’پاکستان میں محبت کرنا ایک بڑا گناہ ہے‘

زرقا مفتی

محفلین
ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:daydreaming:

شہروں میں رہنے والے کتنے فیصد لڑکے اور لڑکیا ں یونیورسٹی سطح کی تعلیم حاصل کر پاتے ہیں ؟ لاہور کی آبادی 1 کروڑ تک پہنچنے ہی والی ہے، صرف اس شہر میں ہر سال یونیورسٹی سطح کی تعلیم تک پہنچنے والوں کی تعداد 20 ہزار سے زائد نہیں ہوگی۔ جو کہ کل آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتی۔ ایسے میں ۔۔۔

:thinking::thinking::thinking:
ایک کروڑ کی ساری آبادی شادی کے قابل ہے کیا؟
آپ کا اندازہ غلط ہے ۔ لاہورکی صرف سرکاری یونیورسٹیوں میں آپ کی بتائی ہوئی تعداد سے چار گنا طالبعلم ہیں۔ نجی ادراے مش رومز کی طرح پورے لاہور میں پھیلے ہیں۔ موبائل کی سہولت تو کام والی کو بھی دستیاب ہے ۔ موبائل ،انٹرنیٹ اور کیبل ٹی وی پسند کی شادیوں کی شرح اور بے راہ روی بڑھانے میں مددگار ہیں۔ میں اپنے اردگرد 90 فیصد پسند کی شادیاں دیکھ رہی ہوں ۔ اور یہ بالکل جائز ہیں۔
پاکستانی معاشرے کی غلط تصویر کشی کرنا بی بی سی اور سی این این جیسے اداروں کا وطیرہ ہے
پاکستان میں محبت کرنا بڑا گناہ نہیں ہے البتہ ناجائز تعلقات بنانا ایک بڑا گناہ ہے اور ایسا تا قیامت رہنا چاہیئے

صرف پنجاب یونی ورسٹی میں 30 ہزار طالبعلم ہیں
Approximately 30,000[1] enrolled students are currently attending the university, the PU has total of 13 faculties within which there are 63 academic departments, research centers, and institutes.

یو ای ٹی میں 10 ہزار طالب علم ہیں
http://www.uet.edu.pk/
 
آخری تدوین:
ایک کروڑ کی ساری آبادی شادی کے قابل ہے کیا؟
ا یک کروڑ کا پانچواں حصہ بھی شادی کے قابل ہو تو بھی یونیورسٹی طالبعلموں کی تعداد ایک فیصد سے زائد نہیں۔
میں اپنے اردگرد 90 فیصد پسند کی شادیاں دیکھ رہی ہوں ۔
آپ کے ذاتی مشاہدات کو رد نہیں جا سکتا کہ شاید آپ کسی ایسے علاقے میں رہتی ہوں، جہاں 90 فیصد تک پسند کی شادیاں عام سی بات ہو۔ اور ایسا یقیناً بہت زیادہ پوش علاقوں میں ممکن ہے۔
پاکستانی معاشرے کی غلط تصویر کشی کرنا بی بی سی اور سی این این جیسے اداروں کا وطیرہ ہے
بہت حد تک درست، آپ کی اس بات سے متفق ہوں۔
صرف پنجاب یونی ورسٹی میں 30 ہزار طالبعلم ہیں
یو ای ٹی میں 10 ہزار طالب علم ہیں
میں نے بہت محتاط اندازہ لگایا تھا، کہ پنجاب یونیورسٹی اور یو ای ٹی میں پڑھنے والے طالبعلموں کی ایک بڑی تعداد 'صرف' لاہور کی نہیں بلکہ پورے پنجاب کے دیگر اضلاع سے بھی ہے
 

زرقا مفتی

محفلین
ا یک کروڑ کا پانچواں حصہ بھی شادی کے قابل ہو تو بھی یونیورسٹی طالبعلموں کی تعداد ایک فیصد سے زائد نہیں۔

آپ کے ذاتی مشاہدات کو رد نہیں جا سکتا کہ شاید آپ کسی ایسے علاقے میں رہتی ہوں، جہاں 90 فیصد تک پسند کی شادیاں عام سی بات ہو۔ اور ایسا یقیناً بہت زیادہ پوش علاقوں میں ممکن ہے۔

بہت حد تک درست، آپ کی اس بات سے متفق ہوں۔


میں نے بہت محتاط اندازہ لگایا تھا، کہ پنجاب یونیورسٹی اور یو ای ٹی میں پڑھنے والے طالبعلموں کی ایک بڑی تعداد 'صرف' لاہور کی نہیں بلکہ پورے پنجاب کے دیگر اضلاع سے بھی ہے

