راشد اشرف
محفلین
’مقالہ ‘نچوڑ دیں تو ’محقق ‘وضو کریں
علمی و ادبی سرقہ راشد اشرف۔کراچی
خاکسار کا یہ کالم "روزنامہ جہان پاکستان" میں "بوجوہ" شائع نہ ہوسکا۔ گزشتہ دو ماہ کی کالم نویسی کے دوران پیش آنے والا یہ پہلا واقعہ ہے جب ایسا ہوا ہے، سو یہاں عوامی عدالت میں پیش خدمت ہے۔ امید ہے احباب بے مزہ نہ ہوں گے۔
دو روز قبل ایک گمنام ذریعے سے ایک ای میل موصول ہوئی۔ پیغام بھیجنے والے نے اپنا نام نہیں لکھا، یقینا راقم کو جانتے ہوں گے۔ یہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد کے پہلو میں واقع ایک معروف جامعہ کے شعبہ اردو کے دو ڈاکٹر صاحبان کے ادبی سرقے سے متعلق ’ایچ ای سی‘ کو لکھا گیا ایک مکتوب تھا۔ چند روز قبل ہمارے ایک دوست ہم سے سرقے کے موضوع پر بحث کررہے تھے۔ کہنے لگے یہ ایک فعل قبیح ہے، آپ کو اس کا اندازہ ہونا چاہیے۔ عرض کیا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں، یہ چلن اب عام ہوگیا ہے، اکثر لوگ ایسا کرتے ہیں، ہم خود بھی اکثر یہی کرتے ہیں۔ یہ بات سن کر انہوں نے ایک قہر آلود نگاہ ہم پر ڈالی تھی۔
عرض کیا، بھائی! چند روز قبل لاہور کے الحمراء میں خاکسار کا افسانہ "جو رہی سو بے خبری رہی" شائع ہوا تھا۔ اگلے روز معروف کالم نگار و ادیبہ پروفیسر رئیس فاطمہ کا فون آیا: " بھئی، تمہارا افسانہ اچھا لگا لیکن کیا عجب بات ہے کہ اس موضوع پر ایک افسانہ میں بھی لکھ چکی ہوں"۔۔۔ یہ سب کر ہمارے چھکے چھوٹ گئے، بے اختیار کہا کہ پروفیسر صاحبہ، کہیں آپ ہم پر ازالہ حیثیت عرفی جیسا کوئی دعوی تو نہیں کرنے والی ہیں ؟ ہم نے تو ایک پرمزاح تحریر لکھنے کی کوشش کی تھی۔
پروفیسر صاحبہ نے ہنس کر فرمایا کہ نہیں نہیں، ایسا ہوجاتا ہے، تم بے فکر رہو، ویسے بھی تمہاری سنجیدہ تحریروں کو بھی لوگ مزاح سمجھ کر ہی پڑھتے ہیں۔
چلیے چھٹی ہوئی۔ سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ ایک روز معروف افسانہ نگار جناب طاہر نقوی کا فون آیا، نہایت وضع دار و نفیس انسان ہیں۔ وضع داری کی انتہا یہ ہوئی کہ کہنا چاہ رہے تھے کہ "جو رہی سو بے خبری رہی" جیسا ایک افسانہ آج سے 15 برس قبل وہ بھی لکھ چکے ہیں لیکن بجائے خفا ہونے کے، الٹا ہمیں تسلی دے رہے تھے کہ میں نے اطلاع لانے والے کو کہا کہ راشد اشرف برخوردار قسم کے انسان ہیں، ایسی حرکت نہیں کرسکتے۔
نقوی صاحب سے بات کرنے کے بعد دل میں توبہ کی کہ آئندہ اس صنف ادب سے ’’بے خبری ‘‘ہی بھلی۔
ظہور احمد اعوان مرحوم نے ایک مرتبہ اپنے ایک کالم میں لکھا تھا:
