حسان خان
لائبریرین
کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنماؤں نے پہلی بار قومی انتخابات میں بطور جماعت حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور ملک بھر میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا ہے۔
کالعدم سپاہ صحابہ چھ رکنی نئے اتحاد کا حصہ ہے دوسری جانب ان کے مخالف شیعہ مسلمانوں کی ایک تنظیم مجلس وحدت المسلمین نے بھی سو انتخابی حلقوں میں کردار ادا کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی بنا لی ہے۔
آج کل اہلسنت و الجماعت کے نام سے سرگرم کالعدم سپاہ صحابہ شیعہ مخالف نظریات کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی تھی اور موجودہ کو چھوڑ کر اس تنظیم کے تمام سربراہان یکے بعد دیگرے قتل کیے جا چکے ہیں۔
اسی جماعت سے الگ ہوکر چند اشتہاری لوگوں نے کالعدم لشکر جھنگوی بنائی جس پر ہزاروں شیعہ مسلک کے افراد کے قتل کا الزام ہے۔
کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ علامہ محمد احمد لدھیانوی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے آئندہ انتخابات میں ملک بھر میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ وہی جماعت ہے جس کے سلسلے میں پنجاب کی حکمران جماعت مسلم لیگ نون پر الزام ہے کہ وہ اس کے ووٹ بینک کی خاطر اس جماعت سے منسلک افراد کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔ پنجاب میں لاہور اور گوجرہ کے واقعات سمیت اقلیتوں کے خلاف سات پرتشدد سنگین واقعات پیش آچکے ہیں۔
مختلف حلقوں کا کہنا ہے کہ پنجاب میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے پرتشدد واقعات میں اضافہ پنجاب حکومت کا کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے خلاف نرم رویہ ہے۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ یہ کہہ چکے ہیں کہ کالعدم سپاہ صحابہ کا ووٹ بینک ایک سیاسی حقیقت ہے اس لیے انہیں سو فی صد نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔
علامہ محمد احمدلدھیانوی نے کہا ہے کہ ان کا ووٹ پورے ملک کے انتخابی حلقوں میں بکھرا ہوا ہے صرف مسلم لیگ نون ہی نہیں تمام سیاسی جماعتیں ان کے ووٹ حاصل کرتی رہی ہیں۔انہوں نے کہا سابقہ انتخابات میں انہوں نے اپنے مقامی لیڈروں کو کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے انتخابی حلقے کے مطابق جو مرضی فیصلہ کر لیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بنیاد پر پیپلز پارٹی سے لیکر ایم کیوایم تک اور مسلم لیگ نون سے لیکر جے یو آئی تک ہر سیاسی جماعت نے ان کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان سے درخواستیں کی تھیں اور ’ووٹ حاصل کرنے کے بعد احسان فراموشی کی۔‘
علامہ محمد احمد لدھیانوی کہتے ہیں کہ اسی احسان فراموشی کو مد نظر رکھ کر کالعدم سپاہ صحابہ نے آئندہ انتخابات میں اب ملک بھر میں امیدوار کھڑے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کالعدم سپاہ صحابہ نے کہا ہے کہ ان کی جماعت ضلع جھنگ میں قومی اسمبلی کی ایک کی بجائے دو نشستوں سے الیکشن لڑے گی جبکہ پنجاب کے چھ دیگر اضلاع یعنی ضلع خانیوال، مظفر گڑھ، بہاولپور، بہاولنگر، سرگودھا اور مری میں بھی امیدوار کھڑے کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی امیدوار کھڑے کیے جا رہے ہیں۔
علامہ محمد احمد لدھیانوی نے کہا کہ مختلف حلقوں میں کالعدم سپاہ صحابہ کے سات ہزار سے لیکر پچیس ہزار تک ووٹ ہیں۔
شیعہ مسلمانوں کی تنظیم مجلس وحدت المسلمین کے سیاسی شعبہ کے سربراہ ناصر شیرازی کالعدم سپاہ صحابہ کے ووٹ بینک کو تسلیم نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ جھنگ میں ایک حلقے تک ان کے ووٹ ہیں جبکہ باقی جگہ ان کے ووٹ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں خواہ مخواہ ان کے دباؤ میں آتی رہی ہیں۔
ناصر شیرازی نے کہاکہ ان کی حکمت عملی ہوگی کہ کوئی فرقہ پرست انتخابات کی سیڑھی لگا کر پارلیمان تک نہ پہنچ سکے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے امیدواروں کا الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ تشویشناک ہے البتہ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے لوگوں کو قانون کے ذریعے روکا جائے یا ووٹ کی طاقت سے؟
