یوسف سلطان
محفلین
ڈاکٹر فریاد آزرؔ
(روحِ احمد فراز سے معذرت کے ساتھ)
’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں‘
سو ہم بھی آج یہی کام کر کے دیکھتے ہیں
ہے شوق اس کو موبائل سے بات کرنے کا
سو ہم بھی چار چھ مِس کال کر کے دیکھتے ہیں
جن عاشقوں کو بڑھاپے کی پونچھ اگنے لگی
سنا ہے وہ بھی اسے دم کتر کے دیکھتے ہیں
بس اس لئے کہ اسے پھر نظر نہ لگ جائے
لگا کے سب اسے چشمے نظر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بالوں سے اس کو بڑی محبت ہے
تمام گنجے اسے آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سدھار پائے نہ جن کو پولس کے ڈنڈے بھی
وہی موالی اسے خود سدھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو امیر زادوں سے
سو آج ہم بھی اسے جیب بھر کے دیکھتے ہیں
وہ بالکونی میں آئے تو بھیڑ لگ جائے
رقیب ایسے میں جیبیں کتر کے دیکھتے ہیں
سڑک سے گزرے (تو) ٹریفک بھی جام ہو جائے
کہ اہلِ کار بھی اس کو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
مجھے بھی آج کسی پارلر میں لے چلئے
اسے رقیب بہت بن سنور کے دیکھتے ہیں
ہماری بات ہوئی تھی نہ دیکھنے کی اسے
ہم اپنی بات سے پھر بھی مکر کے دیکھتے ہیں
مشاعروں کے لئے چاہئے غزل اس کو
یہی ہے مانگ تو پھر مانگ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے شوق ہے تیمار داریوں کا اسے
سو اپنے آپ کو بیمار کر کے دیکھتے ہیں
سنا گیا ہے کہ مردہ پرست ہے وہ بھی
تو جھوٹ موٹ کا پھر ہم بھی مر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے لی ’جوڈو‘ کی تربیت اس نے
رقیب دور سے ہی اس کو ڈر کے دیکھتے ہیں
مکان اس کا ہے سرحد کے اس طرف لیکن
ادھر کے لوگ بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں
’فرازؔ تم کو نہ آئیں محبتیں کرنی‘
سو اس گلی سے اب آزرؔ گزر کے دیکھتے ہیں
(روحِ احمد فراز سے معذرت کے ساتھ)
’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں‘
سو ہم بھی آج یہی کام کر کے دیکھتے ہیں
ہے شوق اس کو موبائل سے بات کرنے کا
سو ہم بھی چار چھ مِس کال کر کے دیکھتے ہیں
جن عاشقوں کو بڑھاپے کی پونچھ اگنے لگی
سنا ہے وہ بھی اسے دم کتر کے دیکھتے ہیں
بس اس لئے کہ اسے پھر نظر نہ لگ جائے
لگا کے سب اسے چشمے نظر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بالوں سے اس کو بڑی محبت ہے
تمام گنجے اسے آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سدھار پائے نہ جن کو پولس کے ڈنڈے بھی
وہی موالی اسے خود سدھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو امیر زادوں سے
سو آج ہم بھی اسے جیب بھر کے دیکھتے ہیں
وہ بالکونی میں آئے تو بھیڑ لگ جائے
رقیب ایسے میں جیبیں کتر کے دیکھتے ہیں
سڑک سے گزرے (تو) ٹریفک بھی جام ہو جائے
کہ اہلِ کار بھی اس کو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
مجھے بھی آج کسی پارلر میں لے چلئے
اسے رقیب بہت بن سنور کے دیکھتے ہیں
ہماری بات ہوئی تھی نہ دیکھنے کی اسے
ہم اپنی بات سے پھر بھی مکر کے دیکھتے ہیں
مشاعروں کے لئے چاہئے غزل اس کو
یہی ہے مانگ تو پھر مانگ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے شوق ہے تیمار داریوں کا اسے
سو اپنے آپ کو بیمار کر کے دیکھتے ہیں
سنا گیا ہے کہ مردہ پرست ہے وہ بھی
تو جھوٹ موٹ کا پھر ہم بھی مر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے لی ’جوڈو‘ کی تربیت اس نے
رقیب دور سے ہی اس کو ڈر کے دیکھتے ہیں
مکان اس کا ہے سرحد کے اس طرف لیکن
ادھر کے لوگ بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں
’فرازؔ تم کو نہ آئیں محبتیں کرنی‘
سو اس گلی سے اب آزرؔ گزر کے دیکھتے ہیں