منقب سید
محفلین
یلدا حکیم بی بی سی نیوز، پاکستان
پاکستان میں متوسط طبقے کی آمد سے خواتین کے حقوق کا مطالبہ ہو رہا ہے
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں خواتین کسی غلط آدمی کی محبت میں گرفتار ہو جائیں تو انھیں تشدد یہاں تک کہ موت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
25 سالہ عارفہ نے جس سے محبت کی اس کے ساتھ بھاگ کر چپکے سے شادی کی اور اپنے اہل خانہ کے خلاف کھڑے ہونے کی جرات دکھائی۔
شادی کے اگلے ہی دن پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ایک مصروف علاقے سے اس کے خاندان کے مردوں نے اس نئے شادی شدہ جوڑے کو بندوق کی نال پر روک لیا اور عارفہ کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔
پانچ دن بعد ہی اس کے شوہر عبدالمالک کو اس کی کوئی خبر مل سکی۔
آبدیدہ عبدالمالک نے مجھے بتایا: ’مجھے یہ خبر ملی کہ اسے قتل کر دیا گیا ہے۔ لیکن بہت مشکلات کے بعد میں یہ معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوا کہ میری اہلیہ زندہ ہے اور اسے کہیں چھپا کر رکھا گيا ہے۔‘
عبدالمالک اپنی جان کے خوف سے خود تین مہینوں سے چھپ کر رہ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا: ’پاکستان میں محبت ایک بڑا گناہ ہے۔ صدیاں گزر گئیں، دنیا نے اتنی ترقی کر لی۔ انسان سیاروں پر پہنچ گیا لیکن ہمارے لوگ ابھی بھی تاریک عہد کے پرانے رسم و رواج کے پابند ہیں۔‘
یہ وہ رسم و رواج ہیں جو خواتین کی آزادی پر پابندی لگاتے ہیں اور پاکستان میں اسے قبولِ عام اور اسے سخت گیر مذہبی رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے۔
ملک کے قانون کو ہمیشہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
غیرت کے نام پر رواں سال ایک ہزار سے زیادہ خواتین کو قتل کیا گیا ہے
عملی طور پر یہاں خواتین کو بہت کم حقوق حاصل ہیں۔ وہ شادی تک اپنے خاندان کی ملکیت ہیں اس کے بعد اس کی ملکیت اس کے شوہر کے خاندان کو منتقل ہو جاتی ہے جہاں اگر وہ خاندان کے لیے بدنامی کا باعث ہوتی ہے تو اسے موت کا خطرہ رہتا ہے۔
صرف رواں سال میں ایک ہزار سے زیادہ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا ہے اور یہ اعدادوشمار وہ ہیں جن کا حکام کو علم ہے۔
مئی میں فرزانہ پروین کے واقعے نے دنیا کو ہلا دیا تھا۔ فرزانہ کو ان کے اہل خانہ نے اس لیے اینٹیں مار مار کر قتل کر دیا تھا کیونکہ اس نے خاندان کی پسند کے بجائے اپنی پسند کے شخص سے شادی کی تھی۔
مزید حیران کن بات تو یہ تھی کہ یہ واقعہ لاہور ہائی کورٹ کے باہر پولیس اور راہگیروں کے سامنے پیش آیا تھا۔
دنیا بھر کی میڈیا میں بات آ جانے کے بعد پروین کے والد، بھائی، کزن اور سابق منگیتر کو مجرم گرادنتے ہوئے نومبر میں انھیں موت کی سزا سنائی گئی جبکہ ایک اور بھائی کو 10 سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔
لیکن عام طور خواتین کے خلاف پر ایسا بہیمانہ جرم کرنے والوں پر مقدمہ نہیں چلایا جاتا بلکہ قبائلی قانون ان کی حفاظت کرتا ہے۔
بعض سخت گیر مذہبی علماء کا خیال ہے کہ خاندان اور قبیلے کے ناموس کی بحالی اسی طرح ممکن ہے کہ ان معاملات میں ملوث خاندان کے کسی فرد کو سزا دی جائے اور عموماً ان سزاؤں کے لیے انتخاب خواتین کا ہی ہوتا ہے۔
مولوی صاحب کا کہنا ہے کہ شریعت میں زنا کی سزا رجم یا کوڑہ ہے