آپ کا مراسلہ اب میرے موقف کی تائید کر رہا ہے

پاکستان کے شہروں میں پسند کی شادی عام ہے۔
یعنی یہ کوئی بڑا گناہ نہیں
یونیورسٹی میں اکٹھے پڑھنے والے یا اکٹھے ملازمت کرنے والے لڑکے ،لڑکیاں پسند کی شادیاں کر رہے ہیں ۔
وہ آبادی کا ایک سے پانچ فیصد ہوسکتے ہیں مگر شادی کرنے والے جوڑوں کا 40 -20 فیصد بھی ہو سکتے ہیں۔

99 فیصدشہری ماں باپ ایسی شادیوں پر اعتراض نہیں کرتے ۔

اکا دکا کیس بگڑتے ہیں۔ تو ایسا اکثر مشرقی ممالک میں ہوتا ہے

تو آپ پاکستان پر ایک لیبل نہیں لگا سکتے کہ یہاں محبت ایک بڑا گناہ ہے
 
آپ کا مراسلہ اب میرے موقف کی تائید کر رہا ہے
جی نہیں۔ میرا مراسلہ یہ تائید کر رہا ہے کہ معاشرے کی جس کمیونٹی کا حصہ آپ ہیں، وہاں پسند کی شادی عام ہے:) پورے پاکستان میں نہیں:)
تو آپ پاکستان پر ایک لیبل نہیں لگا سکتے کہ یہاں محبت ایک بڑا گناہ ہے
محبت، ایک بڑا گناہ ، لیبل وغیرہ وغیرہ سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔ گناہ، ثواب،جائز ہے یا ناجائز، بندہ جانے یا اس کا رب جانے۔
مجھے صرف ان اعداد و شمار سے تحٍفظات تھے جنھیں آپ اپنے موقف کی درستگی کے لیے مراسلے کا حصہ بنا رہی تھیں۔
:):):)
 
اپنی پسند کی شادی اور ماں باپ کی پسند کی شادی میں صرف ایک فرق ہے۔ وہ فرق ہے کہ لڑکی والوں سے کتنا پیسہ لیا جائے گا؟ یہ رسم ہندوانہ ہے اور مسلمانوں میں جہیز کے نام پر جاری و ساری ہے۔

شادی اپنی پسند کی ہو یا ماں باپ کی پسند سے ہو۔ دونوں صورتوں میں لڑکے اور لڑکی کو ایک دوسرے کو دکھا دیا جاتا ہے اور کہیں کہیں بات بھی کرنے دی جاتی ہے ۔۔۔ اس کے بعد لے دے کر بس یہ ہی فرق رہ جاتا ہے کہ لڑکی والے "کتنا " دیں گے ؟؟؟ اگر لڑکوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ ماں باپ کی پسند کی شادی کریں تو یہ صاف صاف اللہ تعالی کے فرمان سے انکار ہے اور کفر ہے ۔ ریفرنس کی آیات پہلے فراہم کرچکا ہوں۔ شادی اپنی پسند کی ہو اس میں ماں باپ اور معاشرے کی رضامندی کی حیثیت ثانوی ہے۔ لڑکوں کو چاہیے کہ وہ مہر ادا کرنے کے فرمان الہی پر عمل کرتے ہوئے اپنی زوجہ محترمہ کو مہر ادا کریں اور کسی بھی قسم کا جہیز مہر کے نام پر لڑکی سے وصول کرنے سے صاف انکار کردیں۔

والسلام۔
 
؟؟؟ اگر لڑکوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ ماں باپ کی پسند کی شادی کریں تو یہ صاف صاف اللہ تعالی کے فرمان سے انکار ہے اور کفر ہے ۔ ریفرنس کی آیات پہلے فراہم کرچکا ہوں۔ شادی اپنی پسند کی ہو اس میں ماں باپ اور معاشرے کی رضامندی کی حیثیت ثانوی ہے۔

والسلام۔
مفتی صاحب اگر لڑکا اپنے والدیں کے احترام یا ان کی رائے کا احترام کرے تو پھر بھی کفر کا فتوٰی ہے کیا؟
اور مندرجہ بالا آیات کے تناظر میں آپ کے کفر کے فتوی کا کیا مقام ہے اس بارے میں بھی اپنی ذاتی رائے سے اگاہ کریں اور اگر ترجمے میں کچھ اغلاط ہیں تو اپنی مرضی کا ترجمہ بھی عنایت فرمائیں

اور آپ کے پروردگار کا فرمان ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ اگر ان دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جا ئے۔ تو ان کو اُف تک نہ کہو۔ اور نہ ان کو جھڑ کو۔ بلکہ ان سے نر می سے بات کرو۔ اور اپنے بازوں کو نرمی اور عاجزی سے ان کے سامنے پھیلا ؤ۔ اور ان کے لئے یوں دعا رحمت کرو۔ اے میر ے پروردگار (تو ان ) پر اس طرح رحم فرما جس طرح ان لوگوں نے بچپن میں مجھ پر (رحمت اور شفقت) عطا کی (سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر ۴۲، ۳۲)

نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ (سورہ رحمٰن آیت ٦٠)۔۔۔

: میرا اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو (تم سب کو) میری طرف لوٹ کر آ نا ہے۔ اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میر ے ساتھ اس کو شریک ٹھہرا جس کا تجھے کچھ علم نہیں تو (اس مطالبہ معصیت میں) ان کی اطاعت ہر گز نہ کرو۔ لیکن دنیا میں ان سے حسن سلوک کرتے رہو، (سورۃ لقمان آیت ۴۱، ۵۱)
 

ظفری

لائبریرین
مفتی صاحب اگر لڑکا اپنے والدیں کے احترام یا ان کی رائے کا احترام کرے تو پھر بھی کفر کا فتوٰی ہے کیا؟
اور مندرجہ بالا آیات کے تناظر میں آپ کے کفر کے فتوی کا کیا مقام ہے اس بارے میں بھی اپنی ذاتی رائے سے اگاہ کریں اور اگر ترجمے میں کچھ اغلاط ہیں تو اپنی مرضی کا ترجمہ بھی عنایت فرمائیں

اور آپ کے پروردگار کا فرمان ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ اگر ان دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جا ئے۔ تو ان کو اُف تک نہ کہو۔ اور نہ ان کو جھڑ کو۔ بلکہ ان سے نر می سے بات کرو۔ اور اپنے بازوں کو نرمی اور عاجزی سے ان کے سامنے پھیلا ؤ۔ اور ان کے لئے یوں دعا رحمت کرو۔ اے میر ے پروردگار (تو ان ) پر اس طرح رحم فرما جس طرح ان لوگوں نے بچپن میں مجھ پر (رحمت اور شفقت) عطا کی (سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر ۴۲، ۳۲)

نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ (سورہ رحمٰن آیت ٦٠)۔۔۔

: میرا اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو (تم سب کو) میری طرف لوٹ کر آ نا ہے۔ اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میر ے ساتھ اس کو شریک ٹھہرا جس کا تجھے کچھ علم نہیں تو (اس مطالبہ معصیت میں) ان کی اطاعت ہر گز نہ کرو۔ لیکن دنیا میں ان سے حسن سلوک کرتے رہو، (سورۃ لقمان آیت ۴۱، ۵۱)

ان دونوں آیتوں کا پسند یا ناپسند کی شادی سے کیا تعلق بنتا ہے ۔ یہ آیاتیں ایک بلکل مختلف تناظر میں اپنا مدعا بیان کررہیں ہیں ۔ معمولی غور سے بھی ترجمے کو دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ آجاتی ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
پاکستان میں عورت کی پسند( محبت ) ایک بڑا گناہ ہے ۔ مگر یہی کام کسی خاندان کا مرد انجام دے تو مردانگی اور داد و تحسین کے قصےکبھی ختم نہ ہوں ۔
 

زرقا مفتی

محفلین
جی نہیں۔ میرا مراسلہ یہ تائید کر رہا ہے کہ معاشرے کی جس کمیونٹی کا حصہ آپ ہیں، وہاں پسند کی شادی عام ہے:) پورے پاکستان میں نہیں:)

محبت، ایک بڑا گناہ ، لیبل وغیرہ وغیرہ سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔ گناہ، ثواب،جائز ہے یا ناجائز، بندہ جانے یا اس کا رب جانے۔
مجھے صرف ان اعداد و شمار سے تحٍفظات تھے جنھیں آپ اپنے موقف کی درستگی کے لیے مراسلے کا حصہ بنا رہی تھیں۔
:):):)

میں حیران ہوں کہ لوگ صرف مخالفت کے لئے مراسلہ پڑھے بغیر جواب لکھ دیتے ہیں
جناب زحمت تو ہو گی مگر ذرا میرے پہلے مراسلے کی طرف رجوع کیجئے