’’پاکستان کے بڑے بڑے اخبارات کے جغادری کالم نگار اپنے کالموں میں پورا پورا مواد بغیر زیر زبر اوپر نیچے کئے اٹھا لیتے ہیں۔ اسی قسم کے ایک کالم نگار سے میرے ایک دوست کی ملاقات ہوئی تو اس نے اسے کہا حضور! پیراگراف کی ترتیب ہی بدل دیا کرو‘ اس پر اس فنکار نے کہا کہ سب ہی ایسا کر رہے ہیں‘ یہاں سرقہ عام ہو گیا ہے لکھت پڑھت کی دنیا بھی اس سے نہیں بچی۔ ‘‘
لیکن صاحبو! یہ معاملہ تو ذرا سنجیدہ نوعیت کا محسوس ہوتا ہے۔ موصول شدہ اطلاع کے مطابق مذکورہ جامعہ کے شعبہ اردو کی ایک خاتون مدرس، جو پی ایچ ڈی ہیں ،کا ایک مقالہ’’ تنقید متن کے مختلف مدارج‘‘ کے عنوان سے اخبار اردو، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد میں 2002 میں شائع ہوا۔بعد ازاںیہ مقالہ 2005 میں ڈاکٹر عطش درانی کی مرتبہ کتاب ’’ اردو تحقیق‘‘ ناشر مقتدرہ قومی زبان میں شامل ہوا۔ اس کے بعد اسی مقالے کو چند ترامیم کے ساتھ 2009 میں ’’ ریسرچ جرنل اردو ، والیوم 16، زکریا یونیورسٹی ملتان میں ’’ تحقیقی ماخذات اور تنقید متن کے مختلف مدارج‘ ‘ کے عنوان سے شائع کرایا گیا۔ہمارے گمنام دوست کے مطابق ا س مقالے کے اصل مصنف ہندوستان کے ایک معروف محقق ڈاکٹر تنویر احمد علوی ہیں جن کا یہ مقالہ ’’ تنقید متن‘‘ کے عنوان سے اردو میں اصول تحقیق کی کئی کتابوں میں شامل ہے ، ان میں ایک کتاب ’’ اردو میں اصول تحقیق‘‘ (مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد،جلداول،1986) ہے ، اس کی مرتب ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش ہیں اور اسی کتاب میں سے یہ مقالہ نمل کی خاتون مدرس نے سرقہ کیا ہے۔ ہمارے گمنام دوست کہتے ہیں کہ ’’ خاتون نے نقل کرتے ہوئے ضخامت کم کرنے کے لیے کچھ پیراگراف اور اقتباسات چھوڑ دیے گئے ہیں۔باقی کے متن میں ایک جملے تک کی تبدیلی نہیں ملتی۔2009میں مقالے کی تیسری اشاعت میں البتہ کسی قدر ’عقل‘ سے کام لیا گیا ہے ۔اس بار مقالے کی ابتدا میں بنیادی اور ثانوں مآخذ کے عنوان سے مختلف کتابوں سے دو صفحے نقل کر کے شامل کر دیے گئے ہیں ،مقالے کا باقی حصہ پہلے والی ترتیب کے مطابق ہے۔جملوں میں کچھ رد وبد ل ہے تاہم مثالیں ، حوالے اور ترتیب وہی ہے۔نمل ہی میں پیش آئی سرقے کی دوسری مثال ایک دوسرے استاد کی ہے جن کا مقالہ ’’ سرسید کا نظریہ تعلیم نسواں‘‘ تخلیقی ادب 6،جون2009 کو شائع ہوا۔ ہمارے دوست کا کہنا ہے کہ ’’ یہ مقالہ بی ایڈ کے پہلے پرچے کی گائیڈوں اور خلاصوں سے نقل شدہ ہے۔ مختلف جگہوں سے اٹھائے گئے اس مواد کو ترتیب دیتے ہوئے ایک جملے تک کی تبدیلی نہیں کی گئی۔ مقالے کا ابتدائی حصہ کشور اقبال کی بی ایڈ پہلے پرچے کے لیے لکھی گئی کتاب ’’ فلسفہ و تاریخ تعلیم‘‘ مطبوعہ مجید بک ڈپو ، راولپنڈی،ایڈیشن2009 سے لیا گیا ہے۔ درمیانی حصے کا مواد اسی پرچے کے لیے ایس ایم شاہد کی کتاب’’تناظرات تعلیم‘‘ سے نقل کیا گیا ہے۔اختتامی حصہ محمد عیسٰی خان کی کتاب ’’ تعلیمی فلسفہ اور تاریخ‘‘ سے نقل شدہ ہے اور افسوس صد افسوس کہ اسے ایچ ای سی کے منظور شدہ جریدے میںشائع بھی کر دیا گیا۔ ایچ ای سی کے پڑوس میں اسلام آباد کی ایک اچھی یونیورسٹی میں اس طرح کی تحقیق معنی خیز ہے‘‘ ۔
اہم بات یہ ہے کہ ہمارے گمنام دوست کے مطابق ان کے پاس ثبوتوں کی فوٹو کاپیاں بھی ہیں جوانہوں نے اعلی حکام کو روانہ کردی ہیں۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ یہ نتیجہ خیز ثابت ہوگا یا ’داخل دفتر ‘کیا جائے گا۔
تحقیق کے میدان میں جو حال ان دنوں دیکھنے میں اس کی ایک جھلک برسوں پہلے خامہ بگوش نے اپنے ایک کالم میں دکھائی تھی، فرماتے ہیں : ’’اردو کے عام مصنفین سے ہمارا معاہدہ ہے کہ وہ آنکھیں بند کرکے لکھتے رہیں اور ہم آنکھیں بند کرکے پڑھتے رہیں۔اس میں دونوں کا بھلا ہے کہ اول الذکر کو اپنے لکھے پر اور ثانی الذکر کو پڑھنے پر شرمندگی نہیں ہوتی۔لیکن اہل تحقیق سے ہمارا اس قسم کا کوئی معاہدہ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جو کچھ لکھتے ہیں، اس کا زندوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ تو مردہ شوئی، گورکنی اور کفن کھسوٹ کا فن ہے۔عام ادبی تحریریں پڑھنے سے پہلے ہم عمدا آنکھیں بند کرلیتے ہیں لیکن کوئی تحقیقی مقالہ دیکھ کر آنکھیں خودبخود بند ہوجاتی ہیں۔‘‘
حال ہی میں میرے کرم فرما اور ملک کے مشہور محقق و مدرس ڈاکٹر معین الدین عقیل کا چشم کشا مضمون ’’جامعات میں غیر معیاری تحقیق کا فروغ‘‘ شائع ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب تحقیق کے غیر معیاری ہونے پر نالاں ہیں جبکہ یہاں معاملہ سرقے کا ہے۔ع۔۔حالانکہ اس سے فرق تو کوئی پڑتا نہیں۔۔۔یہاں ہمیں خامہ بگوش ہی کا بیان کردہ ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔کہتے ہیں: ’’ ایک صاحب نے اپنی عمر عزیز کے دس سال اس مسئلے کو حل کرنے میں صرف کردیے کہ میر نے لکھنؤ سے دہلی کا سفر پا پیادہ طے کیا تھا یا گاڑی کے ذریعے ، لیکن وہ کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکے ۔ ہم نے ان سے کہا:
’’ میر خوامخواہ دہلی سے لکھنؤ گئے۔ اپنا وقت بھی ضائع کیا اور آپ کا بھی۔‘‘۔۔ انہوں نے فرمایا؛
’’ میر کا وقت ضائع ہوا ہوگا لیکن الحمد اللہ کہ میرا وقت ضائع نہیں ہوا۔ اس تمام عرصے میں مجھے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی طرف سے تحقیقاتی وظیفہ ملتا رہا۔‘‘
علمی و ادبی سرقہ راشد اشرف۔کراچی
خاکسار کا یہ کالم "روزنامہ جہان پاکستان" میں "بوجوہ" شائع نہ ہوسکا۔ گزشتہ دو ماہ کی کالم نویسی کے دوران پیش آنے والا یہ پہلا واقعہ ہے جب ایسا ہوا ہے، سو یہاں عوامی عدالت میں پیش خدمت ہے۔ امید ہے احباب بے مزہ نہ ہوں گے۔
دو روز قبل ایک گمنام ذریعے سے ایک ای میل موصول ہوئی۔ پیغام بھیجنے والے نے اپنا نام نہیں لکھا، یقینا راقم کو جانتے ہوں گے۔ یہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد کے پہلو میں واقع ایک معروف جامعہ کے شعبہ اردو کے دو ڈاکٹر صاحبان کے ادبی سرقے سے متعلق ’ایچ ای سی‘ کو لکھا گیا ایک مکتوب تھا۔ چند روز قبل ہمارے ایک دوست ہم سے سرقے کے موضوع پر بحث کررہے تھے۔ کہنے لگے یہ ایک فعل قبیح ہے، آپ کو اس کا اندازہ ہونا چاہیے۔ عرض کیا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں، یہ چلن اب عام ہوگیا ہے، اکثر لوگ ایسا کرتے ہیں، ہم خود بھی اکثر یہی کرتے ہیں۔ یہ بات سن کر انہوں نے ایک قہر آلود نگاہ ہم پر ڈالی تھی۔
عرض کیا، بھائی! چند روز قبل لاہور کے الحمراء میں خاکسار کا افسانہ "جو رہی سو بے خبری رہی" شائع ہوا تھا۔ اگلے روز معروف کالم نگار و ادیبہ پروفیسر رئیس فاطمہ کا فون آیا: " بھئی، تمہارا افسانہ اچھا لگا لیکن کیا عجب بات ہے کہ اس موضوع پر ایک افسانہ میں بھی لکھ چکی ہوں"۔۔۔ یہ سب کر ہمارے چھکے چھوٹ گئے، بے اختیار کہا کہ پروفیسر صاحبہ، کہیں آپ ہم پر ازالہ حیثیت عرفی جیسا کوئی دعوی تو نہیں کرنے والی ہیں ؟ ہم نے تو ایک پرمزاح تحریر لکھنے کی کوشش کی تھی۔
پروفیسر صاحبہ نے ہنس کر فرمایا کہ نہیں نہیں، ایسا ہوجاتا ہے، تم بے فکر رہو، ویسے بھی تمہاری سنجیدہ تحریروں کو بھی لوگ مزاح سمجھ کر ہی پڑھتے ہیں۔
چلیے چھٹی ہوئی۔ سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ ایک روز معروف افسانہ نگار جناب طاہر نقوی کا فون آیا، نہایت وضع دار و نفیس انسان ہیں۔ وضع داری کی انتہا یہ ہوئی کہ کہنا چاہ رہے تھے کہ "جو رہی سو بے خبری رہی" جیسا ایک افسانہ آج سے 15 برس قبل وہ بھی لکھ چکے ہیں لیکن بجائے خفا ہونے کے، الٹا ہمیں تسلی دے رہے تھے کہ میں نے اطلاع لانے والے کو کہا کہ راشد اشرف برخوردار قسم کے انسان ہیں، ایسی حرکت نہیں کرسکتے۔
نقوی صاحب سے بات کرنے کے بعد دل میں توبہ کی کہ آئندہ اس صنف ادب سے ’’بے خبری ‘‘ہی بھلی۔
ظہور احمد اعوان مرحوم نے ایک مرتبہ اپنے ایک کالم میں لکھا تھا:
’’پاکستان کے بڑے بڑے اخبارات کے جغادری کالم نگار اپنے کالموں میں پورا پورا مواد بغیر زیر زبر اوپر نیچے کئے اٹھا لیتے ہیں۔ اسی قسم کے ایک کالم نگار سے میرے ایک دوست کی ملاقات ہوئی تو اس نے اسے کہا حضور! پیراگراف کی ترتیب ہی بدل دیا کرو‘ اس پر اس فنکار نے کہا کہ سب ہی ایسا کر رہے ہیں‘ یہاں سرقہ عام ہو گیا ہے لکھت پڑھت کی دنیا بھی اس سے نہیں بچی۔ ‘‘
لیکن صاحبو! یہ معاملہ تو ذرا سنجیدہ نوعیت کا محسوس ہوتا ہے۔ موصول شدہ اطلاع کے مطابق مذکورہ جامعہ کے شعبہ اردو کی ایک خاتون مدرس، جو پی ایچ ڈی ہیں ،کا ایک مقالہ’’ تنقید متن کے مختلف مدارج‘‘ کے عنوان سے اخبار اردو، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد میں 2002 میں شائع ہوا۔بعد ازاںیہ مقالہ 2005 میں ڈاکٹر عطش درانی کی مرتبہ کتاب ’’ اردو تحقیق‘‘ ناشر مقتدرہ قومی زبان میں شامل ہوا۔ اس کے بعد اسی مقالے کو چند ترامیم کے ساتھ 2009 میں ’’ ریسرچ جرنل اردو ، والیوم 16، زکریا یونیورسٹی ملتان میں ’’ تحقیقی ماخذات اور تنقید متن کے مختلف مدارج‘ ‘ کے عنوان سے شائع کرایا گیا۔ہمارے گمنام دوست کے مطابق ا س مقالے کے اصل مصنف ہندوستان کے ایک معروف محقق ڈاکٹر تنویر احمد علوی ہیں جن کا یہ مقالہ ’’ تنقید متن‘‘ کے عنوان سے اردو میں اصول تحقیق کی کئی کتابوں میں شامل ہے ، ان میں ایک کتاب ’’ اردو میں اصول تحقیق‘‘ (مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد،جلداول،1986) ہے ، اس کی مرتب ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش ہیں اور اسی کتاب میں سے یہ مقالہ نمل کی خاتون مدرس نے سرقہ کیا ہے۔ ہمارے گمنام دوست کہتے ہیں کہ ’’ خاتون نے نقل کرتے ہوئے ضخامت کم کرنے کے لیے کچھ پیراگراف اور اقتباسات چھوڑ دیے گئے ہیں۔باقی کے متن میں ایک جملے تک کی تبدیلی نہیں ملتی۔2009میں مقالے کی تیسری اشاعت میں البتہ کسی قدر ’عقل‘ سے کام لیا گیا ہے ۔اس بار مقالے کی ابتدا میں بنیادی اور ثانوں مآخذ کے عنوان سے مختلف کتابوں سے دو صفحے نقل کر کے شامل کر دیے گئے ہیں ،مقالے کا باقی حصہ پہلے والی ترتیب کے مطابق ہے۔جملوں میں کچھ رد وبد ل ہے تاہم مثالیں ، حوالے اور ترتیب وہی ہے۔نمل ہی میں پیش آئی سرقے کی دوسری مثال ایک دوسرے استاد کی ہے جن کا مقالہ ’’ سرسید کا نظریہ تعلیم نسواں‘‘ تخلیقی ادب 6،جون2009 کو شائع ہوا۔ ہمارے دوست کا کہنا ہے کہ ’’ یہ مقالہ بی ایڈ کے پہلے پرچے کی گائیڈوں اور خلاصوں سے نقل شدہ ہے۔ مختلف جگہوں سے اٹھائے گئے اس مواد کو ترتیب دیتے ہوئے ایک جملے تک کی تبدیلی نہیں کی گئی۔ مقالے کا ابتدائی حصہ کشور اقبال کی بی ایڈ پہلے پرچے کے لیے لکھی گئی کتاب ’’ فلسفہ و تاریخ تعلیم‘‘ مطبوعہ مجید بک ڈپو ، راولپنڈی،ایڈیشن2009 سے لیا گیا ہے۔ درمیانی حصے کا مواد اسی پرچے کے لیے ایس ایم شاہد کی کتاب’’تناظرات تعلیم‘‘ سے نقل کیا گیا ہے۔اختتامی حصہ محمد عیسٰی خان کی کتاب ’’ تعلیمی فلسفہ اور تاریخ‘‘ سے نقل شدہ ہے اور افسوس صد افسوس کہ اسے ایچ ای سی کے منظور شدہ جریدے میںشائع بھی کر دیا گیا۔ ایچ ای سی کے پڑوس میں اسلام آباد کی ایک اچھی یونیورسٹی میں اس طرح کی تحقیق معنی خیز ہے‘‘ ۔
اہم بات یہ ہے کہ ہمارے گمنام دوست کے مطابق ان کے پاس ثبوتوں کی فوٹو کاپیاں بھی ہیں جوانہوں نے اعلی حکام کو روانہ کردی ہیں۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ یہ نتیجہ خیز ثابت ہوگا یا ’داخل دفتر ‘کیا جائے گا۔
تحقیق کے میدان میں جو حال ان دنوں دیکھنے میں اس کی ایک جھلک برسوں پہلے خامہ بگوش نے اپنے ایک کالم میں دکھائی تھی، فرماتے ہیں : ’’اردو کے عام مصنفین سے ہمارا معاہدہ ہے کہ وہ آنکھیں بند کرکے لکھتے رہیں اور ہم آنکھیں بند کرکے پڑھتے رہیں۔اس میں دونوں کا بھلا ہے کہ اول الذکر کو اپنے لکھے پر اور ثانی الذکر کو پڑھنے پر شرمندگی نہیں ہوتی۔لیکن اہل تحقیق سے ہمارا اس قسم کا کوئی معاہدہ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جو کچھ لکھتے ہیں، اس کا زندوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ تو مردہ شوئی، گورکنی اور کفن کھسوٹ کا فن ہے۔عام ادبی تحریریں پڑھنے سے پہلے ہم عمدا آنکھیں بند کرلیتے ہیں لیکن کوئی تحقیقی مقالہ دیکھ کر آنکھیں خودبخود بند ہوجاتی ہیں۔‘‘
حال ہی میں میرے کرم فرما اور ملک کے مشہور محقق و مدرس ڈاکٹر معین الدین عقیل کا چشم کشا مضمون ’’جامعات میں غیر معیاری تحقیق کا فروغ‘‘ شائع ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب تحقیق کے غیر معیاری ہونے پر نالاں ہیں جبکہ یہاں معاملہ سرقے کا ہے۔ع۔۔حالانکہ اس سے فرق تو کوئی پڑتا نہیں۔۔۔یہاں ہمیں خامہ بگوش ہی کا بیان کردہ ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔کہتے ہیں: ’’ ایک صاحب نے اپنی عمر عزیز کے دس سال اس مسئلے کو حل کرنے میں صرف کردیے کہ میر نے لکھنؤ سے دہلی کا سفر پا پیادہ طے کیا تھا یا گاڑی کے ذریعے ، لیکن وہ کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکے ۔ ہم نے ان سے کہا:
’’ میر خوامخواہ دہلی سے لکھنؤ گئے۔ اپنا وقت بھی ضائع کیا اور آپ کا بھی۔‘‘۔۔ انہوں نے فرمایا؛
’’ میر کا وقت ضائع ہوا ہوگا لیکن الحمد اللہ کہ میرا وقت ضائع نہیں ہوا۔ اس تمام عرصے میں مجھے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی طرف سے تحقیقاتی وظیفہ ملتا رہا۔‘‘