حیرت کا مقام یہ ہے کہ پاکستان میں چند ہی لوگ ان قبائلی رسم و رواج کے خلاف آواز اٹھانے کو تیار ہیں۔ درحقیقت پیو ریسرچ سنٹر کی حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان کی اکثریت اسلامی قانونی نظام شریعت کا نفاذ چاہتی ہے۔
کراچی کی گلیوں میں مجھے ایک مدرسہ نظر آیا جہاں ہزاروں بچے مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ میں نے مقامی عالم سے زنا کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جس کے تحت غیرت کی خاطر عورتوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔
مولوی نے مجھے بتایا: ’یہ سزا وہی ہے جو شریعت میں ہے یعنی سنگسار یا پھر کوڑے۔‘
ان کے ایک شاگرد نے ان کی حامی بھرتے ہوئے کہا: ’اگر ایک بار ثابت ہو جاتا ہے تو اس کی سزا کوڑا لگایا جانا یا سنگسار کرنا ہے۔‘
اس مدرسے میں مجھے ان خواتین کے لیے کوئي ہمدردی نظر نہیں آئی جو بے راہروی کا شکار ہو جاتی ہیں۔
لیکن ملک کا قانون کیا کہتا ہے؟ سنہ 1979 میں پاکستان کے فوجی حکمراں جنرل ضیاءالحق نے متنازع حددد آرڈیننس جاری کیا تھا جو پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کی کوشش کے تحت شروع کیا گیا تھا۔
دوسری چیزوں کے ساتھ اس میں زنا کی سزا سنگساری یا کوڑے مارنا طے کی گئی تھی۔
کراچی کی جیل میں بہت سی خواتین ہیں جنھیں یہ معلوم نہیں کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا
سنہ 2006 میں صدر پرویز مشرف نے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ان میں کچھ ترامیم کی تیھی لیکن اس کا نفاذ محددد رہا اور زنا اب بھی جرم ہے۔
کراچی میں خواتین کی مرکزی جیل بعض ایسی خواتین کا مقدر ہیں۔
24 سالہ سعدیہ یہاں اس وقت آئیں جب ان کے نو سال تک رہنے والے شوہر نے ان پر کسی دوسرے مرد کے ساتھ ہم بستری کا الزام لگایا۔ وہ ابھی تک سماعت کا انتظار کر رہی ہیں۔
انھوں نے کہا: ’میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی، مجھے مارا پیٹا اور گھر سے نکال دیا۔ پھر وہ پولیس کے پاس گیا اور کہا کہ میں دوسرے آدمی کے ساتھ بھاگ گئی ہوں۔ در حقیقت اس نے اور اس کے گھر والوں نے مجھے مار پیٹ کر لکال دیا تھا۔‘
سعدیہ نے مجھے بتایا کہ انھیں وکیل تک رسائی نہیں ہے اور انھیں یہ علم نہیں کہ وہ کب رہا ہوں گی۔
جب میں وہاں گئی تھی تو جیل میں 80 خواتین تھیں اور وہ بغیر کسی عدالتی کاروائی کے وہاں پڑی رہیں گی۔
بعض خوش قسمت خواتین کو ملک میں مختصرتعداد میں موجود پناہ گاہوں میں جگہ مل جاتی ہے۔
ہم نہیں پوچھتے
اگر کوئی یہاں کے باہر کوئی محبت والا رشتہ رکھتی ہے تو ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں، ہم نہیں پوچھتے۔ وہ یہاں جب تک چاہے رہ سکتی ہے۔ اگر اس کے اہل خانہ اسے لینے آتے ہیں اور وہ اپنی مرضی سے جانا چاہتی ہے تو وہ آزاد ہے۔
رضا کار ثمینہ
میں نے خواتین کے لیے ایدھی کی پناہ گاہ کا دورہ کیا۔ یہ ادارہ کراچی کے اس نواحی علاقے میں قائم ہے جو طالبان کے حامیوں کی نرسری کے طور پر بدنام ہے۔
یہاں کی زیادہ تر خواتین یا تو خراب رشتوں کی وجہ سے وہاں ہیں یا پھر گھروں سے نکال دی گئی ہیں۔
یہاں خواتی مل جل کر کھانا پکانے، صفائی اور دوسرے کے بچوں کی دیکھ بھال کا کام کرتی ہیں۔ کسی سے کبھی نہیں پوچھا جاتا کہ انھوں نے یہاں کیوں پناہ لے رکھی ہے۔
یہاں ایک ضابطے کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے کہ وہاں رہنے والی خاتون کی اجازت کے بغیر ان سے ملنے وہاں کوئی نہیں آ سکتا خواہ منتظمین ہی کیوں نہ ہوں۔
یہاں کام کرنے والی ایک رضاکار ثمینہ نے مجھے بتایا: ’اگر کوئی یہاں سے باہر کوئی محبت والا رشتہ رکھتی ہے تو ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں، ہم نہیں پوچھتے۔ وہ یہاں جب تک چاہے رہ سکتی ہے۔ اگر اس کے اہل خانہ اسے لینے آتے ہیں اور وہ اپنی مرضی سے جانا چاہتی ہے تو وہ آزاد ہے۔‘
اگر پولیس اسے زنا کے الزامات میں پکڑنے آئے تو کیا۔ اس کے جواب میں ثمینہ نے کہا: ’ہم اسے پولیس کے حوالے نہیں کریں گے۔‘
لال دوپٹے میں ملبوس عائشہ نے کہا کہ وہ پانچ بار اپنے دو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ گھر چھوڑ کر یہاں آئی ہیں۔ ہر بار ان کے شوہر انھیں لینے آئے اور ہر بار ان کے ساتھ جو سختی کی گئی اس لیے انھیں پھر بھاگنا پڑا۔
عائشہ نے بتایا کہ اس کے شوہر نے اس پر کسی سے تعلق کا الزام لگایا: ’میرے شوہر نے مجھے کمرے میں بند کر کے تالہ لگا دیا اور مجھے پیٹتا رہا اور زور ڈالتا رہا کہ میں اس تعلق کے بارے میں اعتراف کر لوں۔
ایدھی شیلٹر جیسی بعض پناہ گاہوں میں بعض خوش قسمت خواتین کو جگہ مل جاتی ہے
’میرے بچے چیختے چلاتے رہے۔ کوئی میری ماں کو بچاؤ۔ لیکن کسی نے نہ سنا کوئی بچانے نہ آیا۔‘
عائشہ نے بتایا کہ اب وہ اپنے شوہر کے پاس واپس جانا نہیں چاہتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا مستقبل تاریک ہے تاہم وہ خوش قسمتی سے زندہ ہے۔
متوسط طبقے میں اضافے، جدیدیت اور سیکولرازم کی کوششوں کے باوجود پاکستان میں خواتین سے نفرت کرنے والوں سے لڑنا بہت مشکل ہے۔
ایک ایسے سماج میں جہاں روایات کو قائم رکھنے کی کوشش جاری ہو وہاں شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں خواتین کو جنس پر مبنی تفریق اور تشدد کا سامنا ہے۔
اور جوں جوں مذہبی کٹرپسندی مضبوط ہوتی رہے گی خواتین کی آزادی پر حملے بڑھتے جائيں گے۔
لنک
پاکستان میں متوسط طبقے کی آمد سے خواتین کے حقوق کا مطالبہ ہو رہا ہے
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں خواتین کسی غلط آدمی کی محبت میں گرفتار ہو جائیں تو انھیں تشدد یہاں تک کہ موت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
25 سالہ عارفہ نے جس سے محبت کی اس کے ساتھ بھاگ کر چپکے سے شادی کی اور اپنے اہل خانہ کے خلاف کھڑے ہونے کی جرات دکھائی۔
شادی کے اگلے ہی دن پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ایک مصروف علاقے سے اس کے خاندان کے مردوں نے اس نئے شادی شدہ جوڑے کو بندوق کی نال پر روک لیا اور عارفہ کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔
پانچ دن بعد ہی اس کے شوہر عبدالمالک کو اس کی کوئی خبر مل سکی۔
آبدیدہ عبدالمالک نے مجھے بتایا: ’مجھے یہ خبر ملی کہ اسے قتل کر دیا گیا ہے۔ لیکن بہت مشکلات کے بعد میں یہ معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوا کہ میری اہلیہ زندہ ہے اور اسے کہیں چھپا کر رکھا گيا ہے۔‘
عبدالمالک اپنی جان کے خوف سے خود تین مہینوں سے چھپ کر رہ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا: ’پاکستان میں محبت ایک بڑا گناہ ہے۔ صدیاں گزر گئیں، دنیا نے اتنی ترقی کر لی۔ انسان سیاروں پر پہنچ گیا لیکن ہمارے لوگ ابھی بھی تاریک عہد کے پرانے رسم و رواج کے پابند ہیں۔‘
یہ وہ رسم و رواج ہیں جو خواتین کی آزادی پر پابندی لگاتے ہیں اور پاکستان میں اسے قبولِ عام اور اسے سخت گیر مذہبی رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے۔
ملک کے قانون کو ہمیشہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
غیرت کے نام پر رواں سال ایک ہزار سے زیادہ خواتین کو قتل کیا گیا ہے
عملی طور پر یہاں خواتین کو بہت کم حقوق حاصل ہیں۔ وہ شادی تک اپنے خاندان کی ملکیت ہیں اس کے بعد اس کی ملکیت اس کے شوہر کے خاندان کو منتقل ہو جاتی ہے جہاں اگر وہ خاندان کے لیے بدنامی کا باعث ہوتی ہے تو اسے موت کا خطرہ رہتا ہے۔
صرف رواں سال میں ایک ہزار سے زیادہ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا ہے اور یہ اعدادوشمار وہ ہیں جن کا حکام کو علم ہے۔
مئی میں فرزانہ پروین کے واقعے نے دنیا کو ہلا دیا تھا۔ فرزانہ کو ان کے اہل خانہ نے اس لیے اینٹیں مار مار کر قتل کر دیا تھا کیونکہ اس نے خاندان کی پسند کے بجائے اپنی پسند کے شخص سے شادی کی تھی۔
مزید حیران کن بات تو یہ تھی کہ یہ واقعہ لاہور ہائی کورٹ کے باہر پولیس اور راہگیروں کے سامنے پیش آیا تھا۔
دنیا بھر کی میڈیا میں بات آ جانے کے بعد پروین کے والد، بھائی، کزن اور سابق منگیتر کو مجرم گرادنتے ہوئے نومبر میں انھیں موت کی سزا سنائی گئی جبکہ ایک اور بھائی کو 10 سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔
لیکن عام طور خواتین کے خلاف پر ایسا بہیمانہ جرم کرنے والوں پر مقدمہ نہیں چلایا جاتا بلکہ قبائلی قانون ان کی حفاظت کرتا ہے۔
بعض سخت گیر مذہبی علماء کا خیال ہے کہ خاندان اور قبیلے کے ناموس کی بحالی اسی طرح ممکن ہے کہ ان معاملات میں ملوث خاندان کے کسی فرد کو سزا دی جائے اور عموماً ان سزاؤں کے لیے انتخاب خواتین کا ہی ہوتا ہے۔
مولوی صاحب کا کہنا ہے کہ شریعت میں زنا کی سزا رجم یا کوڑہ ہے
حیرت کا مقام یہ ہے کہ پاکستان میں چند ہی لوگ ان قبائلی رسم و رواج کے خلاف آواز اٹھانے کو تیار ہیں۔ درحقیقت پیو ریسرچ سنٹر کی حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان کی اکثریت اسلامی قانونی نظام شریعت کا نفاذ چاہتی ہے۔
کراچی کی گلیوں میں مجھے ایک مدرسہ نظر آیا جہاں ہزاروں بچے مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ میں نے مقامی عالم سے زنا کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جس کے تحت غیرت کی خاطر عورتوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔
مولوی نے مجھے بتایا: ’یہ سزا وہی ہے جو شریعت میں ہے یعنی سنگسار یا پھر کوڑے۔‘
ان کے ایک شاگرد نے ان کی حامی بھرتے ہوئے کہا: ’اگر ایک بار ثابت ہو جاتا ہے تو اس کی سزا کوڑا لگایا جانا یا سنگسار کرنا ہے۔‘
اس مدرسے میں مجھے ان خواتین کے لیے کوئي ہمدردی نظر نہیں آئی جو بے راہروی کا شکار ہو جاتی ہیں۔
لیکن ملک کا قانون کیا کہتا ہے؟ سنہ 1979 میں پاکستان کے فوجی حکمراں جنرل ضیاءالحق نے متنازع حددد آرڈیننس جاری کیا تھا جو پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کی کوشش کے تحت شروع کیا گیا تھا۔
دوسری چیزوں کے ساتھ اس میں زنا کی سزا سنگساری یا کوڑے مارنا طے کی گئی تھی۔
کراچی کی جیل میں بہت سی خواتین ہیں جنھیں یہ معلوم نہیں کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا
سنہ 2006 میں صدر پرویز مشرف نے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ان میں کچھ ترامیم کی تیھی لیکن اس کا نفاذ محددد رہا اور زنا اب بھی جرم ہے۔
کراچی میں خواتین کی مرکزی جیل بعض ایسی خواتین کا مقدر ہیں۔
24 سالہ سعدیہ یہاں اس وقت آئیں جب ان کے نو سال تک رہنے والے شوہر نے ان پر کسی دوسرے مرد کے ساتھ ہم بستری کا الزام لگایا۔ وہ ابھی تک سماعت کا انتظار کر رہی ہیں۔
انھوں نے کہا: ’میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی، مجھے مارا پیٹا اور گھر سے نکال دیا۔ پھر وہ پولیس کے پاس گیا اور کہا کہ میں دوسرے آدمی کے ساتھ بھاگ گئی ہوں۔ در حقیقت اس نے اور اس کے گھر والوں نے مجھے مار پیٹ کر لکال دیا تھا۔‘
سعدیہ نے مجھے بتایا کہ انھیں وکیل تک رسائی نہیں ہے اور انھیں یہ علم نہیں کہ وہ کب رہا ہوں گی۔
جب میں وہاں گئی تھی تو جیل میں 80 خواتین تھیں اور وہ بغیر کسی عدالتی کاروائی کے وہاں پڑی رہیں گی۔
بعض خوش قسمت خواتین کو ملک میں مختصرتعداد میں موجود پناہ گاہوں میں جگہ مل جاتی ہے۔
ہم نہیں پوچھتے
اگر کوئی یہاں کے باہر کوئی محبت والا رشتہ رکھتی ہے تو ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں، ہم نہیں پوچھتے۔ وہ یہاں جب تک چاہے رہ سکتی ہے۔ اگر اس کے اہل خانہ اسے لینے آتے ہیں اور وہ اپنی مرضی سے جانا چاہتی ہے تو وہ آزاد ہے۔
رضا کار ثمینہ
میں نے خواتین کے لیے ایدھی کی پناہ گاہ کا دورہ کیا۔ یہ ادارہ کراچی کے اس نواحی علاقے میں قائم ہے جو طالبان کے حامیوں کی نرسری کے طور پر بدنام ہے۔
یہاں کی زیادہ تر خواتین یا تو خراب رشتوں کی وجہ سے وہاں ہیں یا پھر گھروں سے نکال دی گئی ہیں۔
یہاں خواتی مل جل کر کھانا پکانے، صفائی اور دوسرے کے بچوں کی دیکھ بھال کا کام کرتی ہیں۔ کسی سے کبھی نہیں پوچھا جاتا کہ انھوں نے یہاں کیوں پناہ لے رکھی ہے۔
یہاں ایک ضابطے کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے کہ وہاں رہنے والی خاتون کی اجازت کے بغیر ان سے ملنے وہاں کوئی نہیں آ سکتا خواہ منتظمین ہی کیوں نہ ہوں۔
یہاں کام کرنے والی ایک رضاکار ثمینہ نے مجھے بتایا: ’اگر کوئی یہاں سے باہر کوئی محبت والا رشتہ رکھتی ہے تو ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں، ہم نہیں پوچھتے۔ وہ یہاں جب تک چاہے رہ سکتی ہے۔ اگر اس کے اہل خانہ اسے لینے آتے ہیں اور وہ اپنی مرضی سے جانا چاہتی ہے تو وہ آزاد ہے۔‘
اگر پولیس اسے زنا کے الزامات میں پکڑنے آئے تو کیا۔ اس کے جواب میں ثمینہ نے کہا: ’ہم اسے پولیس کے حوالے نہیں کریں گے۔‘
لال دوپٹے میں ملبوس عائشہ نے کہا کہ وہ پانچ بار اپنے دو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ گھر چھوڑ کر یہاں آئی ہیں۔ ہر بار ان کے شوہر انھیں لینے آئے اور ہر بار ان کے ساتھ جو سختی کی گئی اس لیے انھیں پھر بھاگنا پڑا۔
عائشہ نے بتایا کہ اس کے شوہر نے اس پر کسی سے تعلق کا الزام لگایا: ’میرے شوہر نے مجھے کمرے میں بند کر کے تالہ لگا دیا اور مجھے پیٹتا رہا اور زور ڈالتا رہا کہ میں اس تعلق کے بارے میں اعتراف کر لوں۔
ایدھی شیلٹر جیسی بعض پناہ گاہوں میں بعض خوش قسمت خواتین کو جگہ مل جاتی ہے
’میرے بچے چیختے چلاتے رہے۔ کوئی میری ماں کو بچاؤ۔ لیکن کسی نے نہ سنا کوئی بچانے نہ آیا۔‘
عائشہ نے بتایا کہ اب وہ اپنے شوہر کے پاس واپس جانا نہیں چاہتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا مستقبل تاریک ہے تاہم وہ خوش قسمتی سے زندہ ہے۔
متوسط طبقے میں اضافے، جدیدیت اور سیکولرازم کی کوششوں کے باوجود پاکستان میں خواتین سے نفرت کرنے والوں سے لڑنا بہت مشکل ہے۔
ایک ایسے سماج میں جہاں روایات کو قائم رکھنے کی کوشش جاری ہو وہاں شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں خواتین کو جنس پر مبنی تفریق اور تشدد کا سامنا ہے۔
اور جوں جوں مذہبی کٹرپسندی مضبوط ہوتی رہے گی خواتین کی آزادی پر حملے بڑھتے جائيں گے۔
لنک