وہاب اعجاز خان
محفلین
اسے آپ جوانی کا جوش، نادانی، ناتجربہ کاری یا معصومیت سمیت کچھ بھی کہیں لیکن صوبائی دارالحکومت پشاور کے ایک مقامی اخبار میں گزشتہ دنوں شائع ہونے والے ایک غیرمعمولی اشتہار نے کئی لوگوں کو شش و پنج میں ڈال دیا۔
صوبہ سرحد جہاں اشتہاری کمپنیوں کو دینی جماعتوں کی صوبائی حکومت کی موجودگی میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے، اس قسم کے اشتہار کا سامنے آنا کافی حیرت انگیز تصور کیا جا رہا ہے۔
اشتہار کا متن پڑھ کر اس کی کچھ حقیقت شاید آپ پر واضح ہوسکے۔
اشتہار کچھ یوں تھا: ’ضرورت برائے فی میل اسسٹنٹ‘: ہمیں پی ٹی وی پشاور کے اباسین چینل اور اے وی ٹی خیبر اسلام آباد کے لیئے اپنی پرائیویٹ پروڈکشن کے لیئے ایسی فی میل اسسٹنٹ کی ضرورت ہے جو پروڈکشن کے سلسلے میں ڈائریکٹروں اور اداکاروں کے ساتھ ملاقات اور فارغ اوقات میں ہمارے گھر کی خواتین کے ساتھ گھریلو کام کاج میں مدد کرے۔ تعلیمی قابلیت کم از کم میٹرک اور عمر بیس سے تیس سال ہونی چاہیے‘۔ اشتہار میں ایسی خاتون کا ایماندار اور باکردار ہونا بھی لازمی قرار دیا گیا تھا۔
اشتہار کے آخر میں اسے شائع کرانے والے نے اپنا نام پروڈیوسر ذیشان ملک ماندروی اور ٹیلیفون نمبر بڑے حروف میں تحریر کیئے ہوئے تھے۔
پاکستانی اخبارات میں اکثر ٹی وی یا فلم کے لیئے خواتین اداکاروں کی ضرورت کے اشتہارات تو اکثر شائع ہوتے رہتے ہیں، تاہم اس اشتہار کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا مقصد کسی اداکارہ کی تلاش نہیں بلکہ اشتہار دینے والے کے ذہن میں قدرے مختلف قسم کی خاتون تھی۔
اس اشتہار سے واضح نہیں ہو تا کہ اسے شائع کرانے والے کو ایک اداکارہ کی ضرورت تھی، گھریلوں نوکرانی کی یا کسی اور کی ۔ ۔ ۔ ۔
خیر اشتہار دینے والے کا نمبر گھمایا تو وہ فرسٹ ایئر کا طالب علم نکلا۔ ذیشان کا کہنا تھا کہ کہ اس کا مقصد ہرگز وہ نہیں تھا جوکہ اس تین سطور کے اشتہار کو پڑھ کر ہوتا ہے۔
’میں خود پروڈیوسر ہوں مجھے پشتو ڈراموں کے لیئے عورتیں چاہیئے تھیں جوکہ گھر پر بھی ہاتھ بٹا سکیں۔ اگر میں فارغ نہ ہوں تو میری جگہ وہ چلی جائیں گی ڈائریکٹر کے پاس میٹنگ میں‘۔
گھر پر ہاتھ بٹانے کے متعلق اس کا کہنا تھا کہ ’ یہ تو جب ڈراموں کا کام نہیں ہوگا تو گھر پر امی کے ساتھ کچن میں ہاتھ بٹائے گی‘۔
پوچھا کتنے ڈرامے مکمل کر چکے ہیں، تو ذیشان کا کہنا تھا کہ یہ تو ابھی ہماری ابتدا ہے۔ ’ابھی کوئی ڈرامہ بھی نہیں بنایا۔ لیکن سر اب تو یہ بات ختم ہوچکی ہے۔ آپ پھر کیوں پوچھ رہے ہیں۔ پہلے اپنا تعارف تو کروائیں نا‘۔
جب تعارف کروایا تو ذیشان نے اعتراف کیا کہ اشتہار لکھنے میں غلطی کے باعث اس کا غلط مطلب لیا جا رہا ہے۔ ’بعد میں اخبار والوں نے بھی کہا کہ یار یہ تم نے اس میں کیا دے دیا‘۔
پشتو کے واحد نجی ٹی وی چینل اے ٹی وی کی انتظامیہ نے بھی اس نوجوان سے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ نے یہ درست نہیں کیا جس پر اس نے ان سے معافی مانگ لی۔ تاہم بی بی سی کے دریافت کرنے پر اے وی ٹی خیبر کی انتظامیہ نے اس شخص سے کسی قسم کے تعلق سے انکار کیا۔ پی ٹی وی کی انتظامیہ نے بھی یہی کچھ کیا۔
ذیشان سے پوچھا کہ ایسے اشتہار کے بعد کوئی خاتون آئی انٹرویو کے لیئے، تو اس نے بتایا ہاں فون تو کئی نے کیئے لیکن بعد میں میں نے اپنا ارادہ ہی تبدیل کر دیا تھا۔ ’میں نے ان خواتین سے کہا کہ اب میں سیکرٹری الگ اور گھریلوں کاموں کے لیئے الگ عورت رکھ لوں گا‘۔
پشاور کے جس مقامی اخبار میں یہ اشتہار شائع ہوا اس کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انتہائی احتیاط کے باوجود وہ اس اشتہار کا اس وقت نوٹ نہیں لے سکے۔
’انکل بس غلطی تھی میرا پہلا کام تھا اس لیئے معلوم نہیں تھا کہ کس طرح کا اشتہار دوں۔ سر اس پر مضمون مت لکھیں اس کی کیا ضرورت ہے‘۔
ذیشان نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری۔ اس کا کہنا تھا کہ تقریبًا ایک دو ماہ میں انشااللہ اس کے ڈرامے تیار ہوجائیں گے۔ تاہم اس اشتہار کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ اس نے کافی کچھ سیکھ لیا ہوگا۔ وہ اب اس قسم کی نادانی یا غلطی نہیں کرے گا۔
’پتہ نہیں لوگ میرے اشتہار کا کیا مطلب لے رہے ہیں‘۔