بی بی سی والے پراپیگنڈا کرنے میں ماہر ہیں
پاکستان کے شہروں میں پسند کی شادی عام ہے۔ یونیورسٹی میں اکٹھے پڑھنے والے یا اکٹھے ملازمت کرنے والے لڑکے ،لڑکیاں پسند کی شادیاں کر رہے ہیں ۔99 فیصدشہری ماں باپ ایسی شادیوں پر اعتراض نہیں کرتے ۔اکا دکا کیس بگڑتے ہیں۔ تو ایسا اکثر مشرقی ممالک میں ہوتا ہے
 
مضحکہ خیز کی ریٹنگ سے ہی اندازہ ہوگیا کہ اس موضوع کے بارے میں کون کتنا سنجیدہ ہے ۔ :)
جناب قبلہ یہ ریٹنگ اس لیے بھی تھی کہ آپ اپنے جواب پر غور کریں اور سمجھ جائیں، میں نے صرف فاروق صاحب کے مراسلے کا جواب دیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ
اگر لڑکوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ ماں باپ کی پسند کی شادی کریں تو یہ صاف صاف اللہ تعالی کے فرمان سے انکار ہے اور کفر ہے
بہر حال ایک محاورہ یاد آ رہا ہے کہ خواجے کا گواہ ڈڈؤ
 
میں حیران ہوں کہ لوگ صرف مخالفت کے لئے مراسلہ پڑھے بغیر جواب لکھ دیتے ہیں
جناب زحمت تو ہو گی مگر ذرا میرے پہلے مراسلے کی طرف رجوع کیجئے
میں بلکل بھی حیران نہیں ہوں
مخالفت کیسی ؟ آپ نے لکھا پاکستان کے شہروں میں پسند کی شادی عام ہے، پھر آپ نے یونیورسٹی طالبعلموں اور ملازمت پیشہ لڑکوں لڑکیوں کا حوالہ دیا ۔۔جن کا تناسب کسی ایک شہر کی آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتا۔
پتہ نہیں آپ پاکستان کے کن شہروں کا ذکر کر رہی ہیں، جہاں پسند کی شادی عام ہے ؟ میں بھی پاکستان کے ہی ایک جدید شہرمیں رہتا آیا ہوں، اپنے ارد گرد گلی محلوں رشتہ داروں میں اب تک لگ بھگ زیادہ نہیں تو سو، ڈیڈھ سو شادیاں بھی اٹینڈ کر چکا ہوں، اورعموماً 90 فیصد سے زیادہ والدین کی پسند پر ہی شادی ہوتی دیکھی ہے۔ ایسے میں آپ کے دعوی 'پاکستان کے شہروں میں پسند کی شادی عام ہے' کیونکر تسلیم کیا جائے؟ اگر آپ کی مراد ایلیٹ کلاس المعروف برگر فیملیز سے ہے تو یقیناً ان میں پسند کی شادی عام ہے اور اس میں میری رائے آپ کی رائے سے بلکل مختلف نہیں۔
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
جناب قبلہ یہ ریٹنگ اس لیے بھی تھی کہ آپ اپنے جواب پر غور کریں اور سمجھ جائیں، میں نے صرف فاروق صاحب کے مراسلے کا جواب دیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ
بہر حال ایک محاورہ یاد آ رہا ہے کہ خواجے کا گواہ ڈڈؤ
بزرگوار ۔۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ نے کس کے اقتباس کے جواب میں یہ آیتیں کوٹ کیں ہیں ۔ اسی پر میں نے کہا ہے کہ ان آیتوں کا شادی سے کیا تعلق بنتا ہے ۔ فاروق صاحب نے صحیح بات اور بلکل صحیح تناظر میں کی ہے ۔ وہ کیا بات کہہ رہے ہیں اور جواب میں آپ کون سی آیتیں کوٹ کر رہے ہیں ۔ دونوں متضاد ہیں ۔ صرف محاورے یاد رکھنے سے باتیں سمجھ میں نہیں آتیں ۔ اس کے لیئے کچھ اور چیزوں کو بھی یاد رکھنا پڑتا ہے ۔
 
والدین سے بھلائی کس طرح کی جاتی ہے کچھ سمجھائیے کہ والد کی مرضی اور پسند کی بیوی لاکر ؟؟ بیوی کس کے لئے لائی جارہی ہے اپنے لئے یا والد صاحب کے لئے ؟ ہمیں قرآن حکیم میں باپ کی مرضی اور پسند سے اپنی بیوی لانے کے لئے کوئی بھی آیت نہیں ملتی ہے البتہ ہندو معاشرے میں یہ رواج رہا ہے کہ باپ چونکہ اپنے بیٹے شادی کے بعد کافی عرصے تک سب کچھ فراہم کرتا ہے اس لئے لڑکی بھی باپ کی پسند سے آتی ہے ، جو جواب میں کافی خدمت کرتی رہتی ہے ۔ مسلم معاشرے میں ماں باپ کے ساتھ نرم سلوک اور بھلائی کا شادی کے لئے بیوی کی پسند کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے اور نا ہی رہا ہے ۔۔۔ آہ کے مفروضات درست نہیں ۔۔ آپ کی مخالفت برائے مخالفت پر صرف محظوظ ہو سکتا ہوِں ۔۔۔

میرا مراسلہ بار بار پڑھئے اور دیکھئے کہ میں مجبور کئے جانے کے بارے میں لکھ رہا ہوں کہ شادی کے لئے مجبور کیا جانا اور اس کو مان لینا کسی بھی قسم کی بھلالی نیہں بلکہ اللہ تعالی کے فرمان کو نا ماننا ہے۔ اللہ کے فرمان سے انکار کرنا ہی تکفیر کرنا یا کفر کرنا کہلاتا ہے۔


آپ نے مجھے مفتی صاحب لکھا ہے۔ فتوی دینا صرف اور صرف اللہ تعالی کا حق ہے۔ اللہ تعالی کا فتوی قرآن حکیم کی صورت میں موجود ہے ۔ آپ کو قرآن حکیم کی آیات پیش کی گئی تھیں جن کو آپ غلط فہمی سے میری آیات سمجھ رہے ہیں ۔ توبہ استغفار۔
 
آخری تدوین:
میرا مراسلہ بار بار پڑھئے اور دیکھئے کہ میں مجبور کئے جانے کے بارے میں لکھ رہا ہوں کہ شادی کے لئے مجبور کیا جانا اور اس کو مان لینا کسی بھی قسم کی بھلالی نیہں بلکہ اللہ تعالی کے فرمان کو نا ماننا ہے۔ اللہ کے فرمان سے انکار کرنا ہی تکفیر کرنا یا کفر کرنا کہلاتا ہے۔
پہلے کفر کی مشینیں کم تھیں ایک اور لگ گئی۔
 
گویا کہ جن لوگوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ماں باپ کے حکم کی تعمیل میں شادی کرلی۔۔۔۔وہ کافر ہوگئے۔۔۔ہیں جی؟

الفاظ سے کھیلنے کے بجائے ، اللہ تعالی کے فرمان قرآن کا مطالعہ فرمائیں۔ کیوں؟ اس لئے

39:69وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور کتاب رکھ دی جاوے گی اور نبی اور گواہ لائے جاویں گے اور ان میں انصاف سے فیصلہ کیا جاوے گا اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا

ُ اس دن اپنے رب سے بحث فرمائیے گا کہ "گویا ، آپ نے یہ فرمایا تھا ؟" اس دن گواہوں کو لایا جائے گا اور انصاف سے اس کتاب کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا کہ کس نے رب کے فرمان کی تکفیر کی ؟ اور پھر کسی پر بھی ظلم نہیں ہوگا ، اپنے اپنے اعمال کے مطابق جزا اور سزا ملے گی ۔۔۔۔ تو بہتر یہ ہے کہ اللہ کی کتاب کا مطالعہ کر لیا جائے ؟ کیوں؟
 
الفاظ سے کھیلنے کے بجائے ، اللہ تعالی کے فرمان قرآن کا مطالعہ فرمائیں۔ کیوں؟ اس لئے

39:69وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور کتاب رکھ دی جاوے گی اور نبی اور گواہ لائے جاویں گے اور ان میں انصاف سے فیصلہ کیا جاوے گا اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا

ُ اس دن اپنے رب سے بحث فرمائیے گا کہ "گویا ، آپ نے یہ فرمایا تھا ؟" اس دن گواہوں کو لایا جائے گا اور انصاف سے اس کتاب کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا کہ کس نے رب کے فرمان کی تکفیر کی ؟ اور پھر کسی پر بھی ظلم نہیں ہوگا ، اپنے اپنے اعمال کے مطابق جزا اور سزا ملے گی ۔۔۔۔ تو بہتر یہ ہے کہ اللہ کی کتاب کا مطالعہ کر لیا جائے ؟ کیوں؟
حضور میں نے ایک سوال پوچھنے کی جسارت کی تھی آپ تو طعنے دینے لگے کہ جاؤ قیامت کے دن اللہ سے پوچھنا۔۔۔گویا کہ مستند ہے آپکا فرمایا ہوا :)۔۔:mrgreen:
 
Top