کراچی آپریشن!! از عارف نظامی
متحدہ قومی موومنٹ کے صدر دفتر نائن زیرو پر رینجرز کی یلغار نے ملکی سیاست کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، لیکن موجودہ تناظر میں یہ کوئی حیران کن خبر نہیں ہے۔ عروس البلاد کراچی‘ جو پاکستان کا بزنس ہب بھی ہے‘ کئی برس سے دہشت گردی، ڈکیتی، بھتہ مافیا، ٹارگٹ کلنگ اور قتل و غارت کی کارروائیوں سے چھلنی ہے۔ یقینا ایم کیو ایم شہری سندھ کی نمائندہ جماعت ہے۔ سندھ کے بڑے شہروں کراچی، حیدرآباد اور سکھر پر اس کا غلبہ بھی مسلمہ ہے‘ اس کے باوجود اس جماعت کی آڑ لے کر جرائم پیشہ عناصر برسوں سے کھل کھیل رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی کرشماتی شخصیت اس جماعت پر حاوی ہے۔ وہ قریباً 23 برس سے لندن میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں اور انہیں برطانوی حکومت نے سیاسی پناہ دے رکھی ہے ۔ اتنے طویل عرصے سے بیرون ملک ہونے کے باوجود ان کی منشا ء کے بغیر متحدہ میں پتہ بھی نہیں ہلتا اور وہ سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ لندن اور کراچی میں بنائی گئی رابطہ کمیٹیوں کے ارکان میں بھی جب چاہیں وہ اپنی مرضی کے مطابق ردوبدل کرتے رہتے ہیں۔ الطاف حسین کے دبدبے اور رعب کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ لندن سے ٹیلی فونک خطاب فرماتے ہیں تو تمام نیوز چینلز اسے براہ راست نشر کرتے ہیں۔
ایم کیو ایم 1984 ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں معرض وجود میں آئی اور اس وقت سے متعدد مرتبہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں شامل رہ چکی ہے۔ اس جما عت نے اپنی سیاسی گرفت کو کبھی ڈھیلا نہیں پڑنے دیا۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور سندھ کی صوبائی اسمبلی میں اس جماعت کے نسبتاً پڑھے لکھے اورشائستہ ارکان کی گہری چھاپ ہے۔ حال ہی میں جب برخوردار بلاول بھٹو کی طرف سے ایم کیو ایم پر کڑی تنقید کی گئی تو اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے الطاف حسین نے سندھ حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا لیکن ابھی سینیٹ کے انتخابات سے پہلے رحمن ملک ان کو منا کر واپس لے آئے تھے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں مل کر حصہ لیا۔ قبل ازیں پرویز مشرف کے دور میں تو متحدہ کے پَوبارہ تھے۔ پرویز مشرف‘ جن کا اپنا تعلق بھی دلی سے ہے‘ نے اس جماعت کو وفاقی اور صوبائی سطح پر اپنے ساتھ رکھا جس سے پہلے کے ادوار میں اس کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال ہو گئی۔ گورنر سندھ عشرت العباد کا تعلق بھی اسی جماعت سے ہے اور انھوں نے مسلسل تیرہ برس گورنر کے منصب پر فائز رہ کر پاکستان میں تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ حلقوں کے خیال میں ایم کیو ایم اب عشرت العباد کو 'اون‘ نہیں کرتی۔ ایم کیو ایم کے خلاف یہ پہلا آپریشن نہیں ہے۔ نوے کی دہائی میں بے نظیر بھٹو حکومت کے وزیر داخلہ جنرل (ر) نصیراللہ بابر نے اس جماعت کا ناطقہ بند کر دیا تھا۔ اس کے بہت سے ارکان کی پکڑ دھکڑ ہوئی تھی اور بعض کو تو ایجنسیوں کی مدد سے ''ٹھکانے‘‘ لگا دیا گیا تھا۔ جب نومبر 1996ء میں سردار فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا تو ایم کیو ایم کی بھی جان چھوٹ گئی‘ لیکن اتنی فعال سیاسی جماعت ہونے کے باوجود اس جماعت کو جرائم پیشہ افراد ڈھال کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے جب تیسری مرتبہ اقتدار سنبھالا تو شہر قائد میں امن و امان کی صورتحال کے تناظر میں ستمبر 2013 ء میں انھوں نے کراچی میں اعلیٰ سطح کا اجلاس کیا جس میں پہلی مرتبہ تمام سٹیک ہولڈروں‘ جن میں رینجررز، پولیس اور فوج بھی شامل تھی‘ نے کراچی کو جرائم پیشہ افراد سے پاک کرنے کا عزم مصمم کیا لیکن جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا گیا اور کراچی کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے۔ ملک کے موجودہ موڈ، جس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب لانچ کیا ہوا ہے، میں کراچی کے معاملات بھی مزید فوکس میں آگئے۔ کہا تو یہی جاتا رہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے مسلح اور عسکری ونگز ختم کرنا ہوں گے۔ اسی حوالے سے سنی تحریک کے خلاف کارروائیاں کی گئیں اور پیپلز پارٹی کے ایسے عناصر‘ جو اس کے گڑھ لیاری میں تھے‘ کے خلاف بھی کارروائی ہوئی جسے سندھ میں برسر اقتدار جماعت نے خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ لیکن دوسری طرف ایم کیو ایم سراپا احتجاج رہی کہ اس کے خلاف انتقامی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ اس کے کارکنوں کو مارا جا رہا ہے اور اسے 'سنگل آوٹ‘ کیا جا رہا ہے۔ جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے‘ اس نے گذشتہ عام انتخابات میں کراچی میں قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست حاصل کی لیکن ووٹ بہت زیادہ لیے۔ اس جماعت نے اپنا کوئی عسکری ونگ بھی نہیں بنایا۔
آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر اس منصب پر فائزہونے سے پہلے کراچی میں رینجرز کے سربراہ تھے۔ رینجرز اگرچہ وفاقی وزارت داخلہ کے کنٹرول میں کام کرتی ہے لیکن اس کی کمان فوجی افسروں کے ہاتھ میں ہی ہوتی ہے۔ جنرل رضوان اختر کراچی میں امن اور قانون عامہ کے حوالے سے تمام موشگافیوں سے پوری طرح واقف ہیں‘ اسی بنا پر عام طور پر یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ جلد یا بدیر جرائم
پیشہ افراد کے خلاف بھرپور آپریشن ہو گا۔ نہ جانے قائد تحریک نے ایسے کارکنوں کی بیخ کنی کیوں نہیں کی۔ اب جبکہ نائن زیرو سے بہت سے مسلح اور مطلوب افراد کو پکڑا گیا ہے اور انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے ان کا ریمانڈ لے لیا گیا ہے‘ الطاف حسین کا کہنا ہے کہ یہ لوگ وہاں کیا کر رہے تھے۔ نائن زیرو سے جدید ترین اسلحہ اور گولہ بارود کی ریکوری بھی ایک معمہ بن گئی ہے۔ ایم کیو ایم کے ترجمان کا دعویٰ ہے کہ یہ باقاعدہ لائسنس یافتہ اسلحہ ہے جبکہ الطاف حسین فرماتے ہیں کہ یہ اسلحہ رینجرز والے کمبلوں میں چھپا کر لائے تھے۔ کسی حکومتی ترجمان نے یہ درفنطنی بھی چھوڑی ہے کہ یہ نیٹو کنٹینرز سے لوٹا گیا اسلحہ ہے لیکن امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نے غیر معمولی عجلت میں ایک بیان جاری کیا ہے کہ امریکہ یا نیٹو کے بحری جہاز سے کوئی اسلحہ یا بارود کراچی نہیں بھیجا گیا۔ بہرحال یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو اپنے ہیڈ کوارٹر میں اتنا اسلحہ‘ چاہے وہ لائسنس شدہ ہی ہو، رکھنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ سیاسی جماعت کا کام تو بیلٹ (Ballot) سے ہوتا ہے بلٹ (Bullet) سے نہیں۔ اب ایم کیو ایم ایک دوراہے پر آن کھڑی ہوئی ہے۔ ایک فعال سیاسی جماعت ہونے کے ناتے اسے خود کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنا ہو گا۔ جہاں تک سندھ میں برسر اقتدار جماعت پیپلز پارٹی کا تعلق ہے اس کے زعماء نیمے دروں نیمے بروں بیانات کے ذریعے گونگلوئوں سے مٹی جھاڑ رہے ہیں لیکن انھیں یقینا یہ چوائس دی گئی ہے کہ یا تو آپریشن کا سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر ساتھ دیں‘ بصورت دیگر گورنر راج کے لیے تیار ہو جائیں۔ جہاں تک وفاقی حکومت کا تعلق ہے تو اس نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے بیان کے ذریعے رینجرز کی کارروائی کی اونرشپ قبول کی ہے۔ اس تناظر میں یہ سمجھنا غلط فہمی ہو گی کہ جن قوتوں نے یہ آپریشن شروع کیا ہے اب پیچھے ہٹ جائیں گی۔ ستمبر 2012ء میں کراچی میں بلدیہ ٹائون میں گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگنے کے سانحہ کی رپورٹ بھی منظر عام پر آچکی ہے جس میں 258 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے بھتہ خوروں نے فیکٹری کے مالک سے بھتہ نہ ملنے پر آگ لگائی اور بعدازاں بھتہ وصول بھی کر لیا۔ ایم کیو ایم نے اس الزام کی دوٹوک الفاظ میں تردید کی ہے لیکن موجودہ تناظر میں اس حوالے سے ایجنسیوں کو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا پڑے گا۔ ایم کیو ایم کا یہ مطالبہ سراسر جائز ہے کہ کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے جو بھی آپریشن کیا جائے وہ بلاتخصیص ہونا چاہیے اور محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ کسی خاص جماعت کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ رینجرز کے ترجمان کا دعویٰ ہے کہ ایسا ہی ہو رہا ہے لیکن جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ مثال کے طور پر کراچی کئی قسم کے دہشت گردوں‘ جن میں تحریک طالبان پاکستان بھی شامل ہے‘ کی آماجگاہ ہے۔ ان کی بیخ کنی کے لیے ہماری ایجنسیاں اتنی فعال نظر نہیں آ رہیں۔