ظہور احمد سولنگی
محفلین
پاکستان کے صوبۂ پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف نے کہا ہے کہ طالبان کا نافذ کردہ شرعی نظامِ عدل صرف سوات اور مالا کنڈ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پاکستان کے دوسرے حصوں تک پھیلے گا کیونکہ ان کےبقول باسٹھ برس کےدوران پاکستان میں عدل انصاف کا اپنا نظام غیر موثر ہوچکا ہے۔
یہ بات انہوں نے ایوان وزیر اعلی میں لاہور کے سینیئر صحافیوں، مدیروں اور کالم نویسوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوات کامعاہدہ دراصل عسکریت پسندوں کی طرف سے ہم پر مسلط کیا گیا ہے کیونکہ اس کے سوا حکومت کے پاس اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ اگر یہ معاہدہ نہ کیا جاتا تو سوات میں روزانہ سینکڑوں لوگ مرتے رہتے جس کے بہت بھیانک نتائج نکل سکتے تھے۔‘
وزیر اعلی پنجاب نے کہا کہ وہ ان لوگوں کی غلط فہمی دور کرنا چاہتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ سوات کا نظامِ عدل ناکام ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا ’طالبان کا یہ ماڈل نہ صرف کامیاب ہوگا بلکہ اس کے اثرات کو ملک کے دوسرے حصوں میں پہنچنے سے روکنا ناممکن نہیں تو بے انتہا مشکل ضرور ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ طالبان نے افغانستان میں اپنے دور حکومت میں عورتوں کی تعلیم پر پابندی لگائی، تعلیمی ادارے تباہ کیے اور نیکر پہننے والے فٹ بالروں کو کوڑے مارے، کوئی ہسپتال قائم کیا نہ ترقیاتی کام ہوئے، لیکن ان کے تین کارناموں سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ شہباز شریف نے تین کارنامے گنواتے ہوئے کہا کہ طالبان نے پشتون روایت کے برعکس اسلحہ سے پاک معاشرہ قائم کیا، جرائم تقریباً ختم کرڈالے اور پوست کی کاشت سو فی صد ختم کردی تھی۔ انہوں نے کہا کہ امکانی طور پر طالبان اسی ماڈل کو اب سوات اور ملاکنڈ میں دہرائیں گے اور امکانی طور پر یہ ماڈل پورے ملک میں پھیل سکتا ہے۔
شہباز شریف نے اس ایک نشست کے دوران اس بات کو مختلف انداز میں تین بار دہرایا۔
انہوں نے کہا کہ ایسا اس لیے ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے باسٹھ برسوں میں عدل وانصاف کا نظام غیر موثر ہوچکا ہے۔ لوگ انصاف چاہتے ہیں اور اگر انہیں انصاف ملتا دکھائی دیا تو وہ طالبان ماڈل یا طرز حکومت کی طرف مائل ہوسکتے۔
وزیراعلی پنجاب نے کہا کہ ایسا ہونے سے روکنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ملک میں امن عامہ کی صورتحال بہتر کی جائے لوگوں کو عدل و انصاف فراہم کیا جائے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی جائے۔
انہوں نے کہا وزیر اعظم اور چاروں صوبائی وزرائے اعلی کے ایک اجلاس میں انٹیلیجنس بیورو کے ایک اعلی افسر نے بریفنگ میں بتایا ہے کہ نوے فی صد امریکی ڈرون حملے ناکام رہے اور ان میں بے گناہ لوگ مارے گئے۔صرف دس فی صد حملے ایسے تھے جن میں کسی ہائی ویلیوٹارگٹ کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ شہباز شریف نے کہا ڈرون حملوں کی بند کمروں میں حمایت کی جاتی ہے اور عوام کے سامنے اس کی مخالفت ہوتی۔ انہوں نے کہا یہ ’منافقت اب بند ہونی چاہیے، اگر ڈرون حملوں میں واقعی شدت پسند مارے جارہے ہیں تو عوام کو اعتماد لیا جائے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھربند کمروں میں بھی اسی حمایت بند کی جائے‘۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جتنی غیر ملکی مداخلت اب ہورہی ہے اس کی اس سے پہلے مثال نہیں ملتی۔ ان کے بقول پاکستان کے انتہائی چھوٹے چھوٹے فیصلے تک بیرونی طاقتیں کررہی ہیں حتی کہ اگر باتھ روم جانا ہو تب بھی بیرونی طاقتوں سے اجازت درکار ہوتی ہے۔
شہباز شریف نے کہا وہ مسلم لیگ نون کے صدر ہیں اور چاروں صوبوں سے ان کے پارٹی عہدیدار انہیں حالات سے باخبر رکھتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ صوبہ سرحد، قبائلی علاقوں اور بلوچستان کی صورتحال تشویشناک ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں اور خود انہیں بلوچستان کے پارٹی عہدیدار کہتے ہیں کہ جلد کچھ نہ کیا گیا تو بلوچستان جانے کے لیے ویزے کی ضرورت پڑے گی۔
شہباز شریف نے کہا یہ محض قبائلی سرداروں کی بات نہیں ہے بلکہ پوری بلوچ قوم، پاکستان، بلکہ صحیح کہا جائے تو پنجاب کے خلاف ہوچکی ہے۔
پنجاب کے وزیراعلی کاکہنا تھا کہ ان کے خیال میں اب بلوچوں سے ان کے مطالبات پوچھنے کا وقت بھی گزر چکا ہے۔ اب تو ان کی منت سماجت کرکے انہیں منانا ہوگا اور ایک نئے عمرانی معاہدے پر بات کرنا ہوگی تب ہی وفاق بچ پائے گا۔ انہوں نے کہا بلوچستان میں پہلے ہی محرومی اور ناانصافی کے احساسات پائے جاتے تھے اور اکبر بگٹی کا قتل تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا ہے۔
انہوں نے کہ وہ طلال بگٹی کی بہت عزت کرتے ہیں اور وہ پنجاب بھی آئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلوچ قوم کے زیادہ تر لوگ براہمداغ بگٹی کے ساتھ ہیں جو علیحدگی کی بات کرتے ہیں اور افغانستان میں رہتے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے فوری طور پر ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے اور یہ اے پی سی اگر وزیر اعظم بلائیں تو زیادہ اچھی اور مؤثر بات ہوگی۔
شہباز شریف نے الزام لگایا کہ ’پاکستان میں حالات بگاڑنے میں بھارت کا بڑا ہاتھ ہے لیکن ہم ثبوت ہونے کےباوجود اس کے خلاف بات نہیں کرسکتے کیونکہ اس وقت جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے اور ان دنوں ان (بھارت) کی چل رہی ہے۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو
یہ بات انہوں نے ایوان وزیر اعلی میں لاہور کے سینیئر صحافیوں، مدیروں اور کالم نویسوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوات کامعاہدہ دراصل عسکریت پسندوں کی طرف سے ہم پر مسلط کیا گیا ہے کیونکہ اس کے سوا حکومت کے پاس اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ اگر یہ معاہدہ نہ کیا جاتا تو سوات میں روزانہ سینکڑوں لوگ مرتے رہتے جس کے بہت بھیانک نتائج نکل سکتے تھے۔‘
وزیر اعلی پنجاب نے کہا کہ وہ ان لوگوں کی غلط فہمی دور کرنا چاہتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ سوات کا نظامِ عدل ناکام ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا ’طالبان کا یہ ماڈل نہ صرف کامیاب ہوگا بلکہ اس کے اثرات کو ملک کے دوسرے حصوں میں پہنچنے سے روکنا ناممکن نہیں تو بے انتہا مشکل ضرور ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ طالبان نے افغانستان میں اپنے دور حکومت میں عورتوں کی تعلیم پر پابندی لگائی، تعلیمی ادارے تباہ کیے اور نیکر پہننے والے فٹ بالروں کو کوڑے مارے، کوئی ہسپتال قائم کیا نہ ترقیاتی کام ہوئے، لیکن ان کے تین کارناموں سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ شہباز شریف نے تین کارنامے گنواتے ہوئے کہا کہ طالبان نے پشتون روایت کے برعکس اسلحہ سے پاک معاشرہ قائم کیا، جرائم تقریباً ختم کرڈالے اور پوست کی کاشت سو فی صد ختم کردی تھی۔ انہوں نے کہا کہ امکانی طور پر طالبان اسی ماڈل کو اب سوات اور ملاکنڈ میں دہرائیں گے اور امکانی طور پر یہ ماڈل پورے ملک میں پھیل سکتا ہے۔
شہباز شریف نے اس ایک نشست کے دوران اس بات کو مختلف انداز میں تین بار دہرایا۔
انہوں نے کہا کہ ایسا اس لیے ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے باسٹھ برسوں میں عدل وانصاف کا نظام غیر موثر ہوچکا ہے۔ لوگ انصاف چاہتے ہیں اور اگر انہیں انصاف ملتا دکھائی دیا تو وہ طالبان ماڈل یا طرز حکومت کی طرف مائل ہوسکتے۔
وزیراعلی پنجاب نے کہا کہ ایسا ہونے سے روکنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ملک میں امن عامہ کی صورتحال بہتر کی جائے لوگوں کو عدل و انصاف فراہم کیا جائے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی جائے۔
انہوں نے کہا وزیر اعظم اور چاروں صوبائی وزرائے اعلی کے ایک اجلاس میں انٹیلیجنس بیورو کے ایک اعلی افسر نے بریفنگ میں بتایا ہے کہ نوے فی صد امریکی ڈرون حملے ناکام رہے اور ان میں بے گناہ لوگ مارے گئے۔صرف دس فی صد حملے ایسے تھے جن میں کسی ہائی ویلیوٹارگٹ کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ شہباز شریف نے کہا ڈرون حملوں کی بند کمروں میں حمایت کی جاتی ہے اور عوام کے سامنے اس کی مخالفت ہوتی۔ انہوں نے کہا یہ ’منافقت اب بند ہونی چاہیے، اگر ڈرون حملوں میں واقعی شدت پسند مارے جارہے ہیں تو عوام کو اعتماد لیا جائے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھربند کمروں میں بھی اسی حمایت بند کی جائے‘۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جتنی غیر ملکی مداخلت اب ہورہی ہے اس کی اس سے پہلے مثال نہیں ملتی۔ ان کے بقول پاکستان کے انتہائی چھوٹے چھوٹے فیصلے تک بیرونی طاقتیں کررہی ہیں حتی کہ اگر باتھ روم جانا ہو تب بھی بیرونی طاقتوں سے اجازت درکار ہوتی ہے۔
شہباز شریف نے کہا وہ مسلم لیگ نون کے صدر ہیں اور چاروں صوبوں سے ان کے پارٹی عہدیدار انہیں حالات سے باخبر رکھتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ صوبہ سرحد، قبائلی علاقوں اور بلوچستان کی صورتحال تشویشناک ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں اور خود انہیں بلوچستان کے پارٹی عہدیدار کہتے ہیں کہ جلد کچھ نہ کیا گیا تو بلوچستان جانے کے لیے ویزے کی ضرورت پڑے گی۔
شہباز شریف نے کہا یہ محض قبائلی سرداروں کی بات نہیں ہے بلکہ پوری بلوچ قوم، پاکستان، بلکہ صحیح کہا جائے تو پنجاب کے خلاف ہوچکی ہے۔
پنجاب کے وزیراعلی کاکہنا تھا کہ ان کے خیال میں اب بلوچوں سے ان کے مطالبات پوچھنے کا وقت بھی گزر چکا ہے۔ اب تو ان کی منت سماجت کرکے انہیں منانا ہوگا اور ایک نئے عمرانی معاہدے پر بات کرنا ہوگی تب ہی وفاق بچ پائے گا۔ انہوں نے کہا بلوچستان میں پہلے ہی محرومی اور ناانصافی کے احساسات پائے جاتے تھے اور اکبر بگٹی کا قتل تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا ہے۔
انہوں نے کہ وہ طلال بگٹی کی بہت عزت کرتے ہیں اور وہ پنجاب بھی آئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلوچ قوم کے زیادہ تر لوگ براہمداغ بگٹی کے ساتھ ہیں جو علیحدگی کی بات کرتے ہیں اور افغانستان میں رہتے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے فوری طور پر ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے اور یہ اے پی سی اگر وزیر اعظم بلائیں تو زیادہ اچھی اور مؤثر بات ہوگی۔
شہباز شریف نے الزام لگایا کہ ’پاکستان میں حالات بگاڑنے میں بھارت کا بڑا ہاتھ ہے لیکن ہم ثبوت ہونے کےباوجود اس کے خلاف بات نہیں کرسکتے کیونکہ اس وقت جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے اور ان دنوں ان (بھارت) کی چل رہی ہے۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو