’پاکستان میں محبت کرنا ایک بڑا گناہ ہے‘

منقب سید

محفلین
یلدا حکیم بی بی سی نیوز، پاکستان
141213020732_pakistan_women_624x351_getty.jpg

پاکستان میں متوسط طبقے کی آمد سے خواتین کے حقوق کا مطالبہ ہو رہا ہے
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں خواتین کسی غلط آدمی کی محبت میں گرفتار ہو جائیں تو انھیں تشدد یہاں تک کہ موت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

25 سالہ عارفہ نے جس سے محبت کی اس کے ساتھ بھاگ کر چپکے سے شادی کی اور اپنے اہل خانہ کے خلاف کھڑے ہونے کی جرات دکھائی۔

شادی کے اگلے ہی دن پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ایک مصروف علاقے سے اس کے خاندان کے مردوں نے اس نئے شادی شدہ جوڑے کو بندوق کی نال پر روک لیا اور عارفہ کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔

پانچ دن بعد ہی اس کے شوہر عبدالمالک کو اس کی کوئی خبر مل سکی۔

آبدیدہ عبدالمالک نے مجھے بتایا: ’مجھے یہ خبر ملی کہ اسے قتل کر دیا گیا ہے۔ لیکن بہت مشکلات کے بعد میں یہ معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوا کہ میری اہلیہ زندہ ہے اور اسے کہیں چھپا کر رکھا گيا ہے۔‘

عبدالمالک اپنی جان کے خوف سے خود تین مہینوں سے چھپ کر رہ رہے ہیں۔

انھوں نے کہا: ’پاکستان میں محبت ایک بڑا گناہ ہے۔ صدیاں گزر گئیں، دنیا نے اتنی ترقی کر لی۔ انسان سیاروں پر پہنچ گیا لیکن ہمارے لوگ ابھی بھی تاریک عہد کے پرانے رسم و رواج کے پابند ہیں۔‘

یہ وہ رسم و رواج ہیں جو خواتین کی آزادی پر پابندی لگاتے ہیں اور پاکستان میں اسے قبولِ عام اور اسے سخت گیر مذہبی رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے۔

ملک کے قانون کو ہمیشہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

141213092105_woemn_pakistan_624x351_getty.jpg

غیرت کے نام پر رواں سال ایک ہزار سے زیادہ خواتین کو قتل کیا گیا ہے
عملی طور پر یہاں خواتین کو بہت کم حقوق حاصل ہیں۔ وہ شادی تک اپنے خاندان کی ملکیت ہیں اس کے بعد اس کی ملکیت اس کے شوہر کے خاندان کو منتقل ہو جاتی ہے جہاں اگر وہ خاندان کے لیے بدنامی کا باعث ہوتی ہے تو اسے موت کا خطرہ رہتا ہے۔

صرف رواں سال میں ایک ہزار سے زیادہ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا ہے اور یہ اعدادوشمار وہ ہیں جن کا حکام کو علم ہے۔

مئی میں فرزانہ پروین کے واقعے نے دنیا کو ہلا دیا تھا۔ فرزانہ کو ان کے اہل خانہ نے اس لیے اینٹیں مار مار کر قتل کر دیا تھا کیونکہ اس نے خاندان کی پسند کے بجائے اپنی پسند کے شخص سے شادی کی تھی۔

مزید حیران کن بات تو یہ تھی کہ یہ واقعہ لاہور ہائی کورٹ کے باہر پولیس اور راہگیروں کے سامنے پیش آیا تھا۔

دنیا بھر کی میڈیا میں بات آ جانے کے بعد پروین کے والد، بھائی، کزن اور سابق منگیتر کو مجرم گرادنتے ہوئے نومبر میں انھیں موت کی سزا سنائی گئی جبکہ ایک اور بھائی کو 10 سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔

لیکن عام طور خواتین کے خلاف پر ایسا بہیمانہ جرم کرنے والوں پر مقدمہ نہیں چلایا جاتا بلکہ قبائلی قانون ان کی حفاظت کرتا ہے۔

بعض سخت گیر مذہبی علماء کا خیال ہے کہ خاندان اور قبیلے کے ناموس کی بحالی اسی طرح ممکن ہے کہ ان معاملات میں ملوث خاندان کے کسی فرد کو سزا دی جائے اور عموماً ان سزاؤں کے لیے انتخاب خواتین کا ہی ہوتا ہے۔

141213092040_woemn_pakistan_624x351_bbc.jpg

مولوی صاحب کا کہنا ہے کہ شریعت میں زنا کی سزا رجم یا کوڑہ ہے
حیرت کا مقام یہ ہے کہ پاکستان میں چند ہی لوگ ان قبائلی رسم و رواج کے خلاف آواز اٹھانے کو تیار ہیں۔ درحقیقت پیو ریسرچ سنٹر کی حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان کی اکثریت اسلامی قانونی نظام شریعت کا نفاذ چاہتی ہے۔

کراچی کی گلیوں میں مجھے ایک مدرسہ نظر آیا جہاں ہزاروں بچے مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ میں نے مقامی عالم سے زنا کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جس کے تحت غیرت کی خاطر عورتوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔

مولوی نے مجھے بتایا: ’یہ سزا وہی ہے جو شریعت میں ہے یعنی سنگسار یا پھر کوڑے۔‘

ان کے ایک شاگرد نے ان کی حامی بھرتے ہوئے کہا: ’اگر ایک بار ثابت ہو جاتا ہے تو اس کی سزا کوڑا لگایا جانا یا سنگسار کرنا ہے۔‘

اس مدرسے میں مجھے ان خواتین کے لیے کوئي ہمدردی نظر نہیں آئی جو بے راہروی کا شکار ہو جاتی ہیں۔

لیکن ملک کا قانون کیا کہتا ہے؟ سنہ 1979 میں پاکستان کے فوجی حکمراں جنرل ضیاءالحق نے متنازع حددد آرڈیننس جاری کیا تھا جو پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کی کوشش کے تحت شروع کیا گیا تھا۔

دوسری چیزوں کے ساتھ اس میں زنا کی سزا سنگساری یا کوڑے مارنا طے کی گئی تھی۔

141213092004_woemn_pakistan_624x351_bbc.jpg

کراچی کی جیل میں بہت سی خواتین ہیں جنھیں یہ معلوم نہیں کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا
سنہ 2006 میں صدر پرویز مشرف نے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ان میں کچھ ترامیم کی تیھی لیکن اس کا نفاذ محددد رہا اور زنا اب بھی جرم ہے۔

کراچی میں خواتین کی مرکزی جیل بعض ایسی خواتین کا مقدر ہیں۔

24 سالہ سعدیہ یہاں اس وقت آئیں جب ان کے نو سال تک رہنے والے شوہر نے ان پر کسی دوسرے مرد کے ساتھ ہم بستری کا الزام لگایا۔ وہ ابھی تک سماعت کا انتظار کر رہی ہیں۔

انھوں نے کہا: ’میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی، مجھے مارا پیٹا اور گھر سے نکال دیا۔ پھر وہ پولیس کے پاس گیا اور کہا کہ میں دوسرے آدمی کے ساتھ بھاگ گئی ہوں۔ در حقیقت اس نے اور اس کے گھر والوں نے مجھے مار پیٹ کر لکال دیا تھا۔‘

سعدیہ نے مجھے بتایا کہ انھیں وکیل تک رسائی نہیں ہے اور انھیں یہ علم نہیں کہ وہ کب رہا ہوں گی۔

جب میں وہاں گئی تھی تو جیل میں 80 خواتین تھیں اور وہ بغیر کسی عدالتی کاروائی کے وہاں پڑی رہیں گی۔

بعض خوش قسمت خواتین کو ملک میں مختصرتعداد میں موجود پناہ گاہوں میں جگہ مل جاتی ہے۔

ہم نہیں پوچھتے
اگر کوئی یہاں کے باہر کوئی محبت والا رشتہ رکھتی ہے تو ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں، ہم نہیں پوچھتے۔ وہ یہاں جب تک چاہے رہ سکتی ہے۔ اگر اس کے اہل خانہ اسے لینے آتے ہیں اور وہ اپنی مرضی سے جانا چاہتی ہے تو وہ آزاد ہے۔
رضا کار ثمینہ
میں نے خواتین کے لیے ایدھی کی پناہ گاہ کا دورہ کیا۔ یہ ادارہ کراچی کے اس نواحی علاقے میں قائم ہے جو طالبان کے حامیوں کی نرسری کے طور پر بدنام ہے۔

یہاں کی زیادہ تر خواتین یا تو خراب رشتوں کی وجہ سے وہاں ہیں یا پھر گھروں سے نکال دی گئی ہیں۔

یہاں خواتی مل جل کر کھانا پکانے، صفائی اور دوسرے کے بچوں کی دیکھ بھال کا کام کرتی ہیں۔ کسی سے کبھی نہیں پوچھا جاتا کہ انھوں نے یہاں کیوں پناہ لے رکھی ہے۔

یہاں ایک ضابطے کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے کہ وہاں رہنے والی خاتون کی اجازت کے بغیر ان سے ملنے وہاں کوئی نہیں آ سکتا خواہ منتظمین ہی کیوں نہ ہوں۔

یہاں کام کرنے والی ایک رضاکار ثمینہ نے مجھے بتایا: ’اگر کوئی یہاں سے باہر کوئی محبت والا رشتہ رکھتی ہے تو ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں، ہم نہیں پوچھتے۔ وہ یہاں جب تک چاہے رہ سکتی ہے۔ اگر اس کے اہل خانہ اسے لینے آتے ہیں اور وہ اپنی مرضی سے جانا چاہتی ہے تو وہ آزاد ہے۔‘

اگر پولیس اسے زنا کے الزامات میں پکڑنے آئے تو کیا۔ اس کے جواب میں ثمینہ نے کہا: ’ہم اسے پولیس کے حوالے نہیں کریں گے۔‘

لال دوپٹے میں ملبوس عائشہ نے کہا کہ وہ پانچ بار اپنے دو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ گھر چھوڑ کر یہاں آئی ہیں۔ ہر بار ان کے شوہر انھیں لینے آئے اور ہر بار ان کے ساتھ جو سختی کی گئی اس لیے انھیں پھر بھاگنا پڑا۔

عائشہ نے بتایا کہ اس کے شوہر نے اس پر کسی سے تعلق کا الزام لگایا: ’میرے شوہر نے مجھے کمرے میں بند کر کے تالہ لگا دیا اور مجھے پیٹتا رہا اور زور ڈالتا رہا کہ میں اس تعلق کے بارے میں اعتراف کر لوں۔

141213091940_woemn_pakistan_624x351_bbc.jpg

ایدھی شیلٹر جیسی بعض پناہ گاہوں میں بعض خوش قسمت خواتین کو جگہ مل جاتی ہے
’میرے بچے چیختے چلاتے رہے۔ کوئی میری ماں کو بچاؤ۔ لیکن کسی نے نہ سنا کوئی بچانے نہ آیا۔‘

عائشہ نے بتایا کہ اب وہ اپنے شوہر کے پاس واپس جانا نہیں چاہتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا مستقبل تاریک ہے تاہم وہ خوش قسمتی سے زندہ ہے۔

متوسط طبقے میں اضافے، جدیدیت اور سیکولرازم کی کوششوں کے باوجود پاکستان میں خواتین سے نفرت کرنے والوں سے لڑنا بہت مشکل ہے۔

ایک ایسے سماج میں جہاں روایات کو قائم رکھنے کی کوشش جاری ہو وہاں شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں خواتین کو جنس پر مبنی تفریق اور تشدد کا سامنا ہے۔

اور جوں جوں مذہبی کٹرپسندی مضبوط ہوتی رہے گی خواتین کی آزادی پر حملے بڑھتے جائيں گے۔



لنک
 

منقب سید

محفلین
اس وقت پاکستان میں سب سے آسان کام خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانا یا ان کی کردار کشی کرنا ہے۔ نہ جانے اسلام میں ان دونوں کاموں کی اجازت کہاں دی گئی ہے جو ہم پاکستانی اس معاملے میں اپنے پکے مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔
(مفتیان وقت سے پیشگی معذرت کہ میرے یہ جملے ان کی سماعت و بصارت پر کوہ گراں جیسے ہوں گے )
 
اس وقت پاکستان میں سب سے آسان کام خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانا یا ان کی کردار کشی کرنا ہے۔ نہ جانے اسلام میں ان دونوں کاموں کی اجازت کہاں دی گئی ہے جو ہم پاکستانی اس معاملے میں اپنے پکے مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔
(مفتیان وقت سے پیشگی معذرت کہ میرے یہ جملے ان کی سماعت و بصارت پر کوہ گراں جیسے ہوں گے )
اسلام میں ان دوںوں چیزوں کی اجازت بالکل بھی نہیں ہے یہ تو ایک عام مسلماں کو بھی معلوم ہے پھر مفتیان وقت کو یہ جملے کیوں ناگوار گزیں گےبھلا؟
کیا انہوں نے اسں بات کی اجازت دے رکھی ہے جو اپ کے یہ جملے ان پر ناگوار گزیں گے۔ یہ مفتیان حضرات سے بغض ہے جو اس جملے میں ظاہر ہے -
 
جہاں تک میں نے دیکھا اور سمجھا ہے۔ پاکستان میں محبت کرنا گناہ نہیں اصل گناہ اپنی اور اپنے خاندان کی عزت کو رسوا کرنا ہے۔
درست فرمایا جناب۔ سزا جو دی جاتی ہے وہ غلط ہے۔ سزا بھی وہی دیتے ہیں جن سے تربیت میں کمی رہ جاتی ہے۔ اسلام نے کسی کو بھی سزا دینے کا حق نہیں دیا۔ ماں باپ بہن بھائیوں یا خاندان کو، سزا دینے کا حق صرف قضاء کو ہے عدالت یا حکومت کے قانوں نافذ کرنے والے ادارے ہی سزا دینے کے مجاز ہیں، ہم اورا ٓپ نہیں۔ ہم تو خود سزا کے حقدار ہیں اپنی قوم کی بے راہ روی میں حصہ دار ہونے کی وجہ سے
 
آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
اس وقت پاکستان میں سب سے آسان کام خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانا یا ان کی کردار کشی کرنا ہے۔ نہ جانے اسلام میں ان دونوں کاموں کی اجازت کہاں دی گئی ہے جو ہم پاکستانی اس معاملے میں اپنے پکے مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔
(مفتیان وقت سے پیشگی معذرت کہ میرے یہ جملے ان کی سماعت و بصارت پر کوہ گراں جیسے ہوں گے )[/QUOTE

ہر برے کام کو اسلام سے نتھی کرنے سے پہلے ہمیں سو دفعہ سوچنا چاہیئے کہ ہم کہاں کی کوڑی کہاں ملا رہے ہیں۔۔۔
 

x boy

محفلین
لگتا ہے یوروپین اور امریکن چائلڈ ابیوز کی نالج کی کمی ہے اگر اس کو پڑھلیں یا جان لیں تو ہم لوگ مسجدوں سے شکرگزاری میں باہر ہی نہ نکلیں۔
 

منقب سید

محفلین
ہر برے کام کو اسلام سے نتھی کرنے سے پہلے ہمیں سو دفعہ سوچنا چاہیئے کہ ہم کہاں کی کوڑی کہاں ملا رہے ہیں۔۔۔
محترمی یہ ہر اس پاکستانی کا موقف ہے جو خواتین پر تشدد کرتا ہے کہ ہم عورت کو اسلام حدود میں رکھنے کے لئے تشدد کرتے ہیں۔۔میرے جملے میں ان ہی لوگوں سے سوال کیا گیا ہے نہ کہ میں تشدد اور الزام تراشی کو اسلام سے نتھی کر رہا ہوں
 

عثمان

محفلین
جہاں تک میں نے دیکھا اور سمجھا ہے۔ پاکستان میں محبت کرنا گناہ نہیں اصل گناہ اپنی اور اپنے خاندان کی عزت کو رسوا کرنا ہے۔
پاکستان میں معاشرے کا ایک بڑا حصہ خواتین کے محبت کرنے کو اپنے اور اپنے خاندان کی رسوائی کے مترادف ہی سمجھتا ہے۔
 

منقب سید

محفلین
اسلام میں ان دوںوں چیزوں کی اجازت بالکل بھی نہیں ہے یہ تو ایک عام مسلماں کو بھی معلوم ہے پھر مفتیان وقت کو یہ جملے کیوں ناگوار گزیں گےبھلا؟
کیا انہوں نے اسں بات کی اجازت دے رکھی ہے جو اپ کے یہ جملے ان پر ناگوار گزیں گے۔ یہ مفتیان حضرات سے بغض ہے جو اس جملے میں ظاہر ہے -
مفتیان وقت سے بغض :)
مرزا صاحب لگتا ہے مجھے طنز کرنا نہیں آ سکا یا آپ کا خودساختہ مفتیوں سے واسطہ نہیں پڑا کبھی جو خود کو اسلام کا سب سے بڑا مفتی مانتے ہیں۔ خیر میری یہاں مراد ان آن لائن اورآف لائن مفتیوں سے ہے جو خواتین پر تشدد اور مبالغہ آمیز الزام تراشی کو بھی کھینچ تان کر اسلامی حدود میں شامل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
(مختلف مکاتب فکر کے چند افراد سے جو اپنے اپنے حلقہ احباب میں ایک مقام رکھتے ہیں اس ضمن میں تفصیلی بحث ہو چُکی ہے لیکن عورت پر تشدد اور الزام تراشی ان کے نزدیک بھی کسی نہ کسی طریقے سے جائز ہی ہے آج کے حالات میں۔ یہ طنز ان افراد پر کیا گیا تھا نہ کہ ان جید علماء پر جو اسلام کی اصل روح کو سمجھتے ہیں)
 
مفتیان وقت سے بغض :)
مرزا صاحب لگتا ہے مجھے طنز کرنا نہیں آ سکا یا آپ کا خودساختہ مفتیوں سے واسطہ نہیں پڑا کبھی جو خود کو اسلام کا سب سے بڑا مفتی مانتے ہیں۔ خیر میری یہاں مراد ان آن لائن اورآف لائن مفتیوں سے ہے جو خواتین پر تشدد اور مبالغہ آمیز الزام تراشی کو بھی کھینچ تان کر اسلامی حدود میں شامل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
(مختلف مکاتب فکر کے چند افراد سے جو اپنے اپنے حلقہ احباب میں ایک مقام رکھتے ہیں اس ضمن میں تفصیلی بحث ہو چُکی ہے لیکن عورت پر تشدد اور الزام تراشی ان کے نزدیک بھی کسی نہ کسی طریقے سے جائز ہی ہے آج کے حالات میں۔ یہ طنز ان افراد پر کیا گیا تھا نہ کہ ان جید علماء پر جو اسلام کی اصل روح کو سمجھتے ہیں)
محفل پر کچھ افراد اس چیز کے قائل ہیں کہ خود قرآن مجید یا احادیث مبارکہ سے مسائل اخذ کر لیے جائیں تو کوئی قباحت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں اگر کوئی باقاعدہ مذہب علم رکھنے والا فرد مسائل اخذ کر کے بتائیے تو وہ قابل مذمت ہے
اب عجب بات ہے کہ ان نیم ملاووں کی رائے اور فہم کا اعتبار کر لیا جائے لیکن ان قابل افراد کا اعتبار نہ کیا جائے بلکہ ان کی مذمت کی جائے
آپ ان کی فہم و فرست ملاحظہ کریں ایک کام ان کے لیے صحیح ہے اور اس کام کی اہلیت رکھنے والا کرے تو وہ غلط۔
جیسے آپ اور ہم کوشش کر کے قابل اور اعلی معیار کا معالج یعنی ڈاکٹر تلاش کرتے ہیں تو ہمہں مذہبی علم اور راہنمائی بھی کسی ایرے غیرے سے حاصل نہیں کرنے چاہے
اب کسی نیم حکیم کی وجہ سے تمام حکیم یا ڈاکٹر تو مردو یا قابل مذمت نہیں ہو جاتے نا۔ تو اسی طرز پر تما م مفتی یا عالم حضرات کیسے برے بن سکتے ہیں۔
 
محفل پر کچھ افراد اس چیز کے قائل ہیں کہ خود قرآن مجید یا احادیث مبارکہ سے مسائل اخذ کر لیے جائیں تو کوئی قباحت نہیں
جناب کچھ تو صرف قرآن پاک سے ہی اخذ کو کافی سمجھتے ہیں اور احادیث مبارکہ کے احکام کو ضروری نہیں سمجھتے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ایسا صرف اور صرف جزا و سزا کے نظام کے فعال نہ ہونے کی وجہ سے ہے کہ اگر خواتین کے خلاف ظلم میں قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو قرار واقعی سزا ملتی رہے تو ایسے واقعات میں خاطر خواہ کمی ہو جائے۔

بہر کیف یہ بی بی سی والوں کا وطیرہ رہا ہے کہ معاملات کو اپنی مرضی کا رنگ دے کر پاکستان اور اسلام کو معطون کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
 
بہر کیف یہ بی بی سی والوں کا وطیرہ رہا ہے کہ معاملات کو اپنی مرضی کا رنگ دے کر پاکستان اور اسلام کو معطون کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
جی بالکل اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ برطانوی کلچر کو فروغ دینا بلکہ اسے دوسرے ملکوں پر مسلط کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔
 

عثمان

محفلین
بی بی سی اردو واحد معروف اردو ذریعہ ابلاغ ہے جو معاملے کو سیکولر نقطہ نظر سے پیش کرتا ہے۔
مذہبی جنونیوں اور ان کے ہمنواؤں کو گرمی تو لگے گی۔
 

زرقا مفتی

محفلین
بی بی سی والے پراپیگنڈا کرنے میں ماہر ہیں
پاکستان کے شہروں میں پسند کی شادی عام ہے۔ یونیورسٹی میں اکٹھے پڑھنے والے یا اکٹھے ملازمت کرنے والے لڑکے ،لڑکیاں پسند کی شادیاں کر رہے ہیں ۔99 فیصدشہری ماں باپ ایسی شادیوں پر اعتراض نہیں کرتے ۔اکا دکا کیس بگڑتے ہیں۔ تو ایسا اکثر مشرقی ممالک میں ہوتا ہے
 
پاکستان کے شہروں میں پسند کی شادی عام ہے۔
ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:daydreaming:
یونیورسٹی میں اکٹھے پڑھنے والے یا اکٹھے ملازمت کرنے والے لڑکے ،لڑکیاں پسند کی شادیاں کر رہے ہیں
شہروں میں رہنے والے کتنے فیصد لڑکے اور لڑکیا ں یونیورسٹی سطح کی تعلیم حاصل کر پاتے ہیں ؟ لاہور کی آبادی 1 کروڑ تک پہنچنے ہی والی ہے، صرف اس شہر میں ہر سال یونیورسٹی سطح کی تعلیم تک پہنچنے والوں کی تعداد 20 ہزار سے زائد نہیں ہوگی۔ جو کہ کل آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتی۔ ایسے میں ۔۔۔
99 فیصدشہری ماں باپ ایسی شادیوں پر اعتراض نہیں کرتے
:thinking::thinking::thinking:
 
پسند کی شادی کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان قرآن حکیم ۔

حلال اور پسند آنے والی عورت سے شادی کے بارے میں مردوں کو کیا حکم دیتا ہے؟
شادی کرو ان عورتوں سے جو تمہیں پسند ہوں
4:3 وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلاَّ تَعُولُواْ
اور اگر تم یتیم لڑکیوں سے بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہوتو نکاح کرلو ان عورتوں سے جو تمہیں پسند آئیں، ان میں سے دو دو تین تین چار چار تک، پر اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو جو لونڈی تمہارے ملک میں ہو وہی سہی یہ طریقہ بے انصافی سے بچنے کے لیے زیادہ قریب ہے

اللہ تعالی کا فرمان ، قرآن حکیم ۔ حلال اور پسند آنے والے مرد سے شادی کے بارے میں عورتوں کے لئے کیا حکم دیتا ہے؟

عورتوں کو ان کے جوڑے سے شادی کرنے سے نا روکو
2:232 وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ مِنكُمْ يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ
اورجب تم عورتوں کو طلاق دے دو پس جب وہ اپنی عدت تمام کر چکیں تو اب انہیں اپنے ازواج (انکی اپنی پسند کے جوڑے) سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ آپس میں دستور کے مطابق راضی ہو جائیں تم میں سے یہ نصیحت اسے کی جاتی ہے جو الله اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے یہ تمہارے لیے بڑی پاکیزی اوربڑی صفائی کی بات ہے اور الله ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے

عورتوں کے زبردستی وارث نا بن بیٹھو
4:19 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَاءَ كَرْهًا وَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُواْ بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلاَّ أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا
اے ایمان والو! تمہارے لئے یہ حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ، اور انہیں اس غرض سے نہ روک رکھو کہ جو مال تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ (واپس) لے جاؤ سوائے اس کے کہ وہ کھلی بدکاری کی مرتکب ہوں، اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو، پھر اگر تم انہیں نا پسند کرتے ہو تو ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی رکھ دے

جو لوگ سنگل ہوں ان کے نکاح کردیا کرو
24:32 وَأَنكِحُوا الْأَيَامَى مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں، اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے اُن کو غنی کر دے گا، اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے۔

والسلام
 
آخری تدوین:

باباجی

محفلین
زرقا مفتی صاحبہ کی بات سے میں اتفاق کرتا ہوں کہ شہروں میں پسند کی شادی میں کم ہی کوئی رکاوٹ ڈالتا ہے اور غیرت کے نام پر قتل اور گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والے جوڑے کا قتل زیادہ دیہاتی علاقے کے ان پڑھ لوگ ہی کرتے ہیں ۔۔ میں ایک ایسے دفتر میں کام کرچکا ہوں جہاں کا باس بہت بڑا زانی ہے اور ایگزیکٹیو لیول پر کام کرنے والی خواتین اس کی داشتائیں ہیں جو کہ شادی شدہ ہیں (آنکھوں دیکھی بتا رہا ہوں الزام نہیں لگا رہا) اور اسی آفس میں دو جوڑے ایسے بھی ہیں جنہوں نے پسند کی شادی کی ۔۔ اب اس بات کو کیسے جسٹیفائی کریں گے کے باس کا شادی شدہ خواتین ایگزکٹیوز سے زنا کرنا یا ان کا زنا کروانا جائز ہے ؟؟؟
دیہات میں رہنے والے حضرات جانتے ہوں گے کہ دیہات میں لڑکی کا گھر سے بھاگ جانا یا بھگایا جانا اکثر ہوتا رہتا ہے کہ فلاں دا منڈا فلاں دی کڑی نوں کڈ کے لے گیا یا فیر فلاں دی کڑی فلاں منڈے نال اُدل گئی ۔۔ میں اکثر یہ سب دیکھتا ہوں اور میرے تجربے میں یہ آیاہے کہ اگر شادی کرلیں تو گھر والے ان سے قطع تعلق کرلیتے ہیں یا پھر باپ بھائی رشتہ داروں کی باتوں میں آکر اور بے غیرتی کا طعنہ سن کر انہیں قتل کردیتے ہیں ، وہیں اکثر طاقتور اور عیاش زمیندار کسی لڑکی طرف سے زنا کی پیشکش ٹھکرائے جانے کے بعد اپنی طاقت اور بغض کے اظہار کے طور پر غیرت کے نام پر قتل کروادیتے ہیں جس کا فتوٰی علاقے کی مسجد کا اغلام باز مولوی دیتا ہے ۔۔
سچ کڑوا ہوتا ہے
 
Top