانہ انداز کا حامل تھا لیکن اب میں سوچتا ہوں کہ میں نوجوان کرکٹرز کی زیادہ بہتر انداز میں رہنمائی کرتے ہوئے ان[یں اعتماد دے کر جا سکتا ہوں۔ میں عمران خان کی طرح ایک اچھی ٹیم بنا کر جانا چاہتا ہوں۔‘
کرکٹرز کے بارے میں عام طور پر مشہور ہے کہ وہ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے زیادہ سروکار نہیں رکھتے اور انھیں ریکارڈز کا بھی بہت کم پتہ ہوتا ہے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بیٹسمین یونس خان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ جاوید میانداد کے 8,832 رنز کے ریکارڈ کے بہت قریب آ چکے ہیں اور انھوں نے سری لنکا کے گذشتہ دورے میں ہی رنز کا حساب کتاب جوڑنا شروع کردیا تھا۔
یونس خان کو19 رنز کا بے چینی سےانتظار
یونس خان نے بی بی سی اردو کو ایک انٹرویو میں بتایا: ’پالیکلے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں مجھے جاوید بھائی کا ریکارڈ برابر کرنے کے لیے 189 رنز درکار تھے۔ میچ کے دوران ہوٹل کے کمرے میں بیٹھے میں نے کاغذ پر ’انشا اللہ 189‘ لکھا اور ایک طرف رکھ دیا تو میری بیگم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ کچھ نہیں۔ یہ میں میچ کے بعد بتاؤں گا۔ دوسری اننگز میں نے سنچری بنائی اور 171 رنز پر ناٹ آؤٹ رہا۔‘
یونس خان نے انٹرویو میں یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا کہ وہ پالیکلے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں ہی جاوید میانداد سے آگے نکل جاتے لیکن ان کی مرّوت آڑے آگئی۔
’دوسری اننگز میں میرے ساتھ کپتان مصباح الحق بیٹنگ کر رہے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ اسی اننگز میں جاوید بھائی کا ریکارڈ ٹوٹ جائے اور مجھ پر سے دباؤ ختم ہو لیکن میں مصباح الحق کو یہ تک نہ کہہ سکا کہ وہ تھوڑا سا آہستہ کھیل کر مجھے اسٹرائیک دیں تاکہ میں رنز بناسکوں۔ حالانکہ عام طور پر بیٹسمین ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ کس بولر کو وہ زیادہ بہتر کھیل سکتے ہیں اور کس سے بچنا ہے۔ مصباح الحق کو ایک دو اوورز اچھے مل گئے اور انھوں نے جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے نصف سنچری سکور کر لی اور پاکستان یہ ٹیسٹ اور سیریز جیت گیا۔‘
تو کیا اب بھی خود پر دباؤ محسوس کررہے ہیں؟۔یونس خان نے بڑے اطمینان سے اس سوال کا جواب نفی میں دیا۔
’میں خود کو نارمل محسوس کر رہا ہوں اور اس ریکارڈ کو اپنے اوپر طاری نہیں کر رہا ہوں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انضمام الحق کو جاوید میانداد کا ریکارڈ توڑنے کے لیے صرف تین رنز درکار تھے لیکن وہ اپنی آخری اننگز میں اسٹمپڈ ہوگئے تھے لہذا میں غیرجذباتی رہ کر اس سنگ میل کو عبور کرنا چاہتا ہوں۔‘
یونس خان میانداد کے ریکارڈ تک پہنچنے کو خرگوش اور کچھوے کی دوڑ سے تعبیر کرتے ہیں۔
’لوگ کہتے ہیں کہ مجھے اتنی زیادہ توجہ نہیں ملی جو دوسرے کرکٹرز کو ملی لیکن یہ میرے لیے اچھا ہی رہا کہ میں نے خاموشی سے آہستہ آہستہ بڑھتے ہوئے 8,000 رنز بھی مکمل کر ڈالے اور پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ 30 سنچریاں بھی بنالیں۔ میری مثال اس کچھوے کی ہے جس نے خرگوش سے ریس جیتی ہے۔‘
سب سے زیادہ رنز اور سنچریوں کے بعد یونس خان کا اگلا ہدف ٹیسٹ کرکٹ میں دس ہزار رنز کی تکمیل ہے۔
’میں جب ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمینوں کی فہرست دیکھتا ہوں تو اس میں بھارت اور سری لنکا کے کرکٹرز بھی شامل ہیں تو میری بھی یہ خواہش ہے کہ جس طرح 30 سنچریاں بنانے والے بیٹسمینوں میں میرا نام شامل ہو چکا ہے اسی طرح دس ہزار رنز بنانے والا میں پہلا پاکستانی بیٹسمین بن جاؤں۔‘
صرف اس ایک خواہش پر کیا موقوف یونس خان کے دل میں دوبارہ کپتانی کی خواہش بھی جاگ اٹھی ہے۔
’جب میں پہلے کپتان بنا تھا تو میں نوجوان تھا اور بہت زیادہ جارحانہ انداز کا حامل تھا لیکن اب میں سوچتا ہوں کہ میں نوجوان کرکٹرز کی زیادہ بہتر انداز میں رہنمائی کرتے ہوئے ان[یں اعتماد دے کر جا سکتا ہوں۔ میں عمران خان کی طرح ایک اچھی ٹیم بنا کر جانا چاہتا ہوں۔‘