ربط
کالعدم سپاہ صحابہ چھ رکنی نئے اتحاد کا حصہ ہے دوسری جانب ان کے مخالف شیعہ مسلمانوں کی ایک تنظیم مجلس وحدت المسلمین نے بھی سو انتخابی حلقوں میں کردار ادا کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی بنا لی ہے۔
آج کل اہلسنت و الجماعت کے نام سے سرگرم کالعدم سپاہ صحابہ شیعہ مخالف نظریات کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی تھی اور موجودہ کو چھوڑ کر اس تنظیم کے تمام سربراہان یکے بعد دیگرے قتل کیے جا چکے ہیں۔
اسی جماعت سے الگ ہوکر چند اشتہاری لوگوں نے کالعدم لشکر جھنگوی بنائی جس پر ہزاروں شیعہ مسلک کے افراد کے قتل کا الزام ہے۔
کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ علامہ محمد احمد لدھیانوی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے آئندہ انتخابات میں ملک بھر میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ وہی جماعت ہے جس کے سلسلے میں پنجاب کی حکمران جماعت مسلم لیگ نون پر الزام ہے کہ وہ اس کے ووٹ بینک کی خاطر اس جماعت سے منسلک افراد کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔ پنجاب میں لاہور اور گوجرہ کے واقعات سمیت اقلیتوں کے خلاف سات پرتشدد سنگین واقعات پیش آچکے ہیں۔
مختلف حلقوں کا کہنا ہے کہ پنجاب میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے پرتشدد واقعات میں اضافہ پنجاب حکومت کا کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے خلاف نرم رویہ ہے۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ یہ کہہ چکے ہیں کہ کالعدم سپاہ صحابہ کا ووٹ بینک ایک سیاسی حقیقت ہے اس لیے انہیں سو فی صد نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔
علامہ محمد احمدلدھیانوی نے کہا ہے کہ ان کا ووٹ پورے ملک کے انتخابی حلقوں میں بکھرا ہوا ہے صرف مسلم لیگ نون ہی نہیں تمام سیاسی جماعتیں ان کے ووٹ حاصل کرتی رہی ہیں۔انہوں نے کہا سابقہ انتخابات میں انہوں نے اپنے مقامی لیڈروں کو کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے انتخابی حلقے کے مطابق جو مرضی فیصلہ کر لیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بنیاد پر پیپلز پارٹی سے لیکر ایم کیوایم تک اور مسلم لیگ نون سے لیکر جے یو آئی تک ہر سیاسی جماعت نے ان کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان سے درخواستیں کی تھیں اور ’ووٹ حاصل کرنے کے بعد احسان فراموشی کی۔‘
علامہ محمد احمد لدھیانوی کہتے ہیں کہ اسی احسان فراموشی کو مد نظر رکھ کر کالعدم سپاہ صحابہ نے آئندہ انتخابات میں اب ملک بھر میں امیدوار کھڑے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کالعدم سپاہ صحابہ نے کہا ہے کہ ان کی جماعت ضلع جھنگ میں قومی اسمبلی کی ایک کی بجائے دو نشستوں سے الیکشن لڑے گی جبکہ پنجاب کے چھ دیگر اضلاع یعنی ضلع خانیوال، مظفر گڑھ، بہاولپور، بہاولنگر، سرگودھا اور مری میں بھی امیدوار کھڑے کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی امیدوار کھڑے کیے جا رہے ہیں۔
علامہ محمد احمد لدھیانوی نے کہا کہ مختلف حلقوں میں کالعدم سپاہ صحابہ کے سات ہزار سے لیکر پچیس ہزار تک ووٹ ہیں۔
شیعہ مسلمانوں کی تنظیم مجلس وحدت المسلمین کے سیاسی شعبہ کے سربراہ ناصر شیرازی کالعدم سپاہ صحابہ کے ووٹ بینک کو تسلیم نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ جھنگ میں ایک حلقے تک ان کے ووٹ ہیں جبکہ باقی جگہ ان کے ووٹ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں خواہ مخواہ ان کے دباؤ میں آتی رہی ہیں۔
ناصر شیرازی نے کہاکہ ان کی حکمت عملی ہوگی کہ کوئی فرقہ پرست انتخابات کی سیڑھی لگا کر پارلیمان تک نہ پہنچ سکے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے امیدواروں کا الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ تشویشناک ہے البتہ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے لوگوں کو قانون کے ذریعے روکا جائے یا ووٹ کی طاقت سے؟
